دين و دانش
ايك سفر ميں زيادہ بار عمرے ،قربانی اور ميقات اورحج كا طريقہ
عامر گزدر
سوال: کیا حجاج ومعتمرین کے لیے یہ بات دین میں باعثِ اجر وفضیلت ہے کہ مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران میں وہ جتنی مرتبہ عمرہ کرسکیں، ضرور کریں؟ کیا اِس طرح بہ تکرار عمرہ کرنا نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کے طرزِ عمل سے ثابت ہے؟
جواب: مکہ مکرمہ میں بالعموم حجاج ومعتمرین کی ایک مُعتد بہ تعداد کو دیکھا جاتا ہے کہ اُمّ القری میں اپنے قیام کے دوران میں وہ حدود ِحرم سے باہر جاتے اور تنعیم کے علاقے کی معروف مسجد، مسجد عایشہ سے احرام باندھ کر عمرہ کرتے ہیں اور اپنے اِس عمل کو اپنی اپنی استطاعت کے مطابق دہراتے رہتے ہیں۔ مزید یہ کہ عمرہ کی اِس طرح تکرار کو وہ دین میں بہت ہی باعثِ اجر وفضیلت بھی سمجھتے ہیں۔
بنیادی طور یہاں ایک بات پہلے یہ سمجھ لینی چاہیے کہ تعبدی امور میں مسلمانوں کے لیے کوئی بھی متعین عمل دینِ اسلام میں اُس وقت تک مشروع اور پسندیدہ نہیں ہوسکتا، جب تک دین کے مآخذ میں اُس کوئی بنیاد معلوم نہ ہوجائے۔عمرہ کی صورتِ مسؤولہ کے بارے میں قرآن وسنت اور نبی ﷺ کے قول وفعل کی احادیث میں کوئی ماخذ موجود نہیں ہے۔ بلکہ قرآن وسنت کی رو سے حج اور عمرہ کی عبادات میں پسندیدہ طریقہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ آدمی حج کے لیے الگ سفر کرے اور عمرہ کے لیے الگ۔ دُور دَراز کے علاقوں سے آنے والوں کے لیے یہ حکم زحمت کا باعث ہو سکتا تھا، چنانچہ اِسی بنا پراللہ تعالیٰ نے باہر سے آنے والے حجاج کو اجازت دی ہے کہ وہ اگر چاہیں تو اپنے حج کے سفر میں عمرہ بھی کرسکتے ہیں، لیکن اِس رخصت سے فائدہ اُٹھانے کی بنا پر اُنہیں قربانی یا دس روزوں کی صورت میں فدیہ ادا کرنا ہو گا۔ (البقرہ۲:۱۹۶)
قرآن کے اِس حکم سے اللہ تعالیٰ کا یہ منشا صاف واضح ہے کہ اِن عظیم عبادات کی ادائیگی کی بہتر اور افضل صورت یہی ہے کہ آدمی اِن میں سے ہر ایک کے لیے الگ سے عزمِ سفر کرے۔ اور اِس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب حج کے سفر میں اُس کے ساتھ ایک عمرہ کرنے پر فدیہ عائد کر رہے ہیں تو پھر اُس کے نزدیک ایک سفر میں مکہ میں رہتے ہوئے بار بار عمرہ کرنا کوئی پسندیدہ عمل نہیں ہوسکتا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک عمل دین میں پسندیدہ نہیں ہوسکتا تو یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ اُس کا رسول اُس عمل کو انجام دے یا مسلمانوں کے لیے اُسے دین میں پسندیدہ قرار دے۔ چنانچہ ہم جب رسول اللہ ﷺ کے ارشادات اور حج وعمرہ کے باب میں آپ کے اُسوہ کی احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے حج یا عمرہ کے کسی سفر میں حرم سے باہر نکل کر کبھی کوئی عمرہ نہیں کیا اور نہ آپ نے قولی طور پر اِسے کسی پسندیدہ عمل کی حیثیت سے کبھی بیان فرمایا ہے۔چنانچہ واضح ہوا کہ قرآن وسنت اور نبی ﷺ کے اُسوہ کی رو سے یہ ایک غیر مشروع اور قابلِ اصلاح عمل ہے، اِس لیے کہ جس نفل عبادت کی تکرار کو خود رسالت مآب ﷺ نے اپنے قول یا فعل سے مسلمانوں کے لیے پسندیدہ قرار نہ دیا ہو، وہ دین میں اُن کے لیے پسندیدہ اور مشروع کیسے ہوسکتی ہے؟
