تاريخ
ملكہ حرہ
محمد فہدحارث
مسلمانوں کی تاریخ میں ایک ایسی حکمران خاتون بھی گزری ہے جس نے پوری کامیابی کے ساتھ ستر (71) سال تک حکومت کی ہے اور جس کی رعایا اس کی حکمرانی میں نہ صرف نہایت شاد و مطمئن تھے بلکہ اس کے دور میں بے انتہا علمی ترقی بھی ہوئی۔ میں بات کررہا ہوں داؤدی بوہروں کی حکمران ملکہ سیدہ ارویٰ الصلیحی المعروف ملکہ حرہ کی۔سردست اتنا عرض ہے کہ ابو الفداء نے اپنی تاریخ میں سیدہ ارویٰ صلیحی کی بابت لکھا ہے کہ یہ ملکۂ یمن تھی جو کہ ۴۴۰ ہجری میں احمد بن محمد بن جعفر بن موسیٰ صلیحی کے ہاں پیدا ہوئی۔ اس کا لقب حرہ جبکہ نام سیدہ تھا۔ یہ بڑی اولی العزم خاتون تھی اور تقریباً ۷۱ سال تک یمن پر حاکم رہی۔ اس کے نام کا خطبہ تک یمن میں پڑھا جاتا تھا۔ یہ اپنے وقت کی نہایت عالمہ و فاضلہ خاتون تھی۔ اس نے اپنے دورِ حکومت میں کئی مساجد اور جامعات بھی تیار کروائیں جن میں سب سے مشہور اور خوبصورت جبلہ ، یمن میں موجود مسجد الملکۃ ارویٰ بنت احمد الصلیحی ہے جس کی تعمیر میں قریباً ۵۰ سال کا عرصہ صرف ہوا۔ اسی مسجد میں ملکہ سیدہ حرہ کا مقبرہ بھی ہے۔ جہاں بوہری کثرت سے زیارت کے لئے جاتے ہیں۔
ملکہ سیدہ حرہ کی پرورش المستنصر کے یمنی داعی و حکمران علی بن محمد الصلیحی کی ملکہ اسماء بنت شہاب الصلیحی کے زیرِ تربیت ہوئی تھی۔ ملکہ اسماء بنت شہاب سیدہ حرہ کو اس کی اولو العزمی ، ذہانت، اسلامی علوم و عربی ادب سے دلچسپی اور خوبصورتی کے سبب بے انتہا پسند کرتی تھی اور اسی وجہ سے اس نے اپنے بیٹے احمد المکرم بن علی بن محمد الصلیحی سے اسکا نکاح کیا۔ اس وقت سیدہ حرہ کی عمر ۱۷ سال تھی۔
احمد المکرم اپنے باپ کے برعکس امورِ سلطنت سے بالکل نابلد تھا اور عیش و طرب میں مشغول رہتا تھا۔ علی بن احمد اصلیحی کے انتقال کے بعد احمد المکرم تخت نشین ہوا تو اپنی نااہلی کے سبب ایک روز بھی درست طریقے پر حکومت نہ چلا سکا۔ اس نے امورِ سلطنت اپنی ماں ملکہ اسماء بنت شہاب اور بیوی سیدہ حرہ ارویٰ کے سپرد کردئیے۔ اسماء اور سیدہ حرہ نے نہایت کامیاب طریقے سے کاروبارِ سلطنت چلایا۔
۴۸۴ ہجری میں احمد المکرم نے وفات پائی تو فاطمی خلیفہ المستنصر باللہ نے ملکہ سیدہ حرہ پر زور ڈالا کہ احمد المکرم کے چچا کے لڑکے سبا بن احمد بن مظفر بن علی الصلیحی سے نکاح کرلے۔ سیدہ حرہ یہ نکاح نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن چونکہ احمد المکرم کے بعد بظاہر اقتدار سبا بن احمد کو منتقل ہوگیا تھا سو اپنی شاہی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لئے اس نے سبا بن احمد سے شادی پر آمادگی ظاہر کردی۔ تاہم اب بھی تمام امورِ سلطنت ملکہ سیدہ حرہ کے ہاتھ ہی میں رہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے سبا بن احمد کو کبھی اپنے قریب نہ آنے دیا۔اسماء بنت شہاب کی طرح ملکہ سیدہ حرہ بھی ہر روز اپنے درباریوں سے تبادلہ خیال کرتی تھی اور اس کے لئے اس کا دربار سجایا جاتا تھا۔ تاہم یہ اسماء بنت شہاب کے برخلاف پردے کی سختی کرتی تھی اور باپردہ ہوکر درباریوں کے سامنے آتی تھی۔ اس کی ایک وجہ اسکا جوانی میں ہی برسرِ اقتدار آنا اور نہایت حسین و جمیل ہونا بھی تھا۔ امورِ سلطنت کے بعد یہ اپنا بیشتر وقت حصولِ علم اور زہدو عبادت میں گزارتی تھی۔اہل یمن اس کی اطاعت و حکومت میں نہایت خوش تھے۔ وہ اپنی حیات میں دعوت و حکومت پر اپنے دو شوہروں کی موت کے بعد بھی قریباً ۲۷ سال تک اکیلے قائم رہی جبکہ اس کی کُل مدتِ حکومت ۷۰ سال سے اوپر ہے۔ اسی ملکہ کے عہد میں بوہروں کے اکیسویں امام طیب بن آمر مستور ہوئے اور حافظ لدین اللہ فاطمی خلافتِ مصر پر قابض ہوگیا۔ اس کے باوجود یمن میں نظامِ حکومت اسی شان و شوکت کے ساتھ چلتا رہا اور مساجد میں فاطمی خلفاء کے ناموں کے بعد ملکہ سیدہ حرہ کا نام بھی خطبوں میں لیا جاتا رہا۔
المستنصر باللہ اور اس کے بعد ان کی آل اولاد کو ملکہ حرہ پر اتنا اعتبار و بھروسہ تھا کہ وہ اس سے نہ صرف امورِ سلطنت میں مشورہ لیتے تھے بلکہ امام طیب کے مستور ہونے کے بعد یہ ان کے نام پر دعوت کا کام بھی جاری رکھے رہی یہاں تک کہ اس نے بوہروں میں داعی مطلق کا عہدہ قائم کیا اور ذویب بن موسیٰ الھمدانی (متوفیٰ ۵۴۶) کو پہلا داعی مقرر کیا۔ ذویب بن موسیٰ بوہروں کا پہلا داعی مطلق اسی ملکہ سیدہ حرہ کا مقرر کیا ہوا تھا۔ داعیوں کا یہ سلسلہ اُس وقت سے آج تک بلا کسی انقطاع کے چل رہا ہے اور اس سلسلے کے موجودہ ۵۳ ویں داعی مطلق مفضل سیف الدین ہیں جن کا مستقر ممبئی ہندوستان ہے۔
ملکہ سیدہ ارویٰ الملقب حرہ نے ۹۲ سال کی عمر میں ۲۲ شعبان ۵۳۲ ہجری میں وفات پائی۔ جامع ذی جبلہ میں قبلے کے بائیں جانب مسجد الملکۃ ارویٰ بنت احمد الصلیحی کی ایک منزل میں مدفون ہے۔ اس کی قبر بوہروں کی بڑی زیارت گاہوں میں سے ہے۔ملکہ سیدہ حرہ اس درجہ کی خاتون تھی کہ المستنصر باللہ نے اسکو اسمٰعیلی دعوت کا سب بڑا مذہبی خطاب "الحجۃ" تفویض کیا تھا جو کہ آج تک کسی دوسری شیعہ خاتون کو نہیں ملا۔ اسی کے دور میں اسمٰعیلی دعوت کا سلسلہ ہندوستان پہنچا جہاں اس نے یکے بعد دیگرے کئی داعی دعوت کے قیام کے لئے بھیجے۔