دين و دانش
میاں اور بیوی
محمد فہد حارث
قرآن نے انسانوں کے باہمی معاملات میں سب سے زیادہ زور زوجین یعنی شوہر و بیوی کے تعلقات پر دیا ہے اور اس ایک تعلق کے تمام گوشوں کو بہت وضاحت کے ساتھ قرآن میں بیان کردیا ہے۔ سورۃ البقرۃ ، سورۃ طلاق، سورۃ النساء غرض کئی سورتوں میں اس بابت مفصل اور جامع کلام کیا ہے جو کہ اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ خاندانی نظام اللہ کے ہاں کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ شیطان پانی پر اپنا تخت لگا کر اپنے چیلوں سے ان کی دن بھر کی کارگزاری پوچھتا ہے اور جب بھی کوئی چیلا اپنا کارنامہ بتاتا ہے تو شیطان اسے کہتا ہے کہ تونے کچھ نہیں کیا لیکن جب ایک چیلا آکر بتاتا ہے کہ اس نے ایک شوہر و بیوی میں لڑائی کروائی یہاں تک کہ وہ ان کی جدائی پر متنج ہوئی تو ابلیس خوش ہوکر اس چیلے کو شاباشی دیتا ہے اور اس کو اپنے ساتھ تخت پر بٹھالیتا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ابلیس کی نظروں میں خاندانی نظام کو تباہ کرنا کس قدر من پسند اورمرغوب کام ہے۔ کیونکہ جب ایک خاندان تباہ ہوتا ہے تو اس تباہی سے اس خاندان میں موجود ہر فرد متاثر ہوتا ہے۔ عورت بے آسرا ہوجاتی ہے، مرد بلا عورت کے فواحش کا شکار ہوسکتا ہے، بچے رل جاتے ہیں اور ان کی شخصیت میں سنگل پیرنٹ کی تربیت کے سبب کئی فقدان جنم لینے لگتے ہیں۔ الغرض کسی بھی جوڑے کی طلاق کئی انسانوں کی زندگیوں میں سلبی تبدیلی کا باعث بنتی ہے جو کہ آگے جاکر معاشرے کی مثبت تعمیر کو متاثر کرتی ہے۔
یہی وجہ رہی کہ قرآن کے ساتھ ساتھ نبی ﷺ نے احادیث میں بھی شوہر و بیوی کے تعلقات پر بہت زور دیا تھا۔ کہیں تو آپ ﷺ نے مردوں کو تنبیہ کرتے ہوئے صاف فرمادیا کہ اپنی عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو تو کسی جگہ انکو جتادیاکہ تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے ساتھ اچھے ہیں۔ اسی طرح ایک جگہ فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی میں کوئی ناگوار بات دیکھے تو اس کی کسی اچھی بات کو یاد کرلے تاکہ ناگواری کا تاثر زائل ہوجائے۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ تم میں سے ہر آدمی سے اسکی رعیت یعنی اہل و عیال کی بابت سوال کیاجائیگا۔اسی طور سے آپﷺ نے عورتوں کو بھی خاص تنبیہ کی ہے کہ اپنے شوہروں کے ساتھ اچھے سے پیش آئیں اور ان کو ہر طرح کا سکھ اور چین مہیا کریں اور اس طرز عمل کو جنت کے حصول کے ساتھ مشروط کیا۔ کبھی فرمایا کہ اگر غیر اللہ کو سجدہ جائز ہوتا تو میں بیوی کو کہتاکہ خاوند کو سجدہ کرے تو کبھی فرمایا کہ جس عورت سے اس کا خاوند ناراض ہوکر سوجائے تو فرشتے اس پر رات بھر لعنت کرتے ہیں۔اور کبھی یہ کہہ کر ان کو ڈرایا کہ میں نے جہنم میں عورتوں کی کثرت دیکھی کہ وہ اپنے شوہروں کی نافرمانی کرتی ہیں۔
