پاكستانيات
محكمہ صحت اور كرپشن
مہدی بخاری
دو دن قبل ایک تقریب میں معطل شدہ ڈرگ انسپکٹر سے اتفاقی ملاقات ہو گئی۔انہوں نے اپنا تعارف یوں کرایا “ میرا نام ******* ہے۔ میں ڈرگز انسپکٹر ہوں۔ ایک سال سے معطل ہوں اور انکوائری بھگت رہا ہوں ”۔ شکل و صورت سے بھلے انسان لگ رہے تھے۔ گفتگو سے بھی پڑھے لکھے محسوس ہوئے۔ کچھ بات چیت بڑھی تو میں نے ازراہ تجسس پوچھ لیا کہ آپ معطل کیوں ہیں ؟ اور کیسی انکوائری کا سامنا کر رہے ہیں ؟ اس کے بعد درج ذیل ساری معلومات ان کی گفتگو سے اخذ شدہ ہیں۔ ان کے انکشافات مجھے باقاعدہ لکھنا پڑے ۔
سنہ 2011 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی مفت ڈرگز سپلائی سکیم کے تحت پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی جانب سے رجسٹرڈ شدہ مریضوں کو کچھ ضروری ادویات کی مفت سپلائی جاری تھی۔ان دواؤں میں کراچی کی ایک فارماسوٹیکل کمپنی “ایفروز لیب” کی فراہم کردہ آئیسو ٹیب نامی دوا بھی شامل تھی۔ اچانک لاہور اور قریب کے شہروں میں بسنے والے دل کے نارمل مریض پنجاب کارڈیالوجی کی ایمرجنسی میں پہنچنے لگے۔ یہ تعداد پچیس ہزار تک پہنچ گئی۔ ڈاکٹرز کی سمجھ میں نہیں آ پایا کہ معاملہ کیا بن رہا ہے۔ ان کو مریضوں پر ڈینگی کا شبہ ہوا مگر ڈینگی کی علامات نہیں تھیں۔ ڈینگی ٹیسٹ کلئیر آ رہے تھے۔ مریض درست تشخیص نہ ہونے کے سبب مرنے لگے۔ مرنے والوں کی تعداد دو سو سے اوپر چلی گئی۔ ہزاروں مریض حالتِ غیر میں مبتلا ہو گئے۔
پنجاب کارڈیالوجی نے محکمہ صحت کو اس ہنگامی صورتحال سے آگاہ کیا۔ محکمہ صحت نے ڈبلیو ایچ او سے مدد طلب کی۔ ڈبلیو ایچ او نے مریضوں کے خون کے نمونے اور زیر استعمال ادویات کے نمونے ٹیسٹ کے لیے برطانیہ بھیجے۔ برطانوی ہیلتھ ریگولیٹری ایجنسی نے رپورٹ دی کہ “آئیسو ٹیب” کی گولیوں میں پائرمیتھامین نامی عنصر کی بھاری مقدار پائی گئی ہے۔ دل کے مریضوں واسطے زیادہ مقدار میں یہ کیمیائی عنصر حرکت قلب بند کر کے جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ اس انکشاف تک پنجاب کارڈیالوجی اپنے کمپیوٹر ریکارڈ کے مطابق چھیالیس ہزار مریضوں میں آئیسو ٹیب بانٹ چکا تھا۔ ہنگامی بنیادوں پر ان سب مریضوں سے آئیسو ٹیب واپس منگوائی گئیں یا ان کو استعمال سے روکنے کے لیے کالز کی گئیں۔ جو مر گئے سو مر گئے۔ باقیوں کی جان بچانے کے لیے عالمی ادارہ صحت کے مشورے سے کیلشیم فولینیٹ کی بھاری ڈوز دی گئی۔آئیسو ٹیب نامی گولیاں تیار کرنے والی فارما سوٹیکل کمپنی “ایفروز لیب” پر انکوائری بٹھائی گئی۔ انکشاف ہوا کہ تیار شدہ نوے لاکھ گولیوں میں سے چالیس لاکھ گولیاں مضر صحت پائیں گیں۔