دين و دانش
ارض حرم اور اس کی مذہبی حیثیت
سید سلیمان ندوی (معارف دسمبر 1923)
سر زمین حرم صرف عبادت گذاروں کا مسکن ہے
ارض حرم ، کی نسبت گذشتہ مباحث میں جو کچھ لکھا گیا ہے، اس سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ، وہ اسلام کا دینی اور مذہبی مرکز ہے، اس کا گوشہ گوشہ اسلام کا معبد اور مسلمانوں کا مشہد ہے، ارض حرم جس دن ارض حرم بنی، اسی دن اس کی یہ خصوصیت عیاں کر دی گئی ہے، کہ وہ صرف رکوع اور سجود کا آستانہ اور اعتکاف و طواف کا مقام ہے اور انہیں بندگانِ حق کا مسکن ہے جنکی زندگیاں راہِ خدا پرستی میں وقف ہو چکی ہیں اور جو حیات ابدی کے طالب اور جویا ہیں، خانۂ حرم کے معماروں کو جب وہ اس کی تعمیر سے فارغ ہو چکے اس کے مالک کا حکم پہنچا،وَّ طَہِّرۡ بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ وَ الۡقَآئِمِیۡنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوۡدِ﴿۲۶﴾ تم دونوں میرے گھر کو طواف کرنے والوں ، اعتکاف کرنیوالوں رکوع اور سجود کرنے والوں کے لئے پاک کرو۔
معلوم ہوا کہ ارض حرم کی تعمیر کا خاص مقصد یہ ہے کہ توحید کے پرستاروں کا یہ وہ مقام ہو، جہان خدائے واحد کی پرستش کے سوا کوئی عمل مطلوب نہ ہو، اس کے سوا دنیا کے اور جتنے کام ہیں وہ اس کی پاکی اور طہارت کے منافی ہیں، اُس کی طہارت اور پاکی، اُسکی عظمت اور تقدس صرف اسی میں ہے کہ وہ عبادت الٰہی کا مرکز، توحید پرستی کا معبد، رکوع اور سجود کی چوکھٹ اور اعتکاف و طواف کی خانقاہ ہو-
حضرت ابراہیم نے خدا کے نام پر جب اس گھر کو بنایا اور اس کی پاسبانی کے لئے اپنی سب سے پیاری اور عزیز اولاد حضرت اسماعیل کو قربان کیا تو ساتھ ہی مقصد الٰہی کے مطابق اپنی غرض بھی ظاہر کر دی-
﴿ وَإِذۡ قَالَ إِبۡرَٰهِيمُ رَبِّ ٱجۡعَلۡ هَٰذَا ٱلۡبَلَدَ ءَامِنٗا وَٱجۡنُبۡنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعۡبُدَ ٱلۡأَصۡنَامَ ٣٥ رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضۡلَلۡنَ كَثِيرٗا مِّنَ ٱلنَّاسِۖ فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُۥ مِنِّيۖ وَمَنۡ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٞ رَّحِيمٞ ٣٦ رَّبَّنَآ إِنِّيٓ أَسۡكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيۡرِ ذِي زَرۡعٍ عِندَ بَيۡتِكَ ٱلۡمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُواْ ٱلصَّلَوٰةَ [ابراهيم: ٣٧]
ترجمہ: اور جب ابراہیم نے کہا، میرے پروردگار اس شہر کو امن دینے والا بنا اور مجھ کو اور میری نسل کو اس سے بچا کہ ہم بتوں کو پوجیں۔ میرے پروردگار! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے توجو میری پیروی کرے وہ مجھ سے ہے، اور جو میری نافرمانی کرے تو تو بخشنے والا مہربان ہے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی اولاد سے بعض کو تیرے مقدس گھر کے پاس بن کھیتی کے میدان میں اس لئے لا کر بسایا ہے ہمارے پروردگار ! تا کہ وہ نماز کھڑی کیا کریں (یعنی میری عبادت کریں)
