مشاہير اسلام
علامہ اسلم جیرا جپوری صاحب
مولانا اسلم جیرا جپوری عالم اسلام کےممتاز مفکروں اور علماء میں ممتاز مقام رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اسلامی علوم اور تاریخ پر کئی کتابیں تصنیف کیں جو آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں ۔ انہوں نے قرآن اور حدیث کا گہرا مطالعہ کیا اور اپنی مجتہدانہ فکر اور تبحر علمی کی وجہ سے عالم اسلام میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے ۔ وہ اسلام کی تقلید ی نہیں بلکہ جدت نگاہی اور اجتہادی فکر کے علمبردار تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال بھی مولانا جیراجپوری کی بہت عزت کرتے تھے اور بعض اسلامی و دینی مسائل پر ان سے تبادلہ خیالات کرتےتھے ۔
مولانا اسلم جیراجپوری کی پیدائش 27 جنوری 1882ء کو اعظم گڑھ کے قصبہ جیراجپور میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد مولانا سلامت اللہ جیراجپوری خود ایک عالم دین تھے اور اہل حدیث تحریک کا گہوارہ تھا ۔ مولانا جیراجپوری نے ایسے ہی علمی دینی ماحول میں آنکھیں کھولیں اور پرورش پائی ۔ ان کی پیدائش کے بعد نواب صادق خان نے ان کے والد سے درخواست کی کہ وہ مدرسہ واقفیہ بھوپال کا عہدہ صدارت قبول فرمالیں ۔ لہٰذا ، مولانا سلامت جیراجپوری ان کی درخواست پر بھوپال چلے آئے مگر ننھے اسلم جیراجپورہی میں مقیم رہے۔ ان کی پرورش و پرداخت اپنے دادا اور دادی کے سایہ شفقت میں ہوئی۔
مولانا اسلم جیراجپوری کو پانچ برس کی عمر میں مدرسے میں داخل کرایا گیا جہاں انہو ں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ اگلے ہی سال ان کے والد انہیں اور ان کی والدہ کو بھوپال لے آئے جہاں انہیں حفظ قرآن کے لئے بٹھا دیا گیا ۔ حفظ قرآن مکمل کرنےکے بعد انہوں نے عربی، فارسی، ریاضی اور فقہ کی بھی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے قرآن کی تفسیر خود اپنے والد سے پڑھی ۔ اس کے بعد انہوں نے اس زمانے کے رواج کےمطابق تیر اندازی اور فن حرب کی تربیت بھی لی۔
تعلیم مکمل کرنے کے 1903 میں مولانا اسلم جیراجپوری نے روز نامہ پیسہ ، لاہور میں مترجم کی حیثیت سےملازمت اختیار کر لی۔ مگر اگلے ہی سال انہیں اپنے والد کی بيماری کا خط ملا اور وہ اسی وقت بھوپال واپس ہوگئے ۔ اگلے ہی دن ان کے والد کی وفات ہوگئی ۔
1906 ء میں مولانا اسلم جیراجپوری علی گڑھ چلے آئے اور یہاں انہوں نے عربی اور فارسی کے پروفیسر کی حیثیت سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تدریسی خدمات دیں۔ بہر حال ، تقریباً چھ برسوں تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد مولانا محمد علی جوہر کے اصرار پر وہ اے ایم یو چھوڑ کر جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اسلامی تاریخ ، حدیث اور قرآن کے پروفیسر مقرر ہوئے ۔ انہوں نے جامعہ ملیہ کے رسالے جامعہ میں کئی علمی مضامین لکھے ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں وہ اپنی علمیت کی وجہ سے اتنے مشہور ہوگئے تھے کہ صرف مولانا کہہ دینے سے ہی لوگ مولانا اسلم جیراجپوری سمجھ جاتے تھے ۔
