پاكستانيات
5 فروری- یوم یکجہتی کشمیر کی کہانی
ارشاد محمود
پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر منانے کا آغاز کب اور کیوں ہوا؟ یہ قصہ کافی دلچسپ ہے۔ عمومی طور پر قومی سطح پر منائے جانے والے دنوں کی کوئی تاریخی نسبت ہوتی ہے لیکن غالباً پانچ فروری ایک ایسا دن ہے جو قومی سطح پر منایا تو ضرور جاتا ہے لیکن اس دن کی کوئی خاص نسبت یا تاریخی حیثیت نہیں ہے۔فروری 1989 میں سویت یونین کا جب افغانستان سے انخلا شروع ہوا تو دنیا بھر کی آزادی کی تحریکوں میں سرگرم نوجوانوں کو ایک عجیب و غریب احساس نے جکڑ لیا۔وہ سوچنے لگے کہ وہ بھی افغانوں کی طرح مسلح مزاحمت کے ذریعے آزادی کی تحریک چلا سکتے ہیں اور فاتح بھی کہلا سکتے ہیں۔کشمیری نوجوانوں کا خیال تھا کہ جس طرح اہل مغرب افغانوں کی پشت پر کھڑے ہوئے اسی طرح وہ ان کی بھی حمایت میں صف آرا ہوں گے کیونکہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک متنازع اور حل طلب مسئلہ ہے۔ان نوجوانوں میں سے کئی خفیہ طور پر افغانستان کے جہاد میں بھی حصہ لے چکے تھے اور افغان کمانڈروں سے ان کے رابطے بھی استوار ہو چکے تھے۔
سياسی تحریکوں میں بعض اوقات کوئی ایک لمحہ ایسا آتا ہے کہ وہ پوری آبادی یا رائے عامہ کو اپنا ہمنوا بنا لیتی ہیں۔ ایسا ہی لمحہ آٹھ دسمبر 1989 کو آیا جب انڈیا کے وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی 23 سالہ صاحبزادی ربيعہ سعید کو سرینگر سے اغوا کر لیا گیا۔خود مختار ریاست کی علمبردار جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ سے تعلق رکھنے والے مبینہ اغوا کاروں نے مطالبہ کیا کہ ان کے زیرحراست پانچ ساتھیوں کو رہا کر دیا جائے تو وہ میڈیکل کالج کی طالبہ ربعیہ سعید کو رہا کر دیں گے۔پانچ دن کے مذاکرات کے بعد بالاخر حکومت نے اغوا کاروں کے مطالبات تسلیم کر لیے۔ رہا ہونے والے عسکریت پسند سرینگر شہر میں ظاہر ہوئے تو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کا طول وعرض جھوم اٹھا۔ ہر طرف جشن برپا ہوا۔کشمیری نوجوانوں کو پہلی بار انڈین حکومت کے خلاف کوئی بڑی کامیابی ملی۔ کئی ایک انڈین تجزیہ کاروں نے اسے علیحدگی پسندوں کی پہلی فتح سے تعبیر کیا۔
اس زمانے میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے عسکریت پسندی پر مائل نوجوان خفیہ طور پر سرحد عبور کر کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر جایا کرتے تھے۔ نوجوانوں کے یہ قافلے دن میں گھنے جنگلوں میں چھپ چھپا کر گزارتے اور سورج ڈھلتے ہی مغرب کی جانب رواں دواں ہو جاتے۔صبح کی پُو پھوٹتے ہی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں داخل ہوتے جہاں مقامی شہری انھیں حیرت اور استعجاب کے ساتھ دیکھتے۔ایک دن مظفر آباد کی عید گاہ روڈ پر دیار کی لکڑی اور پتھر سے بنی ہوئی جماعت اسلامی کی ایک پرانی سے عمارت میں نوجوانوں کا ہجوم جمع ہو گیا تھا۔ راقم الحروف ان دنوں کراچی یونیورسٹی میں طالبعلم تھا۔کشمیری نوجوانوں کی آمد کی خبر ہوئی تو ریل کا ٹکٹ لیا اور مظفر آباد پہنچ گیا کہ دیکھوں تو سہی کہ یہ کون لوگ ہیں جو ایک دیو ہیکل جنگی مشین سے ٹکرانے کا عزم لیے مظفر آباد آن پہنچے ہیں۔بڑھی ہوئی شیو، اُجڑی آنکھیں، رت جگوں کے باعث آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے اور اکثر کے پرعزم لہجوں کے نقوش ابھی تک میرے ذہن میں تازہ ہیں۔اس عمارت کے صحن میں مقامی لوگ راشن اکھٹا کر کے لائے تھے اور آگ جلا کر ان کے لیے چاول گوشت پکا رہے تھے۔اس وقت کے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد چونکہ افغانستان میں روس کے خلاف ’جہاد‘ میں بھی سرگرم رہے تھے اور ان کے افغان مجاہدین کی تنظیموں کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات تھے لہٰذا وہ کشميریوں کی طرف متوجہ ہوئے۔وہ مظفر آباد جا کر جماعت اسلامی کے مقامی امیر عبدالرشید ترابی کے ہمراہ ان کشمیری نوجوانوں سے ملے جنھیں وہ اکثر ’مجاہدین‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ قاضی حسین احمد نے اُس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد نواز شریف سے درخواست کی کہ پنجاب حکومت ان نوجوانوں کی رہائش اور خوراک کا انتظام کرے۔راولپنڈی مری روڑ پر راولپنڈی میڈیکل کالج کا ایک ہاسٹل راتوں رات خالی کرایا گیا۔ یہ چار منزلہ عمارت ان نوجوانوں کا پہلا مسکن بنی۔قاققا
قاضی حسین احمد نے پاکستانیوں سے اپیل کی کہ وہ کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے پانچ فروری کو ملک گیر سطح پر ہڑتال کریں۔قاضی حسین احمد کے اتحادی اور اسلامی جمہوری اتحاد جسے عمومی طور پر آئی جے آئی کے نام سے پکارا جاتا تھا کے صدر، وزیراعلیٰ پنجاب محمد نواز شریف نے بھی ہڑتال کی حمایت اور پنجاب میں چھٹی کا اعلان کر دیا۔ان دنوں آئی جے آئی اور اپوزیشن جماعتیں بے نظیر بھٹو کو کشمیر مخالف اور انڈیا نواز کہتے تھکتی نہیں تھیں۔
بےنظیر بھٹو اور کشمیریر کا ذریعہGETTY IMAGES
دو دسمبر 1988 کو بے نظیر بھٹو نے پہلی مرتبہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو چوتھی سارک کانفرنس کا اجلاس محض چار ہفتے بعد اسلام آباد میں منعقد ہونا تھا۔ بے نظیر بھٹو اور انڈیا کے وزیراعظم راجیو گاندھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا ایک نیا باب رقم کرنا چاہتے تھے۔سارک کانفرنس میں شرکت کے لیے وزیراعظم راجیو گاندھی اسلام آباد تشریف لائے۔ وہ اپنے نانا پنڈت جواہر لال نہرو کے بعد دوسرے وزیراعظم تھے جو پاکستان کے دورے پر آئے تھے۔حکومت کے مخالفین نے الزام لگایا کہ بے نظیر بھٹو کے حکم پر اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل سے چند فرلانگ کے فاصلہ پر قائم کشمیر ہاؤس کے سائن بورڈ اتار لیے گئے تاکہ ان کی موجودگی راجیو گاندھی کی طب نازک پر گراں نہ گزرے حالانکہ کیپیٹل ڈویلیپمنٹ اتھارٹی کا اصرار تھا کہ بورڈ صفائی کے لیے اتارے گئے ہیں۔31 دسمبر کو دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا جہاں راجیو گاندھی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’کشمیر پر رائے شماری کا اب کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کشمیری الیکشن میں اپنے مستقبل کا فیصلہ کر چکے ہیں۔‘کہا جاتا ہے کہ بے نظیر بھٹو اس جواب پر خاموش رہیں کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں میں انڈین وزیراعظم کشمیر پر بات چیت سے مکمل طور پر انکار کر چکے تھے۔ وہ چاہتی تھیں کہ مفاہمت کا جذبہ اور فضا برقرار رہے۔اس کے بعد تو بس اپوزیشن کو گویا بے بظیر بھٹو کو ہدف تنقید بنانے اور انھیں ’انڈیا نواز‘ ثابت کرنے کا ایک اور موقع ہاتھ لگ گیا۔حکومت مخالف رسائل اور جرائد میں شائع ہونے والے مضامین، کالموں اور تبصروں میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو پر سخت نکتہ چینی کی گئی۔ الزام تھا کہ انھوں نے کشمیر بیچ دیا۔اس پس منظر میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے دیکھا کہ پانچ فروری کو ملک گیر ہڑتال کی کال اپوزیشن جماعتیں دے رہی ہیں تو وہ بھی اس کا حصہ بن گئیں۔انھوں نے نہ صرف ملک گیر ہڑتال اور سرکاری چھٹی کا اعلان کیا بلکہ مظفرآباد میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’ہم جگ موہن (انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے گورنر) کو بھاگ موہن بنا کر دم لیں گے۔‘ان کی پرجوش تقریر کے دوران جلسہ گاہ سے ہر بار ایک ہی نعرہ گونجتا: ’ہم کیا چاہتے، آزادی۔