ہماری شناخت كا مسئلہ (قسط-1 )

مصنف : ادریس آزاد

سلسلہ : پاکستانیات

شمارہ : ستمبر 2024

پاكستانيات

ہماری شناخت كا مسئلہ (قسط-1 )

ادريس آزاد

بات یہ ہے کہ دوطرح کے گھرانے ہوتے ہیں، جن کے اہلِ خانہ کو اپنی شناخت پسند نہیں ہوتی۔ نمبرایک، وہ جن کی شناخت کو سماج میں کم ترسمجھاجاتاہے اورنمبردو، وہ جواپنے احوال کے سبب اپنی شناخت سے بیزار ہوتے ہیں۔ ان دو گھروں کی مثالیں یوں سمجھيں کہ پہلا گھرانہ کسی ایسی ذات کے افراد کا گھرانہ سمجھ لیں جسے معاشرے میں پست کردیاگیاہے یعنی( گھٹیا زبان میں) جسے کمی کمین کہتے ہیں۔ جبکہ دوسرے گھرانے کے لیے ذات پات کا مسئلہ نہیں ہوتا۔ عین ممکن ہے ان کی ذات( گھٹیازبان میں) کوئی اونچی ذات ہو، لیکن اس گھرانے کے افراد اپنےخانگی احوال کی وجہ سے ایک دوسرے سے بیزار ہوتے ہیں۔

پہلی مثال چونکہ قارئین کے لیے سمجھنا آسان ہے اس لیے اسے سمجھانے کے لیے میں مزید کچھ نہیں لکھتا۔ لیکن دوسری مثال کو مزید واضح کرنا چاہتاہوں۔ فرض کرلیں، ایک باپ کو ذاتی وجوہات کی بنا پر اپنے بچوں سے کوئی خاص رغبت نہیں ہے، نہ ہی اس گھر کی ماں کو بوجوہ اپنے بچوں سے کوئی دلچسپی ہے، تو نتیجتاً بچوں کو بھی اپنے والدین کے ساتھ کوئی خاص لگاؤ نہیں ہوتا۔ تب چاہے وہ گھرانا کوئی بڑی ذات سے تعلق رکھتاہو، تب بھی اس گھر میں یکجہتی کا امکان باقی نہیں رہتا۔ وہ اپنے گھرکے مسائل کو مل کر حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ فرض کرلیں کہ اس گھر میں کچھ بچے اور کچھ بچیاں ہیں، تو بھائیوں اوربہنوں کو بھی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی نہیں ہوگی۔ اگر اس گھرانے پر کوئی مصیبت آپڑے تو وہ یکجا ہوکر اس کا مقابلہ نہیں کرپاتے۔ اگرکوئی انہیں یکجا کرنا چاہے تو وہ بیزاری کا اظہارکرتے ہیں اورجِدوجہد کی ذمہ داری ایک دوسرے پرڈال کر خود اس مصیبت سے بچنا چاہتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے نالاں اور ناراض ہوتے ہیں۔ اور ناگزیر مواقع پر یہاں تک اظہار کردیتے ہیں کہ ’’میرا باپ میرا باپ نہیں ہے، یا میں اِس باپ کا بیٹا نہیں ہوں‘‘، اسی طرح ماں باپ بھی بعض مواقع پر ایسا ہی اظہارکرتے ہیں کہ ’’یہ ہماری اولاد نہیں ہے، یا اس گھر کی ذمہ داری سے ہم تنگ آچکے ہیں، مرتے ہیں تو مرنے دو سب کو‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ گویا ایسے گھرانے کے افراد بھی اپنی شناخت سے فراراختیار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ باپ باپ بن کر نہیں رہنا چاہتا اور بیٹے بیٹے بن کر نہیں رہنا چاہتے۔اس کے برعکس جن گھرانوں کے والدین اپنے بچوں کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ ان کی اولاد ہیں اور اس لیے وہ ان کی ذمہ داری ہیں، ان گھرانوں کے بچے بھی یہ احساس اپنے اندر پیدا کرلیتے ہیں کہ گھر کے بزرگ ان کے والدین ہیں اور والدین کے ساتھ احسان و ہمدردی کا سلوک ان کی ذمہ داری ہے۔ اس قسم کے گھرانے میں ہر کوئی اپنی شناخت کو خوب سمجھتا اور اس شناخت کی قدر کرتاہے۔ ایسے گھرانوں میں شناخت فقط والدین تک محدود نہیں رہتی بلکہ وہ یہ بھی پہچانتے ہیں کہ ان کا چچا کون ہے، ان کی پھپھو ، ان کے دادا دادی، ماموں ، خالائیں ، یہ سب رشتے کیوں اہم ہیں اور انہیں کیونکر ان رشتوں کی قدر کرنا چاہیے۔ یہ گھرانے کمپیکٹ ہوتے ہیں اور جب بھی کبھی کوئی مشکل پیش آجائے تو پورے کا پورا خاندان ایک جان ہوکر اس کا مقابلہ کرتا اور اس مشکل سے نبرد آزماہوجاتاہے۔ تب دشمن ان سے ڈرتاہے اور مخالفین ان کے خلاف کچھ سوچتے ہوئے بھی بڑی احتیاط سے کام لیتے ہیں۔

ریاست کی مثال بھی ہم جانتے ہیں کہ ایک ماں جیسی ہوتی ہے۔ ریاست اپنے لوگوں کی ماں ہوتی ہے اور نظامِ حکومت باپ۔ چنانچہ جب ماں باپ اپنے بچوں سے لاپروا ہوجاتے ہیں تو بچے بھی اپنے ماں باپ سے لاپرواہوکر جینے لگتے ہیں۔ ایسے میں اگر ریاست پر کوئی مشکل یا مصیبت نازل ہوجائے تو اہلِ ریاست بھی اس بے شناخت خاندان کی طرح ایک دوسرے سے منہ پھیر لیتے ہیں اور جدوجہد کی ساری ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر خود ایک طرف ہوجانا چاہتے ہیں۔یہ بات بہت عام ہے اور بچے بچے کی زبان پر موجود ہے کہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ اوریہ بھی کہ ہمارے لوگوں کے پاس بڑا ٹیلنٹ ہے۔ اور یہ بھی 1973 کا آئین بڑا پرفیکٹ آئین ہے۔ اگرکسی قوم کے پاس یہ تمام ذرائع موجود ہوں تو پھر بہت بڑا سوال پیدا ہوجاتاہے کہ آخر وہ قوم کیونکر بدحالی اور ذلّت کے گڑھے میں گری ہوئی ہے؟اور اس سوال کا ایک ہی جواب ہے، کوئی دوسرا جواب موجود نہیں۔ اوروہ جواب ہے، ’’اپنی شناخت سے بیزاری‘‘۔ ہم نے اوپر ملاحظہ کیا کہ اپنی شناخت سے بیزاری کی دوبڑی وجوہات ہوتی ہیں۔ نمبرایک، اپنی شناخت کا احساسِ کمتری۔ نمبردو، اپنی شناخت سے عدم دلچسپی۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے، لیکن ایک پاکستانی کو یہ دونوں مرض بیک وقت لاحق ہیں ۔ اور اگر یہ سچ ہے تو پھر سب سے بڑا سوال پیدا ہوجاتاہے کہ اپنی شناخت سے نفرت اوربیزاری یا عدم دلچسپی کا یہ عفریت کیونکر اہلِ پاکستان پر مسلط ہوا؟ اس کے اسباب کیا ہیں؟اس کے بڑے اسباب دو ہیں۔

نمبرایک، اور یہ سب سے بڑا سبب بھی ہے کہ پاکستانی سرے سے اپنی شناخت سے واقف ہی نہیں ہیں۔ وہ آج تک یہ طے نہیں کرسکے کہ وہ مسلمان پہلے ہیں یا پاکستانی پہلے ہیں، یا کچھ اور پہلے ہیں، مثلاً پنجابی ، سندھی بلوچ ، پشتون وغیرہ، یا دیوبندی، بریلوی ، شیعہ وغیرہ۔ وہ کنفیوزڈ ہیں اور ستترسال میں بھی ٹھیک سے نہیں جان پائے کہ وہ اصل میں کون ہیں؟

