چند سوالات

مصنف : ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : جنوری 2025

فكر و نظر

چند سوالات

ڈاكٹرعاصم اللہ بخش

آگے بڑھنے سے پہلے چند سوالات کا ایماندارانہ جواب ہم پر لازم ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی راستہ، خواہ وہ اعراض کا ہو یا اغماض کا ۔ ۔ ۔ ہماری مشکلات میں مزید اضافہ کا باعث ہی ہو گا۔

1۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ سے ہماری کیا مراد ہے۔ کیا وہ معاشرتی احیاء کی تحریک جس کی بنیاد خدائے واحد کی عبودیت اور اخلاقی اقدار تھی یا اس سیاسی بندوبست کی تجدید جس کا اختتام بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ہؤا۔ یہ اس لیے اہم ہے کہ دونوں کے تقاضے الگ ہیں۔ اول الذکر کا آغاز ایک صادق اور امین نے کیا اور معاشرے میں رواداری اور اخلاقیات کی اعلی ترین روایات کو جاری کیا۔ جبکہ آخر الذکر مکمل طور سے حربی طاقت اور داؤ پیچ کا کھیل ہے اور اس کا اصول بالکل سادہ ہے، جس کے پاس وسائل ہونگے وہ دوسرے کو چت کر دے گا۔ یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ خدا کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق کونسا تھا۔

2۔ ہمارے علمائے کرام کے نزدیک (الا ماشاءاللہ) شریعت کے نفاذ کا مطلب محض شرعی سزاؤں کا حوالہ ہی کیوں ہے۔ اخلاق، رواداری، امانت، احسان اور دیگر اخلاقی محاسن کا قران میں تذکرہ محض زیب داستان کے لیے ہے یا اسکا کوئی عملی پہلو بھی ہے ؟ اگر ہے تو وہ اس شرعی نظام میں کہاں اور کیسے شامل ہونگے۔

3۔ یہ مسالک کیا چیز ہیں ؟ دین میں ان کا کیا مقام ہے ؟ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جس دین نے سالہا سال سے آپس کی لڑائیوں میں مشغول لوگوں کو بھائی بھائی بنا دیا ان مسالک نے صدیوں سے بھائی چلے آ رہی امت کا اتحاد پارہ پارہ کر دیا۔ اگر نبی اور صحابہ کرام محض مسلمان رہ کر بھی خدا کے محبوب اور کامیاب رہ سکتے تھے تو آج کے مسلمانوں پہ یہ دروازہ بند کیوں ہؤا اور کس کے حکم پر۔ آج نہ تو نبی کریم موجود ہیں اور نہ اللّہ تعالی نے کسی سے کلام کیا ہے۔

4۔ اسلام میں بہتر اور خالص ایمان والے کے لیے کیا طرز عمل تجویز کیا گیا ہے۔ یہ کہ 'ناقص' ایمان والوں کی گردنیں مارنا شروع کر دی جائیں یا پھر خدا تعالی کی مزدوری میں جُت جایا جائے اور امر بالمعروف اور موعظۃ الحسنۃ کے ذریعہ اپنے سے کمتر کی مدد کی جائے کہ وہ بھی درست راہ پہ آ جائے۔ کیا اللّہ تعالی نے بہترین امت کہتے ہوئے مسلمانوں کے ذمہ یہ کام لگایا ہے یا انہیں ایمان اور امتِ وسطیٰ کے تفاخر میں بد مست ہو جانے کا پرمٹ عنایت فرمایا ہے ؟

5۔ ہمارے علماء نے اپنی بنیادی ذمہ داری یعنی تزکیہ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے اعراض کیا اور لوگوں کو دین کی سیاسی اور مسلکی تاویلات میں الجھایا جس کا نتیجہ آج کشت و خون کی صورت ہمارے سامنے ہے۔ کیا علماء کرام اپنی اس کوتاہی کا کفارہ ادا کرنے کو تیار ہیں ؟ خواہ اس کے لیے انہیں جان کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے ؟ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو کیا وہ سیکولرازم کا استقبال کرنے کے لیے تیار ہیں کیونکہ انکے موجودہ طرز عمل کا واحد منطقی انجام یہی ہے۔