پاكستانيات
پاكستان ميں گستاخی كا خوفناك كھيل
انعام الحق
ایک چھوٹی سی مسجد کے امام و خطیب نے رابطہ کیا، جو عالم اور حافظ بھی ہیں، باتوں باتوں میں بات نکلی تو بتانے لگے کہ پہلے وہ دعوت اسلامی کی کسی بڑی مسجد کے امام تھے، پھر آہستہ آہستہ توحید سمجھ آنے لگی اور اللہ سے محبت اور اسی کا خوف بڑھنے لگا اور انہوں نے منبر سے بھی توحید اور حق بیانی شروع کردی، مسجد انتظامیہ کو وہ کَھلنے لگے، چونکہ اوقاف سے منسلک نہیں تھے تو انہیں گستاخ ثابت کرکے مارا پیٹا گیا، ذلیل و رسوا کرکے دھکے دے دے کر مسجد سے باہر نکال دیا اور آئیندہ داخلے پر بھی پابندی لگادی، تب سے اس علاقے میں بھی جینا محال ہوگیا ہے، لیکن حالات ایسے ہیں کہ کہیں اور منتقل ہونے کا بھی کوئی راستہ نہیں سجھائی دیتا، پھر اسی محلہ کی ایک چھوٹی سی مسجد نے ماہانہ دس ہزار پر امام و خطیب کا عہدہ عطا کر دیا، ملا کی دوڑ مسجد تک! یہ یہیں سے اپنی خدمات سر انجام دینے لگے اور شرک و بدعات سے بھی تائب ہوکر توحید و سنت کا پرچار کرنے لگے، دیکھا دیکھی کافی لوگ عزت بھی کرنے لگے مگر وہیں وہ لوگ بھی موجود ہیں جو آوازیں کَستے ہیں، جہاں موقع ملے انھیں گستاخ مشہور کرکے بدنام کرتے اور لوگوں کو ان کے خلاف بھڑکاتے ہیں۔ ۔
چند دن پہلے وہ پرچون کی دکان پر کچھ راشن وغیرہ لینے کے لیے کھڑے تھے تو دو نوجوان انھیں دیکھ کر سامنے آگئے اور نعرے بازی کرنے لگے: " گستاخ نبی کی ایک ہی سزا ! سر تن سے جدا سر تن سے جدا ! اور اسی طرح کی با آواز بلند صدائیں جس پر مجمع بڑھتا گیا اور بقیہ لوگ بھی رک رک کر امام صاحب کو نفرت سے دیکھنے لگے، امام صاحب کہتے ہیں "میں بھول گیا کہ کیا لینے آیا تھا، بس اللہ سے دعا کرنے لگ گیا کہ کسی طرح یہاں سے بچ کر نکل جاوں، لیکن ماحول کی بڑھتی گرمی دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا آج زندہ نہیں بچوں گا "
کہتے ہیں:" مرنے سے ڈر نہیں لگتا زندگی تو ہے ہی اللہ کی امانت، لیکن گستاخ مشہور ہوکر نہیں مرنا چاہتا کہ لوگ مجھے اسی پیرائے میں یاد رکھیں گے اور میرے بعد میرے بیوی بچوں اور اہل و عیال تک کو بھی کوئی نہیں بخشے گا، انھیں بھی گستاخ کا رشتہ دار ثابت کرکے مار دیا جائے گا یا تکالیف پہنچائی جائیں گی" ساتھ کہا : میں اللہ سے دعا کرنے لگا کہ مالک تو مجھے جانتا ہے اور یہ مصیبت مجھ پر تیری اور تیرے ہی آخری نبی ﷺ کی محبت کی بدولت آن کھڑی ہوئی ہے، اب تو ہی مجھے بچانے والا ہے، میرے لیے کوئی سبیل پیدا کردے کے میں کسی طرح یہاں سے بچ جاوں۔ ۔ " عین اسی وقت گلی میں پولیس کی موبائل داخل ہوتی ہے اور مجمع کے پاس رک کر اس میں سے دو سپاہی بھیڑ کو چیرتے ہوئے امام صاحب کے پاس آکر کہتے ہیں آپ کو بڑے صاحب گاڑی میں بلا رہے ہیں! پھر وہ انھیں تھانے لے جاتے ہیں یا کہیں اور مجھے ٹھیک سے یاد نہیں لیکن کہیں بیٹھ کر بات کرتے ہیں اور ایس ایچ او اِن سے پوچھتے ہیں کہ کیا گستاخی کی تھی آپ نے ؟ انھوں نے پورا ماجرا بتایا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ "اُس دعوت اسلامی والی مسجد کی انتظامیہ نے تو مجھے اکیلا چھوڑ دیا ہے لیکن وہاں نماز پڑھنے والے مقتدیوں نے آج تک معاف نہیں کیا،اب ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کسی بھی دن کوئی مجمع آئے گا اور میرا کام تمام کر دے گا، یا کسی رات جب ہم سو رہے ہوں گے ہمارے گھر کو آگ لگا دی جائے گی یا کوئی مسجد میں اعلان ہی نہ کردے کہ میں گُستاخ ہوں پھر لوگ جنت میں اپنا گھر بنانے کی خاطر مجھے قتل کرنا فرض عین سمجھ لیں گے"۔ ۔ جس پر ایس ایچ او صاحب نے مشورہ دیا کہ " آپ درخواست لکھیے تاکہ ہم آپ کو تحفظ فراہم کر سکیں، آپ اور آپ کے ساتھ رہنے والوں کی جان کو شدید خطرہ ہے، جب تک آپ کی حفاظت کے لیے پولیس موبائل یا محافظ تعینات نہیں کر دیئے جاتے میرا مشورہ ہے گھر سے بلا ضرورت کم ہی باہر نکلیے، اور کچھ خریدنا وغیرہ ہو تو کسی بچے کو بھیج دیں خود نہ جائیں ، کہ کوئی انہونی ہوگئی تو ہم کچھ نہیں کر پائیں گے کیونکہ ایک تو آپ نے احتیاط نہیں برتی دوسرا آج تک لوگوں کے ہجوم نے جو کچھ کیا ہے اس پر کوئی کر بھی کیا سکتا ہے؟ کوئی کسی کے خلاف نہیں بولتا، یہ واردات کا سب سے محفوظ طریقہ بن گیا ہے کہ کسی سے ذاتی دشمنی بھی ہو تو اس پر گساخی کا الزام لگا کر لوگوں کو مشتعل کر دو اور باقی سب عوام خود کر لیتی ہے لیکن ہاتھ بہت کم ہی حقیقی مجرم آتا ہے اور جب آ بھی جائے تو اکثر با عزت بَری یا ملک سے باہر اسایئلم مل جاتا ہے۔ ۔
اب امام صاحب صرف گھر سے مسجد اور مسجد سے گھر بھی بہت ہی محتاط انداز میں نظریں جھکائے ہوئے (زباں و دل میں آزادی کے ترانے پڑھتے) جاتے ہیں۔ ۔ کاش کہ ہماری عوام الناس کو اس ذہنی غلامی اور جہالت سے ہی آزادی مل جائے۔ ۔ کامل آزادی تو خیر سے بہت ہی دور کہیں کھڑی ہے۔ ۔
ہم بھی اسی حق میں ہیں کہ کسی گستاخ کو کبھی جرم پر بری نہ کیا جائے، بھرپور سزا دی جائے لیکن کم از کم انصاف تو ہو! کوئی بات ثابت تو ہو، کوئی ثبوت یا گواہ کوئی قاضی یا عدالت کچھ تو ہو ! ورنہ ایسے تو کبھی بھی عدل نامی کوئی چڑیا بھی یہاں اڑتی نہیں دکھائی دے گی۔ ۔
آپ کی عقیدت و محبت سر آنکھوں پر ! لیکن کیا اس محبت کا اتنا بھی حق نہیں کہ جس کے نام کی محبت کا ہر وقت دَم بھرتے ہیں کبھی اس کی دی گئی شریعت اور تعلیمات کو بھی قابل اتباع سمجھیں، اسے سیکھیں، پڑھیں اور وہ کردار اپنائیں جو انصاف سے خالی نہ ہو ؟ ؟ گستاخی توحید و سنت نہیں ہے ! ! توحید و سنت پر چلنے والے کو گستاخ سمجھنا حقیقی گستاخی ہے ! ! مر کر کسی پگڑی والے پیر یا منگل صاحب کو نہیں ! اللہ کو جواب دینا ہے ! وہاں نہ تو یہ بابا کام آئیں گے نہ ہی کوئی ہجوم ہوگا بچانے والا !
خدارا اس دین کو سمجھنے کی کوشش کریں جو پیارے نبی، امام اعظم، آخری رسول، پیغمبر صادق و امین، انبیاء کے سردار ، رحمت العالمین، سرور کونین، محسن انسانیت، ہادی برحق، الرحیق المختوم، اللہ عزوجل کی محبوب ترین ہستی محمدمصطفیٰﷺ پر اتارا گیا تھا۔ ۔ ان ہی کے نام پر اگر ایمانی غیرت جوش مارتی ہے تو ان کے فراہم کردہ دین اسلام کے تقاضوں کی طرف بھی اک دفعہ نظر کرم کیجیے۔ ۔ ایک دفعہ تو یہ بھی سوچیں کہ اگر اللہ کے نام پر ویسا یا اس سے عمدہ جوش نہیں آتا تو ایسا کیسے ممکن ہے؟ ؟ کہاں غلطی لگی ہے؟
ایک اور بہت ہی اہم اور ڈنکے کی چوٹ پر بات کہ رسولُ اللّٰهﷺ انسانوں، جنوں، فرشتوں اور تمام مخلوق میں سب سے اعلی، ارفع، اکمل، پیر کامل ہیں! جن پر میرا سب کچھ قربان! لیکن! لیکن ! لیکن !ایک چیز جو قربان نہیں ہو سکتی وہ توحید ہے! یہ بات بھی ہمیں وہی اتمم النبیین ﷺ سکھا کر گئے ہیں کہ اَللّٰهُﷻ کا حق سب سے پہلے، سب سے بڑھ کر اور سب سے الگ ہے ! اور اس کی تمام صفات میں کسی اور کا رتی برابر بھی عمل دخل نہیں ہے، نہ ہی اس کی طاقت و قدرت، علم و حکومت میں کوئی شریک ہے، نہ ہی کسی مخلوق کا خالق کی ذات سے کوئی موازنہ ہے۔ ۔
اب آپ لگاتے رہیں ہم جیسوں پر گستاخی کے بہتان! ہم اسی اللہ کو جوابدہ ہیں جس نے ہمیں پیدا کیا اور اور حفاظت کرتا ہے، وہی موت دے گا اور اسی کے پاس ہمیں پلٹ کر جانا ہے، جسے نہیں سمجھ آتی اُن کا اور ہمارا فیصلہ ہم روز محشر اَللّٰهُ رب العزت کی بارگاہ میں اِسی خاتم النبین ﷺ کو گواہ بنا کر کریں گے جسے تم ہٹ دھرمی یا جہالت کی بنیاد پر اُن درجات پر فائز کرتے ہو جن کا وہ سختی سے منع کر گئے اور جو محض اللہ کا حق ہے۔ ۔ اور گُستاخ کہتے ہو دوسروں کو؟ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔ ۔