نمبردو، جنرل ضیا الحق کے بعد سے ایک پاکستانی اپنی قومی شناخت پر احساسِ کمتری کا شکار بھی ہے۔ جہادِ افغانستان کے خاتمے کے بعد سے اب تک پوری دنیا میں اسے گھٹیا قوم سمجھاجاتاہے اور اس لیے بھی وہ اپنی شناخت سے بیزار ہے اور اس سے نفرت کرتاہے۔

کسی قوم کے لیے شناخت کا مسئلہ اتنا ہی ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اہم ہے جتنا کہ کسی خاندان کے لیے ہوسکتاہے۔ شناخت کا تعلق کسی مسافر کے مقامِ آغازجیسا ہے۔ یعنی اگر کوئی مسافر یہ نہ جانتاہو کہ وہ کہاں سے آیاہے تو اسے یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ اسے کہاں جاناہے۔ سفرکے آغاز کا مقام، منزل کے تعین کے لیے ناگزیر ہے۔ ایک پاکستانی بنیادی طورپر یہ ہی نہیں جانتا کہ وہ کہاں سے آیاہے؟ تو پھر وہ یہ کیسے جان سکتاہے کہ اس کی منزل کیا ہونی چاہیے، یا اسے کہاں جانا ہے؟ایسے مسافر کو بھٹکا ہوا یا گمراہ مسافر کہاجاتاہے۔ہمیں جب یہ بتایا گیا کہ ہم مسلمان پہلے ہیں اور پاکستانی بعد میں ہیں تو اس وقت ہمیں اقبال کے حوالے دے دے کر سمجھایاگیا کہ ’’قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں‘‘ اور’’اِن تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے‘‘ اور ’’پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الاللہ‘‘۔ہمیں مطالعۂ پاکستان میں پاکستان کا مطالعہ پڑھانے کی بجائے محمود غزنوی ، محمد بن قاسم، احمد شاہ ابدالی وغیرہ پڑھائےگئے اوردعوے سے کہاگیا کہ یہ ہماری شناخت کے بنیادی عناصر اور شعائرِ اسلامی و شعائرِ پاکستانی میں سے ہیں۔ ان سب فاتحین نے ہندوؤں کے ساتھ جنگیں کی تھیں اور یہ سب سپہ سالاران تھے، سو ہم نے ہندوؤں سے نفرت کو اپنا مذہبی شعار بنالیا اورسپہ سالاروں کے گیت گانے لگ گئے۔ اور جب ہم اس نظریے کو ماننے کے لیے اچھی طرح سے تیار ہوگئے تو پھر ہمیں کہاگیا کہ اب پڑوسی مسلمان ملک افغانستان میں کافر گھس آئےہیں اور بطورقلعہِ اسلام یہ ہمارا فریضہ ہے کہ ہم ان کے ساتھ مل کر جہاد کریں۔ پھر جب یہ جہاد ختم ہوگیا اور اسی پڑوسی مسلمان ملک کو ہی ختم کرنا مقصود ہوگیا تو ہمیں کہاگیا، نہیں پہلا نعرہ غلط تھا، اصل نعرہ یہ ہے کہ ’’ہم سب سے پہلے پاکستانی ہیں، اور بعد میں مسلمان ہیں‘‘ اس لیے اب ہمیں اسلام کے نام پر جہاد کرنے کی بجائے، ’’سب سے پہلے پاکستان، پاکستان ہماری جان‘‘ کے نعرے پر عمل پیرا ہوجانا چاہیے۔ان تمام تصریحات کے بعد لامحالہ سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوجاتاہے کہ پھر ہماری اصل شناخت کیا ہے؟ ہمیں اگر اب تک گمراہ کیا جاتا رہا تو اب ہم صحیح راستے پر گامزن کیسے ہوسکتے ہیں؟کیا ہم کسی طرح اپنی اصل شناخت تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ تاریخ کو پھلانگ کر ہم کبھی بھی اپنے سفر کے مقامِ آغاز تک نہیں پہنچ سکتے۔ ہمیں اپنی اصل شناخت تک پہنچنے کے لیے تاریخ میں ایک ایک قدم پیچھے جاناہوگا۔ ہم براہِ راست محمود غزنوی کی تاریخ تک چھلانگ نہیں لگاسکتے ہیں نہ ہی براہِ راست ہم محمد بن قاسم کی تاریخ تک چھلانگ لگا کر اپنی شناخت کی جڑ یا رُوٹ تک جاسکتے ہیں۔ہمیں ایک ایک قدم پیچھے جا کر یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم پاکستان بننے سے ایک سال پہلے کس شناخت کے حامل تھے، پھر اس سے ایک سال پہلے، پھر اس سے ایک سال پہلے۔ اورتب ہم پر انکشاف ہوگا کہ ہم اس وقت ’’ہندوستانی مسلمان ‘‘ تھے ۔ تب ہمیں پتہ چلے گا کہ ہم تو کبھی بھی افغانی مسلمان، یا ایرانی ، یا عرب مسلمان نہیں تھے۔ ہم تو ہمیشہ سے ہندوستانی مسلمان تھے۔ توکیا پاکستان بننے کے بعد ہم اب ہندوستانی مسلمان کی شناخت کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں؟ یقیناً نہیں، تو پھر؟

نوم چومسکی سے ایک انٹرویو میں سوال کیا گیا کہ اگر کسی قوم کو اس کی صحیح تاریخ نہ پڑھائی جائے، بلکہ انہیں اُن کی تاریخ کے چُنیدہ(selective) حصے پڑھائے جائیں تو اس سے کیا نقصان ہوگا؟ نوم چومسکی نے جواب دیا کہ اس سے افرادِ قوم میں احمقانہ قسم کا احساسِ برتری پیداہوجائےگا۔ پھر اس نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ، مثلاً امریکہ میں لوگ دیکھتے ہیں کہ سیاہ فام یعنی بلیک امریکیوں کی مالی اورسماجی حالت گوروں کے مقابلے میں خاصی کمزورہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ گورے یہ سمجھتے ہیں کہ کالوں کی یہ حالت اُن کی اپنی وجہ سے ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کالوں کے ڈی این اے میں کوئی مسئلہ ہے، یعنی وہ پیدائشی طورپر ہی نااہل ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ صرف وہ امریکی جو اپنی تاریخ کے شرمناک کاموں کا بھی مطالعہ رکھتے ہیں، صرف وہی جانتے ہیں کہ دراصل کالوں کو تو ہم خود غلام بنا کر لائے تھے اور کئی صدیوں تک ہم نے ان پر بے پناہ مظالم روارکھے۔ اور اِس وجہ سے وہ ترقی میں ہم سے پیچھے ہیں۔چنانچہ جب ہمیں وہ مطالعہ پاکستان پڑھایا گیا جس کے ساتھ اس خطے کی تاریخ کاکوئی تعلق ہی نہیں تھا تو ہم بھی اپنی حقیقی شناخت کھوبیٹھے۔شاید ہی دنیا کی کسی قوم نے ایسا کیا ہو کہ ان کے خطوں کوجن باہر سے آنے والے حملہ آوروں نے فتح کیا، وہ آخر میں انہی حملہ آوروں کو اپنا ہیرو ماننے لگے۔ تاریخ اس پر شاہد ہے کہ قومیں ہمیشہ اپنے اوپر حملے کرنے والوں کو بُرے ناموں سے یادکرتی ہیں۔ لیکن ہم نے ایسا نہ کیا۔ صرف یہی نہیں ہم نے اپنے بچوں کو اس خطے کی تاریخ بتانا گواراہی نہیں کیا جہاں کی مٹی سے اُن کا خمیر اُٹھاتھا۔ ہم نےکبھی اُنہیں یہ نہیں پڑھایا کہ کلرکہار کے پاس کٹاس راج مندر ہے جو شری کرشنا نے خود تعمیر کیا تھا اور کرشنا یہاں کئی سال تک مقیم رہے تھے اور یہ کہ مہابھارت میں اس کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔ ہم نے انہیں یہ بھی نہیں بتایا کہ پشاورسے اُنتیس کلومیٹر کے فاصلے پر ، پُش کالا وتی کے گاؤں میں بابائے لسانیات پانینی کی پیدائش ہوئی اور یہ کہ آج دنیا بھر میں جو لسانیات پڑھائی جاتی ہے اس کا اصل بانی پشاور کے قریب پیدا ہوا۔ نہ ہی یہ بتایا کہ ’’یوگا کا علم‘‘ جسے آج ساری دنیا نے اختیار کررکھاہے، پشاورکے نواح میں بسنے والے پتن جلی نے دریافت کیا اور اس کے سب سے اہم طریقے آج بھی وہی ہیں جو پتن جلی نے لکھے۔ ہم نے اپنے بچوں کو یہ بھی نہیں بتایا کہ اسلام آباد سے جہلم تک کا جو علاقہ ہے یہاں راجہ پورس نامی ہمارا ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اوریونان کے سکندرِ اعظم نے جب ہندوستان پر حملہ کیا تو راجہ پورس نے اپنے ہاتھیوں کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا تھا۔ اوریہ کہ شہر جہلم کا نام جہلم اس لیے ہے کیونکہ جہلم یونانی زبان کا لفظ ہے اور یہ سکندرِ اعظم کے گھوڑے کا نام تھا، جو آج بھی اسی مقام پر دفن ہے جسے ہم جہلم کہتے ہیں۔ ہم نے اپنے بچوں کو یہ بھی نہیں بتایا کہ کھیوڑہ میں ہماری نمک کی کان بھی سکندراعظم کے گھوڑوں نے دریافت کی تھی۔

سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان بن جانے کے بعد بھی ’’قوم مذہب سے ہے‘‘ کا نظریہ قائم رکھا جا سکتا تھا؟ کیونکہ جب اقبال اس نظریے کو پورے جوش و جذبے کے ساتھ پیش کررہے تھے تو ابھی پاکستان کا کہیں دور دور تک نام و نشان بھی نہیں تھا۔ اقبال کے سامنے صرف ہندوستانی مسلمانوں کا مسئلۂ قومیت تھا۔ کانگریس سے منسلک مسلمان علمأ خصوصاً مولانا ابولکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی کا مؤقف یہ تھا کہ قومیت مذہب سے نہیں ہوتی، بلکہ وطن سے ہوتی ہے، بالفاظ ِ دیگر وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ ہماری قومیت ہندوستانی ہے نہ کہ مسلمان۔ مولانا حسین احمد مدنی نے دلی کے ایک اجتماع میں جب اسی نظریہ کا اعادہ کیا اور کہا کہ،’’فی زمانہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں‘‘

تو علامہ اقبال اس قدر ناراض ہوئے کہ انہوں نے مولانا حسین احمد مدنی کا نام لے کر مندرجہ ذیل اشعارکہے،عجم ہنوز نداند رموزِ دیں، ورنہ ز دیوبند حُسین احمد! ایں چہ بوالعجبی است--سرود بر سرِ منبر کہ مِلّت از وطن است--چہ بے خبر ز مقامِ محمدِؐ عربی است

بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست--اگر بہ او نرسیدی، تمام بولہبی است

ان اشعار کا اردومیں مفہوم کچھ یوں ہے کہ ، عجم(یعنی اہلِ ہند) کو ابھی تک دین کے رموز کا علم نہیں ہے کیونکہ مولانا حسین احمد مدنی جو دیوبند کے عالم ہیں، انہوں نے منبر پر بیٹھ کر یہ کہا ہے کہ ’’ملتیں وطن سے بنتی ہیں‘‘،یہ تو مقامِ محمدعربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بے خبری کا ثبوت ہے۔ دین وہی ہے جو آپ کو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک پہنچائے۔ اگر آپ وہاں تک نہیں پہنچ پاتے تو پھر باقی سب ابولہب کا راستہ ہے، دِین کا نہیں۔

ان اشعار کی شہرت ہوئی تو علامہ طالوت  نے مولانا حسین احمدمدنی سے ایک خط کے ذریعے وضاحت مانگی۔ مولانا مدنی نے جو جواب دیا، وہی جواب طالوت نے علامہ اقبال کو بھیجا اور یوں ایک بحث شروع ہوئی جسے ہماری تاریخ میں ’’معرکۂ دین وطن‘‘ کے نام سے جانا جاتاہے۔ یہ بحث بھی اگرچہ مطالعہ پاکستان کا اصولی طورپر حصہ ہونا چاہیے تھی، لیکن ہمیں نہیں پڑھائی جاتی۔ مولانا مدنی نے جو مؤقف اختیار کیا وہ درج ذیل تھا،

قرانِ کریم میں قوم، ملت، اور اُمت، تین اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں۔ قرآن کے مطابق ’’قوم‘‘ ایک علاقائی تصور ہے اور اس کا تعلق آپ کے خطۂ زمین، کلچر اور علاقے کے ساتھ ہے۔ مولانا نے قرانی آیات سے مثالیں پیش کرتے ہوئے لکھا کہ قومِ لوطؑ، قومِ ابراہیمؑ، قومِ نوحؑ، قوم ھودؑاورقوم صالِحؑ کی اصطلاحات قران میں علاقائی اقوام کے لیے الگ الگ استعمال ہوئی ہیں۔ان انبیا کی اقوام علاقائی تھیں، نہ کہ عالمگیر۔ اس کے بعد مولانا مدنی نے لفظ’’ملّت‘‘ کی مثالیں دیں اور کہا قران کے مطابق ملّت مذہب سے ہوتی ہے، جیسا کہ قران میں ملّتَ ابراہیم َ حنیفا کی اصطلاح استعمال ہوئی یا حدیث میں ’’الکفر ملت واحدہ‘‘ یعنی کفر ایک ملت ہے کے الفاظ آئے ہیں، سو اس لیے ملت تو پوری دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ مل کر ہم بنارہے ہیں، لیکن بطورقوم ہم ہندوستانی ہی ہیں۔ پھر مولانا نے لکھا کہ اُمت پوری انسانیت کو کہتے ہیں ، جیسا کہ قران میں آیا، کان الناس الااُمۃً واحدہ، یعنی تمام انسان ایک اُمت ہیں۔

اقبال نے ان وضاحتوں کو قبول نہ کیا اور لکھا کہ ’’الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا‘‘۔ اقبال نے کہا ہندوستانی مسلمان صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے الگ قوم ہیں اورہرلحاظ سے یہ ہندوؤں سے مختلف ہیں۔ ان کی زبان، ثقافت، لباس، رہن سہن، تہذیب و تمدن ہندوستان میں رہتے ہوئے بھی ہندوؤں سے جُدا ہے۔ اگر قوم ، زبان، کلچر اوررسم و روایات سے بنتی ہے تو پھر ہندوستان میں رہتے ہوئے مسلمان ہندوؤں سے اس قدر مختلف کیوں ہیں؟ اس ’’کیوں‘‘ کا جواب نہایت واضح ہے کہ وہ مسلمان ہیں اس لیے ہندوؤں سے الگ ہیں۔

معرکۂ دین و وطن ایک علمی مباحثہ تھا جو اقبال کی وفات تک جاری رہا اور دونوں طرف کے لوگ کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ہی بالآخر خاموش ہوگئے۔ اگر اس علمی مناقشے کا کوئی نتیجہ پاکستان بننے سے پہلے نکل آیا ہوتا تو پاکستان بننے کے بعد جن طاقتوں نے اس بحث سے ناجائز فوائد اٹھانے کی کوشش کی وہ کامیاب نہ ہوپاتے۔ لیکن چونکہ یہ بحث بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوئی تھی اس لیے پاکستان بننے کے بعد بھی دونوں طبقات بدستور موجود رہے۔ اوران دونوں طبقات کے وجود کے ساتھ یہ مسئلہ بھی مسلسل موجود رہا کہ آیا ہم پاکستان کی سرزمین کے باشندے ہونے کی وجہ سے پاکستانی ہیں یا مسلمان ہونے کی وجہ سے ہماری قوم مسلمان ہے؟

اقبال کی وفات پاکستان بننے سے نوسال پہلے ہوگئی تھی۔ اقبال اگر زندہ ہوتے تو یقیناً پاکستان بننے کے بعد نظریۂ قومیت نے ایک نئی شکل اختیار کرلی ہوتی۔ کیونکہ پاکستان بننے کے بعد اس خیال کی بنا پر کہ قوم مذہب سے ہے، ایک طبقہ پاکستان کو دنیا بھر میں اسلام کا واحد قلعہ مانتے ہوئے خلافتِ اسلامیہ کی بحالی کی تحریک پر گامزن ہوگیا اور بالآخر جنرل ضیالحق کے مارشل لا کے وقت اس طبقے نے باقاعدہ نعرہ لگایا کہ ضیالحق کا مارشل لأ دراصل خلافت کی بحالی کی ہی ایک شکل ہے۔ انہوں نے ضیالحق کو اقبال کا مردِ مؤمن قراردے دیا۔ یوں گویا بالآخر اسّی کی دہائی میں پاکستان ایک جمہوری ریاست کی بجائے ایک مذہبی یعنی تھیوکریٹ ریاست میں تبدیل ہوگیا۔حالانکہ اقبال ہندوستانی مسلمانوں کو بطورقوم ، ہندوؤں سے جُدا دیکھنے کے لیے اس نظریہ کا پرچار کررہے تھے۔ اور اس بات کا اور کسی کو نہیں تو قائدِ اعظم کو پوری طرح علم تھا۔ یہی وجہ تھی کہ قائدِ اعظم نے پاکستان بننے کے فوراً بعد اپنے نظریۂ قومیت میں کوریکشن(correction) کرنا لازمی سمجھا اور فرمایا کہ، ’’اب پاکستان بن چکاہے۔ یہاں نہ کوئی ہندو، سکھ، عیسائی ہے اور نہ ہی کوئی مسلمان۔ ہم سب پاکستانی ہیں۔‘‘۔ اس خیال کا اظہار قائدِ اعظم نے دیگر مواقع پر بھی کیا اور اپنے عمل سے بھی متعدد مواقع پر ثابت کیا کہ پاکستان بطوروطن ہرمذہب سے تعلق رکھنے والے کے لیے برابر ہے۔

اقبال کی کوشش تھی کہ ہندوستانی مسلمان قومیت اور نیشن سٹیٹ کے اس تازہ غلغلے کی زد میں آکر، کہ جو پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا اور عیسائیت کا خاتمہ کرچکاتھا، کہیں اپنے عظیم تہذیبی سرمائے کو کھو نہ دیں۔ اقبال یورپ میں نیشن سٹیٹ کے جن کو بوتل سے نکلتاہوا دیکھ چکے تھے۔ اور اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ قومیت کا یہ نظریہ جس کی بنا وطن پر ہے، کس حد تک خطرناک ہوسکتاہے۔ انہوں نے اسی نظریے کی بنا پر اہلِ یورپ کے لیے یہ پیش گوئی بھی کردی تھی کہ،

دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے--کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا

تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی--جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہو گا

اور پھر اقبال کی پیش گوئی حرف بحرف درست ثابت ہوئی۔ اقبال نے یہ پیش گوئی 1907 میں تھی، جس کے ٹھیک سات سال بعد یورپ میں پہلی جنگِ عظیم ہوئی ، جس کے نتیجے میں ڈیڑھ کروڑ انسان مارے گئے۔ پھر یہ جنگ بند ہوئی بھی تو عارضی طورپر۔ 1940 میں یہ جنگ دوبارہ شروع ہوگئی اور اس بار اس نے چھ کروڑ انسانوں کی جان لی اور ساٹھ فیصد یورپ جل کر راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ اتنی بڑی تعداد میں انسان، زمین کی تاریخ میں کبھی، قتل نہ کیے گئے تھے۔

اقبال کا یہ مؤقف تھا کہ چونکہ اہلِ یورپ نے عیسائی مذہب کے جھنڈے کو خیر باد کہہ دیا ہے اور وطنی قومیت کے اپنے الگ الگ جھنڈے اٹھالیے ہیں اس لیے اب ممکن نہیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور رواداری کے ساتھ رہ سکیں۔ اورپھر جب اہلِ یورپ نے بھی اسی نکتے کو سمجھ لیا تو وہ دوبارہ جمع ہوئے اور اس بار عیسائیت کا جھنڈا تو نہیں تھا ان کے پاس، لیکن انہوں نے پھر بھی اتحاد کو ہی ترجیح دی اور اقوامِ متحدہ کے جھنڈے تلے اکٹھے ہوگئے۔الغرض اقبال جب ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے اس خیال کا اظہار کررہے تھے کہ،بِنا ہمارے حصارِ ملت کی اتحادِ وطن نہیں ہے

یعنی ہم مسلمانوں کی قومیت وطن کی بِنا پر نہیں بلکہ مذہب کی بنا پر ہے، تو اس وقت ہمارے پاس کوئی الگ وطن نہیں تھا۔اقبال ہندوستان کے مسلمانوں کو جرمنی میں مقیم یہودیوں کی طرح ہی بے گھر سمجھتے تھے۔چنانچہ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ گھر مل جانے کے بعد یا پاکستان بن چُکنے کے بعد بھی، اقبال یہاں ہوتے اورپھر بھی یہ اعلان کرتے کہ،

بِنا ہمارے حصارِ ملت کی اتحادِ وطن نہیں ہے

کیونکہ اگر پاکستان بن جانے کے بعد بھی اقبال کا یہی اعلان ہوتا تو پاکستان بطوروطن کس طرح قائم رہ سکتاتھا؟

اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے کہ ہماری شناخت کا مسئلہ ابھی تک بُری طرح اُلجھا ہوا ہے۔ اگریہ مسئلہ حل ہوچکاہوتا تو آج پاکستان اس قدر ظالمانہ قومی بے رُخی کا ہرگز شکارنہ ہوتا۔ اور اس مسئلے میں موجود الجھاؤ (کنفیوژن) سے جتنا اِس قوم کا نقصان ہوا ہے، اس کا اندازہ لگانا ممکن ہے اور نہ ہی اس کے ازالے کا بظاہرکوئی امکان دکھائی دیتاہے۔بنگالیوں کی علیحدگی سے لے کر جہاد افغانستان تک ہم نے فقط اِسی ایک بنیادی مسئلے کی وجہ سے بہت بڑے بڑے نقصانات اُٹھائے۔ جہادِ افغانستان کے نتائج کو ہی دیکھ لیں توبخوبی اندازہ ہوجاتاہے کہ کس طرح مسلم قومی شناخت کاشکار ہو کر ہم اس خونریزی کا حصہ بن گئے تھے، جس نے پوری دنیا میں طاقت کے توازن کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ اورپھرجنگ کے اختتام پر ہم نے خود ہی اس مسلم قومی شناخت کو خدا حافظ کہہ دیا اور’’سب سے پہلےپاکستان‘‘ کا نعرہ لگا دیا۔ ہم ستترسال سے کبھی مسلمان تو کبھی پاکستانی قومیت کے درمیان یوں لٹکتے رہے کہ ، نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے، نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم۔

یہ سوال کہ آخر ہم اپنی شناخت کا مسئلہ آج تک حل کیوں نہیں کرپائے، سب سے اہم سوال ہے۔ ہرکسی کی اپنی رائے ہے لیکن میری رائے پہلے بھی یہی تھی اور اب بھی یہی ہے کہ اپنی نسلوں کو اپنی حقیقی تاریخ سے دانستہ ناواقف رکھ کر ہم اس بحران کا شکار ہوئے ہیں۔ میرے مربّی، مشفق اوربہت ہی محترم استاد، جنابِ جلیل عالی نے میرے کل کے مضمون پر صرف ایک شعر کا کمنٹ کیا کہ،

ایک تاریخ حنوطی ہے عجائب گھر میں---ایک تاریخ لہو بِیچ رواں رہتی ہے

اوراستادِ محترم نے یہ شعر میری تحریر میں موجود ان تاریخی اجزأ کی وجہ سے لکھا جن میں مَیں نے راجہ پورس، پانینی، پتن جلی وغیرہ کا ذکرکرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ یہ اور اس طرح دیگر بہت سے نام اِس خطے کی اوّلین تاریخ کے نہایت اہم کردار ہیں، جن سے ہمیں ناآشنا رکھا گیا۔ عالی صاحب گزشتہ ساٹھ سال سے ہماری تہذیبی شناخت کے مسئلے پر نہ صرف لکھ اور بول رہے ہیں بلکہ اپنے نظریات میں نہایت واضح استدلال بھی رکھتے ہیں۔ اس موضوع پر عالی صاحب کا مؤقف اُن کے اپنے الفاظ میں کچھ یوں ہے،

’’ توحید و رسالت کو مسلم قومیت کی بنیاد بنانے پر معترضین کی طرف سے سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اگر دنیا کے تمام مسلمان ایک قومیت سے تعلق رکھتے ہیں تو پھر الگ الگ مسلم ریاستوں کے وجود کا کیا جواز ہے؟اس سوال کا افکارِ اقبال کی روشنی میں جواب یہ ہو گا کہ دنیا کی تمام مسلم ریاستوں کے عوام ایک اسلامی قومیت سے وابستہ ہوتے ہوئے اسلام اور مختلف خطوں کی مقامی روایات کے تال میل سے تشکیل پانے والی متنوع وحدتوں کی نمائندگی بھی کرتے ہیں جن کے تشخص کا غالب داخلی و خارجی تہذیبی عنصر اسلام ہی رہتا ہے ۔‘‘ یوں گویا عالی صاحب کا مؤقف یہ ہے کہ پاکستان میں ہماری قومی شناخت، ’’پاکستانی مسلمان‘‘ کی شناخت ہے۔ یعنی عالی صاحب کے نزدیک اِن دو اصطلاحات کو الگ الگ کرکے دیکھناہی غلط ہے۔ یوں کہناغلط ہے کہ یا تو ہم پاکستانی ہیں اور یا ہم مسلمان ہیں۔ صرف یہ کہنا درست ہے کہ ہم ’’پاکستانی مسلمان‘‘ ہیں اور یہی ہماری قومی شناخت ہے۔ یہ ایک نہایت خوبصورت اور متوازن رائے ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اِس رائے سے ہماری شناخت کے مسئلے کا بنیادی الجھاؤ سلجھ جاتاہے؟ اورکیا بطور’’پاکستانی مسلمان‘‘ ہماری شناخت کا تعین ہوجانے کے بعد اِس خطے کی تاریخ کا مطالعہ غیرضروری ہوجاتاہے؟ عالی صاحب کا جواب یقیناً یہ ہوگا کہ، نہیں۔ کیونکہ اِس شناخت میں لفظ ’’پاکستانی‘‘ بھی موجود ہے اور اس لیے اِس خطے کی تاریخ کا مطالعہ بھی ضرور ہونا چاہیے۔ اورمیری رائے میں یہی وہ کمی رہ گئی ہے جسے ہم پورا نہیں کرسکے۔ یعنی ہم نے ’’پاکستانی مسلمان‘‘ ہوتے ہوئے بھی اس خطے کی تاریخ کا مطالعہ غیر ضروری جانا اور اسے نظرانداز کردیا۔

پھر بات صرف تاریخ کے مطالعہ کی ہوتی تو ہم شایداِسے نہ پڑھانے کی تھوڑی بہت گنجائش شاید پیدا کرلیتے ۔ بات صرف تاریخ کے مطالعہ پر موقوف نہیں ہے، بلکہ تاریخِ تمدن،زبان، ثقافت،رسم و رواج اورخاص طورپر معاشی وسائل کا وہ مطالعہ جو ایک پاکستانی کے لیے ضروری تھا، ہم اس سے بھی کلیتاً محروم رہ گئے۔ میں صرف ایک مثال سے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرونگا، کیونکہ مجھے اپنے آئندہ مضامین میں بہت سی مثالیں پیش کرنی ہیں اورمیں نہیں چاہتا کہ جس شے کا جو مقام ہے وہ ساری کی ساری وقت سے پہلے ہی درج کردوں۔صرف ایک مثال دیکھیے!

ہمیں اردولکھنا سکھایاگیا۔ گورمکھی اور ہندی لکھنا نہیں سکھایا گیا۔گورمکھی میں پنجابی اورسرائیکی لکھی جاتی ہے اور ہندی میں ظاہر ہے ہندی لکھی جاتی ہے۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ ہندی اگر بہت گہری نہ ہو تو وہ اردو جیسی ہی ہوتی ہےاورہمیں خوب سمجھ آتی ہے۔ ہندوستان کی کل آبادی ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ ہے، جبکہ ہماری آبادی چوبیس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ ہندوستان میں بڑے بڑے سائنسدان بھی پیدا ہوئے ہیں اور نہایت قابل مؤرخین، فلسفی، سماجیات کے ماہرین اور دیگر علوم کے نہایت قدآور علمأبھی پیدا ہوئے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ اب تک ہندوستان میں کتنی ایسی علمی کتابیں لکھی گئی ہوں گی جو ہم بالکل ہی نہیں پڑھ سکتے کیونکہ ہم ہندی رسم الخط میں لکھی ہوئی کوئی چیز نہیں پڑھ سکتے۔ ہم دُور یورپ سے آئی ہوئی، انگریزی کی کتابیں تو پڑھ سکتے ہیں لیکن گورمکھی اور ہندی میں لکھی ہوئی کتابیں بالکل نہیں پڑھ سکتے۔ ذرا اندازہ لگا کر بتایے کہ گورمکھی یا ہندی لکھنا اور ان رسوم الخط میں لکھا ہوا پڑھنا ، کتنا مشکل کام ہوگا۔ ہم ہندی میں لکھا ہوا پڑھتے تو لکھی ہوئی بات کو آسانی سے سمجھ لیتے اور کوئی علیحدہ بولی سیکھنا لازمی نہ ہوتا، اس لیے فقط تین سے چھ ماہ کے ایک چھوٹے سے کورس کے بعد ہم کتنی بڑی بڑی علمی کتابیں پڑھ سکتے تھے، اس پر ذرا غور فرمایےگا اور آج ہمارا ذخیرۂ علم کتنا وسیع ہوتا ، اس پر بھی غورکیجیےگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہندی کا رسم الخط سیکھنا بھی غداری کی کوئی قسم تھی؟ اگر اہلِ پنجاب گورمکھی میں لکھی کتابیں پڑھ لیتے تو کیا ہمارے ایمان میں کچھ خلل آجاتا؟ رسولِ اطہرصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تو جنگی قیدیوں کی سزائے موت محض اس وجہ سے ختم کردی تھی کہ وہ مدینہ کے اَن پڑھ شہریوں کو لکھنا سکھاسکتےتھے، اور یہی ان کی معافی کی واحد شرط رکھی گئی تھی۔

یہ فقط ایک مثال ہے، اور آپ یقین کیجیے، میرا ذہن ایسی مثالوں سے سرتاسر بھرا ہواہے، جو میں آنے والے مضامین میں آپ کے سامنے پیش کرونگا۔اب اس مثال کا تعلق تو مطالعۂ تاریخ سے ہرگز نہیں ہے۔یہ تو ہمارے خطے کی اُن مہارتوں میں سے ایک مہارت کا ذکرہے جو صدیوں سے یہاں رائج ہیں اور ان کا سیکھنا ہمارے لیے گویا فرض ہونا چاہیے تھا۔بہرحال میرا یہی خیال ہے کہ شناخت کا مسئلہ اس وقت تک حل ہو ہی نہیں سکتا جب تک ہمیں اور ہماری آئندہ نسلوں کو یہ نہ بتایا جائے کہ وہ جس خطے میں مقیم ہیں اس کی آب و ہوا کے تقاضے کیا کیا ہیں؟ اور مجھے دور دور تک ایسی کوئی اُمید کی کرن نظر نہیں آتی کہ کبھی ہم اپنی مٹی سے باخبر ہونے کا کوئی ارادہ کرینگے۔ ہمیں امریکہ کی تاریخ کا تو بخوبی علم ہے۔ یورپ کی تاریخ، عرب کی تاریخ، ایران اور افغانستان کی تاریخ اور پھر ان غیرممالک کے علوم وفنون وغیرہ سے ہم اچھی طرح سے واقف ہیں۔ لیکن ہمیں خود اپنی مٹی کی تاریخ کا مطلَق علم نہیں۔ نہ ہی اپنے پڑوسیوں کا کچھ علم ہے۔ کتنے لوگ بنگلہ دیش کے بارے میں جانتے ہیں اور کتنے لوگ چینی علوم،زبان، روایات وغیرہ سے باخبر ہیں؟

کچھ لوگوں نے میرے گزشتہ مضمون پر لکھا کہ آپ کو قدم بقدم پیچھے جاتے ہوئے اتنا پیچھے جانا چاہیے کہ بالآخر ہم ’’دراوڑ‘‘ اقوام تک جاپہنچیں اور سندھ کی قدیم تہذیب کے کھنڈرات میں سے اپنے لیے کوئی شناخت ڈھونڈ لائیں۔ میری رائے میں یہ دوسری انتہأ ہے۔ ہم اتنا زیادہ پیچھے نہیں جاسکتے کیونکہ اتنا پیچھے جانا ہے تو پھر اس سے بھی پیچھے جانے میں کون سی منطق مانع ہے؟ آرکیالوجی کے مطابق تو یہاں کے باشندے فی الاصل افریقہ سے آئے ہوئے ہومواریکٹس ہیں۔ عالی صاحب کا شعر جس میں ’’ایک تاریخ حنوطی ہے عجائب گھرمیں‘‘ کہا گیاہے، یقیناً اسی غلطی سے روکنے کے لیے بہت مناسب ہے۔ ہم آریاؤں سے پہلے کے ہندوستان کو نہیں اپنا سکتے، کیونکہ ہماری جینیالوجی بھی اب وہ نہیں رہی۔ اس سلسلے میں بھی میں صرف ایک مثال دے کر آگے بڑھناچاہتاہوں۔

پشتون قبائل آج ہمارے خطے کی ایک بڑی آبادی ہیں۔ اور اس میں اب کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ پشتون قبائل فی الاصل بنی اسرائیل کا ایک بچھڑا ہوا قافلہ تھے جو افغانستان اور پاکستان کے علاقوں میں آبسے۔ اب تو اس پر مبسوط کتابیں اور ڈاکومینٹریاں بھی دستیاب ہیں، تاہم یہ بات بہت پہلے بھی لوگ جانتے تھے۔ خود اقبال نے کئی جگہ لکھا ہے کہ پشتون قبائل بنیادی طورپر بنی اسرائیل میں سے ہیں۔ اقبال نے اپنے مضمون قومی زندگی میں جہاں یہودی قومیت کا اختصاص کے ساتھ تذکرہ کیا وہاں یہ جملہ بھی موجود ہے کہ،’’اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قوم (یعنی بنی اسرائیل ) کی ایک شاخ یعنی قومِ افاغنہ ایشیا کے ایک کوہستانی حصے میں آزاد حکومت کررہی ہے، تاہم قوموں کے عروج و زوال کے اسباب پر غور کرنے والےاس بات کو جانتے ہیں کہ اگر افغانوں نے موجودہ انقلاب کے مفہوم کو نہ سمجھا اور اپنی آزاد حکومت سے تمدنی فوائد نہ اٹھائےتو یقیناً ان کا حال وہی ہوگا جو وسطِ ایشیا کی موجودہ قوموں کا ہورہاہے۔‘‘

اقبال نے اور کچھ مقامات پر بھی یہ لکھاہے لیکن میں اس سے زیادہ حوالے اس بات پر نہیں دینا چاہتا۔ میرا مدعا صرف اتنا سا ہے کہ ہمیں ہزاروں سال پیچھے جاکر اپنے لیے دراوڑشناخت نہیں ڈھونڈنی چاہیے۔ کیونکہ اس استدلال کی بنا پر تو پھر پختونخوا کے باشندوں کو بھی ہزاروں سال پیچھے جاکر اپنے لیے یہودی شناخت کو ڈھونڈنا چاہیے۔ شناخت کی تلاش کا یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔

چنانچہ گزشتہ دو مضامین میں مَیں نے جو مؤقف اختیار کیاتھا کہ ہم قدم بقدم پیچھے کا سفر کرتے جائیں گے اور ساتھ کے ساتھ ہم بغوردیکھتے جائیں گے کہ ہم لوگ جو اس وقت پاکستان میں آباد ہیں، تاریخی، جغرافیائی،ثقافتی اعتبارسے کون لوگ ہیں؟ اتنا تو اب سب کو ہی معلوم ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے ہم ہندوستانی مسلمان تھے۔ اس پر اقبال اورقائداعظم پورے شرح صدر کے ساتھ مطمئن تھے کہ ہندوستانی مسلمان ہونا ایک الگ قومیت ہے۔ یہی بات ہی تو دوقومی نظریہ کی بنیاد بنی تھی۔ لیکن پاکستان بن جانے کے بعد چونکہ اس مسئلے کو جان بوجھ کر الجھا دیا گیا تواس لیے ہم بُری طرح سے گمراہ ہوگئے۔ نہ ہی ہمیں اپنا آغازِ سفر یاد رہا اور نہ ہی ہم یہ جان سکے کہ ہماری منزل کون سی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اس موضوع پر ازسرنو لکھنا شروع کیا ہے تاکہ ہم کم ازکم آنے والی نسلوں کے سامنے اصل صورتحال تو واضح کرسکیں۔

گزشتہ مضمون میں جب ہم ایک قدم پیچھے گئے تھے تو ہم نے دیکھا کہ اقبال اور مولانا مدنی کے درمیان قومیت کے مسئلے پر مباحثہ چل رہاتھا۔ جو اقبال کی وفات پر اچانک ختم ہوگیا۔ اقبال کی وفات کے بعد مولانا مدنی نے البتہ ایک مبسوط تحریر ’’متحدہ قومیت اوراسلام‘‘ کے نام سے پیش کی، جو اب بھی کتابی شکل میں دستیاب ہے۔ مولانا مدنی اورمولانا ابولکلام آزاد کے علاوہ دیگر بہت سے مذہبی رہنما بھی، بالخصوص جمعیت علمائے ہند کے سارے علمأ، اقبال کے مؤقف کو تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔ لیکن یہی علما اور ان کے بہت سے شاگرد، جب پاکستان بن گیا تو یکایک ، کم ازکم پاکستان کی حدود کے اندر، اپنے مؤقف سے گویا دستبردار ہوگئے۔ وہ اِس طرح کہ پاکستان بن جانے کے بعد جن لوگوں نے اِس ملک کو اسلامی ریاست بنانے کے حق میں بڑی بڑی تحریکوں کا آغاز کیا وہ جمعیت علمائے اسلام کے لوگ تھے، اور جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے ہند کی پاکستانی شاخ تھی۔ وہ اپنی تقریروں اور مضامین میں اُسی اقبال کے اشعار کوٹ کرنے لگے جس اقبال سے انہیں نفرت تھی۔ اسی نظریۂ قومیت کو بار بار دہرانے لگے جس کے خلاف انہوں نے ہندوستان میں مسلم لیگ کے زعما کی ناک میں دم کررکھا تھا۔ جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا مفتی محمود جومولانا فضل الرحمان کے والد تھے، تحریک نظامِ مصطفیٰ کے امیرتھے اور یہ تحریک پاکستان کو ایک اسلامی ریاست میں ڈھالنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگاچکی تھی۔ اس سے قبل اگرچہ قراردادِ مقاصد پیش کی جاچکی تھی، اور پہلی اسمبلی نے اسے منظوربھی کیاتھا، لیکن پھر بھی وہ ہمارے آئین کا قابل نفاذ حصہ نہیں تھی، بلکہ صرف ایک قرارداد تھی۔ زیادہ سے زیادہ آئین کے دیباچے کا کام کرتی تھی۔ لیکن قراردادِ مقاصد کو قومی اتحاد یعنی مولانا مفتی محمود کی تحریکِ نظامِ مصطفیٰ کے نتیجے میں بالآخر 2 مارچ 1985کو جنرل ضیالحق کے ایک صدارتی آرڈینینس کے ذریعے آئین کا قابلِ نفاذ حصہ بنا دیاگیا، نہ کہ اسمبلی میں جمہوری طریقے سے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس قومی اتحاد میں جماعتِ اسلامی بھی شامل تھی جس کے سربراہ میاں طفیل تھے۔ آئین میں کی جانے والی اس ترمیم کو جو ضیالحق کے صدارتی آرڈینینس سے عمل میں لائی گئی، آٹھویں ترمیم بھی کہاجاتاہے۔نواب لیاقت علی خان نے جب قراردادِ مقاصد دستورساز اسمبلی کےسامنے پیش کی تو اس پر بڑی بحث ہوئی تھی۔ اردوڈائجسٹ کے مدیراعلیٰ الطاف حسن قریشی نے سردارعبدالرّب نشتر کی وفات کے موقعے پر لکھاکہ اس قرارداد کو پیش کرنے کے حوالے سے وزیراعظم لیاقت علی خان پر اپنے ساتھیوں کا بڑادباؤ تھا۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے ادبی جریدے ’’ادبیات‘‘ کے بانی ایڈیٹرفاروق عادل نے جب ایک موقع پر الطاف حسن قریشی سے سوال کیا کہ وہ کون لوگ تھے جو لیاقت علی خان پر دباؤ ڈال رہے تھے تو انہوں نے جواب دیا کہ،’’دو طرح کے لوگ تھے۔ ایک وہ جن کا تعلق مسلم لیگ کی جدوجہد سے نہیں تھا اور پاکستان بنتا دیکھ کر آخری مرحلے پر مسلم لیگ کا حصہ بنے۔ ان میں فیروز خان نون اور خان عبد القیوم خان جیسے راہنما شامل تھے۔ دوسرا طبقہ مغربی تعلیم یافتہ راہنماؤں پر مشتمل تھا۔ اس طبقے کی قیادت میاں ممتاز محمد خان دولتانہ اور ان کے ہم خیال راہنما کر رہے تھے۔‘‘ اس بات سے یہ عیاں ہوجاتاہے کہ وہ لوگ جن کا تعلق مسلم لیگ کی جدوجہد سے نہیں تھا، وہی پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ یہ بالکل ویسے ہے جیسے جماعتِ اسلامی، تحریکِ پاکستان کا حصہ تو نہیں تھی لیکن پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے میں ہمیشہ پیش پیش رہی۔ خود بانی جماعتِ اسلامی، مولانا مودودی نے نومبر1963 کے ترجمان القران میں لکھا ہے کہ،

’’ہم کھُلے بندوں اعتراف کرتے ہیں کہ تقسیم ِ مُلک کی جنگ سے ہم غیر متعلق رہے۔ اِس کارکردگی کا سہرا صِرف مسلم لیگ کے سر باندھتے ہیں اور اِس مَیدان میں کسی بھی حِصّے کا اپنے آپ کو دعویدار نہیں سمجھتے“۔

حالانکہ 1949میں جب قراردادِ مقاصد منظورہوئی تو جماعتِ اسلامی نے ایک پمفلٹ شائع کرکے تقسیم کیا جس میں لکھا تھا کہ،’’قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد جب ہماری ریاست اپنی دستوری زبان سے اس بات کا اقرار کر چکی ہے کہ حاکمیت اللہ کے لیے ہے اور ریاست کا پبلک لا، جمہوریت، آزادی، معاشرتی انصاف اور رواداری کے (اُن) اصولوں پر مبنی ہوگا جو اسلام نے مقرر کیے ہیں اور ریاست کا کام یہ ہو گا کہ وہ مسلمانوں کو اس قابل بنائے کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق منظم کریں تو اس قرارداد کے بعد یہ ریاست اصولاً ایک اسلامی ریاست بن چکی ہے اور اس کے بعد وہ دستوری رکاوٹیں از خود ختم ہو چکی ہیں جو سابق کافرانہ نظام میں شریعت کی طرف سے ہم پر عائد ہوتی تھیں‘‘۔

ان بیانات سے فقط یہ دکھانا مقصود ہے کہ وہ مذہبی طبقہ جو یا تو نظریۂ پاکستان کا مخالف تھا اور یا تحریکِ پاکستان کی جدوجہد سے لاتعلق تھا، پاکستان بن جانے کے بعد ، کس طرح پاکستان کو ایک اسلامی ریاست میں بدلنے کے لیے متحرک ہوگیا تھا۔ ورنہ اگر قائدِ اعظم کی آخری تقریریں دیکھیں تو بالکل واضح ہے کہ وہ پاکستان کو مذہبی ریاست نہیں بنانا چاہتے تھے اور نہ ہی اقبال کا ایسا کوئی پیغام تھا۔بہرحال یہ سب تو پاکستان بن جانے کے بعد ہوا اور ایسی تمام باتیں جو پاکستان بن جانے کے بعد ہوتی رہیں وقتاً فوقتاً ہمارے اِس سلسلۂ مضامین  ميں آتی ہی رہیں گی، لیکن سردست ہمارے سامنے اپنا اصل مدعا ہے۔ کل ہم پاکستان بننے سے فوری پہلے کے ایام میں ہونے والی قومی شناخت کے مباحث کا ذکر کررہے تھے،سو، وہیں سے بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔

حالیہ چودہ اگست پر علامہ اقبال کا ایڈورڈ تھامپسن کو لکھا گیا خط انٹرنیٹ پر مشہورہوا، جس میں اقبال نے تھامپسن کو واضح الفاظ میں لکھاکہ منصوبۂ پاکستان، اُن کا منصوبہ نہیں ہے۔میں نےچند دن پہلے اس پر ایک پوسٹ بھی نشر کی تھی۔اب یہاں اس خط کا متن ایک بار پھر نقل کررہاہوں۔ اقبال نے لکھا،

’’مائی ڈیئر مسٹر تھامپسن!

میری کتاب پر آپ کا تبصرہ ابھی موصول ہوا ہے۔ یہ نہایت اعلیٰ پیرائے کا تبصرہ ہے اور میں ان تمام کلمات خیر کے لیے آپ کا شکر گزار ہوں جو آپ نے میرے متعلق کہے ہیں۔ لیکن آپ سے ایک غلطی سرزد ہوئی ہے جس کی طرف آپ کو فوراً متنبہ کرنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ میرے خیال میں یہ ایک سنگین غلطی ہے۔ آپ مجھے ’’منصوبۂ پاکستان‘‘ کا حامی قرار دیتے ہیں۔اب(بات یہ ہے کہ) پاکستان میرا منصوبہ نہیں ہے۔ میں نے اپنے خطبۂ صدارت میں جو تجویز پیش کی تھی وہ صرف ایک مسلم صوبہ کی تشکیل ہے۔ یعنی ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک ایسا صوبہ جس میں مسلمانوں کی غالب اکثریت ہو۔ یہ نیا صوبہ میرے منصوبہ کے مطابق مجوزہ ہندوستانی فیڈریشن کا ایک حصہ ہوگا۔ جبکہ (اِس نئے) پاکستان کے منصوبے میں ایک جداگانہ وفاق کی تجویز رکھی گئی ہے، جو براہِ راست انگلستان سے مربوط ایک علیحدہ ریاست ہوگی۔ یہ منصوبہ کیمبرج میں پیدا ہوا اوراس کے خالق یہ سمجھتے ہیں کہ ہم راؤنڈٹیبلرز نے مسلم قوم کو ہندوستان کی نام نہاد قومیت کی بھینٹ چڑھادیاہے۔‘‘

اس خط میں اقبال جس خطبۂ صدارت کا ذکرکررہے ہیں وہ اقبال کا مشہورخطبۂ الہ آباد ہے۔ واقعتاً اقبال نے خطبۂ الہ آباد میں ایک مسلم صوبہ تشکیل دینے کی بات کی تھی۔یعنی ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک ایسا صوبہ جس میں مسلمانوں کی غالب اکثریت ہو۔ اوریہ نیا صوبہ اقبال کے منصوبے کے مطابق ہندوستانی وفاق کا ہی حصہ ہوتا۔ لیکن تھامپسن کو لکھے گئے اس خط کے تین سال بعد اقبال جب قائدِ اعظم کو خطوط لکھ رہے تھے تو اس وقت اقبال نے نہایت واضح الفاظ میں مسلمانوں کے لیے ایک آزاد ریاست کے مطالبے کی تجویز پیش کی تھی۔اقبال کے الفاظ تھے کہ،

’’ اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظام قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہر شخص کے لیے کم از کم حقِّ معاش محفوظ ہو جاتا ہے لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقاء ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر اس ملک میں ناممکن ہے۔ سالہا سال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہے اور اب بھی میرا ایمان ہے کہ مسلمانوں کی غربت (روٹی کا مسئلہ ) اور ہندوستان میں امن و امان کا قیام اسی سے حل ہوسکتا ہے۔‘‘

یہ خطوط جو اقبال نے قائدِ اعظم کو لکھے، اس خط ، یعنی تھامپسن کو لکھے گئے خط کے مندرجات کی ایک لحاظ سے نفی کررہے ہیں۔اس پر مستزاد یہ ہے کہ اقبال نے آزادریاست کے قیام کے حق میں اپنے الفاظ کے ساتھ اس جملے کا بھی اضافہ کیا کہ،

’’ سالہا سال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہے اور اب بھی میرا ایمان ہے کہ مسلمانوں کی غربت (روٹی کا مسئلہ ) اور ہندوستان میں امن و امان کا قیام اسی سے حل ہوسکتا ہے۔‘‘

یعنی اقبال کے ذہن میں سالہاسال سے آزاد ریاست کے قیام کا خیال موجود تھا۔اگر ایسا ہے توپھر تھامپسن کو لکھے گئے خط میں اقبال کا یہ کہنا کہ پاکستان کا منصوبہ میرا منصوبہ نہیں ہے، سمجھ سے باہر ہے۔البتہ تھامپسن کے خط میں اقبال نے یہ بھی لکھا کہ پاکستان کا وہ منصوبہ جو کیمبرج میں تیار ہوا ہے، اس کے مطابق پاکستان کا مرکز انگلینڈ میں ہوگا۔شاید اس بنا پر اقبال نے اس منصوبے کو اپنا منصوبہ کہنے سے انکار کیا ہو۔ لیکن چونکہ بعد میں اقبال نے آزاد مسلم ریاست کے قیام کا واضح عندیہ دیا تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ قائدِ اعظم کے پاکستان کا منصوبہ اقبال کا منصوبہ نہیں تھا۔خود قائدِ اعظم نے بھی جب اقبال کے خطوط شائع کروائے تو ان کے دیباچے میں لکھا کہ،’’میں سمجھتا ہوں کہ یہ خطوط عظیم تاریخی اہمیت کے حامل ہیں، خصوصاً وہ جومسلم انڈیا کے سیاسی مستقبل کے بارے میں ان کے نظریات کو واضح اور غیر مبہم طور پر بیان کرتے ہیں۔ ان کے نظریات بہت حد تک میرے اپنے نظریات سے ہم آہنگ تھے لہٰذا انڈیا جن مسائل سے گزر رہا تھا ان کا احتیاط سے جائزہ لینے اور ان کے مطالعے کے بعد آخر کار انھوں نے مجھے انہی نتائج تک پہنچنے میں راہنمائی کی اور وہی چلتے چلتے مسلم انڈیا کی متحدہ خواہش کی صورت میں 23مارچ1940 کی آل انڈیا مسلم لیگ کی قرار داد لاہور میں ظاہر ہوئے جسے مقبول طور پر ’’قرارداد پاکستان‘‘ کہا جاتا ہے۔ (ایم۔اے۔جناح)‘‘

نوٹ: یہاں میری طرف سے یہ عرض ضروری ہے کہ اُوپر اقبال کے خط کے اقتباس میں ’’ شریعت اسلام کے نفاذ اور ارتقاء‘‘ کے الفاظ سے اس غلطی فہمی کا احتمال ہے کہ اقبال بھی شاید اپنی مجوزہ آزاد ریاست کو ایک مذہبی ریاست ہی بنانا چاہتے تھے۔میری طرف سے یہ عرض ہے کہ اصل انگریزی خط میں ’’ڈیولپمنٹ اِن شریعہ‘‘ کے الفاظ ہیں، جو نہایت اہم ہیں اور اسی ڈیولپمنٹ اِن شریعہ کی تفصیل پر اقبال کی ایک پوری کتاب، ’’دی ری کنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ اِن اسلام‘‘ موجود ہے۔ اِسی سلسلۂ مضامین میں سب سے اہم اور سب سے بنیادی چیز جو میں نے آپ لوگوں کے سامنے رکھنی ہے وہ ہے اقبال کا نظریۂ روحانی جمہوریت، جو اقبال کی ’’ڈیولپمنٹ اِن شریعہ‘‘ کی رُوح ہے۔ لیکن یہ سارا موضوع اس سے اگلے مضمون یا اُس سے اگلے مضمون میں آئےگا، تب تک اس نکتے پر صبر سے انتظارفرمایےگا۔

سو، جیسا کہ میں نے تھامپسن کو لکھے گئے اقبال کے خط سے متعلق اپنی گزشتہ پوسٹ میں لکھا تھا کہ دراصل اقبال کی وفات کے بعد قائدِ اعظم بالکل اکیلے ہوگئے تھے اور ان کے اطراف میں مسلم لیگ کے وہی لوگ جو نواب اور سردار تھے یا طبقۂ امرأ سے تھے اور غریبوں کے ہرگز نمائندہ نہیں تھے، بکثرت جمع ہوگئے تھے ۔ یہی وہ لوگ تھے جن سے اقبال ، قائدِ اعظم کو گاہے بگاہے منتبہ کرتے رہے تھے۔ مثلاً اسی خط میں جو میں نے اوپر دیا، اقبال کے مندرجہ ذیل الفاظ بھی موجود ہیں۔ ذرا ملاحظہ کیجیے!

’’ مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ مسلم لیگ کے دستور اور پروگرام میں جن تبدیلیوں کے متعلق میں نے تحریر کیا تھا وہ آپ کے پیش نظر رہیں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانانِ ہند کی نازک صورت حال کا آپ کو پورا پورا احساس ہے۔ مسلم لیگ کو آخر کار یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے بالائی طبقوں کی ایک جماعت بنی رہے گی یا مسلم جمہور کی، جنھوں نے اب تک بعض معقول وجوہ کی بنا پر اس (مسلم لیگ) میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ کوئی سیاسی تنظیم جو عام مسلمانوں کی حالت سدھارنے کی ضامن نہ ہو، ہمارے عوام کے لیے باعث کشش نہیں ہوسکتی۔‘‘

یہاں ذراغورکیجیے! ’’مسلم لیگ کو آخر کار یہ فیصلہ کرنا پڑےگا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے ’’بالائی طبقوں‘‘ کی ایک جماعت بنی رہے گی یا مسلم جمہور کی‘‘۔ یہی وہ بالائی طبقہ ہے جو بنگال میں تو کم، لیکن پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان میں بکثرت پایا جاتا تھا۔ یہ جاگیردار اورسردارلوگ تھے۔ عوام سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ جب انگریز کی حکومت تھی تو ان میں سے زیادہ تر مخدوم ، سید، وڈیرے، نواب اورجاگیردار انگریز کے بہی خواہ اور نمک خوار تھے۔ چنانچہ یہ لوگ 1947 میں جب قائدِ اعظم کے چاروں طرف بکثرت جمع ہوگئے تو قائدِ اعظم کو بھی بہت جلد احساس ہوگیا کہ پاکستان کا پروگرام ہائی جیک ہونے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے متعدد مواقع پر فوج کو سیاسی معاملات سے دور رہنے کی ہدایت کی اور ان سرداروں کو موقع بموقع ڈانٹا اور غیر جمہوری حرکتوں سے منع کیا۔ الغرض قائد اعظم اِن نوابوں اور سرداروں سے قطعاً خوش نہیں تھے۔

میاں عبدالعزیز مالواڈہ علامہ اقبال اورقائدِ اعظم کےرفقأ میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ایک موقع پر قائدِ اعظم نے میاں عبدالعزیز سے مخاطب ہوکر کہا، ’’میری جیب میں کھوٹے سکّے ہیں، میں اِن کا کیا کروں؟‘‘۔ یہ وہی کھوٹے سکّے ہیں جوپاکستان بننے کے بعدقائدِاعظم کے اردگرد جمع ہوگئے تھےاورجن کا میں نے اوپرذکرکیا۔یقیناً کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو قائدِ اعظم اور پاکستان کے آخرتک مخلص تھے، خصوصاً سردارعبدالرّب نشتراورنواب لیاقت علی خان یا محترمہ فاطمہ جناح وغیرہ، لیکن جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا کہ وہ لوگ جو نظریۂ پاکستان کے بنیادی طورپر مخالفین تھے، جیسا کہ دیوبندی علمأ یا وہ لوگ جو تحریکِ پاکستان سے لاتعلق تھے جیسا کہ مولانا مودودی اور اُن کی جماعتِ اسلامی، یا وہ لوگ جو پاکستان بنتا دیکھ کر اس تحریک میں نئے نئے شامل ہوئے تھے ، جیسا کہ فیروز خان نون، سردارعبدالقیوم خان وغیرہ، یہ لوگ نہ تو اصلی اقبالیَن تھے اور نہ ہی اصلی قائدیَن۔ اوریہی لوگ تھے جنہوں نے پاکستان بن جانے کے بعد پورازورلگا کر اس مُلک کو ایک مذہبی ریاست میں تبدیل کیا۔