سماجی خرابیوں کی اصل وجہ

مصنف : ڈاکٹر طفیل ہاشمی

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : نومبر 2024

فكر و نظر

سماجی خرابیوں کی اصل وجہ

طفيل ہاشمی

میں نے زندگی کی طویل بے خواب راتوں میں اس پر بہت غور کیا کہ ہمارے سماج میں بے حساب برائیوں کا سبب کیا ہے اور انہیں کیسے دور کیا جا سکتا ہے. میرے لئے ہمیشہ سے سب سے اہم رہنما کتاب اللہ اور سیرت النبی رہی. میں نے دیکھا کہ اگرچہ قرآن کے اولین مخاطبین اللہ کے بارے میں کچھ انحرافی تصورات رکھتے تھے لیکن وہ اللہ کو خالق و مالک، سمیع و بصیر اور قادر و قیوم مانتے تھے. اگرچہ ہماری طرح چھوٹے چھوٹے خداؤں کی خدائی کے بھی قائل تھے لیکن بڑا اور حقیقی خدا اسی ایک کو مانتے تھے جو اس کائنات کا بلا شرکت غیرے مالک و خالق ہےالبتہ جو بات ان کے لیے ہمہ وجوہ ناقابل قبول تھی وہ قرآن حکیم کا عقیدہ آخرت اور اخروی جواب دہی کا تصور تھا. ان کے اعتراضات کا سب سے بڑا ہدف موت کے بعد کی زندگی تھی. کیونکہ یہی وہ واحد عقیدہ ہے جو انسان کو حدود کا پابند کرتا ہے اور اس کی بے لگام آزادیوں پر قدغن عائد کرتا ہے. ان کے سماج کی تمام خرابیوں کا باعث ان کا یہی عقیدہ تھا کہ زندگی بس یہی دنیا کی زندگی ہے اور ان خرابیوں کی اصلاح کا واحد نسخہ یہ تھا کہ ہر فرد کو یہ بتا دیا جائے کہ من یعمل سوء یجز بہ، القرآن

جو کوئی ، کوئی بھی برا کام کرے گا اسے اس کی سزا بھگتنا پڑے گی.مشکل یہ آن پڑی کہ آخرت پر ایمان کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں کہلا سکتا اور آخرت پر ایمان انسان میں تقویٰ، خوف خدا، پاک بازی اور حلال خوری ایسی صفات پیدا کرتا ہے.شیطان کو بھی اپنا عہد نبھانے کے لیے کوئی راہ تلاش کرنا تھی چنانچہ اس نے آخرت کی جواب دہی کے مقابلے میں توبہ، استغفار کا غیر قرآنی عقیدہ عام کر دیا. وہ آیات اور روایات جو یہ بتاتی تھیں کہ جو لوگ کبائر سے، فواحش سے، مہلکات سے خود کو بچا کر رکھتے ہیں لیکن انسان ہونے کے ناتے چھوٹی چھوٹی کوتاہیوں کا ارتکاب ہو جاتا ہے تو ان کے لیے ان ربک واسع المغفرۃ -یا جو کفر سے تائب ہو کر اسلام کے دامن میں پناہ لیتے ہیں تو ان کے لیے یہ نوید ہے کہ لا تقنطوا من رحمۃ اللہ، ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا، صغائر کی معافی کے لیے رسول اکرم نے کچھ طریقے بتائے جن کو ہم نے اپنے خطبات میں، تبلیغی بیانات میں اس طرح بیان کرنا شروع کیا کہ وہی ارشادات اللہ اور رسول کی نافرمانی پر حوصلہ افزائی کا پیام بن گئے. جب ہر مسجد میں ہر مولوی یہ بتائے گا کہ عمرہ کرنے سے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں تین بار استغفر اللہ پڑھنے سے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں-سو بار سبحان اللہ و بحمدہ سے سب کچھ معاف ہو جاتا ہے-ہر نماز کے بعد ایک بار آیت الکرسی پڑھنے سے آنکھ بند ہوتے ہی بندہ جنت میں پہنچ جائے گا-تولوگوں کو لوٹ کر، ان کے حقوق چھین کر، ان پر ظلم کر کے، اشیا مہنگی کر کے فروخت کر کے، ملاوٹ والا اور غیر معیاری مال فروخت کر کے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے-وظیفہ کرو اور جنت میں گھس جاؤ.جبکہ قرآن کہتا ہےمن یعمل سوء یجز بہ جو کوئی، کوئی بھی برائی کرے گا اسے اس کا بدلہ دیا جائے گا-لا تاکلوا اموالکم.... ناحق ایک دوسرے کا مال نہ کھاؤ.. تجارت ہو تو ایک فریق کی مجبوری نہیں دو طرفہ رضا مندی ضروری ہے. جو کوئی کسی کا مال ناحق کھائے گا عنقریب ہم اسے جہنم میں ڈال دیں گے-کسی مولوی نے کبھی تاجروں کو یہ نہیں بتایا ہوگا کیونکہ خلق خدا کو لوٹنے کے لئے ان کی باہمی ملی بھگت ہوتی ہے.ہاں، قرآن یہ کہتا ہے کہ جو بڑے گناہوں سے بچتا رہا، بے حیائی کے قریب نہیں گیا تو چھوٹی چھوٹی لغزشیں توبہ استغفار سے، نمازوں سے حج سے، عمرے سے معاف ہوتی رہیں گی. مثلاً ہر سانس میں اللہ کی دو نعمتیں ہیں اور ہر نعمت پر شکر واجب ہے.جو ہم نہیں کر سکتے. ہماری استغفار سے اس قسم کے گناہوں کی تلافی ہوتی ہے.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر روزانہ کی بنیاد پر گناہ دھو ڈالنے اس قدر آسان ہیں تو کسی کو گناہ ترک کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے. قرآن نے تو قبول توبہ کو مشروط کیا ہے کہ گناہ جہالت کی وجہ سے ہوا ہو. فوری توبہ کرے یعنی کئیے پر نادم ہو. بار بار گناہ نہ کرے. آئندہ کبھی وہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے. توبہ کے بعد کی زندگی پہلے والی زندگی سے یکسر مختلف ہو. نیز توبہ کا تعلق صرف حقوق اللہ سے ہے بندوں پر کئیے ہوئے ظلم توبہ سے معاف نہیں ہوتے. یہ سب شرائط قرآن حکیم میں مذکور ہیں.میرا مشاہدہ یہ ہے کہ اہل علم سمیت شاید دس فیصد بھی ایسے افراد تلاش نہیں کئے جا سکتے جو واقعتا ًقیامت پر ایمان رکھتے ہوں.جو شخص میرٹ کی خلاف ورزی کرتا ہے، جھوٹ بولتا ہے، امانت میں خیانت کرتا ہے، وعدہ خلافی کرتا ہے، دوسروں پر تہمت لگاتا ہے، بہتان باندھتا ہے، کسی کا حق مارتا ہے وہ صرف سماجی طور پر مسلمان ہے قرآن کی رو سےلما یدخل الایمان فی قلوبکم اور فإن آمنوا بمثل ما امنتم بہ فقد اھتدواکی آیات اس کے مومن ہونے سے ابا کرتی ہیں-ایسے لوگ فقہاء اور علماء تو ہو سکتے ہیں لیکن مومن نہیں. ان کے مسلمان ہونے کا یہی مطلب ہے کہ انہیں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا.پس صرف وہ شخص جو آخرت کی جواب دہی کا خوف رکھتا ہے، مومن ہے اور بس.ہم نے ایک طرف دین کی مسخ شدہ صورت پیش کر کے سارا سماج آلودہ کر دیا ہے.

