مشاہير اسلام
ڈاكٹر حميد اللہ
احمد حاطب صديقی
اسلام آباد کی ایک روشن، چمکیلی صبح تھی۔نیل گُوں اور بسیط آسمان پر جابجا روئی کے گالوں جیسے بادل اُڑتے چلے جارہے تھے۔ مرگلہ کی سرسبز و شاداب پہاڑیوں سے لگی ہوئی سفید براق فیصل مسجد کے مینار اِس منظر میں ایک باوقار شان سے کھڑے تھے۔ فیصل مسجد اسلام آباد کے پورے منظر پر چھائی ہوئی تھی۔قریبی بستیوں کے اونچے مکانوں کی چھتیں نقرئی دھوپ سے جگمگا رہی تھیں۔جھومتے لہلہاتے درختوں کے کارواں سڑک کے کنارے موج زن تھے۔تارکول کی چمکتی سڑک پر قسما قسم کی گاڑیاں زنازن دوڑتی چلی جارہی تھیں۔ فضاخوش گوارتھی اور ہوا میں خوشبو رچی ہوئی تھی۔ تازہ کھلے ہوئے گلاب کے پھولوں کی مہک سے ماحول معطر تھا۔ طالب علم تیز تیز چلتا ہوا بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے صدر دروازے سے داخل ہوااور اس کی سماعت گاہ کے پُر ہجوم دروازے سے اندر جانے کی جد و جہد میں مصروف ہوگیا۔ سماعت گاہ اپنی پوری گولائی میں سامعین سے کھچاکھچ بھری ہوئی تھی۔اسٹیج کے فرش پر بھی لوگ براجمان تھے۔کہیں اکیلا سامع دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔نشستوں کی درمیانی راہ داری سے گزرتے ہوئے اِدھر اُدھر نظریں دوڑا رہے تھے کہ کہیں ذرا اٹکنے کی جگہ بھی مل جائے تو جا اٹکیں۔ اتنے میں کنارے کی ایک نشست پر قابض ایک دوست نے دست گیری بلکہ ’دامن گیری‘ کی اور کھینچ کر اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ بیٹھتے ہی اسٹیج پر نظر ڈالی اور بھونچکے رہ گئے:’’یااﷲ! یہ ہیں ڈاکٹر حمید اﷲ پیرس؟‘‘ہمارے دوست نے اپنے کان پر اپنے ہاتھ کا چھجا بنایا اور ہمارے کان میں اپنا منہ گھسا کر فرمایا:
’’میاں! ان کا نام ڈاکٹر محمد حمیداﷲ ہے۔ پیرس میں رہتے ہیں۔پیرس ان کے نام میں شامل نہیں‘‘۔
ہم نے بھی اُن کے ’کان میں پھسپھساتے‘ ہوئے عرض کیا:’’اِس عاجز نے جس رسالے میں بھی ان کا نام پڑھا ’ڈاکٹر حمیداﷲ پیرس‘ ہی پڑھا۔شروع شروع میں تعجب ہوا۔ پھر رفتہ رفتہ یہ تعجب ایک تفنن میں تبدیل ہوگیا۔ اب یہ حقیر جب بھی ان کا تذکرہ کر تاہے، انہیں ادب سے ’ڈاکٹر حمیداﷲ پیرس‘ ہی کہا کرتاہے‘‘۔یہ سن کر اُنھوں نے بمشکل اپنی مسکراہٹ پر قابو پایا اور فرمایا:’’خدا تمھیں مزید حقیر کرے۔ تمھارے مسخرے پن کی مار بھی کہاں کہاں تک ہے، استغفر اﷲ!‘‘پھر اچانک چونک کر پوچھا:
’’انھیں دیکھ کر تمھیں اس قدر شدید حیرت کیوں ہوئی ؟‘‘عرض کیا: ’’جب پہلی بار ان کی دل میں اُتر جانے والی شگفتہ مگر عمیق تحریروں کا مطالعہ کیا تو … ’کھینچ لی اُن کی تصویر دل نے مرے‘ …کہ جسم نہایت بھاری بھرکم ہوگا … (مولانا فضل الرحمٰن سے کچھ ہی کم) …سینہ بہت چوڑا چکلا اور بہت کشادہ ہوگا…ڈاڑھی دونوں شانوں اور پورے سینے پر مورچھل بنائے پھیلی ہوگی…موٹے تازے گول چہرے پر ایک اونچا صافہ اور علمی خشونت طاری ہوگی … مگر…‘‘’’مگر کیا؟