پیسہ ہی بنیادی قدر ہے

مصنف : حافظ صفوان

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : نومبر 2023

فكرونظر

پیسہ ہی بنیادی قدر ہے

.حافظ صفوان

کچھ سال پہلے سے سر سید کا سنجیدہ مطالعہ شروع ہوا تو معلوم ہوا کہ اُن کا اصل کام تعلیم یا تعلیمی ادارہ قائم کرنا نہیں بلکہ مسلمانوں کی معاشی اور سیاسی حیثیت کی بحالی تھا اور تعلیم اِس کے لیے ایک راستہ یا tool تھی۔ اِس تفہیم نے مجھے 1989ء میں پروفیسر ڈاکٹر شیریں مہرالنساء مزاری کے وہ لیکچر بے تحاشہ یاد دلائے جو وہ Economy in War کے کورس میں پڑھاتی تھیں۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، میں ہر جنگ کو صرف اور صرف معیشت کی نگاہ سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہر جنگ پیسے سے لڑی جاتی ہے، اور پیسہ کوئی نہ کوئی لگاتا ہے تبھی لوگ جنگ کے لیے نکلتے ہیں۔ جنگ کا اصل منافع جنگی ساز و سامان بنانے والوں کو ملتا ہے۔ دوسرے نمبر پر منافع اُنھیں ملتا ہے جو زخمیوں کی دوا دارو کرتے ہیں۔ خوش قسمتی کہیے یا کاروبار، یہ دونوں ایک ہی خاندان کے لوگ ہیں۔ ساری دنیا اِنہی کے لیے محنت مشقت کرتی ہے اور اپنی جانوں پہ کھیل جاتی ہے۔ آپ اِسے میری سنگدلی کہہ لیں یا کوئی اور نام دے لیں، مجھے کسی جنگ میں مذہبی یا مسلکی یا قومی یا نسلی قسم کے جذبات نظر ہی نہیں آتے۔ مجھے کچھ نظر آتا ہے تو صرف اور صرف مالی مفادات کی وہ دبیز تہہ یا سموک سکرین جس کے پیچھے یہ سب کچھ چھپا ہوتا ہے۔ میں صرف یہ دیکھتا ہوں کہ مفادات کے خونی ٹکراؤ میں اپنا مفاد حاصل کرنے کے لیے کون سا ملک اور کون سا مذہب اور کون سی نسل کتنے انسانوں کے خون اور گوشت کو کس قیمت پر خرید یا بیچ رہی ہے۔ جس طرح ہر مہذب آبادی میں بھی مذبح خانہ ہوتا ہے جہاں آبادی کو گوشت فراہم کرنے کے لیے روزانہ مرغی سے لے کر بکرے گائے بھینس وغیرہ ذبح کیے جاتے ہیں بالکل اُسی طرح فلسطین، کشمیر اور شام و عراق و اغوانستان مستقل عالمی مذبح خانے ہیں جہاں انسانوں کا قیمہ بنایا جاتا ہے۔ آپ سو برس پہلے کا کسی بھی زبان کا آج کی تاریخ کا اخبار پڑھ لیجیے، فلسطین اور عراق و بغداد میں کشاکش کی بالکل آج جیسی خبریں ملیں گی۔ اِسی طرح عارضی مذبح خانے بھی بنا لیے جاتے ہیں جیسے بلقان میں بوسنیا ہرزیگووینا، برما میں میانمار، اور خدا رکھے پاک و ہند میں جگہ جگہ، وغیرہ۔ چنانچہ اِس سچائی کو سمجھنا راکٹ سائنس نہیں ہے کہ جیسے مذبح خانے میں جانور ذبح کیے بغیر آبادی کو گوشت نہیں مل سکتا ویسے عالمی مذبح خانوں میں انسانوں کا دیہانت کیے بغیر دنیا کا کاروبار نہیں چل سکتا۔

اب سموک سکرین کے پیچھے ذرا توجہ سے دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ جس طرح صلیبی جنگیں تمام تر مسلم اور عیسائی پروپیگنڈہ کے باوجود اصل میں بحیرۂ روم کی تجارت پر قبضے کی یعنی پیٹ کی لڑائیاں تھیں جو اُس وقت مشرق اور مغرب کے درمیان مختصر ترین راستہ تھا، بالکل اِسی طرح توہین آمیز خاکے اور مواد جہاں سے بھی شروع ہوتا ہے وہاں معاشی مفاد وابستہ ہوتا ہے چاہے وہ جرمنی کی جاب مارکیٹ میں ترکوں کا سیلاب ہو یا فرانس میں الجزائری اور مراکشی مسلمانوں کا سیلاب۔ یہ دائیں بازو کی مقامی جماعتوں کی طرف سے مسلمانوں کو زچ کرکے بھگانے اور جاب مارکیٹ واپس حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ یہ کوشش اِن معنی میں جائز ہے کہ وہاں کے مقامی لوگوں کی معاشی بقا کا مسئلہ ہے۔ چنانچہ توہین آمیز خاکوں کا حل اسلاموفوبیا والا مذاق نہیں ہے اور مظاہرے یا قانون سازی بھی نہیں ہے۔ اِس کا حل مسلم حکومتوں کے پاس ہے اور وہ ہے او آئی سی کے پلیٹ فارم سے معاشی پابندیاں۔ صرف معاشی دھمکی ہی اِن ممالک کی مقتدرہ اور عوام کو حدود میں رکھ سکتی ہے۔

اب ذرا اپنے ملک کی طرف آجائیں۔ جاننا چاہیے کہ ڈیم اس لیے بنائے گئے کیونکہ دریا بیچ دیے تھے۔ یہاں یہ بات نہیں کہوں گا کہ دریا کس محکمے نے اور کس قوم کے فرد نے بیچے اور اُس سے ملک کے کس علاقے اور کس قوم کا اصل نقصان ہوا۔ اِسی طرح چند دن پہلے ایک اہم چوکیدار کو ملازمت میں توسیع دینے کا مسئلہ تھا اور ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت (ن لیگ) اِس کی کسی صورت حامی نہ تھی، تو بدوبدی سرحد پہ کشیدگی اور مارا مار شروع ہوگئی۔ اور سیاستدانوں کو رام کرکے جونہی ملازمت میں توسیع ملی، سرحدی کشیدگی ختم ہوگئی۔ ذرا اور پیچھے جائیے۔ لوگوں کو ابھی تک یاد ہے کہ مشرف کے دور میں سیف گیمز کیوں کرائے گئے تھے۔ اِسی طرح چھاؤنی بن جانے اور زمرد کے پہاڑوں پر قبضہ ہونے کے بعد الحمدللہ سوات میں امن لوٹ آنا بھی لوگوں کو یاد ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ الغرض یہ کوئی شیعہ سنی یا پنجابی سرائیکی مسئلہ نہیں ہے بلکہ پیسے کا مسئلہ ہے۔

توہین آمیز خاکوں والی بدتمیزی کی وجہ سے فرانس کی موجودہ صورتِ حال دو مختلف تہذیبوں کا ٹکراؤ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو اپنے موقف پر قائل کرنا فرانس کے لیے ناممکن ہے۔ امریکہ نے مسلمانوں کی سائیکی سمجھ کر پوری دنیا سے مفت کے جہادی اکٹھے کرکے روس کو پیل دیا تھا۔ لیکن فرانس نے مسلمانوں کی سائیکی اور تاریخ سمجھنے میں بہت بڑی غلطی کی ہے اور اُسے اِس کا خمیازہ مزید نقصان کی صورت میں بھگتنا پڑے گا اور اپنے موقف سے پیچھے بھی ہٹنا پڑے گا۔ آپ دیکھیں گے کہ ابھی یہ گرمی نکل جانے کے بعد دو تین سال میں اِسی فرانس میں اور اِسی جگہ پھر یہی مارا کوٹی ہو رہی ہوگی۔ یہ پیشین گوئی نہیں ہے کیونکہ میں مولانا ابوالکلام آزاد جدید نہیں ہوں۔ یہ مطالعے اور تجزیے کا حاصل ہے، جسے لوگ دیکھیں اور بھگتیں گے۔ فرانس سب سے پہلے بھگتے گا۔