دين و دانش
عقیدہ توحید کی تاریخ
حافظ محمد شارق
مذہب کی تاریخ کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر،یہ ہے كہ انسان نے توحید سےاپنے مذہبی سفر کا آغاز کیا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ شرک کی طرف ہوا اور مختلف مذاہب میں خداؤں کا تصوربدل گیا۔ مگر انیسویں صدی کے بعد جب سے نظریہ ارتقا کاغلبہ حیاتیات سے بڑھ کر سماجی علوم پر بھی ہوا ہے تب سے کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر مذہب کے ارتقائی ماڈل (Evolutionary Model of Religion) کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس نظریے کے مطابق مذہب کی ابتدا سادہ عقائد جیسے جادو، روحوں اور کئی خداؤں پر یقین یعنی کثرت پرستی یا شرک سے ہوئی اور بعد میں انسانی فکر شعوری منازل طے کرکے ایک خدا پر یقین یعنی توحید کی طرف راغب ہوئی۔ مذہب وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہوتا گیا ۔ یہ ارتقائی نظریہ ہے جس کے سرخیل ای. بی. ٹائلر تھے۔ ای۔ بی۔ ٹائلر نے اپنی کتاب "Primitive Culture" (1871) میں ابتدائی معاشرت اور مذہبی عقائد کو ارتقائی عمل کے تحت بیان کیا، جس میں پہلے جادو، پھر بت پرستی (polytheism)، اور آخر میں توحید (monotheism) آتی ہے۔ اس کے مطابق، توحید سب سے آخری اور جدید ترین مرحلہ ہے، جو تقریباً 3,000 سال سے زیادہ پرانا نہیں ہو سکتا۔
ٹائلر نے یہ نظریہ دور دراز جنگلات میں رہنے والے غیرمتمدن قبائل کی ثقافت کا مطالعہ کرکے تشکیل دیا تھا جہاں یہ قبائلی لوگ مختلف ارواح کو پوجتے تھے۔ ٹائلر کا خیال تھا کہ یہ لوگ اب تک ترقی اور تمدن سے عاری اور ان چھوئے (Untouched) ہیں اس لیے یہ قبائل اور ان کی ثقافت یقینا ًانسانیت کے ابتدائی ادوار کی عکاسی کرتی ہوگی۔ تمام سیکولر ماہرین کا ماننا تھا کہ انسانوں کا مذہب سب سے پہلے روح پرستی اور پھر ارتقا پا کر کثرت پرستی، پھر ہینوتھیزم (ایک خدا کے ساتھ چھوٹے چھوٹے دیوتا)، اور آخر میں توحید تک پہنچا۔ قبائل کے مطالعے کے علاوہ سمیری اور بابلی تہذیب سے ملنے والے آثار بھی قدیم مشرکانہ مذاہب کی تصدیق کر رہے تھے ۔ مگر ٹائلر کے ہی زمانے میں کچھ شواہد ایسے سامنے آئے جن پر غور کیا گیا تو ان شواہد نے اس نظریے کو چیلنج کیا۔
1850 میں سمیری تہذیب (موجودہ عراق ) کے علاقے اُرک سے ایک قدیم دستاویز ملی جس کا عنوان تھا’’انمرکار اور ایرتّا کے خدا‘‘۔اس کتبے کی تاریخ تقریبا 2100 قبل مسیح سے پہلے کی ہے،1851 میں پہلی دفعہ اس کا ترجمہ شایع ہوا اور بہت سے ماہرین کو حیران کردیا۔اس قدیم داستان میں لکھا تھا کہ کبھی ایک دور تھا کہ جب تمام لوگ صرف ایک زبان میں بات کرتے تھے اور سب کا ایک ہی خدا تھا جسے وہ پوجتے تھے، اور اس خدا کا نام تھا "اینلِل"۔ لیکن پھر ایک دن اینکی، جو دوسرا خدا تھا، زمین پر آیا اور لوگوں کی زبانوں کو الجھا دیا۔ یہ داستان یقیناً ہمیں بائیبل میں موجود Tower of Babel کی یاد دلاتی ہے۔مگر اس میں عجیب نکتہ یہ تھا کہ اس دستاویز کے مطابق اس مشرکانہ ثقافت میں بھی ایک ایسا زمانہ تھا جب لوگ صرف ایک خدا کو پوجتے تھے۔ جبکہ ٹائلر کے نظریہ کے مطابق توحید سب سے آخری مرحلہ تھا جو کہ 3,000 سال سے زیادہ پرانا نہیں ہو سکتا۔ یہ خیال کہ توحید کا تصور شرک کے بعد میں آیا ،اب حقائق کے سامنے کمزور ہوچکا ہے۔ یہ قدیم دستاویز اب کچھ اور ہی بتا رہی ہیں۔
