مسجد الکوع، طائف كی تاريخی مسجد

مصنف : منصور ندیم

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : ستمبر 2023

تاريخ

مسجد الکوع، طائف كی تاريخی مسجد

 منصور ندیم

طائف شہر سعودی عرب کے ضلع مکہ کا مغربی شہر ہے- مکہ مکرمہ شہر  سے قریب 120 کلومیٹر دور واقع طائف شہر میں جبل ابو زبیدہ کے پہاڑوں اور باغات کے بیچ ایک ایسی تاریخی مسجد موجود ہے ، جس کا نام "مسجد الکوع" ہے جو اسلام کی قدیم ترین مساجد میں سے ایک ہے۔ صدیاں بیت جانے کے بعد آج بھی اس مسجد کی شان وشوکت پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہے۔ یہ مسجد اپنے دیکھنے والوں کو کئی صدیاں پیچھے کے اس عظیم اور مظلوم سفر پر لے جاتی ہے۔وہ سفر جو چودہ سو بیالیس برس قبل محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بیتے ان لمحات کو محسوس کرواتا ہے، جب دعوت الی اللہ دیتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر ظلم و ستم کے بادل پیہم برس چکے تھے، غیر انسانی اور بہیمانہ سلوک برداشت کرتا رہا، دوسروں سے کیا گلہ تھا ، حقیقی چچا ابولہب تک نے ہر طرح کی ایذاء و تکلیف پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، مشکلات ، مصائب ، تکالیف ، آزمائشوں ، اذیتوں اور امتحانات سے دوچار ہونا پڑا، شعب ابی طالب کا تین سالہ سماجی بائیکاٹ کی تکلیفوں کا احساس کا بنا ہوا تھا، بیٹیوں کو طلاق کا غم کیسے ہلکا ہوتا، ہر مشکل وقت میں ساتھ دینے والی شریک حیات سیدنا خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ کی موت بھی بھلائی نہیں جاتی تھی۔

ذہنی کوفت اور جسمانی تشدد جیسا وحشیانہ اور غیر انسانی برتاؤ تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے برتا گیا لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صبر وتحمل ،عفو و درگزر ، ضبط و برداشت اور استقلال میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی تھی، جب مکہ کے بچے بچے دشمنی کرنے سے نہ بچے اور لوگوں کے ایمان لانے سے مایوسی نظر آئی تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے تبلیغ اسلام کے لئے مکہ کے قرب و جوار کی بستیوں کا رُخ کیا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے “طائف” کا بھی سفر فرمایا۔ زید بن حارثہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، طائف میں بڑے بڑے اُمراء اور مالدار لوگ رہتے تھے۔ ان رئیسوں میں ’’ عمرو ‘‘ کا خاندان تمام قبائل کا سردار شمار کیا جاتا تھا۔ بنو ثقیف قبیلے کے سردار عمرو بن عمیر بن عوف کے تین لڑکے عبدیالیل ، مسعود اور حبیب تھے، رشتے میں یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ننھیالی ماموں بھی لگتے تھے، حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان تینوں کے پاس تشریف لے گئے اور اسلام کی دعوت دی۔ ان تینوں نے اسلام قبول نہیں کیا بلکہ انتہائی بیہودہ اور گستاخانہ جواب دیا۔ ان بدنصیبوں نے اسی پر بھی بس نہیں کیا بلکہ طائف کے شریر، اوباش اور آوارہ گردوں کو اکسایا اور آپ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے پیچھے لگا دیا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تنگ کریں۔چنانچہ ان اوباشوں کا گروہ ہر طرف سے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر ٹوٹ پڑا۔کوئی جملے کس رہا تھاکوئی تالیاں پیٹ رہا تھاشور ہنگامہ برپا کیے ہوئے تھے، راستے کے بیچوں بیچ ، چاروں اطراف سے سے گھیرے ہوئے تھے، سنگ ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے تھے،تماشا و ہڑبونگ میں طائف کی گلیوں تک لے آئے تھے۔دو طرفہ سڑک پر پتھر ہاتھوں میں لیے موجود تھے،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان گلیوں سے گزرنے لگے،تب ان اوباش لوگوں نے پتھر برسانے شروع کر دئیے، اس وجود پر پتھر برس رہے تھے، جس وجود کے لئے اللہ تبارک نے یہ دنیا ہی خلق کی تھی۔سر مبارک سے لے کر پاؤں تک پتھر برس رہے تھے، وہ ظالم گالیاں دے دے کر ٹھٹھے اڑا رہے تھے، اپنے آقا پر برستے پتھر زید بن حارثہ کیسے برداشت کرتے،زید بن حارثہ ہر برستے پتھر کے سامنے سینہ سپر ہونے کی کوشش کرتے ہیں،

