یاد رفتگاں
عہد یوسفی
ریحان احمد یوسفی
حیاتِ یوسفی تمام ہوئی،مگر عہدِ یوسفی جاری رہے گا۔اردو زبان جیسی خوش نصیب زبان شاید ہی کوئی اور ہو جس کے جنم پرچند صدیاں ہی گزریں اور اس کا دامن میر سے لے کر غالب، مومن سے لے کر اقبال ، فیض سے لے کر فراز جیسے شاعروں اور میر امن دہلوی سے لے کر رجب علی بیگ سرور،محمد حسین آزاد سے لے کر قرۃ العین حیدر اور شبلی سے لے کر ابوالکلام آزاد جیسے ادیبوں اور نثر نگاروں سے آراستہ ہوچکا ہے۔
مشتاق احمد یوسفی کی ہستی اردو زبان کی اس خوش قسمت تاریخ میں ایک اور شاندارباب کا نام ہے۔میرا مشتاق احمد یوسفی صاحب سے پہلا باقاعدہ تعارف اردو کے معروف نقاد اور مزاح نگار مشفق خواجہ کے اس تبصرے سے ہوا جو انھوں نے یوسفی کی کتاب آبِ گم پر کیا تھا۔ مشفق خواجہ اپنے مشہور ادبی کالم خامہ بگوش کی وجہ سے برصغیر کے ادبی حلقوں میں بڑی شہرت رکھتے تھے وہ ایک بڑے ناقد تھے اس لیے ہر شاعر اور ادیب انھیں اپنی کتاب بھیجتا تھا۔اس پس منظر میں مجھے آج بھی ان کا ایک جملہ نہیں بھولتا۔ میں ان سے ملاقات کے لیے ناظم آباد میں واقع ان کے گھر پہ حاضر ہوا تو انھوں نے اپنے کتب خانہ میں موجود ہزار ہا کتابوں کی طرف اشارہ کرکے یہ بتایا تھا کہ یہ اردو کے ہزاروں شاعروں اور ادیبوں کی کتابوں کا قبرستان ہے جن کا پوسٹ مارٹم انھوں نے کیا۔
مشفق خواجہ نے آبِ گم کے بارے میں کہا تھا کہ پچھلے سو برسوں میں اردو ادب میں ایسی کتاب نہیں لکھی گئی۔مشفق خواجہ جیسا ناقد اگر کسی کتاب کے بارے میں یہ جملہ کہہ دے تو یہی اس کتاب کی عظمت کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔ میں نے بڑے اشتیاق سے وہ کتاب خریدی۔ اس کے بعد کتنی دفعہ اس کتاب کو پڑھا،کتنی دفعہ اسے پڑھتے ہوئے بے اختیار ہنسی چھوٹی، کتنی دفعہ اداس ہوگیا،کتنی دفعہ ان کے کرداروں کے ساتھ ماضی کا حصہ بن گیا ؛اس کی گنتی تو مجھے یاد نہیں۔ لیکن میں نے مشفق خواجہ کی اس بات کو ہمیشہ درست پایا ہے کہ اردو زبان میں اس پایہ کی کتاب نہیں لکھی گئی۔
تاہم میں اسے اپنی بدقسمتی ہی سمجھتا ہوں کہ میں نے پہلے آبِ گم پڑھ لی۔کیونکہ اس کے بعد خود یوسفی صاحب کی دیگر کتب جو اپنی ذات میں بڑی غیر معمولی ہیں، آبِ گم کے آگے اپنا مقام گم کردیتی ہیں۔ گوکہ یوسفی صاحب نے کم ہی لکھاا ور جو لکھا منتخب لکھا۔ اوسط لگائیں تو اپنے دور تصنیف میں ان کی ایک کتاب آٹھ دس برس بعد ہی سامنے آتی تھی۔چراغ تلے، خاکم بدہن،زرگشت اور آب گم کئی عشروں میں جاکر سامنے آئیں ،مگر آب گم جیسا کوئی نہیں۔