‘‘’’یہ تو بالکل ہماری طرح سینک سلائی ہیں… بہت دُبلے، بہت پتلے …ڈاڑھی ہلکی پھلکی سی ہے … ’نقشِ چغتائی ہیں، لمبائی ہی لمبائی ہیں‘ … سرپر صافے کی جگہ جناح کیپ ہے …شیروانی اور پاجامے میں ملبوس ہیں … چہرہ بھی کتابی ہے …اﷲ جانے ہمیشہ سے ایسا ہی تھا یا کتابوں کے بیچ بسر کرتے کرتے کتابی ہوگیا ہے… ’جمالِ ہم نشیں در من اثر کرد‘ … والا قصہ تو نہیں ہوگیا؟‘‘اُس روز ڈاکٹر صاحب سے ہماری بالمشافہ اور ’بالمصافحہ‘ پہلی ملاقات تھی۔ بس وہ خوشگوار سی کیفیت یاد ہے جو ایک پُر تشکر اور پُرتفاخر احساس پیدا کر دیتی ہے۔ وہ عظیم محقق، مصنف، مؤلف، مفسر اور مبلغ جس پر … ’ہم کب سے فدا تھے بِن دیکھے‘ … اُس دِن ہم نے اپنے تئیں دیکھا کہ … ’آج اُسی کے سامنے ’’ہیں‘‘ اور بھری محفل میں ہیں‘ …بولتے سنا تو یوں محسوس ہوا کہ اُن کی اپنی لکھی ہوئی کوئی کتاب خود اپنے آپ کو پڑھ کر سنا رہی ہے۔وہی لہجہ، وہی انکسار… ’وہی ہیبت، وہی شوکت، وہی شانِ دِل آرائی‘… طرزِ تقریر بھی بالکل طرزِ تحریر جیسا۔
اُس تقریب میں ہم نے ایک دلچسپ منظر دیکھا۔ڈاکٹر حمیداﷲ، جو بہت سے معاملات میں، مثلاً موسیقی کے معاملے میں یا عورت کی (مردوں کے لیے) امامت کے معاملے میں، ’کٹر مولویوں‘ سے کچھ مختلف مجتہدانہ رائے رکھتے ہیں،اپنی تصویر کھنچوانے سے سخت محترز تھے۔ پہلے تو اُنھوں نے، سماعت گاہ میں یکایک ’بھربھرا کر‘ گھس آنے والے غول در غول کیمرہ مینوں اور فوٹو گرافروں کو ڈانٹ ڈپٹ کر اپنی تصویر کھینچنے سے باز رکھنے کی کوشش کی اور بہت دلچسپ فقرہ کہا:’’اگر آپ کو میرے خیالات سننے سے دلچسپی ہے تو انھیں سُنیے۔میری تصویرکھینچنے سے آپ کو کیا دلچسپی ہے؟‘‘مگر بدقسمتی سے یونیورسٹی کی اُس تقریب کی صدارت کے لیے چوں کہ ایک ’وفاقی وزیر باتدبیر‘ مدعو کر لیے گئے تھے (اور رات کو پی ٹی وی کے خبرنامے میں نمایاں اہمیت بھی اُن ہی کی تقریرو تصویر کو ملی جب کہ ڈاکٹر حمیداﷲ کا ذکرضمنی طور پر ’دیگر مقررین‘ میں آیا) چناں چہ مووی کیمرے والوں اور اخباری فوٹو گرافروں نے ’بڑے میاں کی بڑ‘ کو چنداں اہمیت نہ دی اور منع کرنے کے باوجود اپنے شغل میں مشغول رہے۔ڈاکٹر حمید اﷲ نے ایک دلچسپ حرکت کی۔ اُنھوں نے میز پر سے ایک فائل اُٹھائی اور عروسِ نو کی طرح اس کا گھونگھٹ اپنے چہرے پر کاڑھ لیا۔پھر اسی حالت میں اپنا باقی خطاب مکمل کیا۔اُن کے خطاب کے بعد بڑی دلچسپ باتیں ہوئیں۔کسی نے پوچھا:’’خلیفۃ الارض کو پہلے تخلیق کیا گیا، یا تخلیقِ ارضی پہلے عمل میں آئی؟‘‘
