یہ جنگ نہیں تھی!

مصنف : يمين الدين احمد

سلسلہ : پاکستانیات

شمارہ : جون 2025

پاكستانيات

یہ جنگ نہیں تھی!

یمین الدین احمد

یقیناً یہ صرف ایک جنگ نہ تھی۔ یہ ایمان اور کفر، سچ اور جھوٹ، غیرت اور ذلت کے بیچ لکھی گئی تقدیر کا وہ باب تھا جس میں تاریخ نے پھر ایک بار اپنی کروٹ بدلی۔ایک ایسا لمحہ جو شاید ہماری نسل کے لیے اللہ کی مدد اور نصرت کا زندہ براہ راست مظاہرہ تھا۔جب آسمان پر ہماری طرف سے خاموشی چھائی ہوئی تھی، دشمن دو دن سے ڈرونز اور میزائل پھینک رہا تھا۔تب پاکستان کے اندر ایک غیر معمولی چیز کا آغاز ہو رہا تھا۔ہر بیس، ہر کور، ہر رینک، ہر یونٹ میں تہجد کی نماز قائم کی جا رہی تھی۔جب راتیں قیام میں، آنکھیں آنسوؤں میں اور دل دعاؤں میں مصروف تھے،دشمن کے ارادے خطرناک تھے۔ انٹیلیجنس رپورٹس کے مطابق، چانکیہ کے چیلے، ہندوتوا کے پجاری، بھارتی قیادت کسی ایسے حملے کی تیاری کر چکی تھی جو محض فوجی چال نہ ہوتی بلکہ پاکستان کی سالمیت، اس کی ایٹمی صلاحیت اور اس کے وجود کے خلاف کھلا اعلانِ جنگ ہوتا۔پچھلے کئی دنوں سے ہندوستانی میڈیا پر یہ ماحول بنایا جارہا تھا کہ اس بار پاکستان کو تہس نہس کردینا چاہیے۔ آپ ویڈیوز نکال کر دیکھ لیجیے کہ بطور خاص ہندوستان کے مسلمانوں کی زبان سے یہ بات کہلوائی جارہی تھی۔ کئی عاقبت نا اندیش مسلمان "خصوصا" ہندوستانی مسلم رہنما اور سیاستدان بھی وہی بول رہے تھے جو ہندوتوا کے پرچارک ان سے کہلوانا چاہتے تھے۔

اور یہی وہ لمحہ تھا جب ہماری عسکری قیادت نے اللہ کو اپنا پہلا اور آخری مددگار مانتے ہوئے پوری توجہ اس رب کی طرف کردی جو ابابیلوں سے ابرہہ کے لشکر کو بھوسہ بنا دینے پر قادر ہے۔ وہ رب جو ابراہیم علیہ السلام کے لیے بھڑکائی گئی آگ کو گل و گلزار کردینے پر قادر ہے۔ وہی رب جو ہجرت کے موقع پر مشرکین مکہ کو ہوش سے بیہوش کردینے پر بھی قادر ہے۔تہجد کی دعاؤں اور باجماعت نمازِ فجر کے بعد، پوری سنجیدگی، نظم اور یقین کے ساتھ "آپریشن بنیان مرصوص" کا آغاز ہوا۔

وَالْعَادِيَاتِ ضَبْحًا[1] فَالْمُورِيَاتِ قَدْحًا[2] فَالْمُغِيرَاتِ صُبْحًا[3] فَأَثَرْنَ بِهِ نَقْعًا[4] فَوَسَطْنَ بِهِ جَمْعًا[5]قسم ہے ان ( گھوڑوں) کی جو پیٹ اور سینے سے آواز نکالتے ہوئے دوڑنے والے ہیں! [1] پھر جو سم مار کر چنگاریاں نکالنے والے ہیں! [2] پھر جو صبح کے وقت حملہ کرنے والے ہیں! [3] پھر اس کے ساتھ غبار اڑاتے ہیں۔ [4] پھر وہ اس کے ساتھ بڑی جماعت کے درمیان جا گھستے ہیں۔ [5]

مجاہدین کے گھوڑے جبکہ اللہ کی راہ میں دشمن سے لڑنے کے لیے ہانپتے اور ہنہناتے ہوئے دوڑتے ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان کی قسم کھاتا ہے۔ پھر اس تیزی میں دوڑتے ہوئے پتھروں کے ساتھ ان کے نعل کا ٹکرانا اور اس رگڑ سے آگ کی چنگاڑیاں اڑنا۔

