سيدنا حسين كی سيرت كے چند اور پہلو

مصنف : محمد فہد حارث

سلسلہ : سیرت صحابہؓ

شمارہ : اگست 2024

سيرت صحابہ

سيدنا حسين كی سيرت كے چند اور پہلو

محمد فہد حارث

سیدنا حسین بن علی ؓ تاریخ کی ان چند مظلوم شخصیات میں سے ہیں جو کہ ایک حادثہ فاجعہ سے دوچار ہوکر نہ صرف مظلومانہ شہید ہوئے بلکہ ان کی پوری کی پوری شخصیت کو اس حادثہ فاجعہ کے تناظر میں ہی دیکھا جانے لگا اور ان کی شخصیت کے دوسرے نمایاں خدوخال اور کارنامے محو ہوکر رہ گئے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سیدنا حسینؓ کی زندگی کے کئی دوسرے گوشے بھی ایسے ہیں جو کہ ان کی جلالت قدری اور عظمت پر دلالت کرتے ہیں۔ سو ہماری آج کی یہ تحریر سیدنا حسینؓ کے انہیں کارناموں اور شخصیت کے دوسرے خدوخال کی طرف رہنمائی کریگی جو کہ ان کی جناب میں ہماری طرف سے ایک حقیر سا خراج تحسین ہے۔ہمیں سخت حیرت ہوتی ہے کہ ایک طرف تو ہمارا وہ طبقہ ہے جو کہ شیعیت سے متاثر ہے کہ اس کو سیدنا حسینؓ کی زندگی میں واقعہ کربلا کے علاوہ اور کوئی قابل ذکر بات نظر نہیں آتی اور وہ اسی کا پرچار کرتا رہتا ہے جبکہ دوسرا طبقہ وہ ہے جو کہ ایک دوسری انتہا پر جا کر انتہائی گستاخانہ لہجے میں دعویٰ کرتا ہے کہ سیدنا حسینؓ کی زندگی میں کربلا کے علاوہ اور کوئی قابل ذکر بات تھی ہی نہ۔ استغفراللہ۔یہ دونوں گروہ افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ جبکہ سیدنا حسینؓ کی پوری زندگی اعلائے کلمۃ اللہ کی سربلندی کے لئے جدوجہد سے معمور تھی اور اپنے عہد جوانی سے ہی سیدنا حسینؓ مختلف غزوات میں شامل رہے۔

سیدنا ابو بکر صدیقؓ اور سیدنا عمر ؓ کے دور میں تو سیدنا حسینؓ عہد طفولیت میں تھے لیکن سیدنا عثمانؓ کے دور میں عہد جوانی میں قدم رکھتے ہی سیدنا حسینؓ تمام نمایاں غزوات اور جہادی مہم میں شامل رہے۔چنانچہ خلافت عثمانی کے دور میں سیدنا حسینؓ نے غزوہ طبرستان میں شرکت کی جس کی امارت سعید بن العاصؓ کے ہاتھ میں تھی جو اس وقت کوفہ کے گورنر تھے۔ اسی طرح سیدنا عثمانؓ نے جو فوج افریقہ روانہ فرمائی ،سیدنا حسینؓ اس میں بھی شامل تھے اور افریقہ فتح ہونے تک دشمنوں سے لڑتے رہے۔ طرابلس میں رومیوں کے خلاف برسرپیکار رہے جبکہ سبطلہ کے حاکم جرجیر کی ڈیڑھ لاکھ فوج سے جہاد کیا اور فتح مند ہوئے۔ قفصہ کی جنگ میں بھی تلوار کے جوہر دکھائے اور کامران رہے، بعدازاں قلعہ اجم کے محاصرہ میں بھی سیدنا حسینؓ کا برابر حصہ تھا۔ ابن خلدون کے مطابق سیدنا حسینؓ بہت سی مغربی جنگوں میں شامل رہے جیسا کہ اوپر جہاد طبرستان کا ذکر گزر چکا ہے جو کہ سن ۳۰ ہجری میں ہوا تھا۔ علاوہ بریں خراسان، قومس، نہاوند، جرجان، طمیسہ، بحیرہ، دہستان اور ایسی متعدد جنگوں میں سیدنا حسینؓ نے شرکت فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے ان تمام جنگوں میں مسلمانوں کو فتح و نصرت سے ہمکنار کیا۔ یہ تمام فتوحات سیدنا عثمانؓ کے عہد مبارک میں ہوئیں۔سیدنا عثمانؓ کے آخری دور میں آپ ان حضرات میں شامل تھے جو کہ پہرہ دار کی حیثیت سے سیدنا عثمانؓ کے دروازے پر تعینات تھے اور بلوائیوں سے سیدنا عثمانؓ کی حفاظت کرتے ہوئے شدید زخمی بھی ہوئے۔ سیدنا حسینؓ کی طرح سیدنا حسنؓ اور سیدنا مروانؓ بھی بلوائیوں سے سیدنا عثمانؓ کی حفاظت کرتے ہوئے زخمی ہوئے تھے۔

