پاكستانيات
16 دسمبر ، پاكستان كيوں ٹوٹا
حمود الرحمان كميشن رپورٹ
مہدی بخاری
پاکستان نے جب اپنے دوسرے بازو پر خود ہی آپریشن کا آغاز کر دیا تو پھر یہ بات طے تھی کہ یا تو سرجری سے بازو ٹھیک ہو جائے گا یا پورا ہی کٹ جائے گا۔ جب آپریشن جبرالٹر کر چکے اور خمیازے میں 1965 کی جنگ بھی لڑ چکے تو پھر دشمن نے وقت سے فائدہ اٹھانا تھا۔مکتی باہنی کو سپورٹ انڈیا نے کیا اور پاکستان نے جماعت اسلامی کے مسلح گروپ "البدر الشمس" کو کھلا لائسنس جاری کیا ۔ دھونس ، دھمکی ، قتل و غارت کا لائسنس تا کہ بنگالی جن کی پہچان ایک ڈرپوک قوم کی سی تھی وہ مزاحمت چھوڑ دیں۔سقوطِ ڈھاکہ اصل میں وہ داغِ ندامت ہے جسے نسلوں کو چاٹنا ہے۔
ہم نے اس سے کیا سیکھا ؟ رتی برابر کچھ نہیں ! حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ سترہ سال تک دبائی گئی۔ نجانے کیسے ہندوستان ٹائمز کے ہاتھ لگی اور انہوں نے پبلک کر دی۔ یہ محاورہ کہ دودھ کا جلا چاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے، اہلِ پاکستان پر صادق نہیں آتا۔ یہ لوگ دودھ کے نہیں چاچھ کے جلے ہیں۔ یہاں کمیشن لینے کا چلن تو ہے لیکن کمیشن کی رپورٹ شائع کرنے کا زیادہ رواج نہیں۔ بھلے وہ ایبٹ آباد کمیشن ہو کہ جبری گمشدگیوں کے اسباب و ذمہ داروں کا تعین کرنے کا کمیشن !شیخ مجیب کو آپریشن کے بعد ڈھاکہ سے ساہیوال جیل اور پھر لائل پور منتقل کیا گیا جہاں انہیں لائل پور ٹیکسٹائل مل کے ایک کوارٹر کے تہہ خانے میں رکھا گیا۔ اس پر ملک دشمنی اور بغاوت کے جرم میں مقدمہ چلانے کے لیے ایک خصوصی ٹریبونل قائم کیا گیا۔ شیخ مجیب نے ٹریبونل کا بائیکاٹ کیا۔ مگر ان کی جانب سے اے کے بروہی کو سرکاری وکیل مقرر کیا گیا۔یہ ٹریبونل کب ٹوٹا یا نہیں ٹوٹا، اس میں کیا کارروائی ہوئی، اس کا ریکارڈ کہاں ہے؟ کسی کو کچھ نہیں معلوم۔ بس اتنا ہوا کہ 20 دسمبر کو بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالا اور دس جنوری 1972 کو ایک خصوصی پرواز سے شیخ مجیب الرحمان اور ڈاکٹر کمال حسین کو لندن روانہ کر دیا گیا جہاں سے وہ براستہ دلی ڈھاکہ پہنچ گئے۔فروری 1974 میں شیخ مجیب الرحمان کو لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر اہلِ پاکستان نے آخری بار محبِ وطن یا غدار کے بجائے ایک آزاد ملک کے وزیرِ اعظم کے روپ میں بھٹو صاحب کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے دیکھا۔ اس کے بعد سے باقی ماندہ پاکستان کی تاریخ میں سے مشرقی پاکستان یا بنگلہ دیش کا تذکرہ بھی کہیں غروب ہو گیا۔ باقی رہ گئی حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ۔۔
26 دسمبر کو حکومت نے چیف جسٹس حمود الرحمان ، جسٹس انوار الحق ، جسٹس طفیل علی عبدالرحمان اور لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ الطاف قادر پر مشتمل حمود الرحمان کمیشن بنایا جس نے تین سو سے زائد گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے کے بعد رپورٹ پیش کی۔کمیشن نے درج ذیل افسروں کا ٹرائل یعنی کورٹ مارشل کرنے کی سفارش کی۔