فیکٹری میں ان کی تیاری کے دوران پائرمیتھامین کا تیس کلو ڈرم لیک ہو کر پروڈکشن میں شامل ہو گیا اور پھر اس سٹاک کو معائنے کے بنا پیک کر کے لاہور بھیج دیا گیا۔ اتنے بڑے سانحے کے بعد نمائشی کارروائی ضرور ہوئی مگر کسی کا بال بھی بیکا نہ ہوا بس اتنا ہوا کہ ڈرگ ریگولیٹر اتھارٹی (ڈریپ) کا ایک ذیلی ادارہ وجود میں آ گیا جس کا کام ادویات کی چیکنگ واسطے ہسپتالوں اور فارماسوٹیکلز پر چھاپے مارنا تھا۔ سنہ 2014 میں یہ صاحب ڈریپ کے ذیلی چھاپہ مار ادارے میں پنجاب سروس کمیشن پاس کر کے بطور ڈرگز انسپکٹر بھرتی ہوئے۔ بھرتی ہونے والوں کو چھاپوں اور چیکنگ کا ٹاسک دیا گیا۔ ڈریپ کے ڈرگز انسپکٹرز نے (جن میں یہ صاحب شامل تھے) لاہور کے ساٹھ مقامات پر چھاپے مارے۔ ان مقامات سے غیر رجسٹرڈ، ناقص، جعلی ادویات برآمد ہونے کے ساتھ ایکسپائر ادویات کا نئی تاریخ ڈال کر ری پیک سٹاک بھی قبضے میں لیا گیا۔ چھاپوں کے دوران جو بزنس ٹرانزیکشنز اور کاغذی ریکارڈ سامنے آیا اس سے معلوم ہوا کہ یہ سارا مال لاہور کے چار سو سے زائد میڈیکل سٹورز پر فروخت کیا جاتا تھا جن میں بڑے بڑے نام شامل تھے۔ چودہ لوگ گرفتار ہوئے۔ دو بڑے میڈیکل سٹورز کی آٹھ فرنچائزز کے لائسنس کینسل کر کے ان کو سِیل کر دیا گیا۔ انکوائری کمیٹی بنی اور پھر اللہ جانے کیا ہوا۔ البتہ گرفتار شدہ چودہ میں سے دس مجرم ضمانت پر رہا ہو گئے اور سِیل شدہ میڈیکل سٹورز میں سے آدھے ایک سال بعد نئے لائسنس کے تحت کھُل گئے۔سنہ 2017 میں ان صاحب نے میو ہسپتال پر چھاپہ مارا۔ وہاں سے دل کی شریانوں میں ڈالے جانے والے سٹنٹس کی ناقص، غیر معیاری اور ایکسپائرڈ کھیپ قبضے میں لی گئی۔میو ہسپتال پر انکوائری کمیٹی بیٹھی اور پھر اللہ جانے کیا ہوا۔سنہ 2020 میں کورونا کے دوران جان بچانے والی ادویات کی چیکنگ واسطے لاہور اور مضافات میں چھاپے مارے۔ ادویات کے سیمپلز کا ٹیسٹ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ چالیس ادویات کے نمونوں میں سے اٹھارہ ادویات ایسی تھیں جن میں کوئی کیمیائی اجزاء ہی نہیں تھے۔ ٹیبلٹس پسے ہوئے چاک سے بنیں تھیں اور کیپسولز میں آٹا بھرا ہوا تھا۔پاکستان میں مریضوں کو جو خون فراہم کیا جاتا ہے وہ بلڈ سکریننگ کے بغیر فراہم کرنا جرم ہے۔ چند اچھے ہسپتالوں اور لیبارٹریز کو چھوڑ کر ایمرجنسی میں جو خون فراہم کیا جاتا ہے اس کی بلڈ سکریننگ نہیں ہوئی ہوتی۔ نتیجتہً مریضوں میں ہیپاٹائٹس اور دیگر خطرناک بیماریوں سمیت ایچ آئی وی بھی ٹرانسفر ہو رہا ہے۔ جس کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔
یہ سب داستان ہوشربا سنتا رہا اور پھر میرا ضبط جواب دے گیا۔ میں نے پوچھا آپ کیوں معطل ہوئے وہ تو بتائیں ؟۔ جو جواب آیا وہ پیش ہے۔اووسٹین نامی ایک انجیکشن ہے جو کینسر کی بعض اقسام کے علاج واسطے استعمال ہوتا ہے مگر دنیا بھر سمیت پاکستان میں بھی ان مریضوں کو آنکھ میں انجیکشن کے ذریعہ اس کی معمولی مقدار دی جاتی ہے جن کی بینائی لمبا عرصہ شوگر کے سبب متاثر ہوئی ہے۔مگر اووسٹین ایسا انجیکشن ہے جس کو خاص ٹمپریچر میں رکھنا بے حد ضروری ہوتا ہے یعنی اس کی کولڈ چین برقرار رکھنا ضروری ہے وگرنہ دوا بگڑ جاتی ہے ایکسپائر ہو جاتی ہے نیز اس کو ماہر فارماسسٹ ہی تیار کر سکتا ہے اور تیار کرنے کے چھ گھنٹوں کے اندر اس کو مریض میں انجیکٹ کرنا ضروری ہے وگرنہ ضائع ہو جاتی ہے۔ اور اس کو تیار کرتے بیکٹیریا سے پاک ماحول یا صاف کمرہ یا ائیر ٹائٹ روم ضروری ہے۔اچانک سے انکشاف ہوا کہ اووسٹین کی ناقص ڈوز کے سبب پنجاب بھر میں سو سے زائد مریضوں کی بینائی چلی گئی وہ مکمل اندھے ہو گئے۔ لاہور کے بڑے پرائیویٹ و سرکاری ہسپتالوں پر چھاپہ مارا۔ انکشاف ہوا کہ اووسٹین انجکیشن عام ماحول میں بنا کولڈ چین مینٹین رکھے تیار کیا جا رہا ہے اور اس کی ایک مقام سے دوسرے مقام کو سپلائی عام تھرماس میں برف رکھ کر کی جا رہی ہے۔ سپلائی کے دوران خاص ٹمپریچر برقرار نہیں رہا۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ ڈرگز انسپکٹرز کو یہ سکینڈل سامنے لانے پر شاباش دی جاتی مگر تیرہ ڈرگز انسپکٹرز سمیت دو اعلیٰ افسران کو معطل کر دیا گیا۔ وجہ یہ کہ آپ سب نے محکمہ ہیلتھ کی پیشگی اجازت کے بنا چھاپے مار کر ہسپتالوں کی لیبارٹری اور ناقص انجیکشنز کو کیوں سِیل کیا اس سے مریضوں کا نقصان ہوا!!!!
میں نے پوچھا کہ آپ سب معطل ہونے والوں نے قانونی راہ لی کیا ؟ جواب میں پھر قہقہہ آیا اور جب قہقہہ تھما تو بولے “بحالی تب ہو گی جب تک محکمہ ہیلتھ کا رخ کسی اور سکینڈل کی جانب نہیں مڑ جاتا اور جب تک تحقیقاتی کمیٹی کے اوپر بننے والی ایک اور تحقیقاتی کمیٹی کے اوپر قائم شدہ ایک اور تحقیقاتی کمیٹی کی حتمی رپورٹ سامنے نہیں آ جاتی۔” اور پھر ایک درد بھرے لہجے میں بولے “ سر جی سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ اووسٹین انجیکشن کا استعمال پنجاب بھر میں روک دیا گیا ہے۔ یہ دوا کینسر کے مریضوں واسطے انتہائی ضروری ہے۔ یعنی دوا دستیاب ہو تو مریضوں کی شامت، نہ دستیاب ہو تو مریضوں کی شامت۔۔۔
ڈریپ ، محکمہ ہیلتھ اور وفاقی ہیلتھ کنٹرول کمیشن بدستور اپنی جگہ کام کر رہے ہیں۔ دوا ساز کمپنیاں یعنی فارماسوٹیکلز سب متعلقہ اداروں اور اہلکاروں اور ڈاکٹروں کو خوش رکھتی ہیں اور یہ سب ان کو خوش رکھتے ہیں۔ رہے مریض تو ان کے لیے تابش دہلوی شعر عرض ہے-بارِ حیات اُٹھائیے تنہا اُٹھائیے--یہ بوجھ آپ سے نہیں اُٹھتا، اُٹھائیے