اس اثری شہادت کے علاوہ خود ٹائلرکے نظریے کےسرچشمے یعنی قبائلی ثقافت کے مذہب پر بھی دلچسپ تحقیقات اب سامنے آرہی تھیں۔ مشہور ماہر بشریات اینڈریو لانگ (Andrew Lang)نے ٹائلر کے نظریہ کو ایک نیا موڑ دیا۔ لانگ نے بہت سے سیاح اور ماہرین بشریات کی رپورٹس کو کھنگال کر دیکھا جو دنیا کے طول و عرض میں موجود قبائلی معاشروں کی ثقافت کا مطالعہ کر رہے تھے۔ یہ رپورٹس واضح شہادت دے رہی تھیں کہ ان غیر متمدن قبائل میں بھی توحید کے آثار موجود ہیں۔ لانگ نے آسٹریلیا کے قدیم قبائل (Aboriginal)کا مطالعہ کیا جوآج کے جدید دور میں بھی ایک سادہ شکاری اور خوراک جمع کرنے والی زندگی گزار رہے تھے اور پتھر کے اوزار استعمال کرتے تھے۔ان قبائل کا کوئی بھی سابقہ ابراہیمی مذاہب کے پیروکاروں سے نہیں ہوا تھا ، لیکن ان کے ہاں ایک اعلیٰ ہستی كاتصور موجود تھا۔مثال کے طور پر آسٹریلیا کے ناریناری قبائل کا عقیدہ تھا کہ ان کا ایک باپ ہے جو ہر چیز کا خالق ہے اور اس نے انسان کو ساری رسومات سکھائیں۔ مورانو قبائل کا خیال تھا کہ ان کا خالق زمین بنانے کے بعد آسمان میں چلا گیا۔ اسی طرح، کولن قبائل کا اعلیٰ ہستی بنجیئل تھا جسے وہ اپنا "باپ" کہتے تھے۔شمالی امریکہ کی بات کریں تو ان کا ایک بہت ہی قدیم قبیلہ "یوکی" تھا، جو بالکل الگ تھلگ تھا اور ان کی ثقافت بھی بہت سادہ تھی۔ مگر یہ قبیلہ بھی ایک خالق کا ماننے والا تھا جو سب کچھ بناتا تھا اور سب کچھ دیکھتا تھا۔ اسی طرح سے بہت سے نیٹو امریکن قبائل اپنے خدا کو ایک اعلیٰ ہستی مانتے تھے، جو ان کی دنیا کا مالک تھا۔یہی معاملہ افریقہ کا تھا۔ ماسائی قبائل کا عقیدہ بہت ذاتی اور توحید پرست ہے۔ یہ لوگ اپنے خدا سے دعا کرتے ہیں اور اپنی زندگی کے مسائل کے لیے اس سے مدد مانگتے ہیں۔ اسی طرح کِکویو قبیلہ اپنے خدا کو "باپ" کے طور پر مانتا ہے، اور ان کے لیے قربانیاں دیتا ہے۔ ہمبا اور شونا قبائل بھی ایک اعلیٰ ہستی پر یقین رکھتے ہیں جو ان کا خالق ہے۔
نہ صرف یہ کہ ان قبائل میں توحید کا تصور موجود تھا بلکہ عجیب بات یہ تھی کہ جو قبائل زیادہ ترقی کر چکے تھے، وہ کثرت پرستی کی طرف چلے گئے تھے اور جو Untouched تھے ان میں توحید کا تصور موجود تھا۔ سوال یہ تھا کہ ان ابتدائی قبائل میں یہ توحید کا تصور کہاں سے آیا؟ صرف یہ نہیں کہ لوگ ایک خدا پر ایمان رکھتے تھے، بلکہ ان کے عقائد میں حیرت انگیز مشابہت بھی تھی۔ یہ مشترکہ عقائد یہ تھے:
• خدا خالق ہے اور اس نے سب کچھ پیدا کیا۔
• خدا ہمیشہ سے ہے، اس کی کوئی ابتدا یا انتہا نہیں۔
• خدا نظر نہیں آتا، انسانی آنکھوں سے اسے نہیں دیکھا جا سکتا۔
• خدا طاقتور اور مہربان ہے۔
• خدا کی کوئی جنس نہیں۔
ان سبھی مثالوں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ عقیدہ توحید اکثر قبائلی معاشروں میں پایا جاتا ہے، اور جیسے جیسے یہ قبائل دوسروں سے تعامل کرتے گئے ،لوگوں نے چھوٹے دیوتاؤں کو پوجنا شروع کر دیا اور اپنے اصل خالق کو پیچھے چھوڑ دیا۔ یہی چیز قدیم مصر اور بابل ، ہند اور یونان میں بھی دیکھی جا سکتی ہے، جہاں لوگ شروع میں ایک اعلیٰ خدا پر ایمان رکھتے تھے، لیکن پھر انہوں نے کئی خداؤں کی عبادت شروع کر دی۔
دوبارہ اثری شواہد کی بات کرتے ہیں۔ چین سے ملنے والی قدیم ہڈیوں (Oracle Bone) پر لکھی تحریرمیں بھی ایک خدا شنگدی کا ذکر ہے جس کا زمانہ 1200 قبل مسیح سے پہلے کا ہے۔مصر کی قدیم مشرکانہ تہذیب میں بھی پتاح نام کی اعلیٰ ہستی کو پوجا جاتا تھا۔ یہی معاملہ کنعان کا بھی تھا جہاں 1700 قبل مسیح میں ہی ایل (اللہ) بطور معبوِد اعلیٰ موجود تھا۔ ان شواہد سے واضح ہوتا ہے کہ یہ عقیدہ کہ انسانوں نے اپنی تاریخ کے آغاز میں ایک خدا پر ایمان رکھا تھا، محض ایک نظریہ نہیں ہے؛ بلکہ اس کی مضبوط بنیاد ہے جو بشریات، تاریخ اور اثری شواہد سے ثابت ہوتی ہے۔