كيا عورت كو كمانا چاہيے

مصنف : عبدالعلام زيدی

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : جون 2024

دين و دانش

كيا عورت كو كمانا چاہيے

عبدالعلام زيدی

1. عورت کے لیے حلال کاروبار کرنا بالکل حلال ہے ۔

ارشاد باری ہے:( وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبا ) البقرة/ 275 ۔اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہےنیز فرمایا :( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ ) النساء/29 اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ البتہ یہ (ہو) کہ تمہاری باہمی رضامندی سے تجارت ہو۔

نیز فرمایا:( لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوْاؕ-وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَؕ (النساء ٣٢)

مردوں نے جو کمایا اس میں ان کا حصہ ہے، اور عورتوں نے جو کمایا اس میں سے ان کا حصہ ہے-شیخ صالح المنجد ان آیات کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:فهذا عام في الرجال والنساء ، وقد كانت النساء في الصدر الأول يبعن ويشترين من غير نكير . فتویٰ نمبر : 72861

ان آیات میں خدا کا حکم مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں خواتین ۔۔ بغیر کسی روک ٹوک کے خرید و فروخت فرماتی تھیں۔

اسی طرح شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں -الأصل إباحة الاكتساب والاتجار للرجال والنساء معا في السفر والحضر ؛ لعموم قوله سبحانه -ان آیات میں مردوں کے ساتھ عورتوں کے لئے کمانے اور تجارت کرنے کے جائز ہونے کی دلیل ہے ۔ ( فتاوى اللجنة الدائمة (13/16)

2.ضرورت کے وقت کام کرنا بری عورتوں کی نشانی نہیں ہے ، یہ تو پاکبازی کی علامت ہے ۔ انبیاء علیہم السلام کی بیٹیوں اور موسی علیہ السلام کی بیوی کے بارے میں قرآن بتاتا ہے

{قَالَتَا لا نَسْقِي حَتَّى يُصْدِرَ الرِّعَاء وَأَبُونَا شَيْخٌ كَبِيرٌ} (القصص:23)اور جب مدین کے پانی کے مقام پر پہنچے تو دیکھا کہ وہاں لوگ جمع ہو رہے اور اپنے چارپایوں کو پانی پلا رہے ہیں اور ان کے ایک طرف دو عورتیں اپنی بکریوں کو روکے کھڑی ہیں۔ موسی نے ان سے کہا تمہارا کیا کام ہے۔ وہ بولیں کہ جب تک چرواہے اپنے چارپایوں کو لے نہ جائیں ہم پانی نہیں پلا سکتے اور ہمارے والد بڑی عمر کے بوڑھے ہیں۔

آج بھی کمانے والی کتنی ہی بچیاں ایسی ہیں جن کے خاوند فوت ہوگئے ، انہیں طلاق ہو گئی ، یا انہوں نے پاکباز صحابیات کی پیروی کرتے ہوئے خلع لے لی ، کتنوں کے بھائی نہیں ہوتے ، والدین بیمار ہوتے ہیں ، کتنوں کے خاوند بچوں کا خرچہ نہیں اٹھاتے ، کتنے کے خاوند بیمار ہوتے ہیں ۔۔۔ یہ سب بیٹیاں اور بہنیں ۔۔۔ جو شرعی آداب کا حتی الامکان خیال رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے رزق حلال کماتی ہیں ۔۔ یہ شعیب علیہ السلام کی بیٹیوں کے نقش قدم پر ہیں ۔ ان کا نکلنا مبارک ہے ، کمانا مبارک ہے ، خرچ کرنا مبارک ۔۔ یہ خود مبارک ہیں ۔

3. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں باقاعدہ خواتین کماتی تھیں ۔ جن میں چند نام درج ذیل ہیں -

1. ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ۔۔۔ تفصیل کے لیے دیکھیں ۔ الإصابة في تمييز الصحابة، «٤/٨١».

2. قيلة أم بني أنمار - انہیں باقاعدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کی تعلیم دی ۔ اس حوالے سے ایک تفصیلی واقعہ کتب احادیث میں موجود ہے ۔ تفصیل ملاحظہ فرمائیں ۔رواه البخاري في التاريخ وابن ماجه وابن سعد في الطبقات.

3. الشفاء بنت عبدالله العدوية» حضرت عمر رضہ اللہ عنہ نے ان کی بازار میں ذمہ داری لگائی تھی ۔ دیکھیے «الإصابة ٨/١٢٦».