پورے جسم پر برستے پتھروں نے کپڑے لہولہان کر دیے تھے، زید بن حارثہ کا سر پھٹ چکا تھا۔ادھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی پورا جسم لہولہان ہو چکا تھا، وہ ظالم تاک تاک کر پتھر ٹخنوں پر مار رہے تھے،پورے جسم پر زخم آ گئے ہیں، بہتا لہو جوتوں تک پہنچ گیا تھا، جسم سے رستا خون جوتوں میں داخل ہوکر پاؤں سے چپک رہا تھا،زخموں سے چور چور ہو کر کبھی گرتے،زید بن حارثہ دوڑ کر آپ کو سہارا دے کر اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں،وہ ظالم پتھر برسانے سے کسی صورت باز نہ آئے تھے-دنیا کا سب سے مبارک جسم زخموں سے چور چور تھا-اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زخموں کی تاب نہ لا کر چکرا کر گر پڑے، زید بن حارثہ خود بھی زخموں سے چور چور مدہوشی کی کیفیت میں تھے،جب زید بن حارثہ نے دیکھا کہ آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم قریب بے ہوشی کی حالت میں پہنچ چکے ہیں۔آخر زید بن حارثہ نے آخری بار ہمت مجتمع کی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی پیٹھ پر لادا، اور آبادی سے باہر کی طرف دوڑ پڑے۔ اپنے محبوب نبی کے ساتھ ہونے والے سلوک پر رب تعالیٰ کی رحمت نے بھی جوش مارا اور جبرائیل کو بھیج دیا، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کی ضرورت تھی، لیکن قربان جائیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا کہ : اے جبرئیل! ان کو عذاب میں مبتلا مت کرنا، ہوسکتا ہے کہ ان کی اولاد میں ایسے لوگ پیدا ہوجائیں جو میرے دین کو ماننے والے ہونگے۔آخر زید بن حارثہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو لے کرانگور کے ایک باغ میں پہنچے اور ویاں پناہ لی۔ یہ باغ مکہ کے ایک مشہور کافر عتبہ بن ربیعہ کا تھا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ حال دیکھ کر عتبہ بن ربیعہ اور اس کے بھائی شیبہ بن ربیعہ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رحم آگیا اور کافر ہونے کے باوجود خاندانی حمیت نے جوش مارا۔ چنانچہ ان دونوں کافروں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے باغ میں ٹھہرایا اور اپنے نصرانی غلام “عداس” کے ہاتھ سے آپ کی خدمت میں انگور کا ایک خوشہ بھیجا۔حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بسم اﷲ پڑھ کر خوشہ کو ہاتھ لگایا ۔تو عداس تعجب سے کہنے لگا "کہ اس اطراف کے لوگ تو یہ کلمہ نہیں بولا کرتے".تب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا کہ: تمہارا وطن کہاں ہے؟ تو عداس نے کہا کہمیں ” شہر نینویٰ ” کا رہنے والا ہوں۔آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

وہ حضرت یونس بن متی علیہ السلام کا شہر ہے۔ وہ بھی میری طرح خدا عزوجل کے پیغمبر تھے۔ یہ سن کر عداس آپ کے ہاتھ پاؤں چومنے لگا اور فوراً ہی آپ کا کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔

یہاں سے آپ مقام "نخلہ پہنچے ، اور مقام نخلہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے چند دنوں تک قیام فرمایا۔ پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مقام “حراء” میں تشریف لائے اور قریش کے ایک ممتاز سردار مطعم بن عدی کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ "کیا تم مجھے اپنی پناہ میں لے سکتے ہو ؟"عرب کا دستور تھا کہ جب کوئی شخص ان سے حمایت اور پناہ طلب کرتا تو وہ اگرچہ کتنا ہی بڑا دشمن کیوں نہ ہو وہ پناہ دینے سے انکار نہیں کر سکتے تھے۔ چنانچہ مطعم بن عدی نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنی پناہ میں لے لیا اور اس نے اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ:"تم لوگ ہتھیار لگا کر حرم میں جاؤ"اور پھر مطعم بن عدی خود گھوڑے پر سوار ہو گیا اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ مکہ لایا اور حرم کعبہ میں اپنے ساتھ لے کر گیا اور مجمع عام میں اعلان کر دیا کہ " میں نے محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو پناہ دی ہے۔ اس کے بعد حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اطمینان کے ساتھ حجر اسود کو بوسہ دیا اور کعبہ کا طواف کرکے حرم میں نماز ادا کی اور مطعم بن عدی اور اس کے بیٹوں نے تلواروں کے سائے میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو آپ کے گھر تک پہنچایا۔

اس مسجد الکوع کی تاریخی اہمیت یہی ہے کہ جہاں پر یہ مسجد الکوع تعمیر کی گئی تھی وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر طائف کے دوران کچھ دیر قیام فرمایا تھا۔ اس مسجد کو "مسجد الموقف" کا نام بھی اسی نسبت سے دیا جاتا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم طائف کے سفر کے دوران یہاں کچھ دیر رکے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام پر کچھ دیر کے لئے ٹیک بھی لگائی۔ اسی جگہ پر مسجد الکوع بنائی گئی تھی۔اسی نسبت سے یہاں پر یہ مربع شکل کی مسجد تعمیر کی گئی جس کی لمبائی 8 اور چوڑائی 7 میٹر تھی۔ یہ مسجد تین میٹر اونچی بنائی گئی۔ اس کا کھلا صحن چار میٹر چوڑا اور سات میٹر لمبا ہے۔ مسجد میں ایک چھوٹا محراب ہے جس کے ایک طرف مربع شکل کی ایک کھڑکی ہے۔ اس کی دو دیواروں پر دو مستطیل کھڑکیاں ہیں۔ مسجد کی چھت پر ایک چھوٹا گنبد ہے جس کے اضلع کی لمبائی 80 سینٹی میٹر اور اونچائی تین میٹر ہے۔اس مسجد کی زیارت کرنے والے آج بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے سفر طائف کی المناک یادوں میں کھو جاتے ہیں وہ الم ناک سفر آج تک تاریخ کا ورق ورق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رحم و کرم ، عزیمت، ثابت قدمی اور فراخی حوصلہ کی داستانیں سنا رہا ہے۔ سعودی عرب میں آثار قدیمہ اور سیاحت کے پروگرام کے تحت اس مسجد کو بھی اپنی تاریخی اہمیت کی وجہ سے مستقبل کے سیاحتی مقام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