جنرل یحییٰ خان: سقوط مشرقی پاکستان کے وقت وہ صدر، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، وزیر دفاع و خارجہ تھے۔ بھٹو حکومت نے انہیں گھر میں نظربند رکھا۔ جنرل ضیا الحق نے ان کی نظربندی ختم کر دی۔ دس اگست 1980 کو اپنے بھائی محمد علی کے گھر میں انتقال ہوا اور آرمی قبرستان میں فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین ہوئی۔
جنرل عبدالحمید خان: یحیٰی خان کے ڈپٹی کمانڈر انچیف اور ڈپٹی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر رہے۔ باعزت رئیٹائرڈ ہوئے۔
لیفٹننٹ جنرل ایم ایم پیرزادہ: صدر کے پرسنل سٹاف آفیسر اور ناک کا بال تھے۔ وہ بھٹو اور یحییٰ کے درمیان رابطے کا مبینہ پل سمجھے جاتے تھے۔
میجرجنرل گل حسن: سقوط ڈھاکہ کے وقت وہ چیف آف جنرل سٹاف تھے۔ تاہم بھٹو حکومت نے انہیں برطرف کرنے کے بجائے لیفٹننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر فوج کا کمانڈر انچیف مقرر کردیا۔ اگرچہ کمیشن نے گل حسن پر بھی کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے کی سفارش کی تھی تاہم بھٹو حکومت نے انہیں آسٹریا میں سفیر مقرر کر دیا !!! گل حسن پاکستان کے آخری کمانڈر انچیف تھے۔ ان کے بعد اس عہدے کو چیف آف آرمی سٹاف سے بدل دیا گیا۔ انہیں مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا گیا۔
میجر جنرل غلام عمر: نیشنل سکیورٹی کونسل میں یحیٰی خان کے نائب تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کے لیے پاکستانی صنعت کاروں سے فنڈز جمع کیے۔ اس زمانے میں فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ بریگیڈیر ریٹائرڈ اے آر صدیقی کے بقول لگ بھگ دو کروڑ روپے جمع ہوئے۔ ضیاء الحق کے دور میں وہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کے چیرمین رہے۔
میجر جنرل اے او مٹھا: کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مشرقی پاکستان میں پچیس مارچ کے آپریشن سرچ لائٹ کی ٹکنیکل پلاننگ میں حصہ لیا۔ 1999 میں لندن میں انتقال ہوا۔جنرل مٹھا نے ہی آرمی کے ایس ایس جی کمانڈو یونٹ کی بنیاد رکھی۔ انہیں آخری تعزیتی سلامی بھی ایس ایس جی کمانڈوز نے ہی دی۔
لیفٹننٹ جنرل ارشاد احمد خان: 71 کی جنگ میں یہ ون کور کے کمانڈر تھے۔ جس کے کمانڈ ایریا میں کنٹرول لائن سے سیالکوٹ تک کا دفاع شامل تھا۔ کمیشن کی سماعت کے دوران الزام لگا کہ انہوں نے شکر گڑھ کے پانچ سو دیہات بلا مزاحمت دشمن کے حوالے کر دیے۔ باعزت ریٹائرڈ ہوئے۔
میجر جنرل عابد زاہد ( کمانڈر 15 کور): ان کے پاس سیالکوٹ سیکٹر کے دفاع کی ذمہ داری تھی۔ الزام لگا کہ انہوں نے سیالکوٹ سیکٹر میں پھکلیا کے علاقے میں 98 گاؤں بغیر مزاحمت کے چھوڑ دیے اور جب جنگ بندی ہوئی تو بھارتی دستے مرالہ ہیڈورکس سے ڈیڑھ ہزار گز کے فاصلے پر تھے۔
