تاريخ
جی ایم سید کی یادیں…!
حیدر جاوید سید
کچھ تحریریں تاریخ کی امانت ہوتی ہیں یہ بھی ایک ایسی ہی تحریر ہے یہ بنیادی طور پر مرشد جی ایم سید کا ایک انٹرویو ہے ہے جو ہم نے اپنے دوست ارشاد احمد امین کے جریدے ہفت روزہ "طلوع" لاہور کے لئے سال 1989 میں کیا تھا-
"طلوع " نے مختصر عرصے میں صحافتی دنیا میں اپنا مقام بنایا لیکن قارئین کا حلقہ بنالینے کے باوجود زیادہ عرصہ تک اشاعت جاری نہ رکھ پایا- وجہ وہی مسائل بنے جو قلم مزدوروں کے سامنے منہ پھاڑے آن موجود ہوتے ہیں اشتہارات کے بغیر گھر پھونک کر تماشا کتنی دیر دیکھا جائے سو "طلوع " کی اشاعت معطل ہوگئی-
جی ایم سید کے انٹرویو میں کچھ کیا زیادہ تر تاریخ ہی تھی اس تاریخ کا ایک حصہ قند مکرر کے طور پر پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش ہے پڑھیئے اور سر دُھنیئے -
تین عشروں سے دوچار برس اوپر کی بات ہے جب لاہور سے شائع ہونے والے ایک ہفت روزہ جریدے کے لئے انٹرویو کی خواہش لے کر لمبی مسافت جھیلی اور ضلع دادو کے گاؤں ''سن'' پہنچا۔ یہی گاؤں منزل تھا اور اس گاؤں میں مقیم ' سیاست دان اور سندھی قوم پرستی کے باوا آدم مرشد سید غلام مرتضیٰ شاہ کاظمی کے حضور حاضری مقصود تھی۔
سید غلام مرتضیٰ شاہ کاظمی سندھ میں جی ایم سید کے نام سے مشہور تھے اور آج بھی ہیں ۔ سندھی قوم پرستی کی سیاست کے رہبر دانشور ادیب اور محقق کے طور پر ان کے مقام سے انکار ممکن نہیں ، سندھ دھرتی اور شاہ لطیف کے اس عاشق صادق سے ملاقات اور انٹرویو طالبعلم کیلئے اعزاز ہے -
ڈھلتی شام کے سایوں کے درمیان سن گاؤں پہنچنے والے مسافر کو پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب معلوم ہوا کہ طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے مرشد آج دوپہر کراچی چلے گئے ہیں۔
مسافر کے چہرے پر مایوسی دیکھ کر سئیں سید امداد شاہ جی (مرشد کے صاحبزادے) بولے' بابا پریشان کیوں ہوتے ہو صبح میں نے بھی کراچی جانا ہے میرے ساتھ چلنا وہیں مرشد سے تمہاری ملاقات کروادوں گا۔تمہیں انٹرویو دینے کے لئے انہوں نے خود وقت دیا ہے' کچھ دیر آرام کرو۔ کھانے کے بعد گپ شپ ہوگی۔اگلی صبح مسافر امداد شاہ جی کے ہمراہ سن گاؤں سے کراچی رورانہ ہوا گیارہ بجے کے لگ بھگ ہماری گاڑی حیدر منزل کراچی میں جا ٹھہری۔ سہ پہر کے آرام کے بعد مرشد نے یاد کیا' ان کے بیڈ روم میں داخل ہوا تو مسکراتے ہوئے کہنے لگے' میرے بچے تمہیں زحمت اٹھانا پڑی مگر میں اب عمر کے اس حصے میں ہوں جس میں بیماری دستک دئیے بنا مہمان بن جاتی ہے۔
پھر دریافت کیا رات کے قیام اور سفر میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی۔جی نہیں میں نے عرض کیا۔ سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو دریافت کیا۔
سندھ اسمبلی میں قیام پاکستان کی قرار داد پیش اور منظور کروانے والے جی ایم سید نے مسلم لیگ سے ناطہ توڑ لینا کیوں ضروری خیال کیا؟ان کا کہنا تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ میں جمہوری بنیادوں پر نہیں فیصلے شخصی بنیادوں پر ہوتے تھے۔ یہی اختلافات کی وجہ بنی۔مگر وہ جو کہتے ہیں کہ آپ کانگریس اور گاندھی کے کہنے پر مسلم لیگ سے الگ ہوئے؟جو کہتے تھے اور ہیں ان کے الزام پر تبصرہ کرکے وقت ضائع کیوں کروں۔ لیکن اگر ایسا تھا تو پھر میں کانگریس میں کیوں نہ گیا۔ یہ مسلم لیگ والے اپنے علاوہ کسی کو محب وطن نہیں سمجھتے حالانکہ انگریزوں کے سارے وفادار اسی جماعت میں شامل ہوئے۔ پھر کہنے لگے' مجھے قیام پاکستان سے قبل ہی شعوری طور پر یہ احساس ہوگیا تھا کہ ہم سندھی مسلمان غلط فیصلہ کرچکے۔
کیا ویسا ہی غلط فیصلہ تھا جیسا آپ نے مسجد منزل گاہ تحریک میں شامل ہو کر کیا تھا؟
بالكل' مجھے ہندوؤں کے خلاف مولویوں کی اس تحریک کا حصہ نہیں بننا چاہئے تھا۔ انسان تجربوں سے سیکھتا ہے اسی لئے میں تقسیم کے وقت سے یہ کہتا چلا آرہا ہوں کہ ہماری بقا اسی میں ہے کہ ہم صرف سندھی بن کر رہیں۔ یہی ایک طریقہ ہے اپنی تاریخ' تشخص اور ثقافت کو محفوظ رکھنے کا۔ میں نے بھٹو( ذوالفقار علی بھٹو) سے بھی کہا تھا کہ پنجاب کی سول و ملٹری اشرافیہ تمہیں اپنے مقاصد کے لئے راستہ دے گی مگر جیسے ہی انہیں خود سے سانس لینے کا موقع ملا یہ تمہارے سانس کاٹ دے گی۔وقت نے میری رائے پر مہر ثبت کی۔ بھٹو کو سمجھنا چاہئے تھا کہ یہ اقوام کاملک ہے قوم کا نہیں مصنوعی طریقے سے قوم سازی کے خواہش مند اصل میں تقسیم کی نفرتوں کوزندگی بھر کا کاروبار بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔
اچھا اپنے اختلافات کے باوجود یہ تو بتائیں کہ جناح صاحب اور بھٹو کیسے انسان تھے؟
مسکراتے ہوئے کہنے لگے' تو تم شرارت سے باز نہیں آؤ گے۔ پھر بولے جناح کسی کو سنتے نہیں تھے اور بھٹو مانتے نہیں تھے۔ ذاتی حیثیت میں دونوں نفیس انسان تھے اور بھٹو، صاحب مطالعہ شخص تھے۔بھٹو پر اس امت مسلمہ کا بلا شرکت غیرے لیڈر بننے کا بھوت سوار تھا جس کی تاریخ کا ایک ورق بھی محسن کشی سے خالی نہیں۔وہ ( بھٹو) اگر چاہتا تو فیڈریشن میں آباد پا نچو ں قوموں کو مساوی آئینی حقوق دے کر ماضی کی غلطیوں کا کفارہ ادا کرسکتا تھا بد قسمتی سے اس نے بھارت دشمنی کی سیاست کو کامیابی کا زینہ سمجھا۔ ارے بابا' ہم مقامی اقوام میں سے صرف پنجاب کے کچھ اضلاع کی بھارت سے دشمنی بنتی اور سمجھ میں آتی ہے باقی اس آگ میں کیوں جلیں۔ تقسیم ہوگئی' قتل و غارت گری میں پہل کس نے کی دونوں ملک اپنا اپنا رونا روتے ہیں مگر تاریخ کا سچ یہ ہے کہ تقسیم کے خون خرابہ کی ذمہ داری لاہور اور راولپنڈی کے پنجابی مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے' پہل انہوں نے کی۔
سئیں اب یہ پرانی باتیں دہرانے کا فائدہ ؟
دو تین لمحوں کے وقفے کے بعد بولے' سندھیوں کا مستقبل سندھو دیش میں ہے۔
عرض کیا مگر اب تو سندھ دو لسانی صوبہ ہے؟مرشد نے جو اب دیا۔
میں نے الطاف حسین سے کہا تھا سندھی بن جاؤ' سندھیوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کرو مگر اس کے سر پر قائداعظم ثانی بننے کا جنون سوار ہے۔ میں اب سندھیوں کے لئے سوچتا ہوں صرف سندھیوں کے لئے۔
میں نے ان سے دریافت کیا مگر صوفی شاہ عنایت شہید کی فکر کا وارث انسانیت کی بات کیوں نہیں کرتا؟ مرشد بولے سندھی بھی انسان ہی ہیں پہلے ان کو تو حقوق ملیں پھر ہم دوسروں کی حمایت کریں گے۔
میرا اگلا سوال تھا ایک صوفی سنی کاظمی سید خاندان سے تعلق رکھنے والے جی ایم سید نے "جیسا میں نے دیکھا " جیسی کتاب کیوں لکھی؟
جواباً کہنے لگے -وہ میرے مطالعہ کے نوٹس ہیں۔ میں اب بھی یہی سمجھتا اور کہتا ہوں کہ مذہب کا ریاستی معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔ میں لا دین یا مذہب بے زار نہیں ہوں البتہ مذہبی تجارت سے ضرور بے زار ہوں۔ مجھے شعوری طور پر اس بات کا ادراک ہے کہ
سیکولر نظام حکومت ہی ملک میں آباد تمام طبقات کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دے سکتا ہے۔
چلیں یہ بتا دیجئے آپ جنرل ضیا سے کیوں ملے ؟
میں ملا ۔ یہ تو عجیب بات ہوئی ۔ بھائی وہ مجھے ملنے آیا تھا جب میں ہسپتال میں داخل تھا اُس نے کہا میں آپ کی عیادت کے لئے آیا ہوں مختصر ملاقات تھی اس نے ڈاکٹرز سے میری بیماری کے بارے میں بات چیت کی کچھ باتیں مجھ سے اور ملاقات ختم ہوگئی -جہاں تک میری یادداشت ساتھ دیتی ہے مجھے یاد ہے کہ مرشد نے دوٹوک انداز میں کہا تھا جنرل ضیا سے کوئی سیاسی بات نہیں ہوئی تھی ملاقات میں!
ہم اور آپ مرشد کی فہم اور سیاست سے اختلاف کرسکتے ہیں مگر اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ انہوں نے سندھ واسیوں میں وطنی محبت کی جو شمع روشن کی وہ روشن ہی ہے سندھ کا شاید ہی کوئی پڑھا لکھا شخص ہو جس نے مرشد کی تصانیف نہ پڑھی ہوں حق تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے انہوں نے اپنے موقف پر قائم رہنے کی بہت قیمت ادا کی مگر جو کہا لکھا اس پر ڈٹے رہے ساری حیاتی- کیا لوگ تھے اپنا موقف دلیل و شواہد کے ساتھ بیان کرنے والے۔