اپنے حصے كی شمع جلائيے

مصنف : سید مہدی بخاری

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : نومبر 2024

اصلاح و دعوت

اپنے حصے كی شمع جلائيے

مہدی بخاری

دنیا بھر کے لوگوں کو دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ایک وہ جو اس دنیا میں بستے ہیں اور دوسرے وہ جن میں ایک دنیا بستی ہے۔ پہلی قسم کے لوگ صرف ردِعمل دکھاتے ہیں اور دوسری قسم کے لوگ صرف عمل کرتے ہیں۔ پہلی قسم کے لوگ تعداد میں جتنے زیادہ ہیں ان کی اجتماعی طاقت اتنی ہی کم ہے۔ دوسری قسم کے لوگ تعداد میں جتنے کم ہیں ان کی انفرادی طاقت اتنی ہی زیادہ ہے۔ پہلی قسم کے لوگ خود کو نارمل اور دوسری قسم کے لوگوں کو  دنيا ابنارمل سمجھتی ہے۔ دوسری قسم کے لوگ خود کو کچھ نہیں سمجھتے کیونکہ وہ اپنی دُھن ميں مست رہتے زندگی بسر کرتے ہیں۔ درحقیقت پہلی قسم کے لوگ بے ہنگم ریوڑ کی طرح ہیں اور دوسری قسم کے لوگ گڈرئیے۔۔۔

کسی نے مجھے بھارتی اداکار نصیر الدین شاہ کی ایک ویڈیو بھیجی جس میں وہ ایک امریکی فلسفی اور شاعر لارن آئزلی کا ایک قصہ سنا رہے تھے۔ آئزلی کو ساحل پر چہل قدمی کا شوق تھا۔ ایک دن اس نے دور سے دیکھا کہ ایک نوجوان ساحل پر پڑی کوئی شے اٹھاتا ہے اور سمندر کی جانب دوڑتا ہے اور وہ شے لہروں کی طرف اچھال دیتا ہے۔ آئزلی مارے تجسس کے اس نوجوان کے قریب پہنچا اور اس سے پوچھا یہ تم کیا کر رہے ہو؟ نوجوان نے اپنا کام روکے بغیر جواب دیا “دیکھ نہیں رہے کہ سورج سر پر آ رہا ہے اور سمندر پیچھے ہٹ رہا ہے اور میں ریت پر جو اسٹار فش نیم مردہ پڑی ہیں انہیں اٹھا اٹھا کے سمندر میں پھینک رہا ہوں تا کہ ان میں زندگی بحال ہو جائے۔آئزلی نے ہنستے ہوئے کہا “اس کا فائدہ؟۔ یہ ساحل تو سیکڑوں میل طویل ہے اور اس پر تاحدِ نگاہ اسٹار فش نیم مردہ پڑی ہیں۔ ان میں سے چند کو سمندر میں پھینکنے سے کیا فرق پڑ جائے گا ؟”۔ نوجوان نے ایک اور اسٹار فش سمندر کی طرف اچھالتے ہوئے کہا “کم از کم اسے تو فرق پڑ ہی جائے گا۔”۔ آئزلی نے جب اس نکتے پر غور کیا تو اس کا پورا نظریہِ زندگی ہی بدل گیا۔ اگلے دن وہ صبح ہی صبح ساحل پر پہنچا اور نوجوان کے ساتھ مل کر ریت پر پڑی اسٹار فش اترے ہوئے سمندر کی جانب اچھالنے لگا۔

مطلب یہ کہ تماشائی بننے سے ایکٹر بننا بہتر ہے۔ اگر سب کو یہ کہانی سمجھ میں آ جائے تو اجتماعی مستقبل اور مقدر خود ہی بدل جائے گا۔

شکوہِ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا--اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