میجر جنرل بی ایم مصطفی ( کمانڈر 18 کور): ان کا ٹارگٹ ایریا راجھستان سیکٹر تھا۔ ان پر الزام لگا کہ رام گڑھ کی جانب بغیر منصوبہ بندی کے عجلت میں پیش قدمی کے فیصلے سے بھاری نقصان ہوا۔ باعزت ریٹائرڈ ہوئے۔
لیفٹننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی: جنرل نیازی جب ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ بنائے گئے اس وقت تک وہ فوج کے سب سے زیادہ ڈیکوریٹڈ سولجر مانے جاتے تھے۔ کمیشن کے سامنے پیش ہونے والے گواہوں نے جنرل نیازی پر اخلاقی بے راہروی اور پان کی سمگلنگ کے الزامات بھی عائد کیے۔ میجر جنرل راؤ فرمان علی نے کمیشن کے سامنے گواہی دیتے ہوئے جنرل نیازی سے یہ فقرے بھی منسوب کیے کہ "یہ میں کیا سن رہا ہوں کہ راشن کم پڑ گیا۔ کیا سب گائے بکریاں ختم ہو گئیں۔ یہ دشمن علاقہ ہے۔ جو چاہتے ہو لے لو۔ ہم برما میں ایسے ہی کرتے تھے"۔
میجر جنرل محمد جمشید ( کمانڈر 36 ڈویژن ): ان کے ڈویژن کو ڈھاکہ کا دفاع کرنا تھا۔ ان پر حمود الرحمان کمیشن نے پانچ فرد جرم عائد کیں۔ جن میں غبن، لوٹ مار اور ماتحتوں کی جانب سے نیشنل بینک سراج گنج شاخ سے ایک کروڑ پینتیس لاکھ روپے لوٹنے جیسے الزامات بھی شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 16 دسمبر کے بعد ان کی اہلیہ کے قبضے سے خاصی کرنسی برآمد ہوئی۔ پاکستان واپسی کے بعد ریٹائر ہو کر گوشہ نشین ہو گئے۔
میجر جنرل ایم رحیم خان ( کمانڈر 39 ڈویژن): ان کا ڈویژن چاند پور میں متعین تھا۔ پسپائی اختیار کرتے ہوئے 13 دسمبر کو ایک ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر برما کے علاقے اراکان میں اتر گئے۔ مگر قسمت مسلسل یاوری کرتی رہی۔ سیکرٹری جنرل وزارت دفاع اور چیرمین پی آئی اے رہے۔ الشفا آئی ٹرسٹ کے وائس پریذیڈنٹ رہے۔
بریگیڈیر باقر صدیقی ( چیف آف سٹاف۔ایسٹرن کمانڈ): وہ ڈھاکہ کے تحفظ کے ذمہ دار افسروں میں سے ایک اور جنرل نیازی کی ناک کا بال تھے۔ ان پر الزام ہے کہ دس دسمبر کو جب جی ایچ کیو نے یہ احکامات جاری کیے کہ پسپا ہونے والے دستے اپنے آلات اور رسد کو ناکارہ بناتے ہوئے اپنی جگہ چھوڑیں تو باقر صدیقی نے اس ڈنائل پلان پر عمل نہیں کیا۔ بریگیڈیر باقر صدیقی کو بعد ازاں ملازمت سے برطرف کردیا گیا لیکن پھر مختصر عرصے کے لیے بحال کرکے باعزت ریٹائر کیا گیا۔ کچھ عرصے پی آئی اے شیور کے بھی سربراہ رہے۔
بریگیڈیر محمد حیات ( کمانڈر 107 بریگیڈ ۔39 ڈویژن): ان کا بریگیڈ جیسور سیکٹر کا ذمہ دار تھا۔ وہ 6 دسمبر کو ہی جوانوں کو چھوڑ کر نکل لیے اور پوری سپلائی اور اسلحہ دشمن کے ہاتھ لگا۔ بعد ازاں ریٹائر کر دیا گیا۔
ریگیڈیر محمد اسلم نیازی ( کمانڈر 53 بریگیڈ ، 9 ڈویژن): ان کا بریگیڈ لکشم کے علاقے میں تعینات تھا۔ وہ 9 دسمبر کو ایک سو چوبیس بیمار اور زخمی جوانوں کو چھوڑ کر نکل لیے۔ اور سارا راشن اور ایمونیشن دشمن کے ہاتھ لگ گیا۔ باعزت رئیٹائرڈ ہوئے۔
بریگیڈیر ایس اے انصاری ( کمانڈر 23 بریگیڈ): ان کا نام ان ایک سو پچانوے افراد کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا جن پر حکومت بنگلہ دیش جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام لگاتی ہے۔ باعزت ريئٹائرڈ ہوئے۔