اس شہر کے سب سے پہلے آبادکار نے یہ ظاہر کر دیا کہ اُس کی بنا، صرف توحید پرستی کے لئے ہے۔ یہ باطل پرستیوں کا کبھی گہوارہ نہ بنے۔ اس مقدس گھر کے سایہ میں جو بھی کبھی آباد ہوں اُن کی سکونت کی غرض صرف یہی ہونی چاہئیے کہ وہ اقامت صلٰوۃ یعنی عبادت الٰہی کے لئے اپنی حیات کو قربان کرتے ہیں۔ وہ ناپاک سازشوں اور چالبازیوں، دنیاوی سیاستوں، اور ملعون ہوسناکیوں، تخت و تاج اور باج و خراج، فوج و عسکر اور تیغ و خنجر کی جگہ نہیں، وہ صرف ایک ہی کی بادشاہی کا دار السلطنت اور ایک ہی سپہ سالار کا لشکر گاہ ہے، وہاں کا تاجدار صرف خدائے قدوس ہے اور وہاں کا سریر آرا صرف ربِّ دو عالم ہے۔ وہ انسانی بادشاہیوں اور خونریزیوں کی سر زمین نہیں ، وہ قُدوسیوں کا مسکن ، حق جویوں کا مامن اور سچے فرزندانِ ابراہیم کا وطن ہے۔اور یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ابراہیم کے اصلی جانشین وہ نہیں ہیں جو صرف صلبی اور نسبی حیثیت سے ابراہیم کی جسمانی اولاد ہیں، بلکہ وہی ہیں جو ابراہیم کی پیروی اور اطاعت کر کے اُنکی معنوی اور روحانی اولاد بننے کا درجہ حاصل کر چُکے ہیں، حضرت ابراہیم نے صاف کہ دیا،فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ (ابراہیم) جو میری پیروی کرے وہی مجھ سے ہے
وہ تمام مسلمانوں کی ملکیت ہے
پس ابراہیم کی اولاد جس کو اس ارض حرم میں اُس کی جانشینی کا حق حاصل ہے وہی ہے جو یہاں کی سکونت کے لئے ابراہیم کی اطاعت اور پیروی کی مالکانہ سند اپنے پاس رکھتی ہے۔ اسی بنا پر یہ سر زمین نہ کسی نسل خاص کی ملکیت ہے نہ کسی قوم واحد کی مملوکہ ہے، نہ کسی خاندانِ خاص کی جائداد ہے بلکہ یہ ان تمام انسانوں کی ملکیت اور جائداد ہے جو بت شکن ابراہیم کی پیرو اور مطیع ہے، وہ لوگ جو پشتہا پشت اور صدیوں سے اس میں مستقل سکونت رکھتے ہوں، اُن کا اس سرزمین پر استحقاق ایک ذرہ ان سے زیادہ نہیں جنہوں نے ابھی ابھی اُس کے حدود میں قدم رکھا ہے، بلکہ وہ جو 13 صدیوں سے نسلاً بعد نسلِِ ِ توحید کے پرستار چلے آتے ہیں ، اُن کا حق بھی اُس ذلیل ترین ہستی کے حق سے سرِمو زیادہ نہیں، جس کی زبان ابھی چند لمحے گذرے کہ کلمۂ توحید سے مشرف ہوئی ہے، غرض عرب، عجم، ترکی و تاتاری، بنی ہاشم اور بنی اُمیہ، بنی فاطمہ اور آلِ معاویہ ، مکی اور آفاقی، اس کے حقوق میں سب یکساں ، مساوی اور برابر ہیں۔
بندۂ عشق شدی ترکِ نسب کُن جامیؔ کہ درین راہ فلان ابن فلان چیزے نیست
اس گھر اور اس سر زمین کے مالک نے اس کی آبادی اور سکونت کے استحقاق کے لئے صرف ایک ہی حق کو تسلیم کیا ہے، اور وہ ابراہیم کی اطاعت کیشی اور پیروی ہے جو اس سند سے سرفراز ہے وہ اُس کی تولیت کا حقدار ہے، اور جو اس سے محروم ہے وہ اس کے حق سے بھی محروم ہے-