4. سمراء بنت نهيك بازار میں امر باالمعروف کا فریضہ انجام دیتی تھیں ۔

آج کے تنگ ذہن لوگ ہوتے تو کہتے اجی عورت کو بازار میں آنے کی کیا ضرورت ہے ، گھر میں بند رہے ، نیکی کا حکم دینے کے لیے مرد مر گئے ہیں ، یہ عورتیں باہر نکلنے کے بہانے مارتی ہیں ، اجی آزاد ہونا چاہتی ہیں ۔۔۔ ذرا اس صحابیہ کے حوالے سے ان صحیح روایات کو ملاحظہ فرمائیں ۔

فعن أبي بلج يحيى بن سليم قال: «رأيت سمراء بنت نهيك - وكانت قد أدركت النبي عليها درع غليظ وخمار غليظ، بيدها سوط تؤدب الناس، وتأمر بالمعروف وتنهى عن المنكر»

یحیی کہتے ہیں میں نے سمراء بنت نہیک کو دیکھا ۔ یہ وہ نیک خاتون ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا تھا ۔ آپ پر ایک موٹی چادر ہوتی تھی اور ہاتھ میں چھڑی ہوتی تھی ۔ آپ لوگوں کو ادب سکھاتی تھیں ، نیکی کا حکم دیتیں اور برائی سے روکتی تھیں ۔

أخرجه الطبراني في المعجم الكبير (٩/٢٦٤) بإسناد جوده الألباني وقال الهيثمي (٩/٢٦٤) ورجاله ثقات.

امام ابن عبدالبر فرماتے ہیں «أدركت رسول الله وعمرت وكانت تمر في الأسواق وتأمر بالمعروف وتنهى عن المنكر وتضرب الناس على ذلك بسوط كان معها» الاستيعاب، ابن عبدالبر، (٤/١٨٦٣).اس خاتون نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا ۔۔۔ آل بازاروں میں جاتی تھیں ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتی تھیں ، آپ کے پاس ایک چھڑی ہوتی تھی اس سے شرارتی لوگوں کو مارا بھی کرتی تھیں ۔

بعض خواتین جو ڈاکٹری اور نرسنگ کا کام کرتی تھیں ۔

1. الربيع بنت معوذ بن عفراء

كُنَّا نَغْزُو مع رَسولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: نَسْقِي القَوْمَ ونَخْدُمُهُمْ، ونَرُدُّ القَتْلَى والجَرْحَى إلى المَدِينَةِ.كُنَّا مع النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ نَسْقِي وَنُدَاوِي الجَرْحَى، وَنَرُدُّ القَتْلَى إلى المَدِينَةِ ( صحیح بخاری : 2882)خود فرماتی ہیں کہ ہم خواتین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگوں میں شریک ہوتی تھیں ، ہم پانی پلانے ، زخمیوں کا علاج کرنے ، مجا ہد ین کی خدمت کرنے ، زخمیوں اور شہداء کو واپس مدینہ منتقل کرنے کا کام کرتی تھیں ۔

2. رفيدة الأنصارية ۔ ان کا مسجد نبوی کے ساتھ ہی خیمہ تھا جہاں وہ بیمار صحابہ کا علاج معالجہ کرتی تھیں ۔ ان کا جناب سعد بن معاذ رضي الله عنه کا علاج کرنے کا واقعہ کتب میں مشهور معروف ہے ۔اسی طرح جنگوں میں شریک ہونے والی مجا ہد خواتین کی شخصیات کی ایک الگ لسٹ ہے ۔ یہ سب گھروں میں رکے رہنے کے خدائی حکم کو ہماری نسبت زیادہ بہتر سمجھتی تھیں ۔باقی یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ کاروبار ، نوکری کرتے ہوئے شرعی آداب کا خیال رکھنا نہایت اہم اور ضروری ہے ۔ شریعت کی مخالفت ہر صورت حرام ہے چاہے آپ گھر میں ہوں یا گھر سے باہر ۔ اس میں کسی کس کوئی اختلاف نہیں ہے ۔

آئیں آپ کو سیرت کا ایک ایسا واقعہ بھی بتاتے ہیں جہاں بیوی خاوند پر بھی خرچ کیا کرتی تھی ۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ اچھے اخلاق والے معاشرے میں مرد و عورت کا کیسا خوبصورت تعلق ہوتا ہے ۔

سأَلتُ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ : أيجزئُ عنِّي منَ الصَّدقةِ النَّفقةُ على زَوجي ، وأيتامٍ في حجري ؟ قالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ : لَها أجرانِ : أجرُ الصَّدقةِ ، وأجرُ القرابةِ ( بخاری )حضرت عبداللہ بن مسعود کی بیوی جناب زینب رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں اپنے خاوند اور بچوں کا خرچہ آٹھاؤں تو میرے لیے اجر ہے ۔ آپ نے فرمایا تمہارے لیے ڈبل اجر ہے ایک صدقے کا دوسرا رشتے کا ۔

تو وہاں تو کسی صحابی نے مردانگی کے طعنے نہیں مارے ، وہ اچھے اخلاق والے لوگ تھے ۔ اچھی نیت والے انسان تھے ۔ ان کو ویسی عورتیں ملیں ۔ یہ بھی یاد رہے گھر کے نام نفقہ ، خرچ کی ذمہ داری مرد پر ہی ہے عورت اپنی مرضی سے کچھ خرچ کر دے تو یہ اس کا احسان ہے ۔

 