بریگیڈیر عبدالقادر خان ( کمانڈر 93 بریگیڈ۔36 ڈویژن): خان صاحب فوج میں مونچھوں کے سبب زیادہ مشہور تھے۔ ان کی ذمہ داریوں میں محب وطن اور غیر محب وطن بنگالیوں کی سکریننگ بھی شامل تھی۔ باعزت ریٹائرڈ ہوئے۔
ڈھاکہ ڈوبا، اس نے ڈوبنا ہی تھا۔ پٹ سن اور چاول پیدا کرنے والی زمین آج ہم سے بہتر حالات میں ہے ، اکانومی سے لے کر تعلیم تک ۔ کسی نے طاقت کے نشے میں شیخ مجیب کو کہا تھا “ اوئے سن! تو دو ٹکے کا بھی نہیں”۔ اور آج ہم ایک ٹکے کے ڈھائی ہیں (ایک بنگالی ٹکا= ڈھائی پاکستانی روپے)۔
کہنے کو بہت کچھ ہے مگر کہنا کسے ہے۔ "ہم کہ ٹھہرے اجنبی۔۔۔"
جھوٹے قصے جھوٹی شجاعت
طفيل ہاشمی
کہوں تو گردش لیل و نہار رک جائے --وہ راز جن سے بہت غم اٹھائے ہیں میں نے
ہمیں 1965 کی جنگ کے بعد ایسی پر جوش کہانیاں، فتح و نصرت کی داستانیں، معجزات و کرامات کے صحیفے، قربانی و ایثار کے واقعات، شجاعت و بسالت کے ایمان افروز قصے سنائے جاتے رہے کہ ہماری نگاہ میں پاکستان آرمی خالد بن ولید کے لشکر کا کوئی حصہ تھا،کہ فتح و نصرت جس کے جلو میں چلتی تھی. مشرقی پاکستان کے خلاف فوج کشی کو خلافت راشدہ میں ارتداد کے خلاف کارروائی کے مثیل سمجھا جاتا تھا.
تب میں نے گریجویشن کر لی تھی اور جامعہ اشرفیہ کی سند کا حامل تھا اور اپنی عمر کے چوبیسویں سال میں تھا. مجھے بچپن سے ہی زیادہ سے زیادہ اخبارات پڑھنے، رسائل و جرائد چاٹنے اور قومی و بین الاقوامی خبریں سننے کا نشہ سا تھا. سب کچھ سننے کے باوجود یہ بات ذہن میں راسخ تھی کہ مغرب ہمارا دشمن ہے اور ہمارے خلاف غلط خبریں سناتا ہے. بی بی سی 1965 میں لاہور پر قبضہ کی خبر سے اپنا اعتماد کھو چکا تھا، اس لیے ملکی ذرائع ابلاغ کو ہی سچ سمجھتے رہے.ایک دن اچانک پاکستان کے سپہ سالار اعظم اور امیرالمومنین نے جب ہمیں ایک محاذ پر پسپائی کا مطلب سمجھایا تو......میں اپنی اہلیہ اور بچی کے ساتھ لاہور میں رہتا تھا،کئی روز تک ہمارے گھر آگ نہیں جلی-ہم نے اتنے آنسو بہائے جو شاعرانہ روایات کی حقیقی تصویر تھے.-مدتوں صبر نہیں آتا تھالیکن اس کے بعد بتدریج حقائق جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ
1965 کی کہانیاں بمشکل پانچ فیصد درست تھیں-
دوقومی نظریہ سادہ لوح عوام کی حمایت کا خوبصورت نعرہ تھا-مشرقی پاکستان کے عوام نے حقیقی آزادی کے حصول کی جنگ لڑی تھی.در اصل برٹش نے جاتے جاتے اپنے نسلی وفاداروں کو ان کی جاگیرداری سمیت تحفظ دینے کے لیے اپنی جگہ ایک دوسرے طبقے کو آقائی سونپ دی تھی، جس نے اپنے محسنوں کی ہدایات کے مطابق چلنا تھا.یہاں سول سپریمیسی کے نام پر بھی کوئی تبدیلی کبھی آئی، جس کے امکانات بہت کم ہیں، تو وہ بھی ایلیٹ کلاس کے مفادات کے تحفظ کے لئے ہو گی.عوام کا کام قرون مظلمہ کے غلاموں کی طرح دن رات محنت کر کے اپنے آقاؤں کے عیاشیوں کے لیے ایندھن مہیا کرنا ہے.
