اصلاح و دعوت
اولاد پرستی کا فتنہ
مولانا وحيدالدين خان
ایک حدیث رسول میں بتایا ہے کہ سب سے گهاٹے میں وه شخص ہے جو دوسرے کی دنیا بنانے کے لیے اپنی آخرت کو کهو دے- یہ حدیث موجوده زمانے میں سب سے زیاده ان لوگوں پر چسپاں هوتی ہے جو صاحب اولاد ہیں- موجوده زمانے میں صاحب اولاد لوگوں کا حال یہ ہے کہ ہر ایک کے لیے اس کی اولاد اس کا سب سے بڑا کنسرن بنی هوئی ہے- ہر ایک کا یہ حال ہے کہ وه اپنی اولاد کے لیے زیاده سے زیاده دنیا کمانے میں مصروف ہے، اور خود اپنی آخرت کی خاطر کوئی حقیقی کام کرنے کے لیے آدمی کے پاس وقت ہی نہیں-
موجوده زمانے میں ہر آدمی اس حقیقت کو بهول گیا ہے کہ اس کی اولاد اس کے لیے صرف امتحان کا پرچہ (الانفال:28) ہے- اولاد اس کو اس لیے نہیں ملی ہے کہ وه بس اپنی اولاد کو خوش کرتا رہے، وه اپنی اولاد کی دنیوی کامیابی کے لیے اپنی ساری توانائی لگا دے-
موجوده زمانے میں بہت سے لوگ ہیں جو بظاہر مذہبی وضع قطع بنائے رہتے ہیں اور رسمی معنوں میں صوم و صلاه کی پابندی بهی کرتے ہیں، لیکن عملاً وه اپنا سارا وقت اور اپنی بہترین صلاحیت صرف دنیا کمانے میں لگائے رہتے ہیں، صرف اس لیے کہ جب وه مریں تو اپنی اولاد کے لیے وه زیاده سے زیاده سامان دنیا چهوڑ کر جائیں-مگر ایسے لوگ صرف اپنے آپ کو دهوکہ دے رہے ہیں- خدا کو دینے کے لیے ان کے پاس صرف کچھ ظاہری رسوم ہیں اور جہاں تک حقیقی زندگی کا تعلق ہے، اس کو انهوں نے صرف اپنی اولاد کے لیے وقف کر رکها ہے- یہ خدا پرستی نہیں ہے، بلکہ وه حدیث کے الفاظ میں اولاد پرستی ہے- اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اولاد پرستی کا طریقہ کسی کو خدا پرستی کا کریڈیٹ نہیں دے سکتا- خدا پرستی، زندگی کا ضمیمہ نہیں، حقیقی خدا پرستی وه ہے جو انسان کی پوری زندگی کا احاطہ کیے هوئے هو-
محبت صرف اللہ کے لئے
محبت کا جذبہ انسان کے اندر سب سے زیاده اعلی جذبہ ہے- ایک شخص کسی دوسرے کو جو سب سے قیمتی تحفہ دے سکتا ہے وه یہی محبت کا تحفہ ہے- موجوده دنیا میں کسی انسان کا سب سے بڑا امتحان یہ ہے کہ وه اپنے محبت کے جذبہ کو کسی اور طرف بهٹکنے نہ دے- وه صرف اللہ کو اپنے جذبات کا مرکز بنائے- کسی اور چیز کو اپنے حب شدید کا مرکز بنانا، قرآن کی زبان میں، اس کو اللہ کے برابر ٹهہرانا ہے- اللہ کی اس دنیا میں جو آدمی کسی اور چیز کو اللہ کے برابر ٹهہرائے وه اللہ کے نزدیک سراسر بے قیمت هو کر ره جائے گا- قرآن میں ارشاد هوا ہے :اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کے برابر ٹهيراتے ہیں- ان سے ایسی محبت رکهتے ہیں جیسی محبت اللہ سے رکهنا چاہئے- اور جو ایمان والے ہیں وه سب سے زیاده اللہ سے محبت رکهنے والے ہیں- اور اگر یہ ظالم اس وقت کو دیکھ لیں جب کہ وه عذاب کو دیکهیں گے کہ زور سارے کا سارا اللہ کا ہے اور اللہ بڑا سخت عذاب دینے والا ہے- (البقره 165)دنیا میں بہت سی چیزیں ہیں جن کو دیکھ کر انسان کے اندر ان کے لئے محبت کے جذبات پیدا هوتے ہیں- مگر یہ چیزیں اس لئے نہیں ہیں کہ آدمی ان کے ساتھ حقیقی محبت کا تعلق قائم کرے- یہ چیزیں صرف برائے آزمائش ہیں- اللہ یہ دیکهنا چاہتا ہے کہ انسانوں میں سے کون ہے جو ان چیزوں کو اپنا محبوب بناتا ہے اور وه کون ہے جو ان سے اوپر اٹھ جاتا ہے، اس کے لئے کوئی چیز اللہ کے ساتھ حب شدید میں رکاوٹ نہیں بنتی- اس حقیقت کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے :"لوگوں کے لئے خوش نما کر دی گئی ہے محبت خواہشوں کے ......... عورتیں، بیٹے، سونے چاندی کے ڈهیر، نشان لگے گهوڑے، مویشی اور کھیتی، یہ دنیوی زندگی کے سامان ہیں - اور اللہ کے پاس اچها ٹهکانہ ہے، کہو، کیا میں تم کو بتاوں اس سے بہتر چیز، ان لوگوں کے لئے جو ڈرتے ہیں- ان کے رب کے پاس باغ ہیں جن کے نیچے نہریں هوں گی- وه ان میں ہمیشہ رہیں گے - اور پاکیزه بیویاں هوں گی اور اللہ کی رضامندی هو گی اور اللہ کی نگاه میں ہیں اس کے بندے- (آل عمران 14-15)
موجوده دنیا میں ایک اندیشہ یہ ہے کہ آدمی سے اس کی کوئی محبوب چیز کهو جائے، اور پهر اس کی یاد میں وه اپنے آپ کو اتنا زیاده ہلکان کر لے کہ اس کے دل میں اللہ کے لیے کوئی جگہ باقی نہ رہے اس لئے اسلام میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ہر چیز کو اللہ کی ملک سمجهو اور اس کے کهوئے جانے پر یہ سوچ کر صبر کر لو کہ جب تک اللہ نے چاہا وه چیز میرے پاس رہی اور جب اللہ نے چاہا وه چیز مجھ سے جدا هو گئی- اس حقیقت کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے :اور هم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بهوک سے اور مالوں اور جانوں اور پهلوں کی کمی سے- اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دو جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وه کہتے ہیں : هم اللہ کے ہیں اور هم اس کی طرف لوٹنے والے ہیں- (البقره 155-156)
محبت کے جذبہ کو گہرائی کے ساتھ اللہ سے وابستہ رکهنے کے لیے ایک خصوصی اہتمام کیا گیا ہے- چنانچہ انسان کو پیشگی طور پر بتا دیا گیا ہے کہ آخری انجام کے اعتبار سے یہ چیزیں سراسر بے حقیقت ہیں- آج کی زندگی میں جو چیز آدمی کو بہت خوشنما نظر آتی ہے اور وه اس سے محبت کرنے لگتا ہے، موت کے بعد والی ابدی زندگی میں ان کے اندر اس کے لیے کشش نہ هو گی- حقیقت کهلنے کے بعد آدمی ان چیزوں سے اس طرح بهاگے گا جیسے کہ وه اس کے لئے بہت بڑی مصیبت هوں- اس حقیقت کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے :پس جب وه کانوں کو بہره کر دینے والا شور برپا هو گا- جس دن آدمی بهاگے گا اپنے بهائی سے، اور اپنی ماں سے اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی سے اور اپنے بیٹوں سے- ان میں سے ہر شخص کو اس دن ایسا فکر لگا هو گا جو اس کو کسی اور طرف متوجہ نہ هونے دے گا- کچھ چہرے اس دن روشن هوں گے، ہنستے هوئے، خوشی کرتے هوئے اور کچھ چہروں پر اس دن خاک اڑ رہی هو گی، ان پر سیاہی چهائی هو گی- یہی لوگ منکر ہیں، ڈهیٹ ہیں- (العبس 33-42) انسان کے پاس اپنے رب کے سامنے پیش کرنے کے لئے جو سب سے قیمتی اثاثہ ہے، وه یہی محبت کا اثاثہ ہے- آخرت میں وہی شخص کامیاب هو گا جس کے بارے میں زمین و آسمان یہ گواہی دیں کہ اس نے اپنا یہ سب سے زیاده قیمتی اثاثہ غیر مشترک طور پر اپنے رب کے لئے پیش کر دیا تها-
اللہ جب تک غیب میں ہے انسان اس کو بهلا کر دوسری بےحقیقت چیزوں کو اپنا مرکز محبت بنا لیتا ہے، مگر قیامت میں جب اللہ اپنے عظمت و جلال کے ساتھ ظاہر هو گا تو تمام دوسری چیزیں بلکل بے رونق دکهائی دینے لگیں گی، ہر چیز اپنی کشش کهو دے گی- اس وقت انسان حسرت و افسوس کے ساتھ سوچے گا کہ اصل قابل توجہ ہستی تو صرف اللہ کی تهی- مگر میں اپنے اندهے پن کی بنا پر دوسری بے حقیقت چیزوں کو اپنا مرکز توجہ بنائے رہا- اس وقت انسان اپنے تباه کن غلطی پر پشمان هو گا، مگر اس دن کا پشمان هونا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا- کیوں کہ وه دن اپنے عمل کا انجام پانے کا دن هو گا، نہ کہ عمل کرنے کا دن-
انسان اور شیطان
انسان کے اندر بیک وقت دو قسم کے جذبات ہیں ----- دوستی کا جذبہ، اور دشمنی کا جذبہ- یہ دونوں جذبات فطری ہیں اور وه ہر عورت مرد کے اندر پیدائشی طور پر پائے جاتے ہیں، کوئی بهی شخص ان جذبات سے خالی نہیں-مگر ان دونوں جذبات کے استعمال کا رخ الگ الگ ہے- دوستی کا جذبہ، انسان کے لیے ہے اور دشمنی کا جذبہ شیطان کے لیے- شیطان اول دن سے انسان کا دشمن ہے- مگر انسان کا معاملہ اس سے مختلف ہے- انسان پیدائشی طور پر دوسرے انسانوں کا دشمن نہیں- یہ دراصل شیطان ہے جو انسان کو انسان کا دشمن بنا دیتا ہے- شیطان کی ساری کوشش یہ ہے کہ انسان کے اندر دشمنی کے جو جذبات ہیں، وه ان کا رخ پهیر کر انسان کی طرف کر دے- وه شیطان کا دشمن بننے کے بجائے انسان کا دشمن بن جائے-یہی انسان کا امتحان ہے- جب کبهی کسی عورت یا مرد کو محسوس هو کہ اس کے اندر کسی انسان کے لیے دشمنی کے جذبات پیدا هو رہے ہیں تو وه اس کو شیطان کا وسوسہ سمجهے اور فوراً ہی کوشش کر کے اپنے منفی احساسات کو مثبت احساس میں تبدیل کرے- قرآن کی سوره نمبر 5 میں بتایا گیا ہے کہ: یعنی شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ وه تمہارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے- (المائده:91)
دنیا میں زندگی گزارتے هوئے بار بار ایسا هوتا ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف شکایت کے اسباب پیدا هو جاتے ہیں- اس قسم کے مواقع شیطان کو انسان کے اندر داخل هونے کا راستہ دے دیتے ہیں- اب شیطان یہ کرتا ہے کہ وه ان شکایتی اسباب کو خوب بڑهاتا ہے، وه شکایت کو نفرت تک پہنچا دیتا ہے اور پهر نفرت کو تشدد تک - انسان کو چاہئے کہ وه شیطان کو یہ موقع نہ دے کہ وه ان منفی لمحات کو اپنے حق میں استعمال کرے اور ایک انسان کو دوسرے انسان کے خلاف بهڑکا دے- انسان کو چاہئے کہ وه اپنے آپ کو شیطان کا معمول(object) بننے سے بچائے-