‘وزیراعظم بے بظیر بھٹو نے ایک ہی جست میں اپنے مخالفین کی نکتہ چینی کا رخ موڑ دیا اور وہ کشمیر کاز کی ایک بڑی علمبردار بن کر ابھریں۔ آج بھی کشمیری ان کی خدمات اور شخصیت کو محبت اور عقیدت سے یاد کرتے ہیں۔محلاتی سازشوں نے چند ماہ بعد بے بظیر بھٹو کو اقتدار کی راہ داریوں سے نکال باہر کیا۔ نواز شریف کی قیادت میں آئی جے آئی کی حکومت قائم ہوئی۔قاضی حسین احمد کی اس زمانے کی سیاسی گرمیوں کا ایک بہت بڑا محور کشمیر تھا۔ ہر برس پانچ فروری کو ملک گیر ہڑتال اور مظفرآباد میں اسمبلی اور کشمیر کونسل کا مشترکہ سیشن ہوتا جس سے عمومی طور پر وزیراعظم پاکستان یا صدر مملکت خطاب کرتے ہیں۔
کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی تحریکیں
کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کی تاریخ محض اتنی نہیں بلکہ اس کی جڑیں تاریخ میں بہت گہری ہیں۔1931 کا سال ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ میں سیاسی اتھل پتھل اور مہاراجہ ہری سنگھ کی شخصی حکومت کے خلاف سیاسی تحریکوں کا سال تصور کیا جاتا ہے۔اپریل کے مہینے میں جمعے کے خطبے کے موقع پر امام مسجد مصر کے حکمران فرعون کے بنی اسرائیل کے ساتھ رکھے گئے ناروا سلوک کے موضوع پر خطاب کر رہے تھے کہ پولیس نے انھیں خطبہ جاری رکھنے سے اس بہانے روک دیا کہ یہ موضوع عوام میں مہاراجہ کی حکومت کے خلاف بغاوت کے جذبات پیدا کر سکتا ہے۔چند ہفتوں بعد جون میں جموں جیل اور اس کے چند روز بعد سرینگر میں توہین قرآن کے دو مبینہ واقعات یکے بعد دیگرے پیش آئے۔ ان دونوں مبینہ واقعات نے ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں میں اضطراب کی لہر دوڑا دی۔محقق رشید تاثیر لکھتے ہیں کہ سرینگر میں ان واقعات کے خلاف احتجاج کی ایک زبردست لہر اٹھی۔شمال مشرقی سرحدی صوبے کا ایک نوجوان عبدالقدیر خان جو ایک انگریز سیاح کے ساتھ ان دنوں سرینگر میں مقیم تھا، اچانک ایک احتجاجی مظاہرے میں نمودار ہوا اور اس نے مہاراجہ کے محل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج سے کچھ حاصل نہ ہو گا، ’اس محل کو آگ لگا دو۔ اسلحہ ہمارے پاس نہیں لیکن پتھر اور اینٹیں تو ہیں‘۔احتجاجی مظاہروں میں عوام کی بڑے پیمانے پر شرکت کا ذکر کرتے ہوئے سرینگر کے ممتاز مصنف پریم ناتھ بزار لکھتے ہیں کہ احتجاج میں بھرپور عوامی شرکت کا سبب مہاراجہ کی انتظامیہ کا شہریوں کے ساتھ کیا جانے والا بدترین سلوک تھا۔عبدالقدیر کی تقریر ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوئی جس نے کشمیری سیاست کی جہت ہی بدل ڈالی۔بغاوت پھیلانے کے جرم میں عبدالقدیر خان کو حراست میں لے لیا گیا۔ عبدالقدیر کی تقریر نے کشمیری مسلمانوں میں بیداری کی ایک ناقابل یقین لہر پیدا کی۔ سینکڑوں لوگ عبدالقدیر خان کی ایک جھلک دیکھنے عدالت کے باہر جمع ہو جاتے تھے۔ 13 جولائی 1931 کو بھی قدیر خان کے کیس پر بحث ہو رہی تھی کہ عوام کا ایک ہجوم امنڈ آیا۔ایک نمایاں تعداد عدالت کے احاطے میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئی اور ایک بہت بڑی تعداد باہر رہ گئی۔ظہر کی نماز کے وقت پولیس اور مظاہرین کے درمیان دھکم پیل شروع ہوئی جو جلد ہی فائرنگ میں بدل گئی۔ اکیس افراد موقع پر ہلاک ہوگئے جنھیں اکھٹے ایک ہی جگہ دفن کر دیا گیا۔ اس قبرستان کو ’مزار شہیدا‘ کہا جاتا ہے اور ہر سال ان شہدا کی برسی لائن آف کنٹرول کے دونوں حصوں میں نہایت عقیدت اور احترام کے ساتھ منائی جاتی ہے۔یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح انڈیا اور بالخصوص پنجاب میں پھیلی۔ امرتسر، لاہور، لکھنؤ اور دہلی سمیت کئی ایک شہروں میں مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت اور کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ علامہ محمد اقبال بھی اس احتجاج کی اپیل کرنے والوں میں شامل تھے۔