دين و دانش
حديث و فقہ كى كتابيں كس ترتيب سے پڑهى جائيں؟
ڈاكٹر محمد اكرم ندوى – آكسفورڈ
برِ صغير كے مدارس ميں حديث كے متعلق ندوه كا نصاب سب سے بہتر ہے. وجہ اس كى يہ ہے كہ جن لوگوں نے اسے تيار كيا ہے، وه اپنے عہد كے نامور محدث تهے. انہوں نے دورۂ حديث سے جو بہت سے مدرسوں ميں رائج ہے اجتناب كيا، اور حديث كى بعض وه كتابيں نصاب ميں داخل كيں جن سے عام مدرسے اور ان كے علماء مانوس نہيں- ميں نے تهوڑى سى ترميم كے ساتھ معهد السلام اور كيمبرج اسلامک كالج ميں اسى نصاب كا اِجرا كرنے كى كوشش كى ہے، اور انگلينڈ كے بعض مدرسوں كے نصاب كى تيارى ميں بهى اسى كو اختيار كيا. اسى طرح مليشيا اور بعض عرب ممالک كے علماء كے استفسار پر انہيں اسى نصاب سے متعارف كرايا.اس وقت اسى نصاب كى روشنى ميں كچھ عرض كرنے كى كوشش كروں گا.
•• حديث كى كتابيں
بالعموم برِ صغير كے مدرسوں ميں حديث كى كتابيں اپنے اپنے فقہى مسالک كے دفاع اور اپنى اپنى آرا كى تائيد كے طور پر پڑهائى جاتى ہيں، يہ خاتم النبيّين صلى الله عليه وسلم كى حديثوں كى بے حرمتى كے مترادف ہے. ندوه نے سب سے پہلے اس پر زور ديا كہ حديث ہدايت طلب كرنے، سنتوں كا علم حاصل كرنے اور نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كے اخلاق وآداب سيكهنے كى غرض سے پڑهى جائے، چنانچہ اس مقصد كے تحت علامہ عبد الحي الحسني رحمهُ الله نے «تهذيب الاخلاق» لكهى جو اخلاق وآداب كے موضوع پر صحيح احاديث كا جامع اور مختصر مجموعہ ہے، حديث كى تعليم ميں اسے پہلى كتاب كے طور پر پڑهنا چاہیے. اس كے بعد دوسرى كتاب ہے: رياض الصالحين، وه بهى اسى موضوع پر ہے، مگر كچھ مطوَّل. ان دونوں كتابوں كے پڑهنے سے طالب علم حديث كو مسلک كے تابع كرنے كے گناه سے محفوظ ہوجاتا ہے. اس كے ذہن ميں دين كى اہميت راسخ ہوتى ہے، اور پورى امت كو امت واحده سمجهتا ہے.
اس مرحلے ميں احكام كا كوئى مجموعہ نہيں ہے، ميں نے چند سالوں پہلے ايک مجموعه تصنيف كيا ہے جس ميں احكام كى وه احاديث ہيں جن پر تمام مسالک كا اتفاق ہے اور صحيح بخارى اور صحيح مسلم دونوں ميں مذكور ہيں، اس كا نام ہے: الإحكام للمجمَع عليه من أحاديث الأحكام. اس كتاب كو پڑهنے سے سارے مسالک كا يكساں احترام دل ميں راسخ ہوجاتا ہے.اس مرحلہ كے بعد مشكاة المصابيح پڑهائى جائے. عام طور سے اس كتاب كے ہر باب ميں تين فصليں ہوتى ہيں، پہلى فصل ميں صحيحين يا ان ميں سے كسى ايک كى حديث ہوتى ہے، يه فصل اچهى طرح پڑهائى جائے اور فصل دوم وسوم كو سرسرى طور پر پڑهايا جائے.تيسرے مرحلے ميں پہلى كتاب جامع الترمذى پڑهائى جائے، اس كتاب سے حديث كى اصطلاحات، اور ائمہ كے فقہى اختلافات كے اسباب سمجهنے ميں مدد ملتى ہے، يه كتاب اچهى طرح شروع سے آخر تک پڑهائى جائے. نيز علامه نور الدين عتر رحمهُ الله كى كتاب «الإمام الترمذي والموازنة بين جامعه وبين الصحيحين» كا مطالعہ كيا جائے. اس كے بعد بخارى شريف اچهى طرح مكمل پڑهائى جائے، پڑهاتے وقت واضح كيا جائے كه امام بخارى نے احاديث كے انتخاب ميں كن اصول وشرائط كا لحاظ كيا ہے، تعليقات، متابعات اور شواہد كو اچهى طرح بيان كيا جائے، نيز تراجم ابواب اور امام بخارى كى فقه پر تفصيل سے گفتگو ہو. اس سلسلے ميں ميرى كتاب «مدخل رائع إلى صحيح البخاري وما فيه من أسرار وصنائع» كا مطالعہ معاون ہوسكتا ہے.صحيح مسلم ميں مقدمه وكتاب الزكاة، سنن ابو داؤد ميں كتاب الادب، سنن نسائى ميں كتاب عشرة النساء، سنن ابن ماجه ميں مقدمه، اور موطأ ميں كتاب الصوم تفصيل سے پڑهائى جائيں.علامه محمد بن جعفر الكتانى كى «الرسالة المستطرفة» كے مطالعہ سے حديث كى جمله اقسام كے مجموعوں سے بہترين واقفيت پيدا ہوگى.نيز اپنے وقت كے ان محدثين كو تلاش كريں جن كى سند عالى ہے، ان كے سامنے كتابوں كا سماع كريں اور ان سے اجازتيں ليں، اس سلسلے ميں ميرى كتاب “الجامع المعين في طبقات الشيوخ المتقنين والمجيزين المسندين” معاون ہوسكتى ہے.