ایک لمحے کا تامل کیے بغیر جواب دیا:’’قرآن کے ارشاد کے مطابق حضرت آدمؑ کو مٹی سے تخلیق کیا گیا تھا، اس سے میں گمان کر سکتا ہوں کہ اِس کرۂ خاکی کو پہلے تخلیق کیا گیا‘‘۔ایک اور سوال یہ کیا گیا:’’حضرت آدمؑ کی پسلی سے آخر حضرت حوا ؑ کی پیدائش کیسے ہوگئی؟‘‘اس سوال کا جواب گوکہ اُنھوں نے ازرہِ تفنن دیا، مگر یہ جواب بھی اہلِ تدبر کے لیے دعوتِ غور و فکرثابت ہوا۔ فرمایا:’’حضرت آدمؑ جنت کے باغات میں سکونت پزیر تھے۔اُن کے ارد گرد اشجار تھے۔ماحول کا اثر پڑتاہے۔جس طرح درختوں کے تنوں سے شاخیں پھوٹ نکلتی ہیں،ممکن ہے کہ امّاں حوا کی پیدائش بھی اِسی طور پر ہوئی ہو‘‘۔
ڈاکٹر حمیداﷲ کے کچھ مزید دلچسپ جوابات آپ کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں، جن سے آپ کو ان کے طرزِ فکر کا اندازہ ہوگا۔ ایک نوجوان نے مسلمانوں کی فرقہ بندیوں پراعتراض کرتے ہوئے کہا:
’’ہمارا اﷲ ایک، رسولؐ ایک، قرآن ایک، مگر ہمارے علمائے کرام نے متعدد فرقے بنائے ہوئے ہیں، مثلاً شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی وغیرہ۔ہمارا ہر عالم ہم کو ’’واعتصمو بحبل اﷲ جمیعاً و لاتفرقوا‘‘ کی تبلیغ کرتاہے، مگر یہ فرقے بھی خود عالموں ہی نے بنائے ہوئے ہیں۔ میرا ایک دوست ان فرقوں سے تنگ آکر طنزیہ کہاکرتاہے کہ میں عیسائی بننا چاہتاہوں۔ کیوں کہ عیسائیت میں کوئی فرقہ نہیں‘‘۔ڈاکٹر صاحب نے جواب میں فرمایا:’’ دوسرے جزو کا میں پہلے جواب دوں گا کہ ’عیسائیت میں کوئی فرقہ نہیں ہے‘۔ میں نے جرمن زبان میں لکھی ہوئی ایک کتاب دیکھی ہے۔جس میں بارہ سو عیسائی فرقوں کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے کہ ہمارے یہ دوست عیسائی بن کر مایوس ہی ہوں گے کہ اسلام ہی بہتر تھا۔ وہاں شاید صرف بارہ ہی فرقے ہوں‘‘۔اس کے بعدڈاکٹر صاحب نے فرقہ وارانہ محاذ آرائی کا ایک حل پیش فرمایاجسے اختیار کرلیا جائے تو حالات ہی بدل جائیں:’’فرقہ بندی کا حل میرے نزدیک ایک ہی ہے۔آپ دوسروں پر نہ جائیں۔اپنے پر توجہ دیں۔ آپ خود فرقہ پرستی کے مرض میں مبتلا نہ ہوں۔اپنے آپ کو صدفی صد درست اور دوسروں کو بالکل غلط نہ کہیں۔ دوسروں کو اُن کے خدا کے سپرد کر دیجیے۔وہ اپنے اعمال اور عقاید کے بارے میں خدا کو براہِ راست خود جواب دے لیں گے‘‘۔
ڈاکٹر حمیداﷲ نے مزید بتایا:’’پیر س میں بعض نومسلم فرانسیسی مجھ سے پوچھتے رہے ہیں کہ ہم نے سنا ہے کہ مسلمانوں میں بہت سے فقہی مذاہب (Schools of Law) ہیں۔حنفی، شافعی، مالکی وغیرہ۔ ہم کسے اختیار کریں؟ مالکی مذہب میرا مذہب نہیں ہے۔ لیکن فرانس میں اسّی ، پچاسی فیصد یا شاید اس سے بھی زیادہ لوگ مالکی مذہب کے ہیں۔ لہٰذا میں اُن سے کہتا ہوں کہ مالکی مذہب تمھارے ماحول کے لیے موزوں تر ہے۔ میں خود مالکی مذہب کا نہیں ہوں۔لیکن میرا خیال ہے کہ تم اس ماحول میں جذب ہونے کے لیے مالکی مذہب کے رہو تو یہ زیادہ مناسب ہوگا۔یہ میرا طرزِ عمل رہاہے‘‘۔ایک بار فرانس کے ایک چرچ میں اُنھیں مدعو کیا گیا کہ اپنے دین کا تعارُف پیش کیجیے،مگر دوسروں کے ادیان پر حملہ کیے بغیر۔