ملتان كا آخری پارسی

مصنف : خالد مسعود خان

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : نومبر 2023

تاريخ

ملتان كا آخری پارسی

خالد مسعود خان

جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں ‘ٹھیک آج ہی کے دن ایک سال قبل یعنی اٹھائیس اکتوبر 2022 کو ملتان کا آخری پارسی ملتان کی خاک کارزق بنا اور ملتان میں پارسیوں کے قبرستان میں آخری قبر کا اضافہ ہوا۔

سیٹھ ہوشنگ جی پسٹون بومن جی گزشتہ کئی برس سے ملتان میں پارسیوں کی آخری نشانی تھے۔ یہ نشانی رخصت ہوئی اور پونے دو سو سال پہلے ملتان آنے والے پارسیوں کا باب بند ہو گیا۔ میرا ملتان کے پارسیوں سے پہلا تعارف یوں تھا کہ ایمرسن کالج میں میرے ساتھ جمشید بومن جی پڑھتا تھا۔ ملتان میں تب چار پارسی فیملیز رہتی تھیں۔ ایک بومن جی فیملی تھی، دوسری ڈنشا فیملی تھی، تیسری بلموریا فیملی اور چوتھی مینوالا فیملی تھی۔ملتان میں دو شراب خانے ہوا کرتے تھے ایک بومن جی اینڈ سنز اور دوسرے کا نام منچر جی مانک جی اینڈ سنز تھا۔ بومن جی اینڈ سنز ملتان کینٹ کے مرکزی چوک پر واقع تھا اب اس چوک کا نام بھی بومن جی چوک ہے جہاں پارسیوں کے نام کی آخری نشانی بومن جی شاپنگ مال ہے۔ جمشید سیٹھ بومن جی پسٹون بومن جی کا بیٹا اور سیٹھ ہوشنگ پی بومن جی کا بھتیجا تھا۔ منچر جی مانک جی کا شراب خانہ ملتان کینٹ ریلوے سٹیشن کے ساتھ واقع چرچ سے متصل تھا۔ بلموریا فیملی کا گھر ملتان کینٹ میں ایس پی چوک اور سی ایم ایچ کے درمیان کافی وسیع و عریض رقبے پر تھا۔ اس وسیع احاطے میں تب ملتان کا سب سے اعلیٰ اور شاندار کے جی سکول تھا جسے مسز بلموریا چلاتی تھیں۔ اس سکول کا نام”دی جونیئر سکول‘‘ تھا۔تب ملتان میں امرا کے بچے چھوٹی کلاسوں کیلئے جونیئر سکول میں داخلہ لیتے تھے اور چھٹی کلاس سے لاسال ہائی سکول میں داخل ہوتے تھے۔ سفید نیکر یا شلوار اور گلابی باریک چیک دار شرٹ یا فراک میں ملبوس بچے اور بچیاں دور سے پہچانے جاتے تھے کہ یہ جونیئر سکول میں پڑھتے ہیں۔ شہر بھر سے کھاتے پیتے گھروں کے بچے تانگے پر جونیئر سکول جاتے تھے۔ ایک ایک تانگے میں درجن بھر سے زیادہ بچے لدے ہوتے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ بچپن میں جونیئر سکول کے بچوں کو اس طرح صاف ستھری اور خوبصورت یونیفارم میں ملبوس دیکھ کر ہمیں بھی بڑی حسرت ہوتی تھی مگر تب ہم ٹاٹوں والے سکول میں پڑھتے تھے جہاں اکثر بچے اپنا بغیر استری شدہ یونیفارم ہفتہ بھر پہننے کے بعد بمشکل دھلوا کر دوبارہ زیب تن کرتے تھے۔لاسال سکول تو مشنری انتظامیہ کے تحت چلتا تھا جہاں کسی زمانے میں ہیڈ ماسٹر غیر ملکی ہوتا تھا۔ جونیئر سکول البتہ بلموریا فیملی کا تھا اور مسز بلموریا بڑی شاندارمنتظم تھیں، جنہوں نے نہایت عمدہ طریقے سے اس سکول کو چلایا۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں اسی بڑے کمپاؤنڈ میں جہاں بلموریا فیملی کی رہائش اور سکول تھا میں ایک ڈانسنگ سکول بھی ہوا کرتا تھا جو بعد میں بند ہو گیا۔ فرح بلموریا نے ملتان بورڈ میں اول پوزیشن بھی حاصل کی تھی۔ پھر یہ فیملی ملتان چھوڑ کر چلی گئی۔ یہ ایک علیحدہ قصہ ہے جس کا ذکر بے محل ہوگا۔ملتان کے پارسی کراچی سے آئے تھے اور بتاتے تھے کہ یہ لوگ کراچی سے دریائے سندھ اور دریائے چناب کے راستے بذریعہ کشتی ملتان آئے تھے۔ غالباً یہ لوگ 1840 کے لگ بھگ ملتان آئے اور انہوں نے یہاں کاروبار شروع کیا۔ تب ملتان چھاؤنی میں گورے افسر اور فوجی ہوا کرتے تھے۔ پارسیوں نے ملتان چھاؤنی میں رہائش اختیار کی اور فوج کو مختلف چیزوں کی سپلائی اور ٹھیکیداری میں بڑی نیک نامی حاصل کی۔ جمشید بومن جی کے دادا نے صدر بازار میں ایک شراب خانہ کھولا۔ بعد ازاں چھاؤنی انتظامیہ نے انہیں(حالیہ بومن جی چوک) صدر بازار کی مشرقی سمت ایک کافی بڑا قطعہ اراضی دے دیا جہاں انہوں نے بومن جی اینڈ سنز نامی شراب خانہ بنایا جو بھٹو دور میں شراب پر پابندی لگنے کی وجہ سے بند ہوا۔ منچر جی مانک جی شراب خانے کے علاوہ مظفر گڑھ کے تھرمل بجلی گھر کے مالک تھے۔1947 سے قبل ملتان اور مظفر گڑھ کے بجلی گھر ایک ہندو سیٹھ پنڈت جیون لعل کی ملکیت تھے۔ جب تقسیم ہوئی تو ان بجلی گھروں کا ہندو مالک بھارت چلا گیا۔ ملتان کا بجلی گھر بعد ازاں کالونی ٹیکسٹائل ملز کے مالک مغیث احمد شیخ جبکہ مظفر گڑھ کا تھرمل بجلی گھر ڈنشا فیملی نے لے لیا۔

ڈنشا فیملی کے پروفیسر ایرک ڈنشا مالی طور نہایت ہی آسودہ حال تھے اور انگریزی زبان و ادب میں اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ پروفیسر ایرک ڈنشا نے برسوں تک ایمرسن کالج میں بلا معاوضہ، اعزازی استاد کے طور پر انگریزی پڑھائی۔ وہ نہایت شاندار استاد ہونے کے علاوہ نہایت ہی نفیس انسان تھے۔ ان کا ایک بیٹا اسفند ڈنشا ایمرسن کالج میں میرا جونیئر تھا۔ اسفند ڈنشا بھی دیگر پارسی نوجوانوں کی طرح امریکہ چلا گیا۔ اسفند ڈنشا آج کل شکاگو میں Actuarial Sciences کی اسی ارب ڈالر کی کمپنی کا چیف ایگزیکٹو ہے اور خود بھی ارب پتی ہے۔ جبکہ جمشید بومن جی نشتر میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس اور برطانیہ سے کینسر میں سپیشلائزیشن کرنے کے بعد آج کل لندن میں ہے۔ جمشید بومن جی اپنے فیلڈ میں ایک نامور اور نمایاں ڈاکٹر ہے۔پارسی مرنے والوں کو ان کے مذہبی عقیدے کے مطابق ایک کھلی جگہ رکھ دیا جاتا ہے جہاں میت کو چیل کوے کھا لیتے ہیں۔ اس جگہ کو ٹاور آف سائلنس کہتے ہیں۔ ملتان میں ایسی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے ملتان کے پارسی اپنے مرنے والوں کو دفن کر دیتے تھے۔ ملتان کا پارسی قبرستان سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی رہائش گاہ کے عین سامنے سڑک پار واقع ہے۔ اس قبرستان میں دفن ہونے والا پہلا پارسی نو روز جی منچرجی جو صدر بازار کا کوتوال تھا پندرہ دسمبر1858 میں دفن ہوا۔

مینوالا فیملی نے سب سے پہلے ملتان چھوڑا۔ اس کے بعد بلموریا فیملی نے بھی ملتان کو خیر باد کہا۔ تاہم بومن جی اور ڈنشا فیملی کے بڑوں بوڑھوں نے اپنا آبائی کاروبار یعنی شراب خانے بند ہونے کے باوجود ملتان چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ جبکہ ان کے بچے اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے پیش نظر آہستہ آہستہ پاکستان سے باہر چلے گئے۔ ایک زمانہ تھا کہ 1908 میں کراچی میں مرنے والے بائی سونا بائی کی میت کو دفن کرنے کی غرض سے ملتان لایا گیا۔ اور اب یہ عالم ہے کہ ملتان میں دفن ہونے کیلئے کوئی پارسی ہی موجود نہیں۔سیٹھ ہوشنگ گزشتہ دو عشروں سے ملتان میں رہائش پذیر واحد پارسی تھا۔ جمشید کا والد بومن پسٹون بومن جی 2002 میں اس قبرستان میں دفن ہوا۔ سیٹھ ہوشنگ جی پسٹون بومن جی کی اہلیہ ہومائے چھ نومبر1993 کو ملتان کی خاک میں دفن ہوئی۔ اپنی بیوی سے بے انتہا محبت کرنے والے سیٹھ ہوشنگ نے اپنے بچوں کے اصرار کے باوجود ملتان چھوڑ کر جانے سے انکار کردیا اور پورے انتیس سال اس انتظار میں رہا کر وہ اپنی محبوب بیوی کے پہلو میں دفن ہو سکے۔ اٹھائیس اکتوبر 2022 کو تین عشروں کے لگ بھگ یہ انتظار ختم ہوا اور سیٹھ ہوشنگ اپنی اہلیہ کے پہلو میں پہنچ گیا۔ اس قبرستان میں پہلی قبر 15دسمبر1858 میں اور آخری قبر اٹھائیس اکتوبر2022 کو بنی۔ اب اس قبرستان میں کسی نئی قبر کے اضافے کا نہ تو امکان ہے اور نہ ہی کوئی امید۔

اب اس عاجز کو خوف صرف یہ ہے کہ نہایت ہی پرائم لوکیشن پر واقع یہ ایک سو پینسٹھ سال پرانا قبرستان جو نہایت ہی مہنگی اور قیمتی زمین پر بنا ہوا ہے۔ اس ملک میں تو وہ زمین اور جائیداد بھی محفوظ نہیں جن کے وارث موجود ہیں اور اس قبرستان کی دیکھ بھال، سرپرستی اور نگرانی کے لیے تو پورے شہر میں اب ایک بھی پارسی باقی نہیں رہا۔ مجھے خوف ہے کہ کسی روز قبضہ مافیا اس کو غتربود کر کے صفحہ ہستی سے نابود کر دے گا۔ ویسے قبضہ مافیا کو کہیں دور سے آنے کی زحمت بھی نہیں کرنی پڑے گی۔