اگرآپ 1971 کے بعد پیدا ہوئے یا اس کے بعد سن شعور کو پہنچے تو آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کو خوں نابہ بار آنسوؤں کے دریا نہیں عبور کرنا پڑے.
مغربی پاکستان کے قائدین آخری بار مشرقی پاکستان سے ایک ایک کر کے واپس آ رہے تھے تو میں اپنے ایک مرحوم دوست چوہدری عبدالرحیم کی گاڑی لے کر مفتی محمود کو لینے لاہور ائرپورٹ گیا. حضرت شیخ عبدالعزیز رائے پوری بھی تشریف لے گئے. واپسی پر ملتان روڈ پر الھلال انجینئرنگ ورکس جو مولانا محمد اکرم کا کار خانہ تھا وہاں مفتی صاحب کو اتارا اور نماز ظہر کے بعد میں نے مفتی صاحب سے ان کی میٹنگز، حالات اور نتائج و عواقب کے بارے میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ انٹرویو کیا، لیکن وہ یادداشتیں نہ اس وقت لکھ سکا اور نہ بعد میں جو باتیں حافظے میں محفوظ رہ گئیں ان میں چند ایک یہ ہیں
شیخ مجیب غدار نہیں بلکہ ہم سے جتنی گفتگو ہوئی اس کے نتیجے میں وہ کسی بھی دوسرے پاکستانی لیڈر کی طرح محب وطن ہے البتہ وہ اپنا جمہوری حق چھوڑنے کو تیار نہیں ہے. جنرل یحیی خان نے مشرقی پاکستان کو الگ کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے. بھٹو اور یحییٰ خان کے درمیان اس مسئلے پر کوئی خفیہ انڈر سٹیڈنگ لگتی ہے. مشرقی پاکستان اب ہمارے ساتھ نہیں رہے گا.کاش مجھے یادداشتیں لکھنے کی عادت ہوتی تو کئی مزید باتیں بھی شئیر کر سکتا.
16 دسمبر 1971-لاہور میں تھا، بلاتاخیر دوستوں، طلبہ ساتھیوں اور دو تین مساجد کے نمازیوں کو ساتھ لے کر مارشل لا اور جنرل یحییٰ خان کے خلاف جلوس نکالا. صدمہ اس قدر تھا کہ کئی روز تک آنکھیں خشک نہیں ہوئیں، بہت دن گھر میں چولہا نہیں جلا. جذباتی دور ختم ہوا تو سمجھ آئی کہ ایک ملک اس طرح تشکیل دینا کہ اس کے دو حصوں کے درمیان زمینی، فضائی، لسانی اور تمدنی کوئی رابطہ نہ ہو سراسر احمقانہ اپروچ تھی. شروع سے ہی دو الگ الگ ملک بنا کر ان میں کوئی ڈھیلا ڈھالا تعلق تخلیق کر لینا تھا. اگرساٹھ کی دہائی میں سیاست بروئے کار ہوتی تو اس قدر قتل و غارت کئے بغیر اور روسیاہی سے بچ کر بھی کوئی حل نکالا جاسکتا تھا . شکر ہے اب اسٹیبلشمنٹ کو یہ سمجھ آ گئی ہے کہ خون بہائے بغیر بھی علاقوں سے دستبردار ہوا جا سکتا ہے چنانچہ کشمیر کے حل میں اسی دانش نے کام کیا.جب کوئی ریاست اپنی سرحدوں سے سکڑنا شروع ہو جاتی ہے تو ابن خلدون کا فلسفہ تاریخ کسی خوش گوار صبح کی نوید نہیں دیتا.
ایک بات کہوں، مارو گے تو نہیں، جب دجلہ اور فرات کے بیچ کا دنیا کا زرخیز ترین ملک مسلم افواج کے زیر نگیں آیا تو افواج فاروقی کا اصرار تھا کہ یہ زمینیں فوج میں تقسیم کر دی جائیں. حضرت عمر کسی قیمت پر یہ نہیں چاہتے تھے لیکن اس سے قبل ایسا دستور تھا جسے بدلنا آسان نہیں تھا. حضرت عمر کی دلیل یہ تھی کہ اگر یہ مارشل ریس کھیتی باڑی اور تجارت میں لگ گئی تو ملک کا دفاع کون کرے گا؟؟؟ سہ روزہ کانفرنس میں یہ امر بہت واضح تھا کہ امیرالمومنین کسی قیمت پر زمینیں فوج میں بانٹنے کو تیار نہیں تھے. لوگ اس کے جواب میں سنت سے استدلال کرتے تھے. سارے قرآن کو کھنگالنے کے بعد حضرت عمر کو ایک ایسی آیت مل گئی جس کے اقتضاء النص سے استدلال کر کے فوجی جوانوں کو مطمئن کیا گیا لیکن حضرت عمر کا اصل استدلال یہی تھا کہ فوج اگر زمین سے پیوست ہو جائے تو وہ جرأت، بہادری، قربانی اور جاں نثاری کی صفات سے عاری ہو جاتی ہے.جس ملک اور قوم کی فوج زراعت اور تجارت میں مصروف ہو جائے اسے چاہئے کہ وہ بتدریج نئی فوج تیار کرے جو محض فوج ہو تاکہ اسے کبھی بھی سقوط ڈھاکہ اور سقوط کشمیر کے سانحوں سے نہ گزرنا پڑے.
میں خیریت سے ہوں-جب ہم نوے ہزار کی تعداد میں انڈیا میں نہ معلوم کہاں کہاں تھے. یہاں ہمارے پیاروں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ ہم زندہ ہیں یا مر گئے-آل انڈیا ریڈیو سے روزانہ شام کے وقت ایک پروگرام نشر ہوتا تھا جو بہت عرصہ چلتا رہا-اس کا عنوان تھا، میں خیریت سے ہوں-اس میں ہم بتایا کرتے تھے میں فلاں ولد فلاں، گاؤں، شہر، ضلع، عہدہ کمپنی، بٹالین، نمبر....... خیریت سے ہوں
آٹھ کروڑ لوگ روزانہ کان لگا کر سنتے تھے-پھر جب لاڑکانہ کا غدار ہمیں وہاں سے زندہ سلامت واپس لایا، ہمیں عزت، ترقیاں، عہدے، اقتدار اور حوصلہ دے کر دوبارہ ایک ولولہ تازہ دے دیاتوہم نے پنڈی جیل میں اس کے تمام احسانات کا بدلہ چکا کر اس کی نیکی کو رات کی تاریکی میں لاڑکانہ میں دفن کر دیا.اور -نشیمنوں پر بجلیوں کا کارواں گزر گیا –
پاك آرمی نے 1971 سے كوئی سبق نہيں سيكھا
رضوان خالدچودھری
آج ہی کے دن میرے بزرگوں کا حاصل کیا گیا مُلک دو ٹُکرے ہُوا تھا۔ وہ دُکھ تو ہمیشہ ہی رہے گا لیکن زیادہ چبھن تب ہوتی ہے جب ہم سقُوطِ ڈھاکہ کا باعث بننے والے اسباب آج بھی پنپتے دیکھتے ہیں۔
مثلاََ جبری گُمشدگیوں کا ماورائے آئین رواج پہلے سے ہی بُنیادی ضروریات کو ترسے ہُوئےطبقات کے حلقوں میں ویسی ہی بے چینی پیدا کرنے کے لیے کافی ہے جس کے باعث بنگالیوں نے ہم سے علیحدگی کا فیصلہ کیا تھا۔پاکستان آرمی اور سیاسی جماعتوں کے فیصلہ سازوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہزاروں کی تعداد میں ہونے والی جبری گُمشُدگیاں اور ماروائے عدالت قتل، مُلزموں کے مُبیّنہ جرائم کے الزامات حقیقت ہونے کی صُورت میں بھی مُلک کے مُستقبل پر ایسے گہرے زخم چھوڑ جائیں گے جن کا وقت گُزرنے کے بعد مداوا کسی صُورت مُمکن نہ ہو گا. -کسی ایک ایسے مُلزم کی قانُونی گرفتاری ، اوپن ٹرائل اور سرِعام پھانسی جو اثرات مُرتّب کر سکتی ہے وہ پچاس ہزار مُلزموں کی کی جبری گُمشُدگی یا ماروائے عدالت قتل نہیں کر سکتے.