پھر صبح کے وقت دشمن پر ان کا حملہ کردینا اور دشمنان اسلام کو تہہ و بالا کرنا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی عادت مبارک تھی کہ دشمن کے ساتھ لڑائی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جاتے تو وہاں رات کو ٹھہر کر کان لگا کر سنتے، اگر اذان کی آواز آ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رک جاتے (نماز ادا کرتے)، نہ آتی تو لشکر کو حکم دیتے کہ دشمن پر ہلہ بول دیں ۔ [صحیح مسلم:382] ‏‏‏‏پھر ان گھوڑوں کا گردو غبار اڑانا، اپنی سموں سے چنگاریاں نکالنا اور ان سب کا دشمنوں کے درمیان گھس جانا، ان سب چیزوں کی قسم کھا کر پھر مضمون شروع ہوتا ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول کہ ”اس سے مراد گھوڑے ہیں“، جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا: ”گھوڑے ہمارے بدر والے دن تھے ہی کب، یہ تو اس چھوٹے لشکر میں تھے جو بھیجا گیا تھا۔‏‏‏‏“ لیکن اللہ نے ان کی قسم کھائی کیونکہ اللہ کے ہاں تعداد نہیں معیار معنی رکھتا ہے۔اب جنگیں گھوڑوں پر نہیں لڑی جاتیں، فائٹر جیٹس سے لڑی جاتی ہیں۔ جب وہ اڑان بھرنے کے لیے رن وے پر دوڑتے ہیں تو کیسی گرد اڑتی ہے، ان کے انجن (پیٹ اور سینے سے) کیسی دھاڑ کی آواز نکلتی ہے، جے ایف تھنڈر، ایف 16 اور جے 10 سی سے کیسے آگ کے شعلے نکلتے ہیں!دیکھا ہے نا آپ نے؟

یاد رکھیے، یہ آپریشن صرف میزائلوں اور ریڈارز کا نہیں تھا۔یہ ایک دعا، ایک سجدہ، ایک نیت، ایک بیدار اُمت کی صدا پر مبنی آپریشن تھا۔سورۃ العاديات کی عملی تفسیر اللہ نے دکھا دی، اگر تو ہمیں سمجھ آئے!اور پھر دنیا نے دیکھا…!جن کے پاس ٹیکنالوجی تھی، وہ بےبس نکلے۔جن کے پاس طاقت تھی، ان کی ہوا نکل گئی۔جن کے پاس مال تھا، وہ لرزتے نظر آئے۔اور جن کے پاس ایمان، عزم، توکل، اور ترتیب تھی، وہ کامیاب ہو گئے۔یہ تاریخ کا وہ لمحہ تھا جس میں "رافیل" اور "سوخوئی" جیسے طیارے ایک ایسی قوم کے ہاتھوں گرتے رہے جو مالی طور پر کمزور، سیاسی طور پر تقسیم، اور سفارتی طور پر تنہا تھی۔ جس پر عشروں سے دشمنان دین کی نظر ہے کہ کسی طرح انہیں ختم کردو، کسی طرح انہیں ذلیل کردو۔لیکن اُس قوم کی جانباز فوج کے دلوں میں جو شعلہ جل رہا تھا، وہ لاالہ الا اللہ کی حرارت سے روشن تھا۔کیا یہ ویسا ہی منظر نہیں جو ہمیں غزوہ بدر میں نظر آتا ہے؟

جب 313 کمزور اور بےسروسامان صحابہؓ، جن کے پاس نہ گھوڑے تھے، نہ تلواریں، نہ زرہیںلیکن جب آسمان پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے، زمین تھرک اٹھی۔ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جس دن بدر کی لڑائی ہوئی اس دن رسول اللہﷺ نے مشرکین کو دیکھا کہ وہ ایک ہزار تھے اور آپ ﷺ کے اصحاب تین سو تیرہ لوگ تھے۔ اللہ کے نبی ﷺنے قبلہ کی طرف منہ کیا، پھر اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے اور پکار کر اللہ سے دعا کرنے لگے،’’ اےاللہ! جو تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے اسے پورا کر دے، اے اللہ! جو تو نے وعدہ کیا ہے اسے تو دے دے، اے اللہ! اگر یہ مسلمانوں کی جماعت ہلاک ہو گئی، تو پھر زمین پر تیری عبادت نہ کی جائے گی‘‘۔ پھر آپ ﷺاپنے ہاتھ کو پھیلائے ہوئے برابر یہ دعا کرتے رہے، یہاں تک کہ آپﷺ کی چادر آپ کے دونوں مونڈھوں سے اتر گئی، ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور آپﷺ کی چادر کو لیا، اور آپﷺ کےمونڈھے پر ڈال دی، پھرآپﷺ کے پیچھے لپٹ گئے اور فرمایا: اے اللہ کے نبیﷺ! بس آپ کی اتنی دعا کافی ہے، اب اللہ تعالی آپ سے کیا ہوا وعدہ پورا کرے گا، اس وقت اللہ نے یہ آیت اتاری۔۔ إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَاس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سےفریاد کر رہے تھے، پھر اللہ تعالی نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا جو لگاتار چلے آئیں گے“۔ (الانفال: 9)

پھر اللہ کی مدد آئی اور یہ آیت نازل ہوئی:وَإِذْ يُوحِي رَبُّكَ إِلَى الْمَلَائِكَةِ أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوا..."اور جب تمہارے رب نے فرشتوں کو وحی کی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، تو (جاؤ اور) ایمان والوں کو ثابت قدم رکھو..." (الأنفال: 12)