شوہر اور بیوی کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی جانب سے ان ساری باتوں اور تنبیہات کا مقصد صرف یہ ہے کہ میاں بیوی میں محبت و مودت دوام پائے اور ایک صحتمند خاندانی نظام قائم رہے جس میں تمام افراد خوش و مطمئن زندگی گزاریں تاکہ وہ معاشرے میں آگے جاکر اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں۔ آپ کسی بھی معاشرے کے جرائم کی تفاصیل اٹھا کر دیکھ لیں، ۸۰ فیصدی مجرم افراد اس طور کے لوگ ملیں گے جو کہ تباہ شدہ خاندانی نظام کا حصہ رہے ہیں، ان میں سے کوئی کسی غیر منکوحہ ماں کا بیٹا ہوگا تو کسی کے والدین کے درمیان بچپن میں طلاق ہوگئی ہوگی۔ کسی کو اس کے ماں باپ کی توجہ نہیں ملی ہوگی تو کسی کی ماں کو اس کا باپ مارتا ہوگا۔ کوئی والدین کے ہوتے ہوئے اپنی نانی دادی کے ہاں پلا ہوگا تو کسی کے سر سے بہت کم عمر میں ہی خاندان کا سایہ اٹھ گیا ہوگا۔ المختصر مغربی معاشرے میں بالعموم اور ہمارے معاشرے میں بالخصوص عموماً ایسے لوگ ہی بڑے ہوکے مجرم بنتے ہیں جن کو بچپن میں کسی طور کے خاندانی مسائل سے دوچار ہونا پڑا ہوتا ہے۔یہی وجہ رہی کہ ایک صالح معاشرے کی تشکیل کے لئے قرآن و حدیث نے ایک صالح خاندانی نظام پر بہت زور دیا ہے۔ اور پوری کوشش کی ہے کہ اختلاف کی صورت میں زوجین کے مابین مفاہمت کی کوئی نہ کوئی صورت نکل آئے اور طلاق کو حلال قرار دیتے ہوئے بھی سخت ناپسندیدہ عمل بتایا ہے اور ساتھ ہی اس کو دینے کی صورت قرآن میں مفصل بیان کردی کہ ایک ایک کرکے طلاق دی جائے تاکہ زوجین کو طلاق کے بیچ کی مدت میں مفاہمت کے لئے غوروخوص کرنے کا وقت مل جائے۔
ایک صحتمند خاندانی نظام کی تشکیل کے لئے شوہر کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لیے تمام وہ مباح کام کرے جس سے اسے لگے کہ اسکی بیوی خوش ہوسکتی ہے۔ اور اگر کبھی بیوی کے ساتھ کسی ناانصافی کا خیال آئے تو بقول ہماری امی کے صرف یہ سوچ لے کہ اسکا بہنوئی یا داماد اگر اسکی بہن یا بیٹی کےساتھ اس طور کی ناانصافی کا ارتکاب کرے تو اس کے خود کے دل پر کیا گزرے گی۔ یہ سوچ ایسی بہت سی ناانصافیوں کو روکنے کا سبب بن سکتی ہیں۔ اسی طرح سے خواتین کو چاہیے کہ اپنے پہننے اوڑھنے سے لیکر کھانے پینے تک میں شوہر کی پسند کا خیال رکھے۔ کوشش کریں کہ اس کے لئے تیار ہو اور اپنا خیال رکھے۔ جب صحابہؓ دور دراز کے سفر کرکے واپس مدینہ پہنچتے تھے تو آپ ﷺ نے صحابہؓ کو تاکید کررکھی تھی کہ فوراً اپنے گھر نہ جائیں بلکہ پہلے مسجد آکر نوافل ادا کریں اور اپنے گھر اطلاع بجھوادیں تاکہ ان کی عورتیں اس فرصت میں اپنی صفائی ستھرائی کرکے شوہر کےلئے تیار ہوجائیں۔ جبکہ ہمارے ہاں یہ حال ہوتا ہے کہ شوہر گھر آتا ہے تو خاتون خانہ ادرک لہسن کی مل جلی بدبو کے ساتھ اسکا استقبال کرتی ہیں کہ زوجہ پر صنف نازک سے زیادہ تندوری چکن ہونے کا گمان ہورہا ہوتا ہے۔
بظاہر یہ باتیں بہت چھوٹی چھوٹی محسوس ہوتی ہیں لیکن اصل میں ان کے نتائج بہت دوررس اور خوش آئند ثابت ہوتے ہیں۔ ہم بچپن سے دیکھتے آئے تھے کہ ہمارے والد ہر روز آفس پہچنے کے بعد والدہ کو صرف ۱ منٹ کی ہی سہی لیکن فون کال ضرور کرتے تھے کہ گھر میں سب خیریت ہے نا۔ اور والدہ نے اپنی اوائل شادی کے ایام سے لیکر والد کے انتقال تک کے عرصہ میں اس فون کال کو ہمیشہ ہنستے مسکراتے اور شرماتے ہی اٹھایا کہ گویا ہم لوگوں کو یہ گمان ہوتا تھا کہ والد صاحب زندگی میں پہلی بار والدہ کو فون کررہے ہوں۔ شوہر کو چاہیئے کہ کوشش کرکے اپنی بیوی کی ہر اچھی بات پر حوصلہ افزائی کرے۔ خواتین بہت چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہوجاتی ہیں، آپ نے اکیلے میں ان کی تعریف کردی، گھر والوں کے سامنے ان کے کھانے کے ذائقہ کو سراہ دیا، اپنے والدین کی خدمت کرنے پر انکا شکریہ ادا کردیا۔ اسی طرح سے شوہر کے لئے یہی بات کافی ہوتی ہے کہ بیوی اس کو یہ احساس دلادے کہ اس کے لئے نہ صرف اسکا شوہر سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے بلکہ اس کے شوہر سے منسوب ہر چیز اس کے لئے اہم ہے چاہے وہ شوہر کے والدین ہوں یا بہن بھائی۔ یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں اور احساسات زوجین کے رشتے کو ہمیشہ پائیدار اور ترو تازہ رکھتے ہیں۔
جہاں تک لڑائی جھگڑے اور غصہ کی بات ہے تو اس بابت تو بڑے بوڑھوں کا سجھایا نسخہ ہی آزمودہ ہے کہ جب ایک فریق گرم ہو تو دوسرا ٹھنڈا ہوجائے۔ اپنے دل میں شکایتوں کو پنپنے نہ دیں۔ بروقت ان کو احسن طریقے سے اپنے ساتھی سے کہہ دیں۔ باتیں دل میں رکھنے سے ناسور بننے لگ جاتی ہیں اور یہی چیز سم قاتل ہوتی ہے۔ یاد رکھیے کہ زوجین اگر صرف ایک بات سمجھ لیں تو ان کے سارے گلے شکوے عارضی ہونگے اور ایک دوسرے سے زیادہ ان کے لئے کوئی اہمیت نہ رکھے گا وہ یہ کہ آخر عمر میں شوہر و بیوی کو ہی ایک دوسرے کے ساتھ رہنا ہوتا ہے۔ والدین کچھ عرصہ بعد حیات نہیں رہتے، بہن بھائی اپنی زندگیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں، حتیٰ کہ بچے بھی بڑے ہوکر اپنے اپنے گھر بسا کر اس میں مشغول ہوجاتے ہیں اور یوں آخر میں اللہ کے بعد ایک دوسرے کا واحد سہارا اور ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساتھی میاں بیوی ہی رہ جاتے ہیں۔ سو کوشش کرنی چاہیئے کہ دوسرے تمام رشتوں کا احترام کرتے ہوئے اور ان کے جائز حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ زوجین ایک دوسرے کے لئے سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہونے چاہیئے۔ آخر عمر میں کوئی آپ کی تنہائیوں کا ساتھی نہیں رہ جاتا سوائے آپ کے زوج کے۔