پھر یہود کی طرح کا عقیدہ شفاعت، جسے قرآن نے بار بار رد کردیا.اس میں اپنی طرف سے اس قدر اضافے کر کے خود کو مطمئن کر لیا ہے کہ اگر کچھ اونچ نیچ ہو بھی گئ تو درجنوں شفاعتیں موجود ہوں گی یہود کو نبی آخر الزمان کے بر حق ہونے کا یقین تھایہ بھی معلوم تھا کہ آپ نے غالب آجانا ہے-یہ بھی معلوم تھا کہ بغاوت پر سزائے موت ہونے کا امکان ہےورنہ جلاوطنی سے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے یہ بھی معلوم تھا کہ کلمہ، دل سے ہو یا زبان سے،جان بخشی کا یقینی راستہ ہے-پھر کیا وجہ تھی کہ یہود نے کوئی بھی محفوظ راستہ اختیار نہیں کیا-قرآن نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ قالوا، لن تمسنا النار الا ایاما معدودات-ہمیں سزا ہوئی بھی تو چند دن ہو گی. اور بس یہود کے اس عقیدے کو مسلمانوں میں رائج عقیدہ شفاعت سے ملا کر دیکھئیے-قرآن کریم نے کتنے ہی جرائم پر جہنم کی سزا کی وعید سنائی ہے-یتیم کا مال کھانا-ناحق کسی کا مال کھا جانا-کسی کو ناحق قتل کرنا-کسی پر تہمت لگانا-بدکاری کا ارتکاب-جھوٹ بولنا-خیانت کرناوغیرہ

لیکن مسلمانوں میں مروج عقیدہ شفاعت نے ہمیں اسی طرح بے خوف کر دیا ہے جیسے یہود کو کردیا تھا اور ہم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اگر آتش دوزخ کا سامنا ہوا بھی تو چند روز کے لئے اور پھر جنت کے مزے، پس چند دن کی تکلیف کے خوف سے دنیا کے مزے کیوں چھوڑے جائیں-کیا قرآن سے متصادم عقیدہ شفاعت مسلمانوں میں جرائم کی حوصلہ افزائی کا سبب نہیں ہے-