جماعت احمدیہ کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود کی تحریک پر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔علامہ اقبال بھی اس کمیٹی کے رکن تھے اور بعد میں انھیں کمیٹی کا سربراہ بھی بنا دیا گیا۔ اگرچہ ہندو پریس نے اس کمیٹی کے قیام کی سخت مخالفت کی لیکن کمیٹی نے کشمیریوں کی مدد کے لیے عطیات جمع کیے اور قابل وکلا کی خدمات بھی حاصل کیں جن میں پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفراللہ خان بھی شامل تھے- سر ظفر اللہ خان نے سرینگر کی عدالتوں میں پیش ہو کر زیرحراست کشمیریوں کے مقدمات کی مفت پیروی کی۔اگرچہ باہمی اختلافات کی وجہ سے کشمیر کمیٹی چند سال بعد غیر مؤثر ہو گئی لیکن ہر سال 14 اگست کو کشمیریوں کے اظہار یکجہتی کی روایت ڈال گئی۔قیام پاکستان کے بعد بھی اگرچہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ اور سفارتی کوششوں کی حد تک محدود ہو گیا تھا لیکن پچاس کی دہائی میں پاکستان کے سیاستدانوں سابق وزیر اعظم چودھری محمد علی، جماعت اسلامی کے بانی امیر مولانا سید ابوالاعلی مودودی، نواب زادہ نصراللہ خان اور چودھری غلام عباس نے مشترکہ طور پر کشمیر کمیٹی قائم کی تاکہ حکومت اور عوام کو کشمیریوں کی حمایت کے لیے منظم اور سرگرم کیا جا سکے۔فروری 1975 میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے ایک بار پھر ملک گیر ہڑتال ہوئی۔اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ 22 برسوں کی طویل سیاسی کشمکش کے بعد بالأخر شیخ عبداللہ نے انڈین حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ، جسے ’اندرا، عبداللہ ایکارڈ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، کر کے کانگریس کی مدد سے دوبارہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کا اقتدار حاصل کر لیا لیکن اس بار وہ وزیراعظم نہیں وزیراعلیٰ بننے پر راضی ہوئے ۔ پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر میں اس معاہدے پر سخت ردعمل سامنے آیا۔ چنانچہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان کیا کہ فروری کے آخری جمعہ کو ایک پرامن ہڑتال کی جائے گی۔یہ ہڑتال نہ صرف پاکستان اور اس کے زیرانتظام کشمیر میں ہوگی بلکہ انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں بھی ہو گی۔ بھٹو نے اس دن جلسے یا احتجاجی مظاہرے سے منع کیا بلکہ کہا کہ پرامن طریقے سے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جائے۔محمد فاروق رحمانی جو کئی کتابوں کے منصف ہیں اور نوے کی دہائی میں سرینگر سے پاکستان منتقل ہوئے، اس ہڑتال کے چشم دید گواہ ہیں۔ اس مضمون نگار سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ یہ ایک تاریخی اور غیر معمولی ہڑتال تھی۔ گلیوں میں ہُو کا عالم اور سڑکیں سنسان تھیں۔وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو انڈیا کے زیر انتطام کشمیر میں بھی بہت مقبول تھے۔ اقوام متحدہ میں کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے وزیر خارجہ کے طور پرجوش انداز میں کی جانے والی تقریروں نے انھیں کشمیریوں میں بے پناہ مقبولیت عطا کی تھی۔
ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو اور قاضی حسین احمد اور کو دنیا سے رخصت ہوئے کئی برس گزر چکے ہیں لیکن ہر سال پانچ فروری کو ان دونوں رہنماؤں کو یاد کیا جاتا ہے جنھوں نے کشمیریوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنے کی اس انوکھی روایت کا آغاز کیا جو تمام تر سیاسی اُتار چڑھاؤ کے باوجود قائم و دائم ہے۔
بی بی سی 5 فروری 2024