دين و دانش
فضائل و لعنت کے باب میں چند اصولی باتیں
عرفان شہزاد
دینی روایت میں کسی فرد یا گروہ کے بارے میں فضائل یا لعنت در حقیقت ان کے کسی عمل یا فہم پر تحسین یا مذمت کا بیان ہوتا ہے۔ یہ شاباشی، قدر افزائی اور حوصلہ افزائی کی نوعیت کی چیزیں ہیں۔ شاباشی اور تحسین سامنے موجود عمل اور رویے پر کی جاتی ہے لیکن اس کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ یہ اب ہمیشہ کے لیے سند ہوگئی ہیں۔ فرد جب تک زندہ ہے اس کے بارے میں حتمی راے نہیں دی جا سکتی۔فضیلت یا لعنت رویے سے وابستہ ہیں، رویہ برقرار رہے تو فضیلت یا لعنت بھی برقرار رہے گی اور رویہ بدل جائے تو یہ بھی غیر موثر ہو جائیں گی، سوائے یہ کہ فضیلت یا لعنت میں تصریح کر دی جائے کہ یہ ہمیشہ کے لیے ہے مگر ایسی کوئی فضیلت یا لعنت ہمارے علم میں نہیں سوائے ابو لہب کے بارے میں کہ قطعیت سے اس کے انجام بد کا اعلان کر دیا گیا۔ تاہم بالفرض وہ اس وعید سے متنبہ ہو کر ایمان لے آتا تو یہاں بھی اس کے اس وعید سے نجات کا امکان ہو سکتا تھا، مگر علم خداوندی میں یہی تھا کہ ایسا نہیں ہوگا۔ اسی طرح بعض روایات کے مطابق کچھ صحابہ کے لیے جنت کی بشارت دی گئی مگر جنت کی خوش خبری پانے والے صحابہ ہی نے اسے مستقل سند یا ٹکٹ نہیں سمجھ لیا بلکہ وہ خود کو اس بشارت کا اہل بنانے میں آخر سانس تک لگے رہے کہ ان کے جن اعمال اور رویوں سے خوش ہو کر انھیں یہ خوش خبری دی گئی تھی ان میں تبدیلی نہ آئے۔ اسی طرح یہود کو ان کے انکار حق اور سرکشی پر مسیحیوں کے تحت تاقیامت محکومی کی سزا سنائی گئی ہے، لیکن یہاں بھی بالفرض محال یہ امکان بہرحال موجود ہے کہ وہ اگر اپنی روش سے باز آ جائیں تو یہ سزا بھی ان سے ہٹ سکتی ہے، مگر علم خدواندی میں یہی ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔
ہم جانتے ہیں کہ بنی اسرائیل کو بڑی منزلت عطا کی گئی تھی۔ تمام اقوام پر انھیں فضیلت دی گئی، انھیں انبیا اور الہامی کتب سے نوازا گیا، من و سلوی عطا کیا گیا، بادلوں کے سائے، اور صحرا میں چشمے ان کے لیے جاری کیےگیے، فرعون کے مظالم کے مقابلے میں ان کی صبر کی تحسین کی گئی اور یہ بھی بتایا کہ اسی صبر کے صلے میں انھیں زمین میں اقتدار بھی دیا گیا، لیکن یہ سب فضیلتیں بھی انھیں خدا کی لعنت وصول کرنے سے اس وقت روک نہیں سکیں جب وہ ایمان و عمل کے میدان میں کوتاہ ثابت ہوئے۔
یہی معاملہ لعنت کا ہے۔ بنی اسرائیل اپنی تاریخ میں کئی بار خدا کی طرف سے رسولوں کی زبانی لعنت کے مستحق ہوئے مگر توبہ و انابت کے بعد خدا کی رضا دوبارہ بھی حاصل کرتے رہے۔دوسری بات یہ کہ فضائل یا لعنت جماعت پر کی گئی ہو تو اس کا اطلاق اس کے ہر ہر فرد پر ہونا لازم نہیں۔ قرآن مجید یہود کے نیک افراد کا ذکر کرتا ہے جو کتاب الہی کی تلاوت ایسے کرتے تھے کہ اس کا حق ادا کر دیتے تھے، انھوں نے محمد رسول اللہ ﷺ کے لیےحق کی گواہی دی، ان میں سے ایسے بھی تھے جو مالی معاملات میں نہایت کھرے تھے۔ یہود کے یہ صالحین یہود پر ہونے والی اجتماعی لعنت میں شامل نہیں۔اسی طرح امت وسط کے لقب کا شرف پانے اور اپنے ایمان اور احوال کے درست ہو جانے کی سند خدا سے حاصل کرنے والی مسلمانوں کی اولین جماعت میں وہ لوگ شامل نہیں جن کے دلوں میں ایمان آخر تک راسخ نہ ہوسکا، وہ اسلام اور مسلمانوں کےدشمنوں سے اپنے پرانے تعلقات کی بنا پر ہمدردی رکھتے اور جنگ میں اپنے لوگوں سے لڑنے سے کتراتے تھے اور وہ بھی شامل نہیں جو منافقین تھے۔ہمارے ہاں فرد یا گروہ سے متعلق فضائل کی آیات اور روایات سے ان کے زمانہ صدور کے بعد کے دور میں ان افراد اور گروہوں کے درمیان حق و باطل کےفیصلے کرنے کا جو مذہبی رجحان پایا جاتا ہے اس کی کوئی حقیقی اور علمی بنیاد نہیں ہو سکتی۔ ایک وقت میں اگر کسی کو شاباشی دی گئی ،تحسین کی گئی تو یہ ان کے بعد کے اقدام و رویوں کے درست اور برحق ہونے کی بنیاد اور جواز فراہم نہیں کرتے۔یہی بات اس وقتی ملامت و مذمت کے بارے میں بھی درست ہوگی جو کسی فرد یا گروہ کی کسی کوتاہی سے متعلق قرآن مجید اور روایات میں وارد ہوئی ہو۔ بعد میں اگر انھوں نے اپنا رویہ درست کر لیا ہو تو وہ اس ملامت و مذمت کا ہدف نہیں رہتے۔
یہ اصولی باتیں اس حقیقت سے قطع نظر بیان کی گئی ہیں کہ افراد سے متعلق روایات زیادہ تر من گھڑت ہیں، جو ہر گروہ نے سیاسی اور مذہبی جوش و جذبے کے تحت اپنے اپنے زعما کا قد بڑھانے کے لیے گھڑیں۔
چنانچہ کسی فرد یا گروہ کے درست موقف پر قائم ہونے کا فیصلہ علم و عقل کی روشنی میں کرنا ہی درست طرز فکر ہے نہ کہ فضائل اور لعنت و ملامت کی روایات کے تحت جو از خود موثر بالمستقبل نہیں ہوتیں۔