مولانا اسلم نے اپنی زندگی میں قرآن اور حدیث کا گہرا مطالعہ کیا اور قرآن کے معانی و مفاہیم پر گہرائی سے غور و خوض کیا ۔ قرآن اور حدیث پر ان کاا پنا مؤقف تھا جس طرح علامہ اقبال اسلام کے بعض مسائل پر اپنا الگ مؤقف رکھتے تھے جس کی وجہ سے وہ تنقید کا نشانہ بنے ۔ مولانا اسلم جیراجپوری بھی علامہ اقبال کی فکر سے متاثر تھے اور اکثر دینی مسائل پر گفتگو کے لئے ان کے دولت کدے پر تشریف لے جاتے تھے ۔ مولانا اسلم جیراجپوری کا بھی قرآن اور حدیث پر اپنا الگ مؤقف تھا جس کا اظہار انہوں نے اپنی تصانیف میں کیا ۔ ذیل میں ان کی تصانیف کا مختصر تعارف پیش ہے۔
تعلیمات قرآن :
اس کتاب میں انہوں نے قرآن کی تعلیمات کو اپنے نقطہ نظر سے پیش کیا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ قرآن اپنے آپ میں مکمل ہے اور قرآن کو قرآن کی ہی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اس کےلئے کسی خارجی وسیلے ( حدیث) کی ضرورت نہیں ۔ ان کے ان افکار سے متاثر ہوکر ادارہ طلوع اسلام کے بانی غلام احمد پرویز نے اپنی کتاب مفہوم القرآن تصنیف کی۔
تاریخ القرآن:
یہ کتاب قرآن کی مفصل تاریخ ہے۔ اس میں قرآن کے نزول کی ابتدا سے لے کر اس کی ترتیب او رکتابی صورت میں ا س کی اشاعت تک اور قرآن سے متعلق دیگر تمام مسائل کا مفصل بیان ہے۔ قرآن کے مطالعہ کے لئے یہ کتاب کافی اہم ہے۔
تاریخ الامت:
مولانا اسلم جیراجپوری کی کتاب تاریخ الامت آٹھ جلدوں میں شائع ہوئی اور یہ ان کی مایہ ناز تصنیف تصور کی جاتی ہے۔ اس کتاب کی تالیف میں مولانا جیراجپوری نے صرف ٹھوس تاریخی شواہد او رعقلی دلائل پر ہی تکیہ کیا ہے اور جذباتی باتوں اور اسطور کو کما حقہ نظر انداز کیا ہے۔
رسالہ محجوب الارث:
اس کتاب میں انہوں نے قرآن اور حدیث کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ یتیم بچوں کو بھی وصیت سے خارج نہیں کیا جاسکتا ۔
نوادرات:
یہ کتاب مولانا جیراجپوری کے مضامین کا مجموعہ ہے۔
فاتح مصر:
اس کتاب میں فاتح مصر عمر بن العاص کی سوانح حیات او رکار نامے ہیں۔
حیات حافظ:
یہ کتاب فارسی کے شاعر شیرازی کی سوانح حیات اور شاعری پرمبنی ہے۔ حیات جامی، عقائد اسلامی، ارکان اسلامی ، تاریخ نجد۔
الوارثہ فی الاسلام:
اس کتاب میں علامہ جیراجپوری نےدلائل کے ساتھ ان تمام احکام شرعیہ کو پیش کیا ہے جو ان کے مطابق حنفی فقہ میں داخل ہوگئے ہیں جب کہ وہ قرآنی احکامات کے خلاف ہیں۔
مولانا اسلم جیراجپوری ہندوستان میں اسلام کی تجدید یا تجدیددین کے زبردست علم بردار تھے او رانہوں نے اسلام میں در آنے والے غیر اسلامی عناصر کی نشاندہی کی۔ وہ تقلید ی فکر کی بجائے عقلیت اور اجتہادی فکر کے حامی تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی مفکر ین کا ایک طبقہ ان سے نالاں ہوگیا اور انہیں منکر حدیث کے زمرے میں ڈال دیا ۔ اپنی تصانیف اور اپنی فکر کی وجہ سے غلام احمد پرویز ، علامہ نیاز فتحپوری کی طرح انہیں بھی منکر حدیث قرار دیا گیا۔
