فكر ونظر
اچھی نيت برا انجام
عاصم اللہ بخش
انگریزی زبان کا بہت معروف مقولہ ہے
Road to hell is paved with good intentions
یعنی، ضروری نہیں کہ برے انجام کا شکار ہونے والے کام دراصل کسی بری نیت کا ہی شاخسانہ ہوں۔ بسا اوقات بہت اچھی بلکہ لائق تحسین ارادہ سے کوئی کام شروع کیا جاتا ہے لیکن اس کا انجام نہایت قابلِ اعتراض ہو سکتا یے۔مثلاً، ہم دیکھتے ہیں بعض لوگ کسی آدھ یا مکمل ننگے شخص کے آگے جھکے ہوئے ہیں، اس سے عقیدت کا اظہار کر رہے ہیں اور اس سے اپنی مشکلات کی آسانی کے لیے ملتمس ہیں۔ ہمیں حیرانی ہوتی ہے کہ ایسا کرنے والے لوگ اتنی عقل نہیں رکھتے کہ یہ مادر زاد برہنہ شخص ان کی کیا مدد کرے گا ؟ یا جو لوگ سورج چاند کو پوج رہے ہیں تو ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ یہ تو مخلوقات ہیں، پوجے جانے کے لائق تو ان کا خالق ہے۔
ہمیں جو نظر آ رہا ہے وہ سب سچ ہونے کے باوجود دراصل، بقول حفیظ جالندھری مرحوم، ،نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں۔ نہ تو یہ سب ایسے شروع ہوا اور نہ اسے شروع کرنے کے پیچھے یہ منشاء رہی ہو گی۔ اسے یوں دیکھیے، کسی نرم دل انسان یا پیشوا نے دیکھا لوگ غرباء کا مذاق اڑا رہے ہیں تو انہیں سمجھایا کہ یہ سب خدا کی تقسیم ہے۔ ان لوگوں کا تمسخر اڑانا دراصل خدا کے فیصلے کی تضحیک کے مترادف ہے اور ان لوگوں سے نرمی و رواداری دراصل خدا کو راضی کرنے کا مؤجب ہو گا۔ جو جس قدر مخدوش ظاہری حالت میں ہو گا اس کے لیے اسی قدر احترام کا اظہار خدا کی خوشنودی کا باعث بنے گا۔ اب یہاں سے بات شروع ہوئی۔ پھر وقت کے دھندلکوں نے اس فلسفہ کو تو ذہن سے ماؤف کرنا شروع کردیا جو اس سب کی بنیاد تھا اور خدا کی محبت میں یہ سب کرنے کے بجائے یہ سب اپنے آپ میں ایک مقدس عمل بن گیا اور بقول اقبال "رہ گئی رسمِ اذان روح بلالی نہ رہی" والی بات ہو گئی۔ اس سب پر مستزاد دو چیزیں اس طرح کی رسوم کو معاشرے میں اور بھی زیادہ راسخ اور مقدس بنا ڈالتی ہیں۔ اول انسان کا دائمی احساس عدم تحفظ اور مشکلات و پریشانیوں سے اس کی مستقل پنجہ آزمائی اسے ہر اس چیز سے حاجت براری کی ترغیب دیتی ہے جس کے ساتھ تقدس کی روایت جڑی ہوتی ہے اور جسے وہ آنکھوں سے دیکھ کر یا اپنے لمس سے محسوس کر کے التجا کر سکتا ہے۔ یہی معاملہ سورج کا ہے کہ وہ خدا کی رحمت کا مظہر ہے ۔کارِ حیات کی روانی میں اس کا بڑا ہاتھ ہے۔ اسے خدا کی رحمت کا نشان سمجھ کر اس کی تعظیم کی جاتی ہے اور پھر وہی، یہ معاملہ چلتے چلتے اپنی روح کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے اور بجائے خود ایک مذہبی عمل بن جاتا ہے اور سورج معبود کی نشانی کے بجائے خود معبود بن جاتا ہے۔ دوسرا، اس طرز عمل سے مفاد کشید کرنے والے بھی وجود میں آ جاتے ہیں اور اس حوالے سے کسی بھی اعتراض کو رد کرنے کے لیے وہ بظاہر بڑی فلسفیانہ مگر دراصل نہایت بودی تاویلات کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں جس میں فنا فی اللہ سے پہلے بھی فنا کی کئی منزلیں بنا لی جاتی ہیں۔ یا کوئی آپ کو بتاتا ہے کہ آپ چپ ہی رہیں آپ کو تو بسم اللہ کے "ب" کا مطلب بھی نہیں آتا۔ آپ بھی گھبرا جاتے ہیں کہ واقعی ب کا مطلب تو مجھے نہیں آتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ب کے مطلب کی ضرورت بھی نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اس دھول میں اصل بات یہ چھپ کر رہ جاتی ہے کہ خوش تو خدا کو کرنا تھا ۔ تو کیا خدا نے اس قسم کا کوئی اجازت نامہ جاری کیا جس کے تحت یہ سب کام کیے جا رہے ہیں ؟ خدا کا معاملہ تو بالکل سیدھا ہے کہ خدا ہی خدا ہے اور نہ اس کا کوئی اوتار ہے اور نہ کوئی ایسا جو خدا کا ہاتھ روک کر اس سے وہ کام کروا لے جو وہ نہیں چاہتا۔ یہاں پر ہمارے ہاں قرآن اور دیگر مذاہبِ میں ان کے اپنے original text سامنے آتے ہیں۔ خدا کی ذات ، اتھارٹی انسان سے اس کا تعلق اور زندگی موت، اخلاقیات پر سب کے ہاں یہ ideals لگ بھگ اسی طرح موجود ہیں۔ تاکہ کوئی "انسان" یہ نہ کہہ سکے کہ مجھے حقیقت کا علم نہیں تھا۔