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاء الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ (حج 25) ترجمہ: بیشک وہ جو کافر ہیں اور جو راہِ الٰہی سے اور اُس مسجدِ حرم سے روکتے ہیں جس کو ہم نے تمام انسانوں کے لئے بنایا ہے اور جس میں وہاں کے رہنے والے اور باہر کے دونوں کے حق برابر ہیں-
اس اعلان الٰہی کے بعد کون ہے جو سر زمین حرم کی تولیت کی تولیت کا اس لئے مدعی ہو کہ وہ عرب ہے، اس لئے مُدعی ہو کہ وہ ہاشمی ہے، اس لئے مدعی ہو کہ وہ آل اشراف سے ہے، اس لئے مدعی ہو کہ وہ صدیوں سے وہاں سکونت پذیر ہے، اس لئے مُدعی ہو کہ سالہا سال سے اس کا خاندان وہاں حکمران ہے، اور کون ہے جو وہاں سے باہر دوسرے ملکوں کےرہنے والے مسلمانوں کے حق کو اس دلیل سے رد کر دے کہ وہ عرب کی قوم نہیں، وہ سادات اور شرفاء کے خاندان سے نہیں، وہ اس ملک کے باشندے نہیں، اس سرزمین کا مالک صرف ایک ہے اور وہ خدا اور اس کے تمام پرستارانِ حق اور گلمہ گو اس سر زمین کے حال و مستقبل کے حقوق میں یکساں اور مساوی ہیں، وہ آلِ ابراہیم کی اس تمام نسل کا مسکن اور وطن ہے جو آج دنیائے اسلام کے گوشہ گوشہ میں پھیلی اور بکھری ہے اسی بنا پر شریعت اسلام نے اس شہر کی پوری زمین کو وقف قرار دیا ہے، نہ اُس کا کوئی حصہ کسی کی ذاتی ملکیت ہے، نہ وہ فروخت ہو سکتی ہے، نہ وہاں کرایہ پر کوئی مکان چلایا جا سکتا ہے، اور نہ آج جو شخصی تصرفات کے جو نشانات ہیں، وہ شریعت محمدیہ کے رُو سے جائز اور روا ہیں۔
وہ دار الامن ہے
آدم کی اولاد فرشتوں کے طعنوں کے باوجود اپنی سفاکیوں اور خونریزیوں سے خدا کی زمین کو نجس و ناپاک کرتی رہتی ہے، خدا نے سطح ارضی کے ایک گوشہ کو اپنا نشیمن بنایا اور اُس کو اپنا گھر کہہ کر پُکارا، کہ وہ اس خون سے لتھڑی ہوئی دنیا کا ایک ایسا ٹکڑا ہو جو انسانی ظلم و ستم سے معصوم اور سفاکانہ خونریزیوں سے پاک ہو، جہان انسانی خون کا ایک قطرہ بھی اس کے دامنِ عصمت کا داغ ہو، سطح ارضی کا یہ گوشہ سر زمین حرم ہے، جہاں مجرم سے مجرم انسان کا بھی خون گرانا ممنوع، جہاں حلال سے حلال جانور کا شکار بھی گناہ جہاں شاخوں درختوں کا کاٹنا بھی حرام اور جہاں سبزہ اور روئیدگی کو چھیلنا بھی جرم ہے، وہ صرف امن و امان کا وطن، اور سکون و سلام کا مسکن ہے، ہر ذی روح اور غیر ذی روح اس کے سایہ میں مامون و معصوم ہے، حضرت ابراہیم نے دعا کی رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا میرے پروردگار اس شہر کو امن دینے والا بنا-لبوں کی جنبش سے پہلے یہ دعاء بارگاہ الٰہی میں قبول اور استجابت سے مشرف ہو چکی تھی، کہ دم تکوین اُس کے ناصیہ تقدیر میں یہ شرف مقدّر ہو چکا تھا-وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِوَأَمْنًا اور جب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کا مرجع اور امن بنایا-خدائے عزیز نے اس شہر کے امن و امان کی قسم کھائی
وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ ﴿1﴾ وَطُورِ سِينِينَ ﴿2﴾ وَهذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ ﴿3﴾ قسم ہے انجیر اور زیتون کی اور طور سینا کی اور اس امن والے شہر کی -
قریش پر اپنا یہ احسان ظاہر فرمایا۔فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هذَا الْبَيْتِ ﴿3﴾ الَّذِي أَطْعَمَهم مِّن جُوعٍ وَآمَنَهم مِّنْ خَوْفٍ ﴿4﴾ تو چاہئیے کہ وہ اس گھر کے مالک کو پوجیں جس نے اُن کو (اس خشک اور بنجر زمین) بھوک سے بچا کر کھانا دیا اور خوف سے محفوظ رکھ کر اُن کو امن بخشا-
اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّا جَعَلۡنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّ یُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنۡ حَوۡلِہِمۡ َ ۔ (عنکبوت) کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے امن والا حرم بنایا۔ حالانکہ اس کے آس پاس کی بد امنی کا یہ حال ہے کہ لوگ اچک لئے جاتے ہیں۔
اس کے دار الامن بنانے کے لئے بارگاہ شہنشاہی سے یہ منشور خاص جاری ہوا-و من دخلہُ کان اٰمناً جس نے اس کے اندر قدم رکھادیا وہ مامون ہو گیا۔
اس نُکتہ کو غور کرو کہ مدینہ آنے کے چند سال بعد ہی اسلام اس قدر طاقتور ہو گیا تھا کہ وہ جب چاہتا تلواروں کے سایہ میں ارض حرم میں داخل ہو جاتا، مہاجرین کے قلوب اپنے وطن کے دیار کے لئے بے قرار تھے، انصار کی تلواریں ساکنان حرم (قریش) سے انتقام کے لئے بےتاب تھیں۔ عام مسلمان مسجد ابراہیمی کے شوقِ زیارت کے لئے بے چین تھے، لیکن ان حالات کے باوجود آنحضرت صلعم کی نگاہ پاک بین ان سب سے بالا تر ایک حقیقت تھی اور وہ یہ کہ وہ دار الامن ہے۔ تلواروں کی دھاروں، نیزوں کی انّیوں اور تیروں کے پیکانوں سے اس سر زمین کے "جسم اقدس" کو مجروح نہیں کیا جا سکتا، وہ قتل و غنیمت اور خونریزی سے گو وہ حق کے لئے مغلوب نہیں کیا جا سکتا۔ وہ امن و صلح کا گھر ہے اور وہ صرف امن و صلح ہی سے حاصل کیا جا سکتا ہے، آپ پُر جوش مسلمانوں کے جذبات کے خلاف حدیبیہ میں دب کر صلح فرماتے ہیں اور فوجوں کی فاتح تلواروں کو اس کے حدود کے اندر فاتحانہ داخلہ کی اجازت نہیں دیتے اور فرماتے ہیں قریش جو بات بھی ایسی پیش کریں گے جس میں خانہ الٰہی کی حرمت ہو گی میں اس کو قبول کروں گا اور دوسرے سال سینکڑوں مسلمانوں کے جلو میں اس طرح ادائے عمرہ کے لئے مکہ میں داخل ہوتے ہیں کہ انسانی قتل و خونریزی کے تمام اوزار مکہ سے باہر چھوڑ دئے جاتے ہیں۔ 8ھ میں جب فتح مکہ ہوتا ہے۔ دس ہزار مجاہدین کے دستے قدوسیوں کے پیکر میں قسم قسم کے بیرقون اور نشانوں کے سایہ میں دم بدم شہر سے قریب ہوتے جاتے ہیں، انصار کی تلواریں انتقام کے جوش میں بار بار نیام سے باہر ہو رہی ہیں، ان کے علمبردار عبادہ کی زبان پر یہ ترانہ ہے۔الیوم یوم الملحمۃ الیوم تستحلّ الکعبۃ ۔ ۔ ۔ آج گھمسان لڑائی کا دن ہے۔ آج کعبہ خونریزی کے لئے حلال کیا جائیگا