•• اصول حديث ومصطلحات
اس موضوع پر ميرے رسالہ «مبادئ في علم اصول الحديث والاسناد» سے ابتدا كى جائے، اس كے بعد حافظ ابن حجر كى “نزهة النظر” پڑهائى جائے، اس كتاب پر ميرے تعقبات ہيں جو ميرى كتاب “تمہيد علم الحديث” ميں شامل ہيں، يہ كتاب بهى پڑهى جائے.آخرى مرحلے ميں مقدمہ ابن الصلاح، خطيب بغدادى كى الكفاية اور الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، اور الحاكم كى معرفة علوم الحديث پڑهائى جائيں.سيرة النبى كے مقدمہ ميں علامه شبلى نے اس موضوع كے اہم مباحث جمع كرديے ہيں، اس كا بهى مطالعہ كريں.شيخ عبد الفتاح ابو غدة رحمهُ الله كا رسالہ “الإسناد من الدين” بہت مفيد ہے، اسے بهى پڑهيں.
•• رجال-اس موضوع پر پہلى كتاب شاه عبد العزيز كى “بستان المحدثين" پڑهى جائے. اس كتاب كا ميں نے تحقيق كے ساتھ عربى ميں ترجمہ كيا ہے جو دار الغرب الإسلامى - بيروت سے شائع ہوا ہے.
اس كے بعد امام ابو الحجاج مِزّى كى تهذيب الكمال، امام ذهبى كى تذكرة الحفّاظ، سِيَر أعلام النبلاء، اور ميزان الاعتدال ضرور پڑهى جائيں، اور بار بار پڑهى جائيں، ان كے مطالعے سے علم حديث كا صحيح ذوق پيدا ہوگا، اور حديث كے رُواة كے علم سے مناسبت پيدا ہوگى.متأخرين كى سندوں پر سب سے جامع كتاب ہے علامه عبد الحى كتانى كى «فهرس الفهارس»، اسے ہر طالب علم حرزِ جان بنا لے.شيخ عبد الفتاح ابو غدة كى كتاب «صفحات من صبر العلماء» كے مطالعے سے علم كى راه كى قربانيوں كے حيرت انگيز نمونے سامنے آئيں گے، اس كا مطالعہ طالب علم كے لیے مہميز ہے. اسى سے ملتى جلتى كتاب ہے نواب حبيب الرحمن خان شروانى كى «علمائے سلف».
