اصلاح و دعوت
ذكر شكر دعا
رب نواز ملك
اگرچہ ذکر،شکر اور دعا میں الفاظ بھی ھوتے ہیں لیکن حقیقت یہ ھے کہ
1۔ذکر ایک کیفیت ھے۔
2۔ شکر ایک مزاج ھے
3۔دعا سوز و تڑپ ھے
کیونکہ اگر ذکر محض الفاظ ھوتے ہیں تو مومن اس بات پر کیسے پورا اترتے کہ میرے بندوں کو تجارت اور خرید وفروخت بھی میرے ذکر سے غافل نہیں کر سکتے۔ نیز سوتے وقت ھم کیسے ذکر کرتے۔۔غسل خانوں اور مخصوص جسمانی حالتوں میں کیسے ذکر کرتے؟ اگر ذکر صرف الفاظ پر مشتمل ھوتا۔
مطلب یہ کہ ذکر اگر ایک کیفیت ھو جیسا کہ وہ ھے،تب جاکر سوتے وقت، مخصوص جسمانی حالتوں ،غسل خانوں میں اور خریدوفروخت وغیرہ کے سب معاملات جس میں الفاظ ممکن نہیں رھتے، گزارہ کر سکتا ھے۔
2۔اسی طرح شکر ایک مزاج ھے۔ مزاج کو کچھ یاد دلانا نہیں پڑتا۔ شکر گزاری عظمت ھے،اعتراف ھے،ایک خاص خوشی، خودسپردگی،غیر مشروط محبت ،احسان و عطا ھے۔
شکربہت ساری حسین ترین کیفیات کا مرکب ھے، چاھے بندے میں ھو،چاھے خدا میں ھو۔ خدا میں ھونے کا مطلب خدا کا شکور ھونا ھے۔یعنی وہ ذات جو ھماری معمولی ترین اچھائی کو بہت بڑا کر کے اس کا اجر اس سے کہیں زیادہ عطا فرمائے۔
الغرض اس طریقہ سےشکر گویا ایک مزاج ھے۔ھم عربی اصطلاحات کو کسی اور زبان میں بیان کرتے وقت یونہی تنگئ داماں کا شکار رھتے ہیں۔
3۔ یہ کہ دعا بھی محض الفاظ کا مجموعہ نہیں ھے۔ ھر جاندار،بے جان، زبان والا اور بے زبان سب اللہ کو پکارتے ہیں۔ ایسے میں الفاظ کی اھمیت ثانوی ھو جاتی ھے،
وہ بات جو سب کیلئے مشترک ھے، کیا ھے؟؟؟وہ تڑپ ھے جو جاندار، بے جان،زبان والے اور بے زبان سب میں یکساں ھے۔ حتی کہ اکثر اوقات انسان جیسی اشرف مخلوق کو یہ بھی پتہ نہیں ھوتا کہ وہ چاھتا کیا ھے۔ ایسے میں اللہ دونوں ذمہ داریاں اپنے ذمہ لے لیتا ھے، یہ ذمہ داری کہ پتہ لگائے کہ ھم چاہتے کیا ہیں اور پھر اس چاھت پر مناسب ترین ایکشن جس کا آخری نتیجہ بھی ھمارے حق میں ھو۔
یعنی دعا ایک تڑپ، ذکر ایک کیفیت اور شکر ایک مزاج ھے۔
رب سوہنے کا شکر ادا کرتے رہنا۔۔۔
اگر آپ اچھا رزق کما رہے ہیں تو یقین جانیں اس میں آپ کی ذہانت یا صلاحیتوں کا کوئی کمال نہیں، بڑے بڑے عقل کے پہاڑ خاک چھان رہے ہیں۔
اگر آپ کسی بڑی بیماری سے بچے ہوئے ہیں تو اس میں آپ کی خوراک یا حفظانِ صحت کی اختیار کردہ احتیاطی تدابیر کا کوئی دخل نہیں۔ ایسے بہت سے انسانوں سے قبرستان بھرے ہوئے ہیں جو سوائے منرل واٹر کے کوئی پانی نہیں پیتے تھے مگر پھر اچانک انہیں برین ٹیومر، بلڈ کینسر یا ہیپاٹائٹس سی تشخیص ہوئی اور وہ چند دنوں یا لمحوں میں دنیا سے کوچ کر گئے۔ یااللہ معاف کرنا۔
اگر آپ کے بیوی بچے سرکش نہیں بلکہ آپ کے تابع و فرمانبردار ہیں، خاندان میں بیٹے بیٹیاں مہذب، باحیا و با کردار سمجھے جاتے ہیں، تو اس کا سب کریڈٹ بھی آپ کی تربیت کو نہیں جاتا کیوں کہ بیٹا تو نبی کا بھی بگڑ سکتا ہے اور بیوی تو پیغمبر کی بھی نافرمان ہو سکتی ہے۔
اگر آپ کی کبھی جیب نہیں کٹی، کبھی موبائل نہیں چھنا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بہت چوکنّے اور ہوشیار ہیں، بلکہ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اللہ نے بدقماشوں، جیب کتروں اور رہزنوں کو آپ کے قریب نہیں پھٹکنے دیا تاکہ آپ ان کی ضرر رسانیوں سے بچے رہیں۔