کیا ہم نہیں جانتے کہ غزوہ خندق میں جب پورا عرب مدینہ پر چڑھ دوڑا، تو صحابہؓ خندق کھود رہے تھے، جسم کمزور، پیٹ خالی، لیکن زبان پر یہ الفاظ تھے:اللهم لا عيش إلا عيش الآخرة، فاغفر للأنصار والمهاجرة"اے اللہ! اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے، انصار اور مہاجرین کو بخش دے۔"اور پھر اللہ نے ہوا کو لشکر بنا دیا۔ کفار شکست کھا گئے، باوجود ان کی عددی اور عسکری برتری کے۔

آج بھی تو وہی منظر ہے۔

 ہندوتوا کے مشرکین کی قیادت میں بھارت جس کے پاس 10 گنا زیادہ فوج، 20 گنا زیادہ طیارے، 7 گنا زیادہ دفاعی بجٹ، امریکہ، اسرائیل اور روس کی ٹیکنالوجی… سب کچھ تھا۔

اور دوسری طرف پاکستان… جس کے پاس صرف ایک چیز تھی:اللہ پر ایمان۔اور وہی ایمان جو "بنیان مرصوص" بن گیا۔وہ دیوار جس کا ذکر اللہ نے قرآن میں فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُم بُنْيَانٌ مَّرْصُوصٌ

"بیشک اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کے راستے میں صف بستہ ہو کر اس طرح لڑتے ہیں گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔" (الصف: 4)

یہ آپریشن محض ایک جنگی کارروائی نہیں تھا۔یہ پوری دنیا کو ایک پیغام تھا:

ہم نہ صرف اپنی سرحدوں، اپنے شہروں، اپنے عقائد، اپنے بچوں اور اپنی مساجد کا دفاع کرنا جانتے ہیں… بلکہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اپنے "تقدیر کے نقشے" میں اللہ کی مدد کہاں سے آتی ہے۔ہم شاید اس وقت اپنی معیشت، سیاست، اتحاد اور قوت کے لحاظ سے کمزور ہوں، لیکن ہماری تاریخ یہ ہے کہ ہمیں ہر بار اللہ نے کمزوری میں ہی اٹھایا، طاقت دی، اور دشمن پر غالب کیا۔کیا یہ وہی اللہ نہیں جس نے طارق بن زیاد کے ساتھ سمندر عبور کروایا اور اندلس فتح کروایا؟کیا یہ وہی رب نہیں جس نے سلطان نورالدین زنگی کے دل میں وہ جذبہ ڈال دیا جو بعد میں صلاح الدین ایوبی کی شکل میں بیت المقدس کی فتح بنا؟

اقبال نے کہا تھا:نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا--سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا--سفینۂ برگ گل بنا لے گا قافلہ مورِ ناتواں کا--ہزار موجوں کی ہو کشاکش، مگر یہ دریا کے پار ہو گا--جو ایک تھا اے نگاہ! تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا--یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہو گا؟

میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو--شرر فشاں ہو گی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہو گا

اور بنیان مرصوص میں ہم نے وہی شرر فشانی کی جھلک دیکھی۔

یہ اللہ کی نصرت تھی جو نہ صرف دشمن کو چکرا گئی، بلکہ دوستوں کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال گئی۔وہ امریکہ جو کل کہتا تھا: "یہ تو ہزار سال سے لڑ رہے ہیں، ہمیں کیا؟"… ثالثی کے لیے دوڑا دوڑا چلا آیا کیونکہ معاملہ مشرکین کا تھا۔وہ ازرائیل جو بھارت کے ساتھ اپنی ڈرون ٹیکنالوجی شئر کر رہا تھا، اس کے بہترین دماغ ہندوستان کی مدد کے لیے موجود تھے، آج پریشان ہے کہ یہی نظام اگر دیگر عرب مسلمان ممالک کے پاس چلے گئے تو اس کی برتری کا کیا ہوگا؟ اس کے وجود کا کیا ہوگا؟یہ لمحہ ہمیں سمجھاتا ہے:

اللہ کی مدد کسی قوم کے مال، وسائل یا ہتھیار سے مشروط نہیں۔اللہ کی مدد دلوں کے اخلاص، زبان سے دعا، صفوں کی وحدت، نیت کی پاکیزگی اور وژن کی پختگی سے مشروط ہے۔سو یاد رکھیےآپ نے صرف میزائل فائر کیا۔لیکن نشانہ اللہ نے لگایا:

وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّهَ رَمَىٰ"اور (اے نبیؐ!) جب تم نے تیر پھینکا تو دراصل تم نے نہیں پھینکا، بلکہ اللہ نے پھینکا۔" (الأنفال: 17)

اللہ ہمیں اسی استقامت، اسی شعور، اور اسی صف بندی کے ساتھ زندہ رہنے، امت کو زندہ کرنے، بہترین منصوبہ بندی کرنے، اگلی نسل کو تیار کرنے اور دنیا کے سامنے ایک بار پھر اپنے رب کا پیغام پہنچانے والا بنائے۔ آمین