سیدنا علیؓ کے دور میں مسلمانوں کی باہمی خانہ جنگی کی وجہ سے کفار کے خلاف جہاد نہ ہوسکا سو اس عہد میں دوسرے مسلمانوں کی طرح آپ کا کسی جہاد میں شامل ہونے کا امکان نہیں رہتا۔ البتہ سیدنا معاویہؓ کے دور میں جب فتوحات اسلامی اور جہاد کا پھر سے آغاز ہوتا ہے تو سیدنا حسینؓ کی پوری حمایت و موجودگی ان فتوحات و جہاد میں شامل رہتی ہے۔ سیدنا معاویہؓ کے دور حکومت میں عقبہ بن نافع الفہری کی سرکردگی میں دوبارہ جہاد افریقہ شروع ہوتا ہے تو سیدنا حسینؓ ایک دفعہ پھر اس میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔اسکے بعد جب سیدنا معاویہؓ کی اسلامی فوجیں بلاد روم میں داخل ہوتی ہیں تو سیدنا حسینؓ ان میں بھی شریک نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ قسطنطنیہ میں حملہ آور ہونے والا پہلا لشکر جس کے سپہ سالار یزید بن معاویہؒ تھے اور جس میں سیدنا عبداللہ بن عمرؓ، سیدنا عبداللہ بن عباسؓ، سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ اور میزبان رسول سیدنا ابو ایوب انصاری ؓ بھی شامل تھے، ان سب حضرات کے ساتھ سیدنا حسینؓ بھی اس لشکر میں شامل تھے۔یاد رہے کہ یہ وہی لشکر ہے جس کے مغفور لہم ہونے کی شہادت لسان نبوت ﷺ نے دی تھی اور اسی وجہ سے اس لشکر میں صحابہ نے دور دراز سے شرکت کی اور سیدنا ابو ایوب انصاریؓ اپنی کبرسنی اور ضعف کے باوجود اس لشکر میں شامل ہوکر لڑنے آئے اور قسطنطنیہ کے محاصرے کے دوران ہی آپؓ کا انتقال ہوا تھا۔ اسی مبارک لشکر کے بارے میں امام ابن کثیر اپنی کتاب البدایہ و النہایہ جلد ۸ صفحہ ۱۵۱ میں لکھتے ہیں کہ:’’سیدنا حسینؓ ہر سال سیدنا معاویہؓ کے پاس جایا کرتے تھے اور سیدنا معاویہؓ ان کو انعام و اکرام سے نوازتے تھے اور حسینؓ اس لشکر میں شامل تھے ، جس نے قسطنطنیہ میں یزید بن معاویہ کی معیت میں حملہ کیا تھا۔‘‘

سید امیر علی اس بابت اپنی تالیف ہسٹری آف سیریسنس صفحہ ۸۴ میں لکھتے ہیں کہ سیدنا حسینؓ نے قسطنطنیہ کے محاصرے میں عیسائیوں کے خلاف بڑی شاندار خدمات سرانجام دیں۔المختصر سیدنا حسینؓ کی پوری زندگی جہاد اسلامی میں گزری اور واقعہ کربلا کے علاوہ ان کی زندگی کے اور بھی بہت سے نمایاں پہلو ہیں اور وہ کسی طور سے جہاد و غزوات میں دوسرے مسلمانوں سے پیچھے نہیں رہے تھے۔ سو جو لوگ سیدنا حسینؓ پر اس طرح کی لغو پھبتی کستے ہیں کہ واقعہ کربلا کے علاوہ سیدنا حسین کی زندگی کا کوئی نمایاں پہلو اور کارنامے نہیں تھے، ان کو اپنی اس کوتاہ فہمی اور کم علمی پر استغفار کرنا چاہیئے اور اپنی کم علمی پر سیدنا حسینؓ کی بابت اس طرح کی خامہ فرسائی سے توبہ کرنی چاہیئے۔

