دين و دانش
اختلاف رائے كے آداب
ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ
اختلاف رائے چونکہ ایک فطری امر ہے ،اس لیے ابتدائے آدمیت سے تاہنوز اس کے مظاہر ملتے ہیں،حتیٰ کہ دور نبوت میں بھی اس کا سراغ ملتا ہے ۔دور نبوت میں اختلاف رائے کا حل یہ تھا کہ صحابہ کرام ؓ رسول خدا کی جانب رجوع فرمالیتے -دور صحابہ ؓ و تابعین میں اختلاف رائے کسی کے احترام میں مانع نہیں رہا ،چنانچہ فقہی مجتہدات کی بنا پر چند مکاتب فکر ضرور وجود میں آئے۔مگر ایک دوسرے کی اجتہادات کے لیے احترام کا جذبہ کارفرما رہا -لوگ اپنی پسند کے مجتھد کی تقلید کرتے مگر دوسرے ائمہ اجتھاد کا احترام کرتے ۔لیکن چوتھی صدی ہجری کے بعد مسلمانوں میں ایک تباہ کن علمی انقلاب آتا ہے اور تقلید کا وہ دور شروع ہوتا ہے ، جوبتدریج علوم کے ارتقاء کو جمود وتعطل کا شکار بنادیتا ہے۔ مناظراتی ماحول کو وجود بخشتا ہے۔ فقہی جنگ وجدل، مناظرانہ چپقلش اور ردوقدح کے نتیجہ میں مختلف فقہی اجتہادات پر تعصب کی گہری تہیں چڑھ جاتی ہیں۔ مختلف فرقے شدت اختیار کرکے ایک دوسروں کو اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں۔ مسلمانوں کی نئی نسل اسی ماحول میں پروان چڑھتی ہے۔ دوسری طرف صہیونی اورسامراجی طاقتیں مسلمانوں کے فروعی اختلافات سے فائدہ اٹھاکرانھیں آپس میں لڑاتی اور مختلف ٹکڑوں، برادریوں اور گروہوں میں تقسیم کردیتی ہیں اس طرح ملت اسلامیہ کا شیرازہ پارہ پارہ ہوکر رہ جاتا ہے۔اختلاف، مخالفت ومخاصمت اور لڑائی جھگڑے میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان الفت ومحبت، اخوت وبھائی چارگی کے جذبات ختم ہوجاتے ہیں۔ ان کی تمام تر کوششوں کا رخ اختلاف رکھنے والوں کو شکست دینے اور ان کو ذلیل وخوار کرنے کی طرف پھر جاتا ہے اور مسلمان ایک بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود دشمنانِ اسلام کے لیے نرم چارہ بن جاتے ہیں۔ وہاں بھی جہاں وہ اقلیت میں ہیں اور وہاں بھی جہاں اقتدار اور وسائل کی فراوانی انہیں حاصل ہے۔ان حالات کا تقاضا ہے کہ ہم اپنا جائزہ لیں اور قرون اولیٰ کی طرف پلٹیں،قرآن و سنت کو اپنی اساس کار بنائیں۔
قرآن واحادیث ، اسوۂ صحابہ اور فقہ اسلامی کی تاریخ کی روشنی میں فقہی اختلافات کے سلسلہ میں ہمیں چند حدودوآداب کا خیال رکھنا چاہیے۔
(1) فقہی اختلافات کی حیثیت اساسی اور بنیادی نہیں ہے۔ یہ جزوی اور فروعی اختلافات ہیں اس لیے فقہی اختلافات کو اسلام کے مسلمہ عقائد واصول کا مقام نہیں دینا چاہیے۔
(2)تمام ائمہ فقہ کے نزدیک دوسرے امام کے اجتہادات بھی قابل احترام ہیں اس لیے ہمیں دوسرے مسلکوں کے ائمہ اور ان کے متبعین کو برحق سمجھنا چاہیے اور ایک دینی بھائی کی حیثیت سے ان کا دل سے ادب واحترام کرنا چاہیے۔
(3)مسلکوں کی بنیاد پر کسی مسلک والے کی تفسیق وتکفیر خود ایک بڑا گناہ ہے۔ اس سے حتی الامکان احتراز کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔
(4)فقہی اختلافات پر زیادہ بحثیں کرنے دوسرے کے مسلک کو کمزور اور مرجوح ثابت کرنے کی کوششوں میں اپنی صلاحیتیں اور وقت ضائع کرنے کے بجائے غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینے، اسلام کے سلسلے میں پائی جانے والی ان کی غلط فہمیاں رفع کرنے اور مسلمانوں کے درمیان اصلاح اور خدمتِ خلق کے کاموں پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔
(5) سوشل میڈیا اور تشہیری ذرائع ابلاغ پر ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی سے کلی طور پر اجتناب کرنا چاہیے۔
(6) ہر امام مجتہد نے قرآن وحدیث کی روشنی میں اجتہادات کئے ہیں۔ اگر مجتہد سے غلطی ہوتی ہے تب بھی اسے قابلِ اجر وثواب قرار دیا گیا ہے تو شریعت میں اسے مطعون کرنے کی گنجائش کیسے نکالی جاسکتی ہے۔