حضور کے سمع اقدس تک یہ آواز پہنچتی ہے، حکم ہوتا ہے کہ "عبادہ نے غلط کہا، آج کعبہ کی عظمت کا دن ہے اور اس قصور میں فوج کا علم عبادہ سے لیکر اُن کے بیٹے کو دے دیا۔ آگے بڑھے تو آنحضرت صلعم کی نگاہ مبارک میں تلوار ونکی چمک نمایاں ہوئی، معلوم ہوا کہ سیف اللہ خالد کی تلوار نیام سے نکل آئی ہے۔ اُن سے باز پرس کی گئی تو ظاہر ہوا کہ قریش کے ایک دستہ نے تیروں کی بارش سے دو مسلمانوں کو جام شہادت پلا دیا، آپ نے سُن کر فرمایا، قضائے الٰہی یہی تھی" بعض شدید مجرموں نے حرم کی سر زمین میں جا کر پناہ لی، حکم ہوا کہ وہ جہاں بھی ہوں قتل کئے جائیں، یہی وہ ساعت تھی جس میں فرزند اسمائیل اور جانشین ابراہیم کے لئے سر زمین حرم میں قتل جائز قرار دیا گیا۔
لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ (1) وَأَنْتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِ (2) (بلد) نہیں، اس شہر کی قسم کھاتا ہوں اور اے پیغمبر تو اس شہر میں حلال ہے، قران مجید نے اس علت کی حد کی تعین بھی کر دی۔وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّىٰ يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ ۖ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ ۗ كَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ (191) تو قریش سے حرمت والی مسجد کے پاس نہ لڑو یہاں تک کہ وہ تم سے اس میں نہ لڑیں تو اگر وہ تمکو وہا ں قتل کرنا چاہيں تو تم انکو بھی قتل کرو-
عین اس وقت جب آپ کے لئے اس سند جواز پر عمل کا وقت تھا فرمایا
و انہ لم یحل القتال فیہ لا حد قبلی و لم یحل لی الا ساعۃ من نھار فھوا حرام لجرمۃ اللہ الی یوم القیامۃ (حدیث)میرے پہلے کسی کے لئے اس زمین میں لڑنا حلال نہیں ہوا اور میرے لئے بھی حلال نہیں ہوا لیکن ایک گھڑی دن کے لئے تو اب وہ خدا کے محترم بنانے سے قیامت تک کے لئے محترم ہے۔
اب ان گنہگار انسانوں کے حق میں کیا فیصلہ ہے جنھوں نے مسجد حرام کے امن و امان کو ہر قسم کے آلات قتل سے زخمی اور مجروح کیا اور معصوم سر زمین کو انواع و اقام کے قتل و خونریزی سے ناپاک و نجس کیا؟
یہاں ظالم سزا یاب ہو گا
ارض حرم کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ جو شخص اس کے امن و امان اور صلح و سلام کے خرمن میں آگ لگائیگا، وہ اس میں خاک ہو جائے گا اور جو مغرور اس کے حدود میں ظلم و ستمگاری کو آشکار کرے گا وہ خود دوسروں کے ظلم و ستمگاری کا نشانہ بن جائے گا۔ گھر کے مالک کا اعلان عام ہے وَ مَنۡ یُّرِدۡ فِیۡہِ بِاِلۡحَادٍۭ بِظُلۡمٍ نُّذِقۡہُ مِنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ترجمہ اور جو اس میں منحرف ہو کر ظلم کا ارادہ کرے گا ہم اوس کو درد ناک عذاب چکھائیں گے۔