انیسویں صدی میں مسلمانوں کی خلافت کے زوال او رمسلم ممالک پر مغربی ممالک کے تسلط اور غلبے کے نتیجے میں اسلام میں جدیدیت کی تحریک چلی۔ مسلمانوں میں ایسے بہت سے علماء پیدا ہوئے جنہوں نے مسلمانوں کے زوال کو سائنسی علوم میں برتری حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ۔ انہیں عقلیت پسندی اور ماضی کی سنہری یادوں سےباہر نکلنے کا مشورہ دیا گیا ۔ نتیجے میں اسلامی تعلیمات اور قرآن اور حدیث کوبھی عقلی نقطہ نظر سے سمجھنے کی تحریک چلی۔ ان علماء او رمفکرین میں ہندوستان میں علامہ نیاز فتح پوری ، سر سید احمد خان اور مولانااسلم جیراجپوری اہم ہیں۔ حدیث پر اپنے مروجہ مؤقف کی وجہ سے لوگ انہیں اہل قرآن او رمنکر حدیث سمجھنے لگے تھے ۔ انہوں نے حدیث کے متعلق الیوم اکملت لکم دینکم کی تفسیر لکھتے ہوئے مولانا جیراجپوری نے لکھا تھا ۔
‘‘ اس تکمیل کے بعد اب دین میں کیا کمی رہ گئی ہے جو روایتوں سے پوری کی جائے۔ اس لئے روایتوں کی اپنی جگہ تاریخ کی الماری ہے۔ ان سے تاریخی اور علمی فائدے حاصل کئے جاسکتے ہیں اور فقہ اسلامی یعنی قوانین و ضوابط کے استنباط میں کام لیا جاسکتا ہے۔’’
بہر حال، جعفر بلوچ اپنے مضمون ‘‘ علامہ اقبال او رمولانا اسلم جیراجپوری ’’ لکھتے ہیں :
‘‘ شاہ معین الدین احمد ندوی مدیر معارف اعظم گڑھ نے مولانا اسلم جیراجپوری کی وفات پر لکھا تھا ۔ ‘ مرحوم صاحب علم و نظر عالم تھے ۔ اگر چہ ان کی تعلیم پرانے ( تعلیمی نظام) اور پھر اہل حدیث کے ماحول میں ہوئی تھی لیکن وہ بڑے روشن خیال اور زمانہ کے حالات و رجحانات سے باخبر تھے او رکسی سوسائٹی میں اجنبی نہیں معلوم ہوتے تھے ۔ مسلکاً اہل قرآن کی طرف مائل تھے مگر منکرین حدیث کی طرح خالی نہ تھے ۔ سنت متواتر ہ کو مانتے تھے ۔ عملاً دیندار اور طبعاً بڑے سادہ، متواضع اور خلیق تھے ۔’’
مولانا اسلم جیراجپوری خود بھی خود کو کسی زمرے میں دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اختلاف رائے کی بنا پر کسی کو مسلک سے باندھ دینا صحیح نہیں ہے۔ مسلمان ہمیشہ صرف مسلمان ہوتاہے۔ وہ کسی خانے میں بٹا نہیں ہوتا۔ لہٰذا ، وہ جناب عبدالعزیز کمال کو اپنے مکتوب بتاریخ 12 اپریل 1951 کو لکھتے ہیں:
‘‘ میں جماعت اہل قرآن میں سے نہیں ہوں ۔ وہ لوگ عمل متواتر کے قائل نہیں ہیں اور نماز و روزہ وغیرہ کےلئے اپنی اختراعی شکلیں نکالتے ہیں اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو جو امت میں سلسلہ بہ سلسلہ بعد نسل چلے آتے ہیں ، دینی اور یقینی مانتاہوں۔ حدیثیں یقینی نہیں ہیں بلکہ ظنی ہیں۔ وہ دینی نہیں بلکہ تاریخی حیثیت رکھتی ہیں۔’’