(7) ایک ہی عمل کو احادیث میں مختلف طریقوں سے انجام دینے کا ذکر اس بات کی دلیل ہے کہ ہر ایک طریقہ صحیح اور جائز ہے۔ اس سے اسلام میں توسع اور کشادگی کا ثبوت ملتا ہے نہ کہ نزاع ومخالفت کا۔ مثلاً احادیث میں رفعِ یدین ،عدم رفع یدین، آمین بالجہر، آمین بالسر، تکبیر کے وقت ہاتھوں کو کانوں تک اٹھانے یا کاندھے تک اٹھانے کا تذکرہ ملتا ہے۔مختلف روایتوں سے یہ بات مبرہن ہوجاتی ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے کبھی رفع یدین کیا اور کبھی نہیں کیا۔ کبھی آپ پر ایسی کیفیت طاری رہی کہ آپ نے آمین آہستہ کہا یا کبھی کیفیت کا یہ عالم تھا کہ آپ نے آمین زور سے کہا۔ کبھی ہاتھ کاندھوں تک اٹھائے اور کبھی آپ نے ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور کبھی آپ کے ہاتھ کانوں تک چلے گئے یا جب آپ ہاتھ اٹھارہے تھے تو انگلیوں کے سرے کانوں تک پہنچ گئے اور ہتھیلی کاندھوں تک رہی۔ ایک راوی نے انگلیوں کے سروں کو حد مانا اور بیان کردیا کہ آپ نے کانوں تک ہاتھ اٹھائے، ایک راوی نے ہتھیلی کو حد مانا اور بیان کردیا کہ آپ نے کاندھوں تک ہاتھ اٹھائے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپؐ نے اظہار جواز کے لیے مختلف طریقے اپنائے ہوں کہ رفع یدین بھی جائز ہے اور رفع یدین نہ کرنا بھی جائز ہے۔ اسی طرح آمین بالجہر بھی جائز ہے اور آمین بالسر بھی جائز ہے۔اصل تو یہ ہے کہ آمین کہا جائے وغیرہ۔افسوس یہ ہے کہ جن معاملات میں اللہ کے رسولؐ نے ہمارے لیے آسانی اور توسع پیدا فرمایا، ہم نے اپنی ضد میں ان معاملات میں شدت اور تنگی پیدا کردی اور پھر اس پربیجا اصرار کے عادی ہوگئے۔مجھے استاذِ محترم حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے ۔ انہوں نے ایک بار نماز پڑھتے ہوئے رفع یدین کیا۔ نماز سے فراغت کے بعد ایک صاحب نے مولانا سے سوال کیا کہ آپ تو حنفی ہیں آپ نے رفع یدین کیوں کیا؟ آپ نے جو جواب دیا وہ سننے اور عمل کرنے کے قابل ہے۔آپ نے فرمایا:’’حدیث میں آتا ہے کہ آنحضورؐ نے رفع یدین بھی کیا۔ میں چاہتا ہوں کہ کل قیامت کے دن جب آنحضورؐ سے میرا سامنا ہوتو ایک بھی ایسی حدیث باقی نہ رہے جو مجھ تک پہنچی ہو اور میں نے اس پر عمل نہ کیا ہو۔‘‘
(8) اگر کبھی علمی وتحقیقی مذاکرے میں شرکت کرنا ہوتو قرآن وحدیث کو بنیاد بناکر گفتگو کرنی چاہیے ۔ اپنے مسلک کی برتری مقصودِ گفتگو نہیں ہونی چاہیے۔ اللہ کے رسولؐ نے اپنے آخری خطبے میں فرمایا تھا۔ ’’اے لوگو! میں تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم انہیں مضبوطی سے تھامے رہو گے کبھی گمراہ نہ ہوگے۔‘‘ وہ دوچیزیں قرآن اور اللہ کے نبی کی سنت ہیں۔آج تنازعہ وجھگڑے کی بنیاد یہ ہے کہ ہم اپنے مسلک کو بنیاد بناکر بات کرتے ہیں۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ جب مالٹا کی جیل سے واپس آئے تو ایک بار فرمایا کہ قید میں یہ سوچتا رہا کہ مسلمانوں کی پسپائی کی وجہ کیا ہے؟ تو میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس کی دوبنیادی وجہ ہیں۔ پہلی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلمان انتشار وبکھراؤ کا شکار ہوئے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کی پسپائی کی وجہ صرف ایک ہے کہ انہوں نے قرآن وسنت کو چھوڑدیا، نہ اسے سمجھ کر پڑھتے ہیں نہ ہی اپنے اختلافات میں اسے مرجع وحکم بناتے ہیں۔ مسلمانوں کے انتشار اور بکھرا ؤ کی اصل وجہ بھی دراصل قرآن وسنت سے دوری ہے۔
(۹) گفتگو، اظہار خیال اور بحث وتمحیص کے درمیان یہ احساس ایک منٹ کے لیے بھی ذہن سے اوجھل نہ ہوکہ ہر شخص سے خطا کے صدور کا امکان ہے صرف اللہ اور اس کے رسول معصوم ہیں۔ میرے استاذ میرے پیر ومرشد اور میرے امام کی رائے بھی غلط ہوسکتی ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کے شاگردوں امام ابویوسفؒ ، امام محمدؒ، امام زفرؒ نے اپنے استاذ ومرشد سے سیکڑوں مقامات پر اختلاف کیا اور ان کی رائے کو غلط قرار دیا۔
(10) دورانِ گفتگو یہ بھی احساس رہنا چاہیے کہ جس طرح میں اپنی رائے کو صحیح سمجھ رہا ہوں اسی طرح دوسرے کی رائے بھی صحیح ہوسکتی ہے اور جس طرح میں دوسرے کی رائے کو غلط گردان رہا ہوں اسی طرح میری رائے بھی غلط ہوسکتی ہے۔
(11) ہمیں ہر وقت اللہ سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اللہم ارنا الحق حقا وارنا الباطل باطلا۔پھر پوری ملت کے لیے بھی دعا کرتے رہنا چاہیے کہ آج ملت جس انتشار وافتراق کا شکار ہے۔’’