ہمارے سامنے تاریخ کی زبان حال اس پیشینگوئی کی شہادت تصدیقی کے لئے کافی ہے جب کبھی لوگوں نے اس سر زمین کو اپنی دنیاوی جاہ و جلال کا مرکز بنانا چاہا اور اس کے امن و امان کی بارگاہ کو خطرہ میں ڈالا، خواہ وہ باہر کے حملہ آور ہوں یا اندر کے مدعی ہوں اصحاب الفیل کا کیا حشر ہوا، یزید اور اس کے خاندان کا چند سال میں استیصال ہو گیا۔ حضرت ابن زبیر کو ناکامی ہوئی۔
مدینہ منورہ بھی حرم ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جس طرح ابراہیم نے مکہ کو حرم بنایا میں مدینہ کو حرم بناتا ہوں اس لئے مدینہ کے مدعیوں کا بھی حشر یہی ہے یزیدیوں کی بربادی ہوئی، واقعہ حرّہ میں انصار زادوں کو ناکامی ہوئی، نفس زکیہ اور دوسرے سادات ناکام رہے، کیونکہ ان مدعیوں نے حرم کے امن و امان کو خاک و خون میں لتھیڑ دیا، شریف حسین اور اُسکی اولاد کی ناکامی تمھاری آنکھوں کے سامنے ہے
سر زمینِ حرم دار السلطنت نہیں بن سکتی
تم نے نے ایک ایک کر کے پڑھا کہ ارض حرم صرف عبادت گزاری کا گھر ہے، وہ تمام دنیائے اسلام کی ملکیت ہے، وہ دار الامن ہے، یہاں ظالم سزا یاب ہو گا، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ یہ سر زمین بادشاہیوں اور فوج کشیوں کے لئے نہیں ہے۔ یہ بغاوتوں اور فسادوں کا مقام نہیں ہے، یہ سازشوں اور چالبازیوں کی کمین گاہ نہیں ہے، اور اس کو یقین جانو کہ ملک کا دارالسلطنت جس کی تعمیر فتنوں اور ہنگاموں سے اور جس کی بنا خون ریزی اور سفّاکیوں سے ہوتی ہے، ارض اقدس کو اس سے پاک اور مبرا ہونا چاہئیے آنحضرتﷺ ، ابو بکر صدیقؓ، عمر فاروقؓ عثمان غنیؓ ان میں سے کون تھا جو اپنے آبائی وطن کا شیدا نہ تھا، تا ہم کسی نے بھی اس کو ملک کی سیاست کا بازیچہ نہیں بنایا، اور ملک کا دار الخلافہ مدینہ منّورہ ہی کو باقی رکھا، حضرت عثمانؓ کے فتنہ نے یہ بھی ظاہر کر دیا کہ حرمِ ابراہیمی کی طرح، حرم محمدی بھی، سیاست گاہ اقوام بننے کے لائق نہیں، چنانچہ حضرت علی مرتضیٰ ؓ نے اسی بنا پر دار الخلافہ کو مدینہ منورہ سے کوفہ میں منتقل کر دیا، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے جب اس کے بر خلاف مکّہ کو سیاسی مرکز بنایا تو نتیجہ یہ ہوا کہ خانہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بج گئی، اب بھی غور کرو کہ اگر شریف حسین کی حکومت اندر سے یا باہر سے کوئی دوسری سلطنت حملہ آور ہو تو خانۂ کعبہ کی توہین اور بربادی کے سوال اور کیا صورتِ حال ہو سکتی ہے؟ ہر دار السلطنت فسق و فجور، نمائش و تمدن، فتنہ و فساد، دنیا داری اور گُنہگاری کا مر کز اور مرجع ہوتا ہے پھر کیا اے مسلمانو! ارضِ حرم میں بھی یہی منظر دیکھنا چاہتے ہو؟ فاعتبروا یا اولی الابصار۔