•• عِلل--عِلل كا علم حديث كا نازک ترين اور سب سے زياده مہتم بالشان علم ہے، اس سے حديث كى غلطيوں اور اوہام وغيره سے واقفيت ہوتى ہے، اس موضوع پر ابتدا امام ترمذى كى علل صغير اور علل كبير سے كى جائے، اس كے بعد ابن ابى حاتم الرازى كى العلل پڑهى جائے. آخر ميں امام دارقطنى كى العِلل پڑهى جائے، اس موضوع كى يہ سب سے بڑى اور جامع كتاب ہے. اس كے بار بار پڑهنے سے اس فن سے مناسبت پيدا ہوگی-
فقه حنفى كى كتابیں پڑهنے كى ترتيب
فقہى كتابوں كے مطالعہ كا مقصد
برِ صغير كے مدارس ميں فقہ كى كتابوں كے متعلق ايک بہت بڑى غلط فہمى جڑ پكڑ گئى ہے، اور وه يہ ہے كہ ان كتابوں كو مدرسوں ميں دينى نصوص كى حيثيت سے پڑهايا جاتا ہے، ان كا تقدس ذہن نشين كرايا جاتا ہے، اور يہ باور كرايا جاتا ہے كہ حرف بہ حرف ان پر عمل كرنے ميں ان كى نجات ہے! اسى لیے جب وه تعليم وافتاء كے مرحلے ميں داخل ہوتے ہيں تو پورى دیانت دارى كے ساتھ ان كى تفصيلات وجزئيات كى پابندى كو دين كا حصہ سمجهتے ہيں!يه نقطۂ نظر غلط ہے اور بہت سى خرابيوں كو مستلزم ہے. دينى نصوص كا درجہ صرف كتابِ الہى اور حديثِ نبوى كو حاصل ہے. ہر عہد اور ہر علاقے كے مسلمانوں پر فرض ہے كہ وه خدا اور اس كے پيغمبر كى اطاعت كريں.فقہاء كى ذمہ دارى يہ تهى كہ وه اپنے زمانے اور علاقے كى رعايت سے ان نصوص كى تشريح كريں، اور نئے نئے مسائل كے حل مستنبط كريں. يہ كام صحابۂ كرام رضي الله عنہم نے اپنے عہد ميں كيا، پهر تابعين نے كيا، اور ان كے بعد اتباع تابعين نے. زمان ومكان كے تغير سے مسائل بدلتے رہے، اور كبهى كبهى جواب بهى بدلتے گئے-
يعنى فقہ كى كتابوں كى حيثيت دينى نصوص كى نہيں، بلكہ دينى نصوص كى تاريخى تشريح كى ہے. تاريخ كے ہر مرحلے ميں نئى تشريح كى ضرورت پيدا ہوتى رہى. يعنى آپ جب فقہ كى كتابوں كو پڑهيں تو يہ سمجهنے كى كوشش كريں كہ فلاں عہد اور فلاں علاقے كے فقہاء نے كن مسائل پر زور ديا، اور انہيں بيان كرنے ميں كن امور كى رعايت كى، تاكہ جب آپ ان كتابوں كے مطالعے سے فارغ ہوجائيں تو ان كى جزئيات كو اپنے معاشره پر جوں كا توں منطبق كرنے كے بجائے ان كى روشنى میں اپنے زمانے كى فقہ پيش كرنے كے اہل ہوں.يه بات يہاں مجملًا كہى جا رہى ہے، كسى موقع پر اس كى تفصيل بيان كردى جائے گى. آپ كے كام كے لیے سر دست اسى قدر كافى ہے.
•• ابتدائى كتابيں
فقه كى ابتدائى كتابيں بهى اپنے اپنے عہد كے مطابق لكهى گئيں، بالعموم اس كے لیے مختصرات وجود ميں آئے. ہونا يه چاہیے تها كه ہر عہد ميں اسى كے مطابق لكها گيا مختصر پڑهايا جاتا، مگر ايسا نہيں ہوا. مختصر القدورى (مؤلفه ابو الحسين القدورى م 428ھ) كو اتنى مضبوطى سے تهاما گيا كه ايک ہزار سال بعد بهى اسے پڑها اور پڑهايا جا رہا ہے. ايسا نہيں ہے كه دوسرے مختصرات نہيں لكهے گئے، لكهے گئے مگر جمود فكر نے بدلنا قبول نہ كيا.ندوه كے مقاصد ميں تها كه فقه كے ابتدائى نصاب كى اصلاح ہوتى رہے. كسى قدر تاخير سے صرف پہلى كتاب لكهى گئى، اور وه ہے استاد محترم مولانا شفيق الرحمن ندوى كى "الفقه الميسّر" جو ابتدائى كتاب كى حيثيت سے بہت كامياب ہے، اس كے بعد كى كتاب ابهى تک نہيں لكهى گئى. ميں نے انگريزى ميں الفقه الاسلامى كے نام سے تين جلدوں ميں عہد جديد كے ذہن كو پيش نظر ركھ كر ايک كتاب لكهى ہے، جو انگلينڈ اور امريكہ كے بہت سے سكولوں اور مدرسوں ميں داخل نصاب ہے. عربى زبان ميں بهى ميں اسى طرح كى ايک كتاب كى تصنيف شروع كى ہے، مگر مصروفيات كى وجہ سے اس كى تكميل ميں تاخير ہوتى جا رہى ہے.نتيجہ يه ہے كہ ندوه ميں بهى ابهى تک قدورى پڑهائى جا رہى ہے، حالانكہ اس سے بہتر مختصرات موجود ہيں، ان ميں سب سے زياده كامياب امام علاء الدين سمرقندى كى تحفة الفقہاء ہے جو قدورى سے زياده تفصيلى ہے اور بہت سى اہم خصوصيات كى حامل ہے. ميں نے اپنے ايک مضمون ميں اس كے متعلق تفصيل سے گفتگو كى ہے. ميرى رائے ہے كہ "الفقه الميسر" كے بعد "تحفة الفقہاء" پڑهائى جائے.