قرآن ہمارے پاس موجود ہے ۔ ہمیں مذہب کے نام پر کی جانی والی اپنی سب practices کو صرف اس کی کسوٹی پر پرکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا کہنا ہے کہ انہوں نے قرآن میں کوئی ٹیڑھ نہیں رکھی ۔ یعنی ایسا نہیں کہ بات مشرق کی کہی جا رہی ہو اور مراد مغرب یا جنوب ہو۔ جو جیسا لکھا ہے اسے ویسا ہی سمجھا جائے اور اللہ تعالیٰ اس کتاب میں کہی گئی ہر بات کے لیے پوری طرح ذمہ دار ہیں۔ نیز ان کے ہاں بطورِ ثبوت قبول بھی صرف قرآن ہی کیا جائے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں اور عیسائیوں سے بھی ان کی کتب کے حوالے سے کہا۔ الغرض کسی بھی عمل کے آغاز کو صریحاً گمراہی یا مبنی بر بدنیتی نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن آج وہ جس شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے وہ ٹھیك ہے یا گمراہی اس کے لیے اللہ کی کتاب سے رہنمائی لے کر ہم پورے اعتماد سے اپنی راہ متعین کر سکتے ہیں۔ یہ ایک جاری عمل ہے جو قیامت تک نسل در نسل جاری رہنا ہے۔
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ انسان کی ترقی صرف تمدن کے میدان میں ہے۔ وہ علم حاصل کرے اور نئی سے نئی منازل اور تمدن کی بلندیوں کو چھو لے۔ تاہم انسان کی اخلاقی بنیادیں اول سے لے کر آخری انسان تک ایک ہی ہیں۔ سچ، ایمانداری، تواضع ، حلم، بردباری، عاجزی، شرم و حیا ۔۔ ان میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ یہ ہر انسانی معاشرے میں یکساں خد و خال رکھتی ہیں خواہ آپ اس سے کتنا بھی پنڈ چھڑائیں۔ ایک نسل اس سے بغاوت کرے گی تو اسی کی اگلی نسل اس کی پابند ہو گی۔ یوں یہ سلسلہ ہمیشہ ایک ہی axis کے گرد گھومتا رہتا ہے اور اس مدار سے باہر نہیں نکل سکتا۔ جبکہ تمدن کی ترقی linear ہوتی ہے۔ انسانیت جس مقام سے گزر جاتی ہے واپس وہاں پھر نہیں آتی۔ آگے کا سفر جاری رہتا ہے۔ یہاں تمدن اور اخلاقیات کی بات اس لیے کہنا پڑی کہ بعض حلقے صنم خانے کا قرآن سے پاسبان مہیا کرنے کے چکر میں بار بار "اجتہاد" پر زور دیتے ہیں۔ گویا قرآن کا سلسلہ اخلاق و اقدار اب obsolete ہو چکا اس لیے اسے "اجتہاد" کے ذریعہ اپنی مرضی کے قالب میں ڈھال لیا جائے۔
میڈیکل کالج کے دنوں کی بات ہے۔ سرجری کے لیکچر میں پروفیسر صاحب فرما رہے تھے کہ آپ نے مریض کا پیٹ چاک کر رکھا ہے اور کسی آرگن کے متعلق آپ شک میں ہیں کہ یہ ٹھیک بھی ہو سکتا ہے اور ہو سکتا ہے مرض نے اسے بھی متاثر کیا ہو تو آپ کیا کریں گے ؟ سب اپنے اپنے جواب دینے لگے۔ کسی نے کہا اتنا چھوڑ دیں اور اس قدر کاٹ چھانٹ کر دیں اور کسی نے کہا نہیں ایسا کر لیں۔ الغرض بہت سی آراء سامنے آئیں لیکن ان میں یقینی نتیجہ کسی کے پاس نہیں تھا کہ اس کے بعد کیا ہو گا۔ پروفیسر صاحب نے کہا ۔ اندازے چھوڑیے اور ایک اصول ذہن نشین کر لیجیے۔ یہ اصول آپ اور آپ کے مریض کی زندگی آسان بنا دے گا ۔۔۔ اصول ہے :
"When in Doubt ... Take it Out"اگر آپ کو زرا بھی شک ہے تو اس حصہ کا نکال دینا ہی بہترین حکمت عملی ہے۔ بجائے اس کے کہ چھ ماہ بعد مریض زیادہ نازک حالت میں آپریشن تھیٹر میں آپ کے سامنے لیٹا ہو۔
مذہب میں فکر و عمل سے جڑے معاملات میں بھی یہی حکمت عملی بہترین ہے۔ کسی بھی عمل کو مذہبی تقدیس دینے سے پہلے یہ کنفرم کر لیں کہ آپ کی کتاب اس کے متعلق کیا کہتی ہے کیونکہ وہ خدا کی براہ راست تاکید ہے اور اسی خدا کو آپ جوابدہ ہیں۔ اس سے ہٹ کے کسی بات کو نہ خود قبول کریں اور نہ اپنی آئندہ نسلوں کے لیے اسے چھوڑ جائیں۔ خواہ اس کے لیے کتنی ہی دلفریب تاویلات کیوں نہ سامنے ہوں۔
بس یاد رہے ۔۔۔When in Doubt ... Take it Out !!!