ربيعہ فاطمہ بخاری

كا تبصرہ

کل سوشل میڈیا پہ ایک تحریر خوب وائرل ہوئی، جس میں صحابیاتِ رسول صلّی اللّٰہ علیہ وآلہِ وسلم کی پاک زندگیوں سے خواتین کی معاشی سرگرمیوں کی مثالیں دی گئی تھیں۔ میں ذاتی طور پہ کچھ مذہبی حلقوں کے خواتین کو ڈبّے میں بند کر کے رکھنے والے مائینڈ سیٹ سے بالکل اتّفاق نہیں کرتی۔ خواتین کو اپنی حدود میں رہتے ہوئے تقریباً ہر طرح کی آزادی دی گئی ہے۔ لیکن یہاں چند سوالات پیدا ہوتے ہیں۔

کیا سب کی سب صحابیات گھر سے نکل کے معاشی سرگرمیوں میں مصروف رہا کرتی تھیں یا یہ صرف چند exceptions تھیں؟؟ کیا صحابیات کی پاکیزہ زندگیوں سے مکمّل گھرداری کی مثالیں نہیں ملتیں؟؟ کیا "خلع لینا" صحابیات کی "سنّت" تھی (جیسے اس تحریر میں یہ impression دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ جیسے یہ کوئی بہت ہی پسندیدہ عمل تھا دورِ نبویؐ میں) یا یہ طلاق اور خلع اس وقت بھی جائز کاموں میں اللّٰہ ربّ العزّت کے سب سے ناپسندیدہ کاموں میں سے ایک تھا۔

آج سےپندرہ یا بیس سال پہلے جب "آدھی آبادی" گھروں میں "بیکار" بیٹھی تھی، کیا اس وقت ملکی معیشت اس وجہ سے کبھی خسارے میں گئی؟؟ یا آج جب اس آدھی آبادی کا ایک نسبتاً خاصا بڑا حصّہ معاشی سرگرمیوں میں حصّہ لے رہا ہے، ہم کون سے معاشی اور سماجی اہداف حاصل کرنے کی جانب گامزن ہو چکے ہیں؟؟

عرض یہ ہے محترم قارئین۔۔!! میں خود ایک تعلیم یافتہ، پروفیشنل ڈگری ہولڈر اور skilled خاتون ہوں۔ مجھے ابّو جی رحمہُ اللّٰہ علیہ اور اپنے شوہرِ نامدار کی طرف سے ملازمت کی اجازت بھی تھی لیکن میں نے گھر کے سکون کو، بچّوں کی تربیّت اور پرورش کی کوشش کرنے کو اور گھر میں موجود بزرگوں کی خدمت کرنے کو ترجیح دی۔ اور جب زندگی نے موقع دیا، بچّے کچھ سمجھدار ہو گئے خیر سے، اور اللّٰہ کریم نے رستہ سجھایا تو گھر بیٹھے رزق کے حصول میں بھی مصروف ہو گئی۔ اسی طرح ہر عورت کو اپنے گھر کے حالات اور معاملات کے مطابق، اپنے شوہر کے ساتھ باہمی مشاورت سے یہ فیصلہ کرنا چاہیئے کہ وہ ملازمت کرے گی یا گھر بیٹھے گی۔لیکن خواتین سے یہ درخواست کروں گی کہ معاش کی ذمّہ داری ربِّ کائنات نے مرد کے کندھوں پہ ڈالی ہے، آپ کو بچّوں کی پیدائش اور پرورش جیسا عظیم ترین مقصد سونپا گیا ہے۔ اس ذمّہ داری کے ساتھ اپنے کندھوں پہ معاش کا بوجھ از خود لادنے کی "جدّوجہد" مت کیجئیے۔ "کماوء پتری" کی جو اصطلاح ہمارے کانوں میں انڈیلی جا رہی ہے، اس سے خدارا بچئیے۔ پوچھئیے ان۔کماوء پتریوں سے، جو کئی کئی سالوں سے کما کما کے اپنے ہی ماں باپ کے بدترین استحصال کا شکار ہو کے، اپنے گھر بسنے کی آرزو لئے بیٹھی ہیں۔آپ معاشی سرگرمیوں کو عورت کیلئے ایک چوائس ہی رہنے دیجئیے، compulsion مت بنائیے۔ ورنہ مرد تو لامحالہ سکھی ہو جائیں گے اور عورت دوہری چکّی میں پستی رہے گی۔ آج بھی بہت ساری پروفیشنل خواتین ایسی ہیں، جن کی تنخواہ مہینے کے آخر میں ان کے شوہر کے ہاتھ میں جاتی ہے۔ وہ اپنی مرضی سے اپنی ہی کمائی پہ تصرّف نہیں کر سکتیں۔ ہمارے یہاں ذرائع آمدورفت کی کیا صورتحال ہے، سبھی واقف ہیں، ورک پلیسز خواتین کیلئے کتنی محفوظ ہیں، ہر کوئی جانتا ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون کی بدولت مردوزن کے غیرازدواجی تعلّقات، غیرشادی شدہ بچّے بچیوں کے آپس کے affairs، گھروں کے اندر بچّوں کی ہراسمنٹ یعنی کس کس طرح کے مسائل جنم لے رہے ہیں. جس معاشرے میں تعلیم یافتہ مردوں کی ایک بڑی تعداد روزگار کی تلاش میں جوتیاں چٹخاتی پھر رہی ہو وہاں ہر عورت کو گھر سے نکال کے ہم کون سی خیر پالیں گے؟؟