الحمدللہ مجھے مذکورہ بالا تمام نعمتیں میسر ہیں سوائے اس کے کہ ایک بار حیدرآباد میں ایک تھکا ہوا نوکیا موبائل جیب سے نکل گیا وہ بھی اس لیے کہ میرے ایک عزیز کا موبائل نکل جانے پر میرے دل میں یہ خیال آیا کہ لوگ کیسے مست و مدہوش ہو کر چلتے ہیں کہ کوئی ان کی جیب سے موبائل لے اڑے، انہیں پتا تک نہیں چلتا۔ بس اگلے ہی دن میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگیا۔ من میں جھانکا تو اندر سے صدا آئی۔۔۔ اے ڈیڑھ ہوشیار! جب تقدیر کا لکھا سامنے آ جائے تو عقل کی چڑیا پرواز کر جایا کرتی ہے۔
یہ غالباً ہر انسان کی فطرت ہے کہ جب وہ خود دوسروں سے اچھا کما رہا ہو تو یہ سوچنا شروع کر دیتا ہے کہ وہ ضرور دوسروں سے زیادہ محنتی، چالاک اور منضبط (organised) ہے اور اپنے کام میں زیادہ ماہر ہے۔ پھر وہ ان لوگوں کو حقیر سمجھنا شروع کر دیتا ہے جن کو نپا تلا رزق مل رہا ہے، ان پر تنقید کرتا ہے، ان کا مذاق اڑاتا ہے۔ مگر جب یکلخت وقت کا پہیہ الٹا گھومتا ہے تو اس کو پتا چل جاتا ہے کہ حقیقت اس کے برعکس تھی جو وہ سمجھ بیٹھا تھا۔
دبئی میں ایک صاحب سے واسطہ پڑا۔ پہلے مجبور و پریشان تھے، پھر کنسٹرکشن کی کمپنی کھول لی۔ پرشکوہ دفتر بنایا، سمجھیں کہ لاکھوں میں کھیلنے لگے۔ ملاقات کے لیے گیا تو ایک مشترکہ دوست کے بارے میں پوچھا، جو بیچارے مفلوک الحال رہا کرتے تھے۔ پھر کہنے لگے، وہ تو بڑے کم عقل انسان ہیں، ساری زندگی یوں ہی عسرت میں گزار دی۔ یہ کام کر لیتے وہ کام کر لیتے، وغیرہ وغیرہ۔
کوئی دس بارہ سال کا وقفہ آگیا، ہماری ملاقات نہ ہوئی۔ پھر ایک دن کسی کام سے ان کے آفس جانا ہوا۔ خود نہیں تھے بلکہ پورا اسٹاف ہی بدلا نظر آیا۔ میں نے موصوف کا نام لے کر پوچھا کہ کہاں گئے؟ پہلے تو یہ ان کا آفس تھا؟ بتایا گیا، مرحوم ہو چکے۔ پھر تفصیل بتائی جو کچھ یوں تھی کہ کاروبار میں نقصان ہونے کی وجہ سے پیچھے ہوتے چلے گئے پھر مقروض اور نادہندہ بن کر جیل پہنچ گئے۔ چیک باؤنس کیس میں سزا ہوئی اور اُسی سزا کے دوران جیل ہی میں انتقال کر گئے، اس حال میں کہ فیملی پاکستان میں تھی، نہ کوئی عزیز قریب تھا نہ کوئی فیملی ممبر۔
یہ خبر سنتے ہی میرے سامنے دس سال قبل کا اسی کمرے کا منظر گھوم گیا جہاں گول گھومتی کرسی پر بیٹھ کر مرحوم ایک سادہ اور خدا مست درویش کی مالی ابتری کا مذاق اڑا رہے تھے۔ بادشاہ کو فقیر بنتے دیر نہیں لگتی، سن رکھا تھا مگر بچشمِ خود دیکھا اس دن تھا۔
اگر کوئی چاہتا ہے کہ اسے رزق کے معاملہ میں آزمایا نہ جائے تو تین کام کرے۔۔۔
اوّل: جو کچھ مل رہا ہے اسے محض مالک کی عطا سمجھے نہ کہ اپنی قابلیت کا نتیجہ اور ساتھ ہی مالک کا شکر بھی بجا لاتا رہے۔
دوئم: جن کو کم یا نپاتلا رزق مل رہا ہے انہیں حقیر نہ جانے نہ ان لوگوں سے حسد کرے جن کو "چھپڑ پھاڑ" رزق میسر ہے۔ یہ سب رزّاق کی اپنی تقسیم ہے۔ اس کے بھید وہی جانے۔
سوئم: جتنا ہو سکے اپنے رزق میں دوسروں کو شامل کرے۔ زیادہ ہے تو زیادہ، کم ہے تو کم شامل کرے۔
سب سے زیادہ حق، والدین اور رحم کے رشتوں کا ہے۔ نانا نانی، دادا دادی، بہنیں اور بھائی ہیں۔ اس کے بعد خون کے دوسرے رشتے ہیں جیسے خالہ، پھوپھی، چچا، ماموں، چچی وغیرہ۔ پھر دوسرے قریبی رشتہ دار یا مسکین و لاچار لوگ۔ یقین رکھیں کہ جب بہت سے دعا کے ہاتھ اس کے حق میں اٹھیں گے تو برکت موسلادھار بارش کی مانند برسے گی جس کی ٹھنڈی پھوار اس کی زندگی کو گلشن گلشن بنا دے گی۔