ڈاکٹر صاحب نے اپنے مخصوص دِل نشین انداز میں اسلامی تعلیمات کا تعارُف اور تجزیہ پیش کیا۔بالخصوص اسلامی عبادات کا ذکر انتہائی مدلل سائنسی انداز میں کیا۔لیکچر ختم ہوا تو ایک خاتون ڈاکٹر صاحب کے پاس آئیں اور کہنے لگیں:’’آپ اپنی عبادت کا طریقہ مجھے سکھا دیجیے‘‘۔ڈاکٹر صاحب نے اُن سے پوچھا:’’کیا آپ مسلمان ہونا چاہتی ہیں؟‘‘خاتون نے کہا:’’نہیں، میں ہولی کرائسٹ کو نہیں چھوڑنا چاہتی۔عیسیٰ مسیح (علیہ السلام) پر ایمان رکھتے ہوئے عبادت کے اِس پُر تاثیر طریقے پر عمل کرنا چاہتی ہوں‘‘۔ڈاکٹر صاحب نے فرمایا:’’ہم مسلمان بھی سیدنا عیسیٰ مسیح علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہوئے سیدنا محمد صلی اﷲ علیہ وسلّم کے سکھائے ہوئے طریقے پر عمل کرتے ہیں‘‘۔خاتون بہت حیران ہوئیں۔جب مزید چند ملاقاتوں میں اُنھوں نے ڈاکٹر صاحب سے سیدنا عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے متعلق مسلمانوں کے عقاید اورسیدنا عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے متعلق قرآن کی فراہم کردہ معلومات سنیں تو وہ مسلمان ہوگئیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اُن کا نام عائشہ رکھا۔ایک روز ایک دلچسپ واقعہ رُونما ہوا۔ یہ واقعہ خود ڈاکٹر صاحب کے الفاظ میں سنیے۔ وہ کہتے ہیں: ’’ایک مرتبہ ایک فرانسیسی نَن نے تعدّد ازدواج کے متعلق اعتراض کیا۔میں نے اسے جواب دیا کہ اگراور لوگ مجھ پر یہ اعتراض کریں تو قبول، لیکن مجھے تم سے اِس اعتراض کی توقع نہیں تھی، کیوں کہ تمھارے اپنے عیسائی مذہب کے مطابق نن خدا کی بیوی کہلاتی ہے۔ اس طرح تمھارے شوہرکی تو لاکھوں بیویاں ہیں، جب کہ تم صرف چار بیویوں کے باعث مجھ پر معترض ہو‘‘۔(واضح رہے کہ ڈاکٹر صاحب کی ایک بھی بیوی نہیں تھی۔ اُنھوں نے تمام عمر شادی ہی نہیں کی۔اُن کی شادی تحقیق و تصنیف و تالیف سے جو ہوگئی تھی۔ اُنھوں نے اپنی تمام عمر اِسی مشغلے میں کھپادی)۔اوپر کا واقعہ سنانے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مزید بتایا:’’اِس بات کا اُس کے دل پر اتنا اثرہوا کہ دوسال کی خط و کتابت کے بعد اُس نے اپنا کانونٹ (Convent)چھوڑ دیا اور مسلمان ہوگئی۔ الحمدﷲ اب وہ حاجی طاہرہ کے نام سے پکاری جاتی ہے‘‘۔ایک بار اپنے لیکچر میں اُنھوں نے بتایا کہ Astrology (علمِ نجوم) اور Astronomy (علم فلکیات) میں بڑا فرق ہے۔ ضمناً اپناایک دلچسپ واقعہ بھی سنایا:’’ایک مرتبہ پیرس میں میرا ہاتھ دیکھ کرکسی نے کہا کہ تمھیں دو بیویاں ہونی چاہییں۔دوسرے نے کہا تم وزیر اعظم بنوگے۔ان میں سے ایک بات بھی اب تک تحقیق پزیر نہیں ہوئی۔ظاہر ہے کہ مجھے اس علم پر اعتقاد نہیں‘‘۔ڈاکٹر صاحب کے ’عدم اعتقاد‘ کے اعلان کے باوجود ایک صاحب نے پوچھ لیا:’’کہتے ہیں کہ ستاروں کا اثر انسان کی عملی زندگی پر بہت گہرا ہے۔اس سلسلے میں مسلمان ہوتے ہوئے ہمیں نجومیوں کی باتوں پر کہاں تک یقین کرنا چاہیے؟‘‘ڈاکٹر صاحب نے اپنی بات کی دوبارہ وضاحت کی اوریہ دلچسپ قصہ سنایا:’’چند مہینے پہلے کی بات ہے کہ ایک عیسائی انجمن نے پیرس میں مجھے ایک جلسے میں شرکت کی دعوت دی اور وہاں پر ایک فرانسیسی عیسائی عورت نے مجھ سے سوال کیا:’آج کل مسلمانوں کے یہاں دینی عبادات کا کیا حال ہے؟‘میں نے کہا: ’کچھ عرصہ پہلے پیرس کے مسلمان نماز روزے پر کم توجہ دیتے تھے، اب ان میں روز افزوں شوق نظر آتاہے‘۔[وہ بولی] ’ہمارے یہاں بھی یہی حال ہے۔پہلے گرجے خالی رہتے تھے۔اب گرجے میں جگہ بھی نہیں ملتی۔اس کی کیا توجیہ کریں گے؟ اس کو سوائے ستاروں کی گردش کے اثرکے اور کیا کہا جاسکتا ہے؟‘‘ڈاکٹر صاحب کی جگہ اگر ہم ہوتے تو اُس ’مادام‘ کی فوراً تائید کرتے کہ:’’اگر پیرس کے لوگ ’اوپیرا‘ چھوڑ چھوڑکر گرجوں کی طرف بھاگنے لگے ہیں تو یقینا ان کے ستارے گردش میں آگئے ہیں‘‘۔
ایک لیکچر میں ڈاکٹر حمیداﷲ مرحوم نے مسلمانوں کے اندر رواج پاجانے والی ’قبرپرستی‘ کے خلاف کچھ باتیں کہیں۔ ایک ایسے دوست بھی وہاں موجود تھے جو بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔اُنھوں نے ڈاکٹر صاحب سے سوال کیا:’’اولیاء اﷲ کی قبروں پر جاکر السلام علیکم یا اہل القبور کہنا، فاتحہ پڑھنا اور اُن کے طفیل سے خدا سے فضل وکرم کی التجا کرنا، کیا یہ اُمور بھی قبرپرستی میں شامل ہیں؟‘‘ڈاکٹرصاحب نے بڑا دل نشین اور دلچسپ جواب دیا:’’میں سمجھتا ہوں کہ اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مزارات کی زیارت فرماتے تھے۔رسول اﷲ ؐ … ’السلام علیکم یا اہل القبور‘… کہاکرتے تھے۔ اُن کے لیے فاتحہ پڑھتے تھے۔ تو میں اگر ایسا کروں تو سنت ہی کی پیروی ہوگی۔ بدعت اور جدید چیز نہ ہوگی۔ باقی، کسی کے طفیل سے اﷲ کے فضل وکرم کی التجا کرنا یہ نیت پر منحصر ہے۔اگرآپ یہ خیال ظاہر کریں کہ میں اس صاحبِ قبر کو رشوت دے چکا ہوں، اس پر پھول چڑھا چکاہوں، لہٰذا ان کا فرض ہے کہ جو چیز اﷲ میاں نہیں چاہتے، وہ کرڈالیں، یہ چیز شرک ہوگی‘‘۔ایک سوال یہ تھا: ’’مرحوم کی قل خوانی اور چہلم کے متعلق آپ کا کیا نظریہ ہے؟‘‘ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا:’’میں عرض کر چکاہوںکہ اگر کسی کی وفات کے تیسرے دن،دسویں دن، چالیسویں دن ہم کچھ کرنا چاہیں تووہ کام یہ ہونا چاہیے کہ قرآنِ مجید کی تلاوت کریں اور اس کا ثواب متوفیٰ شخص کو پہنچانے کی اﷲ سے دعا کریں۔ اس میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔چاہے ہر روز کریں چاہے ہرسال، چاہے ابتداء ً متعدد بار کریں۔کوئی امر مانع نہیں ہوتااور میرے مرنے کے بعد اگر آپ میرے لیے بھی دعا کریں تو میں آپ کا ممنون ہوں گا‘‘۔اَللّٰھُمَّ اغْفِر لَہٗ (آمین)
احمد حاطب صدیقی کے خاکوں کے مجموعے"جواکثر یاد آتے ہیں سے ایک خاکہ"