سیدنا حسینؓ نے معتدد نکاح کئے اور سب عرب کے ممتاز گھرانوں اور جید صحابہ کی آل اولاد سے کئے۔ یہاں سب کا ذکر کرنا تو طوالت کا باعث ہوگا کہ یہ مضمون پہلے ہی کافی طویل ہوا چاہتا ہے سو سر دست ان کی چند ازواج کے نام یہاں بیان کردئیے جاتے ہیں۔

سیدنا حسینؓ کا ایک نکاح سیدہ رباب کلبیہ سے ہوا تھا جو کہ عر ب کے معزز عیسائی قبیلہ بنو کلب سے تعلق رکھتی تھیں اور سیدنا معاویہؓ کی زوجہ اور ام یزید سیدہ میسونؒ کی چچازاد تھیں۔ اس لحاظ سے سیدنا حسینؓ اور سیدنا معاویہؓ ہم زلف ٹھہرتے ہیں اور سیدنا حسینؓ امیر یزید بن معاویہؒ کے خالو۔ اسی طرح سے سیدنا حسینؓ کا ایک اور نکاح سیدہ لیلیٰ بنت ابی مرہ سے ہوا تھا جن سے سیدہ سکینہؒ اور جناب علی اصغر ؒ پیدا ہوئے تھے۔ یہ سیدہ لیلیٰ سیدنا معاویہؓ کی حقیقی بہن سیدہ میمونہ بنت ابو سفیانؓ کی بیٹی تھیں، گویا سیدنا معاویہ ؓکی حقیقی بھانجی اور امیر یزید کی پھوپھی زاد بہن سیدنا حسینؓ کی زوجیت میں تھیں سو اس رشتہ سے سیدنا حسین ؓ سیدنا معاویہؓ کے بھانجہ داماد اور امیر یزید کے بہنوئی تھے۔سیدنا حسینؓ نے ایک نکاح سیدنا ابو بکر صدیقیؓ کی پوتی حفصہ بنت عبدالرحمٰن بن ابی بکرؒ سے بھی کیا تھا۔

سیدنا حسینؓ کی ایک زوجہ کا نام شہر بانو بھی بتایا جاتا ہے جس کو ایران کے بادشاہ یزدگرد کی بیٹی باور کروایا جاتا ہے لیکن یہ سخت لغو بات ہے اور تمام جید مورخین نے اسکا انکار کیا ہے۔ الفاروق میں علامہ شبلی نعمانی نے سیدنا حسینؓ کے شہربانو سے نکاح کے باطل ہونے پر مفصل بحث کی ہے اور اس کے وقوع کا مطلق انکار کیا ہے۔سیدنا حسینؓ کی مظلومانہ شہادت واقعہ کربلا کے حادثہ فاجعہ کے نتیجے میں ہوئی جس پر مفصل کلام ہم کئی بار کر چکے ہیں سو اس کے اعادہ کی ضرورت کا یہ مضمون محتمل نہیں۔ ہمارے اس مضمون کا مقصد ان تاریخی حقائق اور سیدنا حسینؓ کی شخصیت و کردار کے ان پہلووں کو سامنے لانا تھا جس پر واقعہ کربلا کے تحت ہونے والے افراط و تفریط پر مبنی مباحث نے دبیز پردے ڈال رکھے ہیں تاکہ قارئین کو نواسہ رسولﷺ سیدنا حسینؓ کی زندگی کے دوسرے پہلوؤں سے بھی آگاہی حاصل ہو اور یہ پتہ چل سکے کہ یہ نواسہ رسولﷺ ایک عظیم مجاہد بھی تھے جن کی پوری زندگی جہاد اسلامی اور اعلائے کلمۃ اللہ کی سربلندی میں گزری۔ اللہ سیدنا حسینؓ پر اپنی کڑوڑوں رحمتیں نازل فرمائے اور ہم مسلمانوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے اور درست معنوں میں ان کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین