فكر ونظر
وقت اور قيامت
رضوان خالد چودھری
اپنے ہاتھوں کو معافی مانگنے کے سے انداز میں اس طرح جوڑیے کہ ایک سفید کاغذ آپکے دونوں ہاتھوں کے درمیان میں موجود ہو۔ فرض کیجیے کہ ایک ہاتھ آپ خود ہیں اور دوسرا قیامت اور درمیان میں موجود کاغذ وقت ہے۔اگر یہ کاغذ یعنی وقت درمیان سے ہٹ جائے تو آپ اور قیامت آمنے سامنے ہونگے۔ موت یہ کاغذ ہی درمیان سے ہٹا دیتی ہے، یعنی موت وقت کے مُروّجہ دائرے اور قانون کو ہمارے لیے بے اثر کر دیتی ہے۔ لیکن میری موت نے صرف مجھے ہی وقت کی قید سے نکالا ہو گا زندہ لوگوں کے دونوں ہاتھوں کے درمیان گویا یہ کاغذ موجود ہے۔ گویا قیامت برپا ہو بھی چکی بس ہم وقت کے پردے کے باعث اسے دیکھ نہیں پا رہے۔
چلیے وقت کی پیچیدگی ایک اور زاویے سے بھی سمجھ لیجیے،آپ آج آسمان پر جو ستارے دیکھتے ہیں یہ گویا اُن ستاروں کی چودہ ارب سال پہلے کی تصویریں ہیں جو آج آپ تک پہنچی ہیں، فرض کیجیے کہ وہاں آج کوئی قیامت آ چکی ہو تو زمین کے باسی چودہ ارب سال بعد ان ستاروں کو غائب پائیں گے۔دوسرے الفاظ میں آپ یہ کہہ لیجیے کہ اگر کسی دوسری کہکشاں سے کوئی بہت ہی سٹرانگ دوربین لگا کر دنیا کو دیکھ رہا ہو تو اُسے آدمؑ سے بھی لاکھوں کروڑوں سال پہلے کی دنیا دکھائی دے گی جبکہ اگر آپ تیس سال کی عمر میں روشنی سے سو گنا رفتار سے سفر کرنے والے کسی شٹل میں سفر کرتے ہوئے کسی دوسری کہکشاں کی طرف جا رہے ہوں تو آپکے بُوڑھے ہونے سے پہلے پیچھے زمین پر آپ کو گئے ہزار سال سے زائد بیت چکا ہو گا۔
فرض کیجیے کہ ہم آج کسی دوسری گلیکسی میں موجود کسی سیارے پر زندگی کے اثرات پا لیتے ہیں تو اسکا مطلب یہ ہو گا کہ وہاں اربوں سال پہلے زندگی موجود تھی، اب وہ زندگی کتنی ایڈوانسڈ شکل میں ہو گی یا آج کائنات کیسی ہے یہ ہم اپنی زندگی میں نہیں جان سکتے۔
یہ تو طے ہے کہ دوسری کائناتوں میں زندگی موجود ہے لیکن یہ بھی عین ممکن ہے کہ اُن میں سے بعض کائناتوں میں عین اس لمحے ہم خود ہی رہ رہے ہوں۔ بس فرق یہ ہو گا کہ ایک جگہ ہم قیامت سے پہلے کی زندگی گزار رہے ہوں دوسری جگہ برزخ کی تیسری جگہ جنت دوزخ کی۔ وقت ایسا ہی پیچیدہ امر ہے۔