•• متوسط كتابيں
ہندوستان كے نصاب ميں طويل عرصے سے متوسط نصاب كے لیے شرح وقايه اور ہدايه داخل ہيں، دونوں كتابيں نصاب كے لائق نہيں ہيں، ان كى كمزورياں بيان كرنے كا يہ موقع نہيں ہے، شروع ميں ہدايه جب ہندوستان ميں پہنچى تو يہاں كے علماء نے اس پر سخت تنقيديں كيں، بہر حال بعد ميں ہدايه قبول كر لى گئى، اور ہر جگہ وه اس طرح نصاب ميں داخل ہے كہ اگر اسے نه پڑها جائے تو گويا انسان عالم ہى نہيں ہوگا، اس لیے في الحال ندوه كے لیے ہدايه كى جگہ كوئى اور كتاب داخل كرنا مشكل ہے.
البتہ آپ جب ہدايہ پڑهيں تو زيلعى كى نصب الرايه ضرور ديكهيں، اس سے حديث كے باب ميں ہدايه كا جو كمزور پہلو ہے اس كى كچھ تلافى ہو سكے گى. ساتھ ہى وقت نكال كر كنز الدقائق، اس كى شرح البحر الرائق، اور الاختيار لتعليل المختار كا بهى مطالعہ كريں.
•• منتہى كتابيں
بہت سے مدارس ميں ہدايہ پر اكتفا كرتے ہيں، جس سے فقہى صلاحيت ميں بہت بڑا نقص رہتا ہے. جب بهى علماء اور مفتيانِ كرام سے ميرى گفتگو ہوتى ہے مجهے سخت حيرت ہوتى ہے كہ حنفى مذہب كے تئيں ان كى معلومات ميں سخت قسم كا خلا ہے.اس مرحلے كى پہلى كتاب ہے بدائع الصنائع، اس كا تفصيلى مطالعه كريں. اس سے اندازه ہوگا كہ خود حنفى مسلک كے اندر اختلاف آراء كا دائره بہت وسيع رہا ہے. صحيح بات يہ ہے كه جس نے "بدائع" نہيں پڑهى اسے عالم شمار كرنا غلط ہے.بدائع الصنائع كے بعد امام محمد كى كتاب الآثار، اور كتاب الاصل كا مطالعہ كريں، اور پهر موازنہ كريں كہ كس طرح بہت سے فقہى مسائل ميں زمانہ كے اعتبار سے تغير يا ارتقا ہوتا رہا ہے.
•• اصول فقه ومتعلقات
اصولِ فقه كى حيثيت اسلامى فلسفہ كى ہے، مگر مرورِ زمانہ سے اصول فقہ كو فقہ سے كاٹ ديا گيا، جس كى وجہ سے وه ايک خالص نظرياتى علم بن گيا ہے، اور معتزله كے اثرات نے اسے غير عملى بنانے ميں بہت بڑا كردار ادا كيا ہے.اصول فقہ پر ميرا ايک رسالہ ہے "مبادئ في علم اصول الفقه"، جس ميں اصول فقہ كا بہترين تعارف ہے، اسے پڑهيں. اس كے بعد اصول الشاشى كا مطالعہ كريں. اس كے بعد اصول البزدوى اور اصول السرخسى پڑهيں، اور آخر ميں امام شافعى كا الرساله پڑهيں، وه اس فن كى سب سے بہتر كتاب ہے، اور اس كے مباحث ہر مسلک كے لیے قابل قبول ہيں.
اسى طرح ابن نجيم كى "الاشباه والنظائر" پڑهيں، اور مولانا على احمد ندوى كى "القواعد الفقهية" كا مطالعہ كريں.فقه كو عصر حاضر سے مربوط كرنے كے لیے شيخ مصطفى الزرقا كے "فتاوى" اور شيخ قرضاوى كى "فتاوى معاصرة" پڑهيں. اردو ميں سيد سليمان ندوى كى فقہى تحقيقات، اور مولانا مودودى كے رسائل ومسائل كا بهى مطالعہ كريں.فقه وفتوى كے موضوع پر راقم كے بہت سے مضامين ہيں، ان كا مطالعہ بهى ان شاء الله مفيد ہوگا.حسب حوصلہ اور حسب فرصت ان فقيہوں اور مفتيوں كى كتابوں كا مطالعہ كريں جو فن سے صحيح واقفيت ركهتے ہيں، ہر مسئلے كى تحقيق كرتے ہيں، اور فكر ونظر كى ہمت افزائى كرتے ہيں.
اميد ہے كہ في الحال يہ تحرير كافى ہوگى، اور اگر كوئى پہلو تشنہ محسوس ہو تو توجہ دلائيں، اس پر تفصيل سے لكهنے كى كوشش كروں گا. وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين ••