دين و دانش
غیر مسلموں کو سلام کرنے سے متعلق صحابہ وتابعین کے بعض آثار
عمار خان ناصر
علقمہ کہتے ہیں کہ میں عبد اللہ بن مسعودؓ کے ساتھ مدائن سے نکلا تو راستے میں ایک مجوسی ہمارے ساتھ ہو لیا۔ راستے میں ایک جگہ ابن مسعودؓ کو رکنا پڑا۔ پھر وہ ہمارے ساتھ آ ملے تو وہ مجوسی اس اثنا میں دوسرے راستے پر جا چکا تھا۔ ابن مسعودؓ نے اس کے پیچھے (آدمی بھیج کر) اس کو سلام بھجوایا اور کہا کہ رفاقت کا حق ہوتا ہے۔
محمد بن زیاد کہتے ہیں کہ میں ابو امامہ باہلیؓ کا ہاتھ پکڑ کر مسجد سے نکلا۔ گھر واپس جاتے ہوئے وہ راستے میں کسی بھی چھوٹے یا بڑے یا مسلمان یا نصرانی کو ملتے تو اس کو سلام کرتے۔ جب وہ گھر کے دروازے پر پہنچے تو کہا کہ بھتیجے، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سلام کو عام کرنے کا حکم دیا ہے۔
سنان بن حبیب کہتے ہیں کہ میں عبد الرحمن بن الاسود کے ہمراہ روانہ ہوا تو وہ راستے میں ہر یہودی اور نصرانی کو سلام کرتے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ ان مشرکوں کو سلام کر رہے ہیں؟ انھوں نے کہا، سلام کرنا اسلام کی علامت ہے اور میں نے ان کو یہ بتانا پسند کیا کہ میں مسلمان ہوں۔
عبد الرحمن کہتے ہیں کہ شعبی نے ایک نصرانی کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا۔ ان پر اعتراض کیا گیا تو انھوں نے کہا، کیا یہ اللہ کی رحمت میں نہیں ہے؟ اگر نہ ہوتا تو ہلاک ہو چکا ہوتا۔
حمید بن عقبہ کہتے ہیں کہ اسد بن وداعہ گھر سے نکلتے تو راستے میں جو بھی یہودی یا نصرانی ملتا، اس کو سلام کرتے۔ ان پر اعتراض کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’لوگوں کو اچھی بات کہو’’ تو اس میں سلام بھی شامل ہے۔
یہی بات عطاء خراسانی سے بھی منقول ہے۔
(یہ ذہن میں رہے کہ بعض دیگر صحابہ مثلاً ابن عمرؓ کا عمل اس کے برعکس تھا اور وہ غیر مسلموں کو سلام کی ابتدا نہیں کرتے تھے)۔