پاكستانيات
باجوہ سے حافظ تک
يوسف سراج
یہ 2019 کی بات ہے، پلوامہ کا واقعہ ہوچکا تھا، پاکستان پر خان صاحب حکمران تھے، اس وقت کے سب سے پاپولر لیڈر ، خطاب ٹکا کے کرتے تھے،انگریزی خوب بولتے تھے، کسی سے مرعوب نہیں ہوتے تھے،ہینڈسم تھے، جنرل باجوہ کے چہیتے تھے، جنرل صاحب کو ٹف ٹائم بھی دے جاتے تھے، اتنا کہ اپنی ایکسٹینشن کا نوٹیفکیشن بنانے انھیں خود ایوان وزیراعظم آنا پڑتا تھا- سول ملٹری تعلقات جتنے گہرے ان دنوں تھے، تاریخ میں شائد ہی کبھی رہے ہوں۔ قوم ساتھ تھی، یوتھ ساتھ تھی۔ زمین اپنی تھی، آسمان مہربان تھا۔
ایسے میں انڈیا نے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر ڈالی، وہ آئے اور انھوں نے بالا کوٹ میں کوئی خالی جگہ دیکھ کے پے لوڈ گرایا،شائد کوئی کوا وغیرہ ایسی حرکت کو دیکھ کے غیرت سے مر گیا، پاکستانیوں کے سینوں میں جذبات کے بھانبھڑ مچ اٹھے، پاکستان جواب دینے کیلئے موقع کی تلاش میں تھا، لوگ آپے سے باہر ہو رہے تھے، پھر وہ وقت آگیا، پاکستان نے بھارتی فضائیہ کو انگیج کیا، جہاز مار گرایا،ایسے میں ابھی نندن ہاتھ آگیا انڈیا کے پاکستان میں کوا مار آپریشن کے رد عمل میں پاکستان کا جواب کارگر تھا، موثر تھا،سمارٹ تھا اور جنگی تاریخ کا ایک شاہکار تھا-ابھی نندن کا معاملہ لیکن لٹک گیا، پاکستان مزید تناؤ نہیں چاہتا تھا، ادھر انڈیا کیلئے یہ قیدی سوہان روح بن گیا تھا،ادھرابھی نندن چائے كے پیالے لنڈھاتے ہوئے ٹی از فنٹاسٹک کی ویڈیوز بنوا رہا تھا۔ انڈیا شرم سے زمین میں گڑا جا رہا تھا۔سفارتکاری ہوئی، واہگہ کے راستے اپنے کارنامے کے رجسٹر میں سب سے طویل اپنی مونچھیں لیے اور قوم کی مونچھیں منڈوائے ابھی نندن داخل در انڈیا ہوگیا۔
یہ معاملہ ٹل گیا، پھر ایک وقت آیا،جب بھارت نے کشمیر پر سب سے بڑا آئینی حملہ کردیا، اس کی خصوصی حیثیت ختم کر دی، لوگ تپ اٹھے، خان صاحب نے اسلام آباد میں کشمیر روڈ کا نام سری نگر روڈ کر دیا، احتجاج کی کچھ نئی ترکیبیں بتائیں، اسی دوران پارلیمنٹ کا سیشن تھا، اپوزیشن تپ گئی، سوال ہوا، ہم کشمیر کیلئے کچھ کیوں نہیں کرتے؟ کہا، اور کیا میں انڈیا پر حملہ کر دیتا؟ حالات کے اعتبار سے یہ جملہ درست ہوگا لیکن یہ جملہ تاریخ کا حصہ بن گیا، اور کیا میں انڈیا پر حملہ کر دیتا؟
وقت بیتا، 2025 آگیا، تب پلوامہ ہوا تھا ،اب پہلگام ہوگیا، انڈیا بپھر گیا، مودی قوم کو پہلے ہی بتا چکا تھا، چھپن انچ کی تو میری چھاتی ہے، بیچتا وہ چائے رہا تھا، بتاتا درزیوں کی طرح چھاتی تھا، خیر انڈیا نے آنکھیں لال کر لی، امریکی نائب صدر جے ڈی وینس انڈیا میں تھا، اس کی پتنی انڈیا سے تھی، انڈیا گویا اس کا سسرال تھا،امکان ہے کہ اسے اعتماد میں لے لیا گیا، اس نے امریکی ٹی وی کو بتایا،ہم نے انڈیا کو بتا دیا ہے کہ وہ ایسا بدلہ لے، جس سے خطے میں زیادہ تناؤ نہ پھیلے، گویا محدود سٹرائیک کی بات ہو چکی تھی- انڈیا نے ایک رات پاکستان کے 6 مقامات کو ہدف بنا لیا، اس کے میزائل ایل او سی کے علاوہ انٹرنیشنل بارڈر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، مرید کے، بہاولپور،سیالکوٹ ، کوٹلی اور دیگر مقامات پر گرے، اسی رات پاکستان کی انڈیا سے فضائی تاریخ کی طویل ترین فضائی جنگ ہوئی،اس کے رافیل سمیت اس کے چھ جہاز گرا دئیے گیے،انڈیا نے سوچا پہلے کی طرح سکور برابر ہوگیا، اب بات ختم ہو جانی چاہیے-ہاٹ لائن پر بھارتی ڈی جی ایم او نے پاکستان سے رابطہ کیا،بات اب ختم کرتے ہیں۔ پہلے یہی ہوتا تھا،انڈیا اپنی جگہ اور پاکستان اپنی جگہ ہیرو بن جاتے تھے۔ ووٹ شوٹ اور عزت وزت مل جاتی تھی۔اس بار مگر سامنے حافظ تھا، حافظ اپنی طرز کا عجیب شخص تھا، جس وار کالج سے اس نے پڑھا، وہ سب فوج سے سدھار چکے، چند ایک شائد کہیں باقی بچے ہوں، حافظ کی ساری زندگی تخت یا تختہ کے گرد گزری، انتہا کا یہ آدمی، ریٹائرمنٹ کے دن چیف آف آرمی سٹاف بن گیا، اس ایک شخص کی تعیناتی کی جتنی مخالفت ہوئی، کم ہی کسی کی ہوئی ہوگی۔ بات یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ اس ایک آدمی کے سوا جسے چاہو،لگا دو، مگر یہ شخص قسمت کا دھنی نکلا، ریٹائرمنٹ کے دن اور ساری مخالفت کے باوجود یہ آرمی چیف بن گیا- پھر خیر اس نے مخالف سیاسی جماعت كے ليے ملکی تاریخ کا سب سخت رویہ اپنايا، زمیں ان پر تنگ کردی، عمران خان کے نام لینے پر پابندی عائد کر دی، جنرل فیض پر کیس چلا دیا، ملک ریاض کو ملک سے بھاگنے پر مجبور کردیا۔ پیپلز پارٹی کے ہاں ضیا سے زیادہ پی ٹی آئی کے ہاں ناپسندیدہ ہوگیا۔ لیکن اس کے باوجود اس نے بھارت کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔
ایک دن اس نے فجر پڑھی، کچھ کہتے ہیں پڑھائی، درس دیا، دعا مانگی، آپریشن کا نام سورہ صف سے منتخب کرکے "بنیان مرصوص "رکھا اور مدتوں سے عملی ٹیسٹ کی راہ دیکھتے میزائل اللہ اکبر کی صدا کے ساتھ انڈیا کی طرف سیدھے کر دئیے،اوپر پونچھ سے لیکر گجرات تک یہ میزائل یوں برسے کہ معمول کے مطابق جنگ ختم کر چکے انڈیا کا اوپر کا سانس اوپر رہ گیا اور نیچے کا نیچے۔ چائنہ کی ٹیکنالوجی تھی، سیٹلائٹ، اویکس، اور راڈار پاک فضائیہ کی نظریں تھیں، جے ٹین سی اور پی ایل 15 میزائل، ہیکنگ سے راہ ہموار کر لی گئی تھی اور ان کی آوازیں تک ریکارڈ ہو رہی تھیں اور یہ سب کچھ انڈیا کیلئے نیا تھا، کیا آپ سمجھے اس بار انڈیا کیلیے نیا کیا تھا؟ نیا صرف حافظ تھا، یہ صرف حافظ تھا ،جس نے مودی کی ساری اکڑ اور حیرت کا کریا کرم کر دیا تھا، چنانچہ اب مودی ہے اور دنیا بھر کا میڈیا، انڈیا کا مقامی میڈیا اور اس کے دفاعی اینالسٹ۔ سب رو رہے ہیں، سب چلا رہے ہیں، وہ سوچ رہے ہیں یہ ہوکیا گیا؟ہونا کیا تھا، بس اس بار ادھر باجوہ کے بجائے حافظ تھا۔ باجوہ نے ڈر کے کہہ دیا تھا،لڑتے کیسے ٹینکوں میں تو تیل نہیں تھا، حافظ نے کہا، لڑیں کیوں نہ قرآن کہتا ہے، کم من فئة قلیلة غلبت فئ کثیرة باذن اللہبہت بار یہ ہوا کہ چھوٹے لشکر بڑے بڑے لشکروں پر غالب آگئے۔
میں اس سارے تناظر میں صرف یہ سوچ رہا ہوں کہ کیا اللہ نے حافظ کو اسی دن کیلئے بچا کے رکھا تھا؟ میرا خیال ہے کہ یہاں حافظ جیسا آہنی اعصاب اور قرآن پر یقین والا شخص نہ ہوتا تو جیسا ہوا، ویسا کچھ نہ ہوتا۔تو کیا اسی شخص نے فرق ڈالا ہے؟یا وجہ کوئی اور ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