اس معاشرے میں بستا ایک عام فرد اکثر یہ گلہ کرتا ہے جب ریاست کے کرنے کے کام وہ نہیں کرتی تو میں اکیلا کیا کر سکتا ہوں۔بالکل درست، مگر وہ عام فرد جب اپنے حالات اپنی محنت کے بل پر بدل لیتا ہے تو وہ اپنے معاشرے کو بہتر بنانے کی خاطر اس پر کتنی توجہ دیتا ہے ؟۔ ہمارا اجتماعی رویہ ایسا کیوں ہے کہ بدلاؤ سے ڈر لگتا ہے اور سوسائٹی کی فلاح کے لیے پہلا قدم اٹھانے کی ہمت نہیں پڑتی۔ صاحبِ ثروت اپنی زکوۃ و عشر و خمس نکال کر دِلی طور پر مطمئن ہو جاتا ہے کہ اس نے جو فرض ادا کرنا تھا کر دیا ہے۔ باقی تعلیم، صحت، وغیرہ وغیرہ کے معاملات ریاست جانے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ فلاحی کاموں میں اپنا حصہ بقدرِ جثہ ڈالیں۔ آپ بیشک کچھ نہ کریں مگر انفرادی حیثیت میں مندرجہ ذیل کام تو کر سکتے ہیں۔ بس یہی کر لیں تو معاشرے میں انقلابی تبدیلیاں نظر آنے لگیں گی۔

ملاوٹ: خدا کو ناپسند ہے اور معاشرے کو بھی۔لیکن خدائی اور حب الوطنی کا دم بھرنے والے ہی جانے سب کو کیا کیا کس کس نام سے ہم سے ہی پورے پیسے لے کر کھلا رہے ہیں، پلا رہے ہیں ، بیچ رہے ہیں اور عوامی اکثریت بس استغفراللہ کا ورد کرتی جا رہی ہے۔

خیانت: خدا کے نزدیک بھی حرام اور ریاستی آئین کے تحت بھی جرم۔ مگر کون سا ایسا شہری ہے جو خیانت کے انفرادی و اجتماعی اثرات سے بچ پایا۔ پچھلے ایک سال میں کرپشن کے تین ہزار اکتالیس مقدمات میں سے صرف چوبیس کا فیصلہ ہوسکا۔ رشوت لے کے پھنس گیا ہے رشوت دے کے چھوٹ جا۔ (یہ ضرب المثل مغربی نہیں مشرقی ہے اور یہیں کی ہے)۔

 دولت کا ارتکاز: خرابی ہے ان لوگوں کے لیے کہ جنہوں نے مال جمع کیا اور گن گن کے رکھا۔پاکستان میں اسی فیصد آمدنی بیس فیصد لوگوں کے پاس ہے اور باقی اسی فیصد لوگ بیس فیصد پر گزارہ کر رہے ہیں۔ ٹیکس چوری کی شرح کے معاملے میں یہ ریاست دنیا کے ناکام ترین ممالک میں شمار ہوتی ہے۔جو سب سے زیادہ ٹیکس کھانے والے ہیں وہی باقیوں سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

آدھا سچ: نہ خدا کے ہاں حلال ہے نہ کسی معاشرے میں اجازت ہے۔لیکن جھونپڑی سے محل تک، ٹھیلے والے سے لے کر پیش امام تک،بچے سے حکمران تک کوئی ہے جو جھوٹ کی سلطنت سے باہر رہ گیا ہو۔اور میڈیا کا کام ہی آدھے سچ میں آدھے جھوٹ کی ملاوٹ کرنا ہے۔ اسی کو حق سچ مان کر ہمارے ہاں لوگ سیاسی و مذہبی سطح پر رائے عامہ ہموار کرنے کو دن رات لگے رہتے ہیں۔

ریپ: کوئی فاسق و فاجر بھی اس کی وکالت نہیں کرتا۔لیکن ہر ایسے سانحے کے بعد کتنے لوگ اس کے خلاف آواز اٹھانے کو سڑکوں پر جمع ہوتے ہیں ؟۔ اور کتنا بڑا ہجوم ایسا ہے جو ان کیسز میں قصوروار عورت کے لباس، کردار اور گھر سے باہر کام کی غرض سے نکلنے کو قرار دے دیتا ہے۔