نبی ﷺ ہجرت کے بعد حج یا عمرہ کے لیے مدینہ منورہ سے چار مرتبہ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے ہیں۔ شہر ِمکہ میں مقیم رہتے ہوئے یہ اگر کوئی مشروع اور پسندیدہ عمل ہوتا تو اِن مواقع پر آپ اِسے ضرور انجام دیتے یا کم از کم مسلمانوں کے لیے اِسے بیان ضرور کر دیتے، جیسا کہ طوافِ وداع کے بارے میں آپ نے تلقین فرمائی ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہوا۔ بلکہ فتحِ مکہ کے موقع پر تو آپ اُمّ القری میں رمضان کے مہینے میں بغیر احرام کے داخل ہوئے اور پھر ۱۹ دن تک مکہ میں مقیم رہے، لیکن اِس دوران میں بھی حدودِ حرم سے باہر نکل کر آپ نے کوئی عمرہ نہیں کیا۔چنانچہ جاننا چاہیے کہ جس طرح ایک سفر میں ایک سے زائد عمرہ کرنا نبی ﷺ سے ثابت نہیں ہے، اِسی مکہ مکرمہ سے باہر نکل کر کبھی عمرہ کرنا بھی آپ کے عمل سے قطعاً ثابت نہیں ہوتا۔
علاوہ ازیں ایک سفر میں ایک سے زائد عمرہ کا اہتمام نبی ﷺ کے علاوہ آپ کے صحابہؓ نے بھی کبھی نہیں کیا۔ بلکہ صدرِ اوّل میں تو یہ سوال زیر بحث رہا ہے کہ ایک سال میں ایک سے زائد بار عمرہ کیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ (دیکھیے: زاد المعاد، ابن قیمؒ، ۲/۹۷۔۹۸)
یہاں ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص تنعیم کے علاقے سے سیدہ عایشہ رضی اللہ عنہا کے عمرے کو بطور دلیل پیش کرے۔ لہذا اِس واقعے کی تفصیل بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے۔
حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کی معیت میں سیدہ عایشہؓ کے تنعیم کے علاقہ سے احرام باندھ کر عمرہ کرنے کے واقعے کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اُس موقع پر مدینہ منورہ سے آپ کے ساتھ عمرہ کا احرام باندھ کر روانہ ہوئی تھیں۔ پھر قافلے کے ساتھ جب مکہ مکرمہ پہنچیں تو وہ ایام سے تھیں، جس کی وجہ سے وہ اپنا عمرہ ادا نہ کرسکیں اور نتیجتاً احرام بھی نہ کھول پائیں۔ یہاں تک کہ حج کے ایام شروع ہوگئے اور اُنہوں نے نبی ﷺ کی ہدایت کے مطابق تمام حجاج کے ساتھ اپنے اُسی احرام میں حج ادا کیا۔ حج کے بعد اُنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول، کیا آپ سب حج اور عمرہ دونوں کی ادائیگی کر کے لوٹیں گے اور میں صرف حج کے ساتھ واپس ہوں گی؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا: عایشہ، اللہ کے ہاں تمہیں وہی کچھ ملے گا جو اِن سب کو ملے گا۔ پھر سیدہ عایشہؓ نے کہا: (اے اللہ کے رسول،) میرے دل میں یہ بات آ رہی ہے کہ میں نے حج کرنے تک بیت اللہ کا طواف نہیں کیا۔ (چنانچہ سیدہ کے اصرار کو دیکھ کر) آپؐ نے اُن کے بھائی سے کہا: عبد الرحمن،تم اِنہیں لے کر جاؤ اور تنعیم سے لا کر عمرہ کراؤ۔ (دیکھیے: حجّۃ النبی، ناصر الدین البانی، ص۹۱۔۹۲)اس سارے معاملے میں بھی آپ دیکھیں کہ اِس عمرہ کے لیے سیدہ کو آپ سے اجازت لینی پڑی ہے۔ مکہ مکرمہ میں ٹھہرے ہوئے اِس طرح عمرہ کرنا اگر دین میں پہلے سے کوئی مشروع اور پسندیدہ عمل ہوتا تو سیدہ کو آپ سے اجازت حاصل کرنے کی ضرورت بھی نہ ہوتی۔ پھر طلبِ اجازت اور اصرار کی اصل وجہ وہ عمرہ تھا جس کا احرام باندھ کر وہ مدینہ سے روانہ ہوئی تھیں، لیکن معذوری کی بنا پر ادا نہ کرسکی تھیں۔ جب کہ آج کل جو لوگ مکہ میں قیام کے دوران میں بار بار عمرہ کرتے ہیں، اُن کے پاس ایسی کوئی وجہ بھی قطعًا نہیں ہوتی۔ سیدہ کو اتفاق سے یہ صورتِ حال پیش نہ آئی ہوتی تو بالبداہت واضح ہے کہ اِس عمرہ کا خیال بھی اُن کے دل میں نہ آتا، جیسا کہ معلوم ہے کہ اُس حج میں نبی ﷺ کے ساتھ موجود دوسرے صحابہ نے کسی عمرہ کے لیے کوئی خواہش ظاہر نہیں کی۔پھر واقعہ یہ ہے کہ اُس موقع پر سیدہؓ کے بھائی عبد الرحمن ؓ، جن کے ساتھ احرام باندھنے کے لیے وہ تنعیم تک گئی ہیں اور جن کے لیے بظاہر موقع تھا کہ وہ بھی عمرہ کر لیں؛ اپنی دینی بصیرت کی بنیاد پر خود اُنہوں نے بھی اِسے اپنے لیے مشروع اور پسندیدہ نہ سمجھا۔ چنانچہ سیدہؓ کے ساتھ اُنہوں نے عمرہ نہیں کیا۔
سیدہ عایشہؓ کے اِس واقعہ سے زیادہ سے زیادہ جو بات اخذ کی جا سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ حج کے سفر میں اگر کسی عورت کو وہی صورت ِحال پیش آجائے جو سیدہ عایشہ کو اتفاقاً پیش آگئی تھی تو انفرادی طور پر اُس عورت کے لیے کوئی حرج کی بات نہیں ہوگی کہ وہ حج کے بعد اپنا چُھوٹا ہوا وہ عمرہ ادا کر لے جس کی نیت کے ساتھ وہ اپنے وطن سے نکلی تھی۔
اِس ساری بحث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ایک سفر میں جس طرح حج ایک ہی ہوتا ہے، عمرہ بھی ایک ہی مشروع ہے، جیسا کہ نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنھہم کے اسوہ سے معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ حدودِ حرم سے نکل کر اِس طرح عمرہ کرنا اور اِس کی تکرار کرنا خلافِ سنت ہے۔
حج وعمرہ میں قربانی کی مختلف صورتیں اور اُن کا حکم
سوال: کیا حج میں بہر صورت حاجی پر قربانی لازم ہوتی ہے یا اِس میں نفل قربانی کی بھی کوئی صورت ہوتی ہے؟
جواب: حج میں ایک قربانی وہ ہوتی ہے جس کا جانور حاجی اپنے گھر سے ساتھ لے کر نکلتا ہے تا کہ یوم النحر کو وہ اپنی یہ قربانی حرم میں اللہ کے حضور میں پیش کرے۔ یہ قربانی مناسک حج کا حصہ ہے، لیکن تطوع ہے۔ حاجی پر لازم نہیں ہے۔ وہ جانور ساتھ لیے بغیر بھی حج کرسکتا ہے۔ فقہی اصطلاح میں اس طرح حج کرنے کو"اِفراد" کہتے ہیں۔
اِسی طرح شریعت میں عمرہ کے مناسک میں بھی ایک قربانی ہے۔ اِس میں بھی عمرہ کرنے والا قربانی کا جانور اپنے وطن سے ساتھ لے کر نکلتا ہے تا کہ مناسک عمرہ میں صفا ومروہ کی سعی سے فارغ ہو کر سر منڈوانے سے قبل وہ یہ قربانی حرم میں پیش کرے، جیسا کہ حدیبیہ کے عمرہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم مدینہ سے قربانی کے جانور ساتھ لے کر آئے تھے۔ یہ قربانی مناسکِ عمرہ کا حصہ ہے، لیکن یہ بھی نفل ہے۔ عمرہ کرنے والے پر واجب نہیں ہے۔ عمرہ اس کے بغیر بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔علاوہ ازیں حج وعمرہ کی ایک قربانی وہ بھی ہوتی ہے جو حج کے سفر میں ساتھ عمرہ بھی کرلینے کی صورت میں کی جاتی ہے۔ یہ بھی مناسکِ حج کا حصہ ہوتی ہے اور یہ یوم النحر ہی کو ادا جاتی ہے، لیکن یہ قربانی شریعت میں لازم رکھی گئی ہے اور اس کے بارے میں قرآن نے بتایا ہے کہ اِس کے لازم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آدمی نے حج کے سفر میں عمرہ سے بھی فائدہ اُٹھایا ہے۔ یہی قربانی ہے جو آج کل سفرِ حج میں سب سے زیادہ کی جاتی ہے۔ یہ واجب قربانی کرنے والے حاجی بھی مندرجہ ذیل دو طرح کے ہوتے ہیں:
ایک وہ جو حج وعمرہ کی دونوں عبادتیں ایک سفر میں ادا کرنا چاہتے ہیں، لیکن اپنی قربانی کا جانور بھی اُنھوں نے سفر میں اپنے ساتھ لیا ہوتا ہے، جیسا کہ حجة الوداع کے موقع نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ اِس صورت میں عمرہ ادا کرنے کے بعد یہ حاجی احرام نہیں کھول سکتا۔ بلکہ اِس کا یہ احرام یوم النحر کو قربانی کرنے کے بعد ہی کھلتا ہے۔ یعنی اِس صورت میں حج وعمرہ، دونوں ایک ہی احرام میں ادا کیے جاتے ہیں۔ اِس کو فقہ کی اصطلاح میں "قِران" کہا جاتا ہے۔
واجب قربانی کرنے والے دوسرے وہ حجاج ہوتے ہیں جو ایک ہی سفر حج وعمرہ کی دونوں عبادتوں کی نیت رکھتے ہیں، لیکن قربانی کا جانور اپنے ساتھ نہیں لے جاتے، جیسا کہ حجة الوداع کے موقع پر اکثر صحابۂ کرام نے کیا تھا اور آج بھی دنیا کی اکثریت اِسی پر عمل پیرا ہے۔ اِس صورت میں حاجی عمرہ کر کے احرام کھول لیتا ہے اور ۸, ذو الحجہ کو حج کا دوسرا احرام باندھتا تھا۔ فقہ کی اصطلاح میں اِسے "تمتع" کہا جاتا ہے۔
آخر میں یہ بھی واضح رہے کہ حج کے سفر میں ساتھ عمرہ بھی کر لینے کی رخصت اللہ تعالیٰ نے صرف باہر سے آنے والے حجاج کو عنایت فرمائی ہے۔ اہل حرم کو اِس کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
حج وعمرہ کی میقاتوں کا تعارف
حج وعمرہ کی غرض سے آنے والوں کے لیے حدود حرم سے کچھ فاصلے پر بعض جگہیں متعین کر دی گئی ہیں، جن سے آگے وہ احرام کے بغیر نہیں جا سکتے۔ حج یا عمرہ کے لیے جانے والوں کے لیے اِن پر یا اِن کے برابر کسی بھی جگہ پر پہنچ کر ضروری ہے کہ اپنا احرام باندھ لیں ۔ اصطلاح میں اِنھیں ’میقات‘ کہا جاتا ہے۔ یہ مواقیت پانچ ہیں :
۱) ذُو الحُلَيْفَة: یہ مدینہ منورہ سے آنے والوں کی میقات ہے ۔مدینہ سے اِس کا فاصلہ چھ سے سات میل کا ہے ۔ آج کل اِس جگہ کو ’أَبْیَارعَلِی‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مکہ مکرمہ سے شمالی جانب تقریبًا ۴۲۰ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔
۲) الجُحْفة: یہ مصر وشام سے آنے والوں کے لیے ہے ۔رابغ شہر کے قریب میں واقع ہونے کی بنا پر لوگ آج کل رابغ سے احرام باندھتے ہیں۔ مکہ مکرمہ سے یہ میقات تقریبًا ۱۸۶ کلو میٹر کے فاصلے پر شمال مغرب میں واقع ہے۔
۳) يَلَمْلَم: یہ یمن سے آنے والے حجاج ومعتمرین کی میقات ہے۔ یہ ایک وادی ہے جو مکہ مکرمہ سے جنوب میں تقریبًا ۱۲۰ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ آج کل اِس مقام کو ’السَّعْدِیَہ‘کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ بحری سفر کرنے والے پاکستانی حجاج کا گزر اِسی میقات کے قریب سے ہوتا ہے۔
۴) قَرْنُ المنازل: یہ نجد سے آنے والوں اور اہلِ طائف کی میقات ہے۔ یہ ایک پہاڑ ہے جو مکہ مکرمہ سے تقریبًا ۷۵ کلو میٹر دور مشرقی جانب واقع ہے ۔اِس مقام کو آج کل ’السَیْلُ الْکَبِیْر‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ پاکستانی حجاج ہوائی سفر کرتے ہوئے اِسی میقات کے محاذات سے گزرتے ہیں۔
۵) ذَاتُ عِرْق۔ یہ مشرق کی طرف سے آنے والوں، یعنی اہلِ عراق وایران کی میقات ہے۔ یہ مکہ مکرمہ سے شمال مشرقی جانب تقریبًا ۱۰۰ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ آج کل اِس مقام کو ’الضَّرِیْبَۃ‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے-
حج كا طريقہ
حج کے لیے شریعت میں جو طریقہ مقرر کیا گیا ہے ، وہ یہ ہے :
یوم التروِیَہ ۸؍ ذو الحجہ کے مناسک
عمرے کی طرح حج کی ابتدا بھی احرام سے ہوتی ہے۔ چنانچہ پہلا کام یہی ہے کہ ۸؍ ذوالحجہ کو حج کی نیت سے اُس کا احرام باندھا جائے اور تلبیہ کا وِرد شروع کیا جائے۔
۸؍ ذوالحجہ ہی کو منیٰ کے لیے روانہ ہوں اور وہاں قیام کریں۔
یوم عرفہ ۹؍ ذوالحجہ کے مناسک
۹؍ ذوالحجہ کی صبح عرفات کے لیے روانہ ہوں۔
وہاں پہنچ کر امام ظہر کی نماز سے پہلے حج کا خطبہ دے، پھر ظہر اور عصر کی نماز جمع اور قصر کر کے پڑھی جائے۔نماز سے فارغ ہوکر جتنی دیر کے لیے ممکن ہو، اللہ تعالیٰ کے حضور میں تسبیح وتحمید، تکبیر وتہلیل اور دعا ومناجات کی جائے۔غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ کے لیے روانہ ہوں۔وہاں پہنچ کر مغرب اورعشا کی نماز جمع اور قصر کر کے پڑھی جائے۔
رات کو مزدلفہ کے اِسی میدان میں قیام کیا جائے۔
یوم النحر۱۰ ؍ذو الحجہ کے مناسک
۱۰ ؍ذو الحجہ کو فجر کی نماز کے بعد یہاں بھی تھوڑی دیر کے لیے عرفات ہی کی طرح تسبیح وتحمید، تکبیر وتہلیل اور دعا ومناجات کی جائے۔پھر منیٰ کے لیے روانہ ہوں اور وہاں جمرۂ عقبہ کے پاس پہنچ کر تلبیہ پڑھنا بند کر دیا جائے اور اس جمرے کو سات کنکریاں ماری جائیں۔ہدی کے جانور ساتھ ہوں یا نذر اور فدیہ کی کوئی قربانی واجب ہو چکی ہو تو یہ قربانی کی جائے۔پھر مر د سرمنڈا کر یاحجامت کرا کے اور عورتیں اپنی چوٹی کے آخر سے تھوڑے سے بال کاٹ کر احرام کا لباس اتار دیں۔پھر بیت اللہ پہنچ کر اُس کا طواف کیا جائے۔احرام کی تمام پابندیاں اِس کے ساتھ ہی ختم ہوجائیں گی۔اِس طواف کے بعد اگر ارادہ ہو تو بطور تطوع صفا ومروہ کی سعی بھی کر لی جائے۔
ایامِ تشریق۱۱ ، ۱۲ اور ۱۳ ؍ ذوالحجہ کے مناسک
پھر منیٰ واپس پہنچ کر دویا تین دن قیام کیا جائے اور روزانہ پہلے جمرۂ اولیٰ، پھر جمرۂ وسطیٰ اور اِس کے بعد جمرۂ عَقبہ کو سات سات کنکریاں ماری جائیں۔ اِن ایام کو ’ایامِ تشریق‘ کہا جاتا ہے۔