دين و دانش
خواتین کا دین
رضوان خالد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری حج کے خُطبے میں وہاں موجود کم و بیش ایک لاکھ چالیس ہزار مسلمانوں کو خواتین کے حقوق سے متعلق اللہ سے ڈرتے رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے فرمایا کہ خواتین کے تم پر بالکل ویسے ہی حقوق ہیں جیسے تمہارے خواتین پر ہیں۔
یہ ایک فقرہ اسلام کو دنیا کا سب سے انقلابی دین ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ مغرب میں خواتین اور مردوں کے حقوق کے پیمانے پر یکساں ہونے کی ڈبیٹ جنگ عظیم اول اور دوم کے بعد شروع ہوئی جب خواتین نے مردوں کے کئی سال تک جنگ میں مصروف رہنے کے دوران اپنی انتظامی صلاحیتوں کو دریافت کیا لیکن اسلام کے آخری نبی اور آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے کے ایک ایسے معاشرے میں مردوں اور خواتین کو حقوق کے پیمانے پر برابر قرار دیا تھا جب عورت کی حیثیت حقیقتا ًنسل بڑھانے کے ایک ذریعے سے زیادہ نہیں تھی۔
قُرآن میں غیرجذباتی اور غیرجانبدارتحقیق بھی کسی بھی مُسلم یا غیر مُسلم مُحقّق کو لازماً يہ باور کروائے گی کہ مُعاشرے میں خواتین کے مرتبے اور حقُوق سے مُتعلّق مُسلمانوں میں پائے جانے والے عمُومی ابہام کا تعلُق عربوں کی ثقافت، غیر عرب مُسلمانوں کے تنگ نظر ثقافتی ورثےیا پھر مردانہ غلبے والے نو مُسلم مُعاشروں کی عمُومی روایات اورخواہشات سے ہے، ورنہ اس مُعاملے میں قُرآن کے احکامات دیگر تمام مُعاملات کی طرح عین عقلی اور فطری ہیں.
مرد و خواتین میں ایک فرق تو فطری ہے کہ ان میں سے ایک قوّام اوردوسرا نفیس فطرت ہے۔قرآن مرد کو قوّام ہی قرار دیتا ہے حاکم نہیں. حقوق کے پیمانے پر قُرآن انسانوں سے مرد و خواتین اور حسب نسب کی تخصیص کے بغیر الہامی برابری کی بُنیاد پر مُخاطب ہوتا ہے۔قُرآن میں جہاں جہاں بھی عزّت اور مرتبے کا پیمانہ تقویٰ کو قرار دیا گیا وہاں مرد اور عورت کی تخصیص کی بجائے عمُومی بات کی گئی۔جہاں بھی ایمان کی بُنیاد پر انسانوں میں تخصیص ہُوئی وہاں مومنین کا جنسی تفریق کے بغیر تذکرہ کیا گیا۔قُرآن کے نزول کی غیر جانبدارانہ تاریخ پڑھنے پر علم ہوگا کہ عورتوں کے حقُوق سے مُتعلق چند انقلابی آیات کے نزول پر چند نامی گرامی لیکن سخت گیر اور روایت پسند مسلمان مُبیّنہ طور پر مُحمدﷺ سے ناراض ہو کر آپؐ سے عارضی طور پر دور ہو گئے تھے اور کئی دن تک نبیؐ کی صُحبت سے گُریز کرتے رہے. پھر بعد میں توبہ کر کے واپس آئے. یہاں اُن لوگوں کے نام لکھنا مُناسب نہیں تاکہ کسی مسلک کے لوگوں کی دل آزاری نہ ہو۔اس واقعے کے ذکر سے بس اس نُکتے کا اظہار مقصُود ہے کہ خواتین کو مردوں کے برابر حقُوق نہ دینے کا تعلُق انسانی تاریخ ، ثقافت اور ہزاروں سال سے نسل در نسل مُنتقل ہوتے تعصُبات سے ہے اللہ کے دین سے نہیں.خواتین کے انسانی اور فطری حقُوق سے مُتعلق آیات کے نزول پر ناراض ہو جانے والوں کے واپس آنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عرب مُعاشرے نے خواتین کو اللہ کی جانب سے حقُوق کا دیا جانا مان لیا. باقی حقُوق تو کیا دیے جاتے مُحمدﷺ کے وصال کے چند سال بعد ہی خواتین سے مسجد میں باجماعت نماز کا بُنیادی حق تک چھین لیا گیا تھا۔ آج بھی ننانوے فیصد سے زیادہ مساجد خواتین کو مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کا وہ حق بھی دینے کو تیّار نہیں جو اُنہیں خُود مُحمدﷺ کی زندگی میں مُیسّر تھا۔ دیگ کے صرف اسی ایک دانے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مُسلمانوں کے ثقافتی تعصّبات کیسے اسلام کے خواتین کو دیے گئے حقُوق کے آڑے آتے آتے اسلام سے جُڑ کر اس کا حصّہ لگنے لگے۔ مُحمدﷺ کے بعد ہر آنے والے دور میں اُنہیں لوگوں کی سختی بھی نسل در نسل منتقل ہوتی رہی جو عورتوں کے حقُوق سے مُتعلق آیات کے نزول کے وقت مُحمدﷺ سے ناراض ہُوئے تھے -چُونکہ بدقسمتی سے بیشترمُسلمان قُرآن کو دین کا واحد ماخذ نہیں سمجھتے بلکہ مُحمدﷺ کے ساتھیوں سے مُتعلق روایات اور اُنکے سیاسی اور سماجی نوعیّت کے فیصلوں کو بھی دین کا ماخذ قرار دیتے ہیں لہٰذا اُنہیں مسلمان اکابرین کا عورتوں سے مُتعلق ثقافتی یا وراثتی رویّہ آہستہ آہستہ اسلام سمجھا جانے لگا.قُرآن کا بلاتخصیص مُخاطب انسان ہے۔قُرآن میں بعض مقامات پر کُفّار سے خطاب کیا گیا کہیں مومنین سے، کہیں مُسلمانوں سے اور کہیں اہلِ کتاب سے۔ ان میں سے ہر خطاب مردو خواتین کی تخصیص کے بغیر ہے
اورایسے ہر خطاب کے احکامات کا نفاذ بھی بلاتخصیص ہر مردوعورت پر ہے۔ مردو خواتین میں موجُود جنسی فرق کو ملحُوظِ خاطر رکھتے ہُوئے اس فرق کی مُناسبت سے اللہ قُرآن میں بعض جگہ تخصیص کے ساتھ خواتین سے مُتعلق کُچھ خصُوصی احکامات بھی دیتا ہے جو نہ تو عورت کو حقُوق کے حوالے سے کمترکرنے کا باعث بنتے ہیں نہ مرد کو عورت سے برتر ثابت کرتے ہیں۔اگر اسلام ایک ہی ماں کے پیٹ سے اپنی مرضی کے بغیر مرد یا عورت پیدا ہونے والے افراد میں سے ایک کو برتر اور دُوسرے کو کم تر قرار دیتا تو دینِ فطرت کہلانے کا حق کھو دیتا۔ اسلام تو بس وہی ہے جو قُرآن بتاتا ہے اور مُحمدﷺ کی زندگی جسکی تشریح ہے۔