فكر ونظر
بڑے کیوں اور کیسے
سيد عزيز الرحمان
اگر ہم کسی وقت کسی بھی وجہ سے بڑے سمجھے جا رہے ہیں تو اس کی تین صورتیں ممکن ہیں:
الف: عین ممکن ہے کہ ہمیں قدرت نے پیدا ہی بڑا بنا کر کیا ہو۔
ب: یہ بھی ممکن ہے کہ حالات نے ہمیں بڑا بنا دیا ہو، بڑے تیزی سے رخصت ہو گئے ہوں اور ہم آپ سے آپ بڑے بن گئے ہوں۔
ج: تیسری صورت یہ ہے کہ ہم نے خود محنت کی ہو یا اپنے خیال میں ہی ہم بڑے بن گئے ہوں۔
ان تینوں صورتوں میں جو بھی وجہ ہو، جو بھی سبب ہو، اگر ہم بڑے بن چکے ہیں تو پھر ہمیں چند باتوں کا خیال رکھنا ہوگا۔ یہ ہمارے بڑے ہونے کا خراج بھی ہے اور ہمیں ملنے والی عزت کی زکاۃ بھی۔
1۔فریق مت بنیے:
سب سے پہلے تو یہ کہ بڑا بننے کے بعد پھر ان تمام کے لیے، جو ہمارے خیال میں یا امر واقعی میں ہم سے چھوٹے ہیں، ہمیں کسی ایک کے ساتھ فریق بننے سے گریز کرنا ہوگا۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ فریق کوئی بھی ہو اس کا درجہ برابر کا ہی ہوتا ہے۔ فریق کبھی بڑا نہیں ہو سکتا۔
2۔ برابر والوں کو برابر ہی سمجھیے:
دوسری بات یہ ہے کہ کچھ لوگ یقیناً ہم سے ضابطے میں چھوٹے ہوں گے لیکن کچھ ہمارے برابر کے یا ہم سے بڑے بھی موجود ہوں گے معاشرے میں ان کا سرپرست بننے سے بھی گریز کرنا ہوگا۔ برابر والوں کو برابر جیسی عزت ہی دینی پڑے گی ورنہ ہماری اپنی بڑائی ہمارے اپنے ہی ہاتھوں مجروح ہو سکتی ہے۔
3۔خدائی فوجدار بننے سے گریز:
تیسری چیز یہ ہے کہ جو بھی ضابطے میں ہم سے چھوٹے ہیں ان کو غلطیوں سے روکنا اور غلط اقدام سے باز رکھنا ہماری ذمے داری تو ہے لیکن یہ ذمے داری کوئی خدائی فوجدار قسم کی ذمے داری نہیں ہے جو ہر وقت ہم پر مسلط رہے، بلکہ کبھی ہمیں ان ذمے داریوں سے باہر آ کر بھی انسانی سطح پر اپنے چھوٹوں سے مل لینا چاہیے اور ان سے رابطے اور ضابطے قائم رکھنے چاہییں۔
4۔طلب کرنے پر مشورہ ضرور دیجیے:
البتہ اگر کوئی مشورہ طلب کرتا ہے تو پھر مشورہ پوری دیانت سے دینا چاہیے، اس میں چھوٹے اور بڑے کی کوئی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔
5۔حوصلہ بڑھائیے:
اہم ترین بات یہ ہے کہ بڑوں کو اپنے چھوٹوں کی صرف سرپرستی ہی نہیں کرنی چاہیے بلکہ ان کی اس نوعیت کی پشت پناہی بھی کرنی چاہیے کہ وہ آگے بڑھتے ہوئے دکھائی دیں اور جو کوئی آگے بڑھنے لگے تو اس کے آگے بڑھنے کو دراصل اپنی کام یابی تصور کرنا چاہیے اور اس پر خوش ہونا چاہیے۔
6۔مشورہ ضرور کیجئے مگر فیصلے خود کیجیے:
مشورے کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ انسان اپنی رائے سے ہی مکمل طور پر دست بردار ہو جائے اور قیادت کا بھی یہ مفہوم نہیں ہے کہ کسی بھی معاملے میں اس کی کوئی رائے ہی نہ ہو۔
7۔درست فیصلے کیجیے،مقبول فیصلے نہیں:
آج ہماری ہر نوع کی قیادت کے بحرانوں میں سے ایک بحران یہ ہے کہ ہم مقبول فیصلوں کو درست فیصلوں پر ترجیح دینے لگے ہیں. اور یہ سب محض اس خوف کی بنیاد پر ہو رہا ہے کہ کہیں غیر مقبول فیصلوں کے سبب ہماری قیادت ہم سے نہ چھین لی جائے۔ قیادت کا اصل امتحان یہی ہوتا ہے کہ وہ درست فیصلوں پر مقبول فیصلوں کو ترجیح دیتی ہے یا مقبول فیصلوں پر درست فیصلوں کو ترجیح دینے کی کس قدر قدرت رکھتی ہے۔ یہ بہت اہم کسوٹی ہے اس میدان میں ہلکی سی لغزش بھی انسان کو بڑے سے چھوٹا بنا دینے میں لمحے بھر کا توقف نہیں کرتی۔
8۔اپنی بڑائی برقرار رکھیے:
اور آخری بات یہ ہے کہ بڑا بن جانا کوئی کمال نہیں ہے اپنی بڑائی کو برقرار رکھنا سب سے اہم چیز ہے اور اس کے لیے سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ قربانی ہے اپنی رائے کی قربانی، اپنے جذبات کی قربانی اور اپنی انا کی قربانی۔
یہ قربانیاں ہم دے سکتے ہیں تو ہمیں بڑا بننے کا شوق ہونا چاہیے ورنہ ہم چھوٹے ہی بھلے۔