مذہب کی چکی اور اس کی گردش

مصنف : ابوالحسين آزاد

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : جولائی 2024

دين و دانش

مذہب کی چکی اور اس کی گردش

ابوالحسين آزاد

آپ نے ہاتھ سے چلنے والی چکی دیکھی ہے تو آپ جانتے ہوں گے کہ یہ ایک مرکز کے گرد گھومتی ہے جسے قطب کہا جاتا ہے-یہ قطب چکی کے پاٹ کے بالکل وسط میں ہوتا ہے۔ اگر آپ اسے ہٹا کر تھوڑا سا ادھر ادھر کر دیں تو چکی کی گردش متاثر ہو جائےگی اور اگر بالکل ہی ایک کونے پہ لگادیں تو چکی بالکل ناکارہ ہو جائے گی۔اسی طرح چکی کے کناروں پہ مٹی کی ایک دیوار سی ہوتی ہے جو پسنے والے آٹے کو نیچے گرنے سے روکتی ہے، اس دیوار کو آپ کنارے سے ہٹا کر قطب کی جگہ پر لائیں گے تو چکی کاپاٹ مٹی کے ڈھیلوں پہ پڑی چٹان میں بدل جائے گا۔

یہ ایک بنیادی اصول ہے کہ جس چیز کی مرکزی حیثیت ہوتی ہے وہ مرکز میں ہی رہنی چاہیے اور جس کا مقام حاشیے میں ہےاُسے حاشیے میں ہی رہنے دینا چاہیے۔ اس بنیادی اصول کو برصغیر کی اجتماعی مذہبی دانش دین کے معاملے میں فراموش کر چکی ہے۔ دین کا مرکز خدا اور بندے کا رشتہ ہے، اس مرکز کے گرد فکرِ آخرت کا ہالہ ہے جس کے بعد عبادات، معاملات، اخلاق اور آداب کی باری آتی ہے۔ تحفظ، دفاع اور پہرے داری کا مقام بالکل آخری ہے، یہ سب سرحد کی چیزیں ہیں لیکن اس وقت ہم نے تحفظ اور دفاع کو حاشیے سے اٹھا کر مرکز میں رکھ دیا ہے۔ ہمارے تصور دین میں قطب کناروں پہ آگیا ہے جب کہ کنارے کی دیوار مرکزمیں پہنچ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے دین کی چکی گردش کی بجائے جمود اور بدعملی کا شکار ہے۔ہمارا اجتماعی ذوق کچھ ایسا ہو گیا ہے کہ دین کا تصور آتے ہی فوراً پہرے داری اور تحفظ والی جبلّت میں تحریک پیدا ہوتی ہے۔ذہن فوراً دفاعی پوزیشن اختیار کر لیتا ہے۔ تردید، انکار، مقدمے، احتجاج، جلاؤ گھیراؤ اور کشت و خون دین کی حقیقت بن گئے ہیں جب کہ ایمان اور عملِ صالح نے ضمنی تقاضوں کی صورت اختیار کر لی ہے-یہ تعبیر کی وہ غلطی ہے جس کی نشان دہی کرنے کا مطلب ہے کہ آپ نے ہر طرح کی بدگمانی اور بد گوئی کو اپنے اوپر حلال کر دیا ہے۔اس تصور دین کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ معاملات جو سیاسی، سماجی اور عمرانی نوعیت کے ہیں اور جن میں حالات، ذوق و مشرب یا دلیل اور زاویۂ نظر کے فرق کی وجہ سے مروجہ عوامی رائے سے مختلف رائے بھی پیش کی جاسکتی ہےاُن میں نئی بات کرنے والا بدترین ملامتوں کا مستحق ٹھہرتا ہے، اُس کا ایمان و عقیدہ مشکوک ہو جاتا ہے اور دین سے اُس کی وفاداری پر بھی سوال اٹھنے لگتے ہیں۔ حالاں کہ اُس کی بات ایک انتہائی ضمنی اور جزوی مسئلے میں ایک ایسی رایے کا اظہار ہوتی ہے جو اخلاق و مروت یا امن و امان کے پہلو سے زیادہ صائب اور راجح ہوتی ہے۔ اس تصورِ دین کے حاملین باقی ہر جگہ تو مداہنت نما رخصت تک کو گوارا کر لیتے ہیں لیکن پہرے داری اور دفاع کے نام پر دوسروں کی جان، مال، عزت و آبر واور سکون و اطمینان غارت کرنے کے لیے قرنِ اول کے اُن واقعات کو اپنا راہنما بناتے ہیں جو دین سے زیادہ اُس عہد کی سیاسی اور تمدنی صورتِ حال کی پیداوار تھے۔

اِس تصور دین کی ایک بڑی آفت یہ ہے کہ اس کے حاملین تحفظ اور پہرے داری کے اسی سخت گیر اور بے لچک اُسلوب پر اصرار کرتے ہیں جو ایک دفعہ اُنھوں نے جبلی تقاضوں کے تحت اختیار کر لیا ہے۔ اب کسی شخص کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اِن کے دفاعی طریقہ کار پر تنقید کر سکے یا اُس کے مقابل کوئی دوسری تکنیک متعارف کرا سکے۔ دین جو کہ ایک معنوی شے ہے، جس کے دفاع کے لیے ضروری نہیں کہ باڑیں لگائی جائیں اور گنڈاسے اور پھاوڑے اٹھائے جائیں، یہ بھی کافی ہے کہ آپ اِس معنی کا رشتہ انسانوں کے شعور سے اتنا مضبوط کردیں کہ اُسے کوئی خدشہ ہی باقی نہ رہے۔