دين و دانش
ابن آدم کی ذمہ داری
طفیل ہاشمی
اللہ نے زمین پر خلیفہ بنانے کا آئیڈیا جب فرشتوں سے ڈسکس کیا تو انہوں نے اس پر دوگونہ ردعمل دیا. ایک تو اس کی ضرورت نہ ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ہم جو ہیں، شب وروز تیری تسبیح و تقدیس کرنے والے پھر کسی اور کی ضرورت ہی کیا ہے، دوسرے انسان کے مجوزہ سٹرکچر سے اندازہ لگایا کہ یہ زمین کو فساد سے بھر دے گا. اللہ نے دلائل سے انہیں مطمئن کرنا ضروری نہیں سمجھا لیکن اپنے آئیڈیا پر کام جاری رکھا. جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے پروگرام میں کسی ایسی مخلوق کی تخلیق نہیں تھی جو سراپا عبادت، ذکر و تسبیح و سجود ہو-اسی وجہ سے جن مذاہب نے اس پہلو پر زور دیا کہ انسان ترک دنیا کر کے یاد الہی میں ہمہ تن مصروف رہے، اللہ نے ان کے اس عمل کو قبولیت عطا نہیں کی. گویا خلیفہ کے ذمے کچھ اور کام تھے جو فرشتے نہیں کر سکتے تھے.اب سوال یہ ہے کہ وہ کام کیا تھے۔
اس کی وضاحت کے لیے اللہ نے ایک ٹیسٹ رکھا، جس میں آدم پاس ہوگیا اور فرشتے ناکام ہو گئے.
ٹیسٹ یہ تھا کہ اللہ نے آدم میں اشیاء کے خواص جاننے کی صلاحیت رکھ دی. علم آدم الأسماء کلھا کایہ مطلب نہیں کہ اللہ نے آدم کو پیپر بتا دیا اور فرشتوں کو تاریکی میں رکھ کر امتحان لے لیا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ کہتا ہے علمہ البیان، اللہ نے انسان کو بولنا سکھایا یعنی اس میں گفتگو کی صلاحیت رکھ دی. یا سب کو رزق دینے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ لقمے توڑ توڑ کر کھلاتا ہے بلکہ اس نے کمانے اور کھانے کی صلاحیت رکھ دی. سو دنیا میں موجود اشیاء کے خواص جاننے کی صلاحیت اللہ نے آدم اور قیامت تک کی نسل آدم میں رکھ دی اور مستحق خلافت ہونے کے لئے یہی مہارت درکار ہے. فرشتوں میں وہ صلاحیت نہیں تھی کہ وہ تجربات کریں، لیبارٹریز بنائیں، سورج کی شعاعوں کو گرفتار کریں، ہواؤں اور بادلوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں، اس صلاحیت کی بنا پر خلافت آدم کو تفویض ہوئی.اس کائنات کا سارا نظام فرشتوں کے ذریعے govern ہوتا ہے ،اس لئیے ساری کائنات کو آدم اور اولاد آدم کے استعمال کے لیے available کرنے کا اظہار اس طرح کیا گیا کہ کائنات کا نظم چلانے والوں کو آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دے کر انہیں آدم کے ماتحت کر دیا گیا کہ انسان جیسے چاہے اس کائنات اور اس میں موجود اشیاء کا استعمال کرے، فرشتے رکاوٹ نہیں ڈالیں گے. اسی کو کہا گیاسخر لکم ما فی السموات وما فی الارض-گویا بطور خلیفہ انسان کا اصل کام اشیاء کے خواص جاننا اور انہیں استعمال میں لانا ہے، اسی لئے قرآن نے (سورہ فاطر، 27_28)عالم فلکیات، ارضیات اور پہاڑوں اور پرندوں یعنی زمین، آسمان اور فضا تینوں کے بارے میں غور و خوض کر کے ان کو انسانی استعمال میں لانے والوں کے لئیے العلماء (اہل علم) کی اصطلاح استعمال کی ہے.
گویا بطور خلیفہ انسان کی ذمہ داری صرف اس قدر ہے کہ وہ اپنے آپ کو اصل مالک نہیں بلکہ اصل مالک کا خلیفہ سمجھے اور اس کائنات کی گہرائیوں میں کھو کر تحقیقات کے ذریعے اشیاء کو خلق خدا کے لیے مفید بنائے.۔