دہشت گردی: خدائی ڈکشنری میں اسی کو فتنہ اور فساد فی الارض کہا گیا ہے اور اس کی سزا ایک ہی ہے۔قلع قمع۔ دہشت گردی کسی بھی ریاستی رٹ کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔لیکن جو شکار ہیں وہی اس کی فارمنگ بھی کرتے ہیں یہ بھول بھال کر کہ دنیا گول ہے۔ جو برآمد کرو گے وہی شے لوٹ پھر کے گھر کو آئے گی۔

انصاف:معاشرہ کفر پہ تو زندہ رہ سکتا ہے بے انصافی پر نہیں۔ لال بتی توڑ کر نکلنے والا عجلتی موٹرسائیکل، کار و چنگی چی ڈرائیور۔بیٹی یا بہن کو جہیز کے بدلے وراثتی حق سے دستبردار کرنے والا، اور قدم قدم پر اپنے گھر ، خاندان اور کاروبار کے اندر انصاف سے نظر چرانے والا عام فرد نہیں ہوتا کیا ؟

اقلیت: اس دنیا میں کوئی اکثریت میں نہیں۔سب اقلیت ہیں۔کہیں ایک گروہ تو کہیں دوسرا گروہ۔اسی لیے تمام مذاہب اقلیتوں اور اکثریت کے حقوق و فرائص واضح طور پر بیان کرتے ہیں۔دعوے سب کے اپنی جگہ لیکن اس دنیا پر کوئی نظریہ آج تک پورا غالب نہیں آ سکا نہ کوئی فوری امکان ہے۔اسی لیے کہا گیا کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔تمہارے لیے تمہارا راستہ میرے لیے میرا راستہ۔اسی کو تو پرامن بقائے باہمی کا فلسفہ کہتے ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کتنے لوگ ہیں جو غیر مسلم ہمسائے کو اپنے سے کمتر نہیں سمجھتے ؟ اس کے گھر کا کھانا بخوشی کھا لیتے ہیں ؟ اس کے ساتھ اپنے معاملات بطور دوست شئیر کر لیتے ہیں؟۔ اسے اچھوت نہیں گردانتے ؟

عقیدہ: عقیدے کے بدلاؤ کے لیے تبلیغ کی تو اجازت ہے مگر تلوار کی نوک گردن پہ رکھ کے عقیدہ بدلوانے کی اجازت نہیں۔اپنوں یا غیروں کی عبادت گاہیں ڈھانے یا مسخ کرنے کی اجازت نہیں۔سوائے اپنے دفاع کے کسی کو عقیدے، رنگ، نسل کی بنیاد پر کسی بھی طرح کی زک پہنچانے کی اجازت نہیں۔لیکن کیا خدائی قوانین کی مسخ شدہ تشریح کو کبھی کسی نے روکنے کی اپنے تئیں کوشش کی ؟۔

معاشروں میں تبدیلی چین ری ایکشن کی مانند پھیلتی ہے۔ آج آپ خود کو بدل لیں۔ دیکھتے دیکھتے سماج بدلنے لگے گا۔دنیا میں دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ کوشش کریں آپ دوسری قسم میں شمار ہوں۔ایک سوال ہر انسان کو خود سے پوچھنا چاہئیے۔ جواب اس کا دل دے دے گا۔ کیا خدا نے تم کو دنیا میں آکسیجن کھینچنے، اپنی نسل بڑھانے، اپنی اور خاندان کی بقا کی خاطر کمانے اور پھر مر جانے کو پیدا کیا ہے یا تمہارے اوپر سماجی ذمہ داری بھی فرض ہے ؟۔ہجوم یا ریوڑ کا حصہ بن کر صرف جئیے جانے کا کام تو جانور بھی کر لیتا ہے۔