آبِ گم سن نوے میں شائع ہوئی۔ شاید یوسفی صاحب کو بھی اندازہ ہوچکا تھا کہ اس سے بڑھ کر شاہکار نہیں لکھا جاسکتا۔چنانچہ اس کے بعد ہر محفل میں لوگ ان سے پوچھتے رہے کہ اگلی کتاب کب آرہی ہے، مگر انھوں نے مزید کوئی کتاب نہیں لکھی۔ کچھ برس قبل سامنے آنے والی شام شعر یاراں جو ان کے مضامین کا انتخاب ہے، یہ کتاب ان کا انتخاب نہیں ،پبلشر کے اصرار کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔ وہ اس زمانے میں خرابی صحت کا شکار ہوچکے تھے۔ یوسفی صاحب تو لکھ کر پال ڈال دینے والے آدمی تھے۔ برسوں بعد لکھا ہوا پسند آتا تو عوام کے سامنے لے آتے ورنہ بے دریغ اپنی محنت کو رد کردیتے۔ یہی ان کی کامیابی کا ایک اہم راز تھا۔
یوسفی صاحب کو لوگ عام طور پر مزاح نگار کے طور پر جانتے ہیں۔ عام لوگوں کے لیے یہی ان کی وجہ شہرت ہے۔ مگر میں نے ان کو اتنا ہی موثر سنجیدہ ادب تخلیق کرنے والا پایا ہے۔اس پہلو سے بھی ان کی تحریر اتنی بلیغ ہے کہ سمجھنے والے کے دل میں اتر جائے۔ اس کی ایک مثال آب گم سے دیکھیے۔اپنے ایک عزیز دوست کے حوالے سے وہ کمال خوبصورتی سے یہ بتاتے ہیں کہ جوانی کی طاقت ہو، علم و فضل کا ذوق ہو ،فتح و کامرانی کا دور ہویا دولت کی فراوانی؛ بڑھاپے، بیماری اور موت کے مقابلے میں یہ سب کس طرح بے کسی کی تصویر بن کر بے معنی ہوجاتے ہیں۔
"میاں احسان الٰہی اس وقت کمرے کے وسط میں ایک اونچے اسپتالی بیڈ پر نئی ریشمی دْلائی اوڑھے نیم غنودگی کے عالم میں لیٹے تھے۔دائیں دیوار پر عالم جوانی کی دو تصویریں ٹنگی تھیں۔ ایک میں وہ مولانا حسرت موہانی کے ساتھ کھڑے تھے۔ دوسری میں وہ بندوق کا بٹ(کندہ) مردہ نِیل گائیں کی تھوتھنی پر رکھے کھڑے مسکرارہے تھے۔دونوں تصویروں کے نیچے رکھی ان کی نئی ان ویلڈ چئیر (معذوروں کی کرسی رواں) رکھی تھی۔ اس کے سرہانے ایک اونچے اسٹول پر وہ قیمتی دوائیں سجی تھیں جن کے ناکارہ وبے اثر ہونے کا وہ نیم زندہ اشتہارتھے۔‘‘
یہ یوسفی کے کلام کی بلاغت ہے کہ چند جملوں میں بظاہر کمرے کا نقشہ کھینچا ہے لیکن دراصل انسانی زندگی کے اصل المیوں کا نقشہ اس کمال سے کھینچا ہے کہ قاری غیر محسوس طریقے پر انسانی زندگی کی بے ثباتی اور متاعِ دنیا کی بے وقعتی کے احساس کو اپنے اندر اترتا محسوس کرتا ہے۔یہ اسلوب ، یہ بلاغت، یہ تاثیر یوسفی کی تحریر میں جگہ جگہ ہے، مگر بدقسمتی سے بہت کم لوگ ہیں جنھوں نے یوسفی کو اس پہلو سے پڑھا یا سمجھا ہو۔ میں نے اس پہلو پر خاص طور پر اس لیے توجہ دلادی کہ اد ب کے طالب علموں کے لیے اس سے تحقیق کے کئی راستے کھل سکتے ہیں۔
ادبی حلقوں کے علاوہ عوامی سطح پر یوسفی صاحب کی مقبولیت کا رازیہ تھا کہ ان کی خوبصورت نثر نے مزاح کا جامہ زیب تن کرکے اس روایت کو آگے بڑھایا جس کی بنا رشید احمد صدیقی اور فرحت اللہ بیگ نے رکھی اور جسے پطرس بخاری جیسے مزاح نگاروں نے با م عