دين و دانش
صحاح ستہ كى اصطلاح
ڈاكٹر محمد اكرم ندوى - آكسفورڈ
ميں نے كسى سوال كے جواب ميں حديث "ثلاث جِدُّهن …" كى تحقيق پيش كى تهى، جس سے بہت سے لوگوں كو فائده ہوا، اسى سياق ميں مولانا اظہر ندوی بھوپال نے درج ذيل استفسار كيا:تحریر بالا سے تو صحاح کا اعتماد بھی ختم ہوتا جا رہا ہے، جب منکر اور ضعیف اور نا قابل استدلال روایت ہے تو ابو داؤد و ابن ماجہ میں کیونکر مذکور ہے؟ مزید یہ کہ نا قابل استدلال روایت کو فقہائے احناف نے کیوں موضوع بحث بنایا اور مسائل کا استخراج کیا؟بات بالکل بھی ہضم نہیں ہو رہی ہے، اس گتھی کو عالی جناب سلجھا دیں تو بہتر ہوگا. (بندہ اظہر ندوی – بھوپال)
جواب:آپ كے سوال سے بڑى خوشى ہوئى. اہل علم پر فرض ہے كہ كسى بات كو اس وقت تک نہ مانيں جب تک اس كى صداقت پر اطمينان نہ ہوجائے. آپ كے اسى تحقيقى جذبے كى قدر كرتے ہوئے يہ سطريں تحرير كى جا رہى ہيں، اميد ہے كہ ان سے مسئلے كو سمجهنے ميں مدد ملے گى.
حديث كى چھ بنيادى كتابوں (صحيح بخارى، صحيح مسلم، سنن ابى داؤد، سنن ترمذى، سنن نسائى، اور سنن ابن ماجه) كو "الكتب الستة"، يا "الأصول الستة" كہا جاتا ہے، يہ دونوں اصطلاحيں زياده رائج ہيں، اور ان ميں كوئى علمى اشكال نہيں. بعض حلقوں ميں انہيں "صحاح سته" بهى كہا جاتا رہا ہے. يہ نام بر صغير ميں زياده مشہور ہوا. شاه عبد الحق محدث دہلوى رحمة الله عليه نے بهى اسے استعمال كيا ہے. ان كے علاوه عالم اسلام كے دوسرے بزرگوں سے بهى اس كا استعمال منقول ہے.
سوال يہ ہے كہ كيا ان كتابوں كو صحاح سته كہنے كى كوئى علمى وجہ ہے؟ ان كتابوں كے مصنفين ميں سے صرف دو نے اپنى كتاب كو صحيح كہا ہے؛ ايک امام بخارى رحمة الله عليه جن كى كتاب كا نام ہے "الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه"، اور دوسرے امام مسلم رحمة الله عليه جن كى كتاب كا نام ہے "المسند الصحيح المختصر من السنن بنقل العدل عن العدل عن رسول الله صلى الله عليه وسلم".
امام ابو داؤد، ترمذى، نسائى اور ابن ماجه رحمة الله عليهم نے اپنى كتابوں كو صحيح نہيں كہا ہے.
صحيح ايک اصطلاحى لفظ ہے، شيخين اور كبار محدثين كى اصطلاح كے مطابق صحيح حديث وه ہے جس ميں پانچ شرطيں پائى جائيں:
1- اس كى سند متصل ہو، 2- سند كے تمام راوى اہل عدالت واستقامت ميں سے ہوں، 3- ان راويوں ميں ضبط تام اور اتقان كى صفت موجود ہو، 4- اس حديث ميں شذوذ نہ ہو، 5- اور نہ اس ميں كوئى علت خفيہ قادحہ ہو.
ان پانچوں شرطوں كى وضاحت مصطلحات اور اصول حديث کی كتابوں ميں موجود ہے. ميں نے اپنى كتابوں “تمھيد علم الحديث”، “مدخل رائع إلى صحيح البخاري وما فيه من أسرار وصنائع” اور مقدمۂ صحيح مسلم ميں ان پر تفصيلى كلام كيا ہے، ان كى طرف رجوع كرنے سے ان شرطوں كے اطلاقات سمجهنے ميں مدد ملے گى.
ان پانچوں شرطوں كا التزام صرف شيخين نے كيا ہے، سنن اربعه كے مصنفين نے نہيں كيا ہے. امام ابو داؤد نے اہلِ مكہ كو ايک خط لكها جس ميں اپنى كتاب كى حديثوں كے درجات پر روشنى ڈالى ہے، اس ميں اس كا بهى اعتراف ہے كہ ميرى كتاب ميں بعض منكر احاديث ہيں. چنانچہ لكهتے ہيں: "وإذا كان فيه حديث منكر بينت أنه منكر". امام ترمذى كى كتاب كے نام ہى سے معلوم ہوجاتا ہے كہ يہ "صحيح" نہيں ہے، ان كى كتاب كا نام ہے: "الجامع المختصر من السنن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعرفة الصحيح والمعلول وما عليه العمل". امام ترمذى اپنى كتاب ميں حديثوں پر حكم بهى لگاتے ہيں، ان احكام پر سرسرى نظر سے واضح ہوجائے گا كہ اس كتاب ميں ہر درجے كى حديثيں ہيں. سنن نسائى ميں بهى ضعيف، معلل اور منكر احاديث ہيں. ان ميں سب سے زياده كمزور كتاب سنن ابن ماجہ ہے، امام ذہبى فرماتے ہيں كہ سنن ابن ماجہ ميں تقريباً ايک ہزار حديثيں ہيں جو ناقابلِ احتجاج ہيں.
پهر ان كتابوں كو صحاح كس لیے كہا گيا؟ كچھ لوگ اس كا جواب ديتے ہيں كہ ايسا تغليبًا كہا گيا ہے. كيونكہ ان كى اكثر حديثيں صحيح ہيں. يہ بات درست ہے. اس ميں شک نہيں كہ ان كتابوں كى اكثر حديثيں صحيح يا كم از كم حسن ضرور ہيں، پهر بهى انہيں صحيح كہنے سے اجتناب اولىٰ ہے، كيونكہ اس سے غلط فہمى پيدا ہوتى ہے.
ان كتابوں كے انتخاب كى وجہ كيا ہے؟ اس سوال كا جواب كسى اور وقت ديا جائے گا، البتہ يہاں بعض مثالوں سے واضح كيا جائے گا كہ سنن كى كتابيں "صحيح" نہيں ہيں.سنن كى كتابوں ميں سب سے زياده محفوظ سنن نسائى ہے، اس ميں بهى منكر اور معلل احاديث ہيں. ان ميں سے اكثر كى علت خود امام نسائى نے بيان كردى ہے. علل احاديث جاننے كا يہ ايک اہم مرجع ہے. سنن ترمذى ميں صحيح، حسن، ضعيف، معلل، منكر ہر طرح كى حديثيں ہيں. ان ميں سے بہت سى حديثوں كى علتيں امام ترمذى نے خود بيان كردى ہيں، ان پر نگاه ڈالنے سے بات واضح ہو جائے گى. اسى لیے ان دونوں كتابوں كى كوئى مثال دينے كى ضرورت نہيں.سنن ابى داؤد ميں بعض حديثيں ضعيف ہى نہيں بلكہ منكر بهى ہيں، اس كا اعتراف خود امام ابو داؤد كو ہے جيسا كہ اوپر گزرا. محققين كے نزديک اس كتاب ميں ايک موضوع حديث بهى ہے. امام ابو داؤد كتاب الخَراج، باب في اتّخاذ الكاتب ميں فرماتے ہيں: حدثنا قتيبة بن سعيد، ثنا نوح بن قيس عن يزيد بن كعب عن عمرو بن مالک عن أبي الجوزاء عن ابن عباس قال: السجل كاتب كان للنبي صلى الله عليه وسلم. حافظ ابن القيم "تهذيب السنن" ميں امام ابن تيميہ كے واسطے سے نقل كرتے ہيں كہ يه حديث موضوع ہے، نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كا سجل نامى كوئى كاتب نہيں تها، بلكہ صحابۂ كرام ميں اس نام كے كسى شخص كا وجود نہيں. امام ابو الحجاج مِزّى نے بهى اس بات ميں امام ابن تيميہ كى تائيد كى ہے.
سنن ابن ماجہ ميں منكر اور موضوع حديثيں كثرت سے ہيں. موضوع حديث كى ايک مثال پر اكتفا كى جاتى ہے. امام ابن ماجہ كتاب الجهاد، باب ذكر الديلم وفضل قزوين ميں فرماتے ہيں: حدثنا إسماعيل بن أسد حدثنا داود بن المحبر أنبأنا الربيع بن صبيح عن يزيد بن أبان عن أنس بن مالك قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ستفتح عليكم الآفاق وستفتح عليكم مدينة يقال لها قزوين من رابط فيها أربعين يوما أو أربعين ليلة كان له في الجنة عمود من ذهب عليه زبرجدة خضراء عليها قبة من ياقوتة حمراء لها سبعون ألف مصراع من ذهب على كل مصراع زوجة من الحور العين.
امام ابن الجوزى كتاب الموضوعات ميں فرماتے ہيں: "هذا حديث موضوع بلا شك فيه". امام ذهبى فرماتے ہيں: "لقد شان ابن ماجه سننه بإدخال هذا الحديث الموضوع فيها".
رہا يہ سوال كہ فقہاء نے كمزور اور منكر احاديث سے كيوں استدلال كيا؟ تو اس كا جواب نہايت تفصيل طلب ہے، ميں نے اپنے عربى كے مضامين ميں بعض پہلوؤں پر روشنى ڈالى ہے، يہاں صرف ايک بات پر اكتفا كروں گا. وه يہ كہ متاخرين فقہاء جن حديثوں كو اپنے ائمہ كا مستدل قرار ديتے ہيں؛ ضرورى نہيں كہ ان ائمہ نے ان حديثوں كا ذكر كيا ہو، ان ائمه كے دلائل كچھ اور ہوتے ہيں. متاخرين يہ دكهانے كے لیے كہ ہمارے دلائل ميں احاديث بهى ہيں كثرت سے سقيم ومنكر احاديث جمع كر ديتے ہيں، اور يہ سوچتے نہيں كہ ايسا كرنے سے وه مسلک كى خدمت نہيں كرتے بلكہ اسے كمزور كرديتے ہيں.
اميد ہے كہ اس تفصيل سے آپ كے شبہات كسى نہ كسى حد تک دور ہوگئے ہوں گے. اصل چيز يہ ہے كہ آپ خود مطالعہ كريں، يہ كتابيں ہر جگہ موجود ہيں. صرف دوره كرنے سے يہ مسائل واضح نہيں ہوں گے. آپ وقت لگائيں، علل ورجال كى كتابوں كى روشنى ميں ہر حديث پر غور كريں. الله تعالى ہم سب پر علم كے دروازے كهولے، اور عمل صالح اور تقوىٰ كى توفيق دے. آمين!