ایک مخصُوص وقت میں عوامی رائے عامّہ ایسے ماروائے قانُون اقدامات کی حمایت کرتی ہے لیکن تاریخ نہ صرف ایسے اقدامات کو عمُومی بربریّت کہے گی بلکہ ان اقدامات کے پیچھے موجُود شخصیّات اور اداروں کی عزّت و تکریم اور اچھے کام بھی دُھندلے کر دے گی. تاریخ جبری گُمشدہ یا مقتُول افراد کے مُبیّنہ جرائم سے قطع نظر انہیں انکی قوموں کا ہیرو قرار دے گی ان کا ذکر لوک کہانیوں اور ثقافتی ورثے میں عزّت و احترام سے کیا جائے گا.اگر میری بات کا یقین نہیں تو بنگالی تاریخ پڑھ لیجیے. مُکتی باہنی کے غُنڈے آج اُنکے ہیرو ہیں اور جنرل یحیٰ اور بھُٹو وغیرہ سمیت پاکستان ٹوٹنے کے ذمّہ دارران صرف بنگالی قوم کی تاریخ کے ہی ولن نہیں بلکہ پاکستان کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی نظر میں بھی مُجرم ہیں. حالانکہ اُنیس سو ستّر کے اوائل میں اُس وقت کے دانشور اور عام لوگ بظاہر حُبُّ الوطنی میں بنگالیوں کے خلاف انکے ہر جائز ناجائز اقدام کو سراہتے تھے.سقُوطِ ڈھاکہ کی تاریخ سے سبق سیکھیے آج بھی اسکا ذکر پاکستان آرمی کی قابلیّت کو گہنا دیتا ہے. تاریخ مت دوہرائیے پاکستان اب کسی سانحے کا مُتحمّل نہیں ہو سکتا.میں پنجاب میں ہی بیسیوں ایسے گھروں کو ذاتی طور پر جانتا ہُوں جنکے کسی نوجوان کو ہم نے ہی جہادی بنایا تھا اور آج اُسکی تلاش میں اُسکے گھر کے سبھی مردوں کو جبری گُمشُدہ کیا گیا ہے. خُدارا اِس مُلک پر رحم کیجیے.-جس پر الزام ہے اُسے قانُونی طور پر پکڑیں، بے شک فوجی عدالت میں تیز مُقدمہ چلائیں اور سرِعام سزا دیں تاکہ باقی مُجرموں کو عبرت ہو لیکن علیحدگی پسندوں اور سماج دُشمنوں کو ہیروز نہ دیں.
اندھی گُمشدگیوں سے نہ صرف گُمشدگان کی شکل میں شدت پسندوں کو تازہ خُون ملتا ہے بلکہ پاکستان کے خلاف عمُومی نفرت بڑھتی ہے اور عالمی دُنیا پاکستان کی آرمی پر روگ آرمی ہونے کا الزام لگاتی ہے.
اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو کل پاکستان کے دُشمن انسانی حقُوق کی خلاف ورزیوں کو جواز بنا کر بلوچستان کو علیحدہ کروانے کا جواز بنائیں گے اور ہماری آرمی ایسٹیبلشمنٹ اور سیاستدان مُشّرف کی طرح لیٹ جائیں گے.ہزاروں سال کے تجربے کے بعد انسانیت اس نتیجے پر پُہنچی ہے کہ قانُون کی عمل داری ہی انسانیت کے مسائل کا حل ہے. ابھی بھی وقت ہے آرمی سمیت تمام طاقتور ادارے اور افراد قومی مفاد میں فی الفور قانُون کی بالادستی قبُول کریں اور جبری گُمشدگیوں کا غیر قانُونی غیر انسانی غیر اخلاقی غیر اسلامی عمل فوراً روکا جائے. مُجرموں اور ناراض بھائیوں میں فرق کر کے دونوں کے لیے الگ الگ پالیسی بنائی جائے اگر آپ اس وقت بھی حکمت سے کام نہیں لیتے تو کل آپکو یقیناََ مُلک دُشمن کے نام سے یاد کیا جائے گا.