لہٰذا مولانا اسلم جیراجپوری منکر حدیث نہیں تھے بلکہ حدیث پروہ اپنی الگ الگ رائے رکھتے تھے ۔ وہ اسوہ حسنہ کو مانتے تھے اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بھی یقین رکھتے تھے مگر حدیثوں پر ان کا مؤقف سب سے الگ تھا اس لئے لوگوں نے انہیں منکر حدیث سمجھ لیا ۔
علامہ اسلم جیراجپوری کا ادبی شعور اور اقبال:
مولانا اسلم جیراجپوری ایک عالم دین اور عالم قرآن ہونے کےساتھ ساتھ شعر و ادب کا گہرا مطالعہ اور فہم رکھتے تھے۔ او ریہی ادبی ذوق علامہ اقبال سے ان کی قربت اور انسیت کا سبب بنا۔ گو چند اسلامی موضوعات پر علامہ اقبال سے وہ متفق نہیں تھے مگر وہ ان کی صلاحیتوں کے معترف تھے ۔جب علامہ اقبال نےاپنی مثنوی اسرار خودی شائع کی تو اس کو لے کر علمی اور صوفی حلقوں میں بحث و مباحثہ شروع ہوگیا ۔ اردو کے کئی جید ادیب اور دانشور علامہ اقبال کے مخالف ہوگئے کیونکہ اپنی مثنوی میں انہوں نے تصوف کی مذمت و مخالف کی تھی ۔ اس وجہ سے خواجہ حسن نظامی اور اکبر الہ آبادی اقبال کے مخالف ہوگئے ۔ حافظ شیرازی کے خلاف اقبال نے کچھ ناگوار شعر اپنی مثنوی میں کہے تھے کیونکہ ان کی رائے میں حافظ کی شاعری خصوصاً اور عجمی شاعری عموماً مسلمانوں میں تصوف کے نام پر بے عملی اور قنوطیت کو فروغ دے رہی ہے۔ لہٰذا انہوں نے حافظ اور دیگر ایرانی شعر ا اور تصوف کے حامیوں کو ‘‘ گروہ گو سفنداں’’ ( بھیڑ وں کا جھنڈ) قرار دیا۔ لہٰذا ، مولانا جیراجپوری نے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور اقبال کی تنقید کی۔ اس مسئلے پر جعفر بلوچ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں ۔
‘‘ اقبالیات کے حوالے سے مبصرانہ او رمحاکمانہ سطح پر مولانا جیراج پوری کی حکمت و بصیرت کا اولین اظہار اسرار خودی پر ان کےتبصرے سے ہوتا ہے۔ اسرار خودی 1915 میں شائع ہوئی تھی اور اس میں حضرت علامہ نے عجمی تصوف پر تنقید کی تھی ۔ اس ضمن میں ان کے قلم سے حافظ شیرازی کے بارے میں بھی بعض سخت اشعار نکل گئے، مثلاً--ہوشیار از حافظ صہبا گسار--جامش از زہر اجل سرمایہ دار
عجمی تصوف کی مخالفت اور حافظ شیرازی کے خلاف اشعار کی وجہ سے برعظیم میں حضرت علامہ کے خلاف مخالفت کا سیلاب امڈ آیا ۔ متعدد تصوف پرستوں نے نظم و نثر میں علامہ اس اسلوب فکر پر لے دے شروع کردی ۔ حضرت علامہ نے بھی جواباً کئی مضامین لکھے جواب مقالات اقبال اور انوار اقبال وغیرہ شامل ہیں ۔ اس بحث کی حمایت اور مخالفت میں اور کئی حضرات بھی کود پڑے ۔ بڑے گھمسان کا رن پڑا۔ حضرت علامہ کے مؤقف کی حمایت میں مولانا ظفر علی خان اور اس کی مخالفت میں خواجہ حسن نظامی پیش پیش تھے ۔ حضرت اکبر الہ آبادی نے اقبال کے نقطہ نظر کی حمایت کی ۔ کئی شعرا مثلاً مظفر احمد صاحب فضلی اور حکیم فیروز الدین صاحب طغرائی نے اسرار خودی کے جواب میں مثنویاں لکھیں ۔
مولانا جیراجپوری اس سارے ہنگامے کو دیکھ رہے تھے اور خاموش تھے ۔ معلوم نہیں کیوں وہ اس بحث کو اصولی بحث نہیں سمجھتے تھے ۔ بہر حال بعض دوستوں کے اصرار پر انہوں نے اسرار خودی او راس کی متعلقہ بحثوں پر قلم اٹھایا اور ان کا مضمون ماہنامہ الناظر کے فروری 1919 ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ مولانا جیراجپوری عدل گستر او ربے لاگ ناقد تھے ، علمی و ادبی کتابوں کے تبصروں میں بھی ان کا یہی اسلوب نقد قائم رہتا تھا اور اپنی انتقادی کاوشوں میں وہ دانے سے بھوسے کو الگ کرتے جاتے تھے ۔چنانچہ اسرار خودی کے تبصرے میں بھی جہاں انہوں نے عجمی تصوف کے مسئلے پر حضرت علامہ کی ہم نوائی کی اور فضلی اور طغرائی صاحبان کے اعتراضات کا جواب دیا وہیں یہ بھی لکھا کہ ‘‘ ڈاکٹر صاحب نےاس مثنوی میں خواجہ حافظ کے متعلق جو کچھ لکھا ہے اگر وہ نہ لکھتے تو بہتر تھا ۔ کیونکہ اس کی وجہ سے ایک تو خود ان کی ذات پر حملے ہونے لگے، دوسرے نفس مسئلہ جو مفید تھا، ناگوار بحثوں کے حجاب میں آگیا۔
مولانا جیراجپوری نے اس بات کو بھی حیرت انگیز گردانہ ہے کہ حضرت علامہ اقبال نے خواجہ حافظ کے مقابلے میں عرفی شیرازی کی تحسین فرمائی تھی حالانکہ عرفی تو خود شمع حافظ کا پروانہ ہے۔ تاہم علامہ اقبال مولانا جیراجپوری کے تبصرے کی اشاعت سے پہلے ہی ان نتائج تک پہنچ چکے تھے جن کی نشاندہی مولانانےفرمائی تھی بلکہ مولانا کے تبصرے کی اشاعت سے پہلے ہی اسرار خودی کا دوسرا ایڈیشن 1918 ء کے نصف آخر کے اوائل میں شائع ہوگیا تھا او راس میں تمام قابل اعتراض اشعار حذف کردیئے گئے تھے اور متعدد دیگر تبدیلیاں بھی کردی گئی تھی ۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی کتاب تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ میں ان ترامیم کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔ بہر حال حضرت علامہ نے مولانا کے تبصرے کو قدر اور احترام کی نظر سے دیکھا اور 17 مئی 1919 کو انہیں شکریے کا خط لکھا ۔ مولانا جیراجپوری کا قیاس ہے کہ حضرت علامہ نے اسرار خودی پر انہی کے تبصرے کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا یہ مشہور شعر کہا تھا ۔
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں--یہاں اب مرے راز داں اور بھی ہیں
علامہ اقبال کے جاوید نامہ کے متعلق وہ کہتے ہیں ۔
‘‘ ہم سنا کرتے تھے کہ فارسی زبان سیکھنے کے بعد صرف چار کتابیں اچھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔ شاہ نامہ فردوسی، مثنوی مولانا روم، گلستان سعدی اور دیوان حافظ مگر اب جاوید نامہ کو بھی پانچویں کتاب سمجھنا چاہئے جو کہ معنویت اور نافعیت کے لحاظ سے ان سب پر فوقیت رکھتی ہے۔’’مختصر یہ کہ مولانا اسلم جیراجپوری نہ صرف ایک عالم اسلام اور عالم قرآن وفقہ تھے بلکہ ایک بالغ نظر ناقد شعر و ادب بھی تھے جنہوں نے دین فہمی کے ساتھ ساتھ اقبال فہمی میں بھی قابل قدر خدمات انجام دیں ۔ مولانا جیسی نابغہ روزگار شخصیت پر اقبال ہی کا یہ شعر صادق آتا ہے۔
ہزارو ں سال نرگس اپنی بےنوری پہ روتی ہے--بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا----28 دسمبر، 2014 بشکریہ: روز نامہ عزیز الہند ، نئی دہلی