عمرہ سے متعلق افراط و تفریط

مصنف : عاطف ہاشمی

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : اكتوبر 2024

دين و دانش

عمرہ سے متعلق افراط و تفریط

عاطف ہاشمی

اس میں دو رائے نہیں کہ عمرہ ادا کرنا ایک اہم عبادت اور جلال خداوندی و جمال مصطفوی کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا سبب اور خدا کے قرب اور جذبہ عشق رسول کی تسکین کا ذریعہ ہے، تاہم اس سب کے باوصف عمرہ سے متعلق ہمارے ہاں بہت زیادہ افراط و تفریط بھی پایا جاتا ہے جس پر لکھنے کے لیے مجھے انتظار تھا کہ میں بھی اس تجربے سے گزر جاؤں تو ہی اس پر اپنی رائے پیش کروں۔اس حوالے سے میں درج ذیل نکات پر بات کرنا چاہوں گا۔

1: بار بار عمرہ کرنے کی روش

2: جسمانی یا معاشی کمزوری کے باوجود عمرہ کرنے پر اصرار

3: عمرہ کو گناہوں کا کفارہ سمجھنے کی نفسیات

4: "آیا ہے بلاوا" کا نظریہ۔

1: جن لوگوں کو اللہ مادی اسباب کی فراوانی عطا کرتا ہے ان کے بارے میں عمومی مشاہدہ یہی ہے کہ ان میں عیاشی اور فضول خرچی عام ہوتی ہے، خواہ وہ دیندار ہی کیوں نہ سمجھے جاتے ہوں، بہت کم ایسے مالدار ہوتے ہیں جنہیں خرچ کرنے کا ڈھنگ بھی آتا ہے۔ ایسے مالدار جنہیں خدا کا خوف ہی نہیں وہ تو اس نعمت کو شراب و کباب اور لہو ولعب میں ضائع کرتے ہیں جبکہ دین کی طرف میلان رکھنے والوں کے ہاں مال خرچ کرنے کے دیگر مصارف کے ساتھ ساتھ ایک بڑا مصرف عمرہ بھی ہے- بذات خود عمرہ کرنا بہت بڑی نیکی اور خدا سے قرب کا ذریعہ ہے لیکن کیا موجودہ معاشی حالات میں جبکہ تنگدستی کی وجہ سے لوگ خودکشی کرنے اور بھیک مانگنے پر مجبور ہیں سال میں دو دو چار چار عمرے کرنا خدا کے قرب اور اسے راضی کرنے کا باعث بن سکتا ہے؟

ہمارے قرب وجوار میں بلکہ جوائنٹ فیملی میں رہنے والوں میں بھی ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایک بھائی بہ مشکل گھر کے راشن میں اپنا حصہ ڈالتا ہے جبکہ دوسرا بھائی ہر تیسرے مہینے عمرے کے لیے جا رہا ہوتا ہے، ایسے عمرے سے کیا خدا خوش ہوتا ہو گا؟ اپنے بھائی یا پڑوسی کو اس حالت میں چھوڑ کر بار بار عمرہ پر جانے والوں نے کبھی سوچا کہ ان پر کیا گزرتی ہو گی؟ سعودی حکومت نے بھی سال میں ایک سے زائد مرتبہ ریاض الجنہ میں حاضری پر پابندی لگا رکھی ہے اور نسک ایپلیکیشن کے ذریعے رجسٹریشن کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے جس پر ایک پاسپورٹ کو سال میں ایک ہی پرمٹ ملتا ہے، اس لیے اگر کسی کو اللہ نے وسعت دی ہوئی ہے تو اسے چاہیے کہ سال میں ایک عمرے کے بعد باقی عمروں کو محدود کر کے ان پر خرچ ہونے والی رقوم مستحقین میں تقسیم کرے، ایک عمرے کے خرچ سے کسی غریب کا سال بھر کا چولہا جل سکتا ہے، کسی کے بچوں کی سال بھر کی فیس اور کتابیں یونیفارم آ سکتے ہیں، کئی مریضوں کا علاج ہو سکتا ہے، اور یقیناً ایسا کرنے سے عمرے سے کئی گنا زیادہ ثواب بھی ملے گا اور خدمت خلق سے ایک الگ ہی قسم کا جو دلی اطمینان و سکون نصیب ہوتا ہے وہ بھی حاصل ہو گا۔ اس لیے ہونا تو یہ چاہیے کہ جب تک معاشرے میں معاشی ناہمواری اور عدم توازن موجود ہے تب تک عمرے پر عمرہ کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے، لیکن عملی طور پر اس کے برعکس ہو رہا ہے اور ہر دفعہ عمرہ سے واپسی پر پیچھے رہ جانے والے ہار لے کر ایئرپورٹ پر کھڑے ہوتے ہیں، اگر وہ ایسا نہ کریں تو صاحب بہادر کے ناراض ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔

میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ جو سال میں ایک سے زائد عمرے ادا کرتے ہیں وہ مستحقین کے ساتھ تعاون نہیں کرتے، بالکل کرتے ہیں، میرا مقصد بس اتنا ہے کہ سال میں ایک عمرہ ادا کرنے کے بعد مزید عمرے کے سفر پر آنے والا خرچ بھی اگر اسی مد میں لگا دیا جائے تو بہت سوں کا بھلا ہو جائے گا، اور چونکہ ہمارے ہاں اچھی خاصی تعداد ایسے متمول لوگوں کی ہے جو سال میں متعدد عمرے ادا کرتے ہیں تو اتنی کثیر تعداد میں لوگوں کا یہ فنڈ پاکستان کے اندر استعمال ہونے اور مستحقین تک پہنچنے سے معاشی ناہمواری کو کافی حد تک کنٹرول کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اور ایسا کرنے والے کو بھی یقینا ًدوہرا ثواب ملے گا، ایک اللہ کے گھر کی زیارت کے شوق کو اس سے بھی عظیم مقصد کے لیے دبانے اور اس پر صبر کرنے کا ثواب، اور دوسرا اللہ کی مخلوق جسے وہ اپنا کنبہ کہتا ہے کی ضروریات کو پورا کرنے کا ثواب، مزید برآں اس پر جو دعائیں ملیں گی شاید وہ بیت اللہ کے سامنے بیٹھ کر کی گئی دعاؤں سے بھی زیادہ اثر رکھتی ہوں۔

استطاعت نہ ہونے کے باوجود عمرے پر اصرار

اسلام میں عبادات کی تین قسمیں ہیں:

1: قولی عبادتیں، جو زبان سے ادا کی جاتی ہیں جیسا کہ قرآن کریم کی تلاوت، دعاؤں اور اذکار و وظائف کا اہتمام، میٹھا بول بولنا، زبان سے کسی کو اذیت نہ پہنچانا، سلام کرنا اور جواب دینا وغیرہ۔

2: بدنی عبادتیں، جن کی ادائیگی میں پورا وجود استعمال ہوتا ہے جیسا کہ روزہ اور رزق حلال کے حصول کے لیے محنت مزدوری کرنا وغیرہ۔

3: مالی عبادتیں، جو کہ مال خرچ کرنے سے ادا ہوتی ہیں جیسا کہ صدقہ، زکوۃ، فطرانہ اور عطیات وغیرہ ادا کرنا۔

عبادات کی مذکورہ بالا اقسام میں سے کوئی بھی عبادت کرنے کے لیے اس کی استطاعت اور صلاحیت کا ہونا شرط ہے، اگر کسی شخص میں مطلوبہ صلاحیت مفقود ہے تو اس سے وہ حکم بھی ساقط ہو جائے گا۔ مثال کے طور پر گویائی اور بول چال کی صلاحیت سے محروم شخص سے شریعت قطعاً یہ مطالبہ نہیں کرتی کہ زبان سے ہی لازمی قرآن کی تلاوت کرے اور دیگر اذکار بجا لائے- ایسے ہی اگر کوئی شخص قیام و رکوع سے یا چلنے پھرنے سے معذور ہے تو اس سے شریعت بھی یہ تقاضا نہیں کرتی کہ وہ ایک صحت مند شخص کی طرح تمام ارکان کے ساتھ نماز ادا کرے، اسی طرح اس سے حج کا فریضہ بھی ساقط ہو جائے گا کہ اس کی ادائیگی کی صلاحیت سے وہ محروم ہے۔یہی حکم مالی عبادات کی استطاعت نہ رکھنے والوں کے لیے بھی ہے کہ اگر کسی کے پاس طے شدہ نصاب کی بقدر مال نہیں ہے، یا اتنا مال آ تو گیا ہے لیکن اس پر سال نہیں گزرا تو اسے زکوۃ ادا کرنے کے لیے نہیں کہا جائے گا۔پھر کچھ عبادات ایسی ہیں جن میں بہ یک وقت مال بھی خرچ کیا جاتا ہے اور جان بھی لگتی ہے جیسا کہ حج، عمرہ اور جہاد وغیرہ۔ اگر کسی کی صحت ایسی نہیں کہ وہ یہ عبادات ادا کر سکے تو اس پر شرعاً یہ عبادات واجب ہی نہیں ہوتیں، یہی حکم مالی استطاعت کی صورت میں بھی ہو گا کہ اگر روزمرہ کی ضروریات سے زائد مال نہیں ہے، بلکہ گزر بسر بھی قوت لایموت سے ہو رہا ہے تو پھر حج یا عمرہ کا حکم بھی ایسے شخص کی طرف متوجہ نہیں ہو گا۔

اس تمہید کے بعد آتے ہیں بیمار اور نادار افراد کی طرف سے حج و عمرہ پر اصرار کرنا، کہ جب حکم دینے والے نے ہی مکلف نہیں بنایا تو خود کو مشقت میں کیونکر ڈالا جائے؟ اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی فرمایا تھا کہ اللہ کو جس طرح عزیمت پر عمل کرنا پسند ہے ویسے ہی وہ رخصت پر عمل کرنا بھی پسند کرتا ہے، بعض لوگوں کو دیکھا ہے کہ رمضان میں شدید بیماری اور نقاہت کے باوجود روزہ نہیں چھوڑتے اور اسے اپنے تیئں بہت بڑی نیکی سمجھتے ہیں، لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ اس کا صحت پر کتنا منفی اثر پڑے گا۔ ایسے ہی کئی لوگوں کو عموماً اور ایک مسلک کے ائمہ مساجد کو خصوصاً دیکھا ہے کہ خطبات وغیرہ میں لوگوں کے سامنے حج و عمرہ کی خواہش اس انداز سے کرتے ہیں جیسے وہ دبے لفظوں میں اس معاملے میں تعاون کرنے کی ترغیب دے رہے ہوں (جسے تبلیغ والوں کی اصطلاح میں اشراف کرنا کہتے ہیں)، پھر سننے والے کبھی شرم کھا کر، کبھی خودنمائی کے لیے اور کبھی خالص ثواب کی نیت سے ان صاحب کو عمرے کے لیے بھیج دیتے ہیں۔

اللہ کے گھر کی زیارت کا شوق اور روضہ اقدس پر حاضری کی تڑپ ہر مسلمان کے دل میں ہوتی ہے جو کہ بہت اعلی جذبہ ہے، اس کے ساتھ اللہ سے استطاعت کی توفیق بھی مانگنی چاہیے اور خود سے بھی حتی المقدور کوشش کرنی چاہیے لیکن ایک نیکی کے حصول کے لیے متعدد برائیوں کا ارتکاب کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ پہلے کسی نہ کسی انداز میں اشراف اور دست سوال دراز کرنا، پھر بڑھاپے یا بیماری کی صورت میں خود کو ایسی مشقت میں ڈالنا جس سے بیماری بڑھنے کے واضح امکانات ہوں، اور بیماری بڑھنے کی صورت میں پھر اہل خانہ کے لیے بوجھ بننا یہ سب امور شریعت کی روح کے منافی ہیں، ہاں اگر ذاتی عمل دخل کے بغیر اس طرح یا اس سے بھی سخت معذوری لاحق ہو جائے تو دوسری بات ہے۔ مزید برآں ملکی قوانین کی خلاف ورزی کے بھی مرتکب ہوتے ہیں اور اسے گناہ بھی نہیں سمجھتے-اس ساری مشقت کے پیچھے بڑی حد تک کفارے کی نفسیات کارفرما ہوتی ہے، کفارے کی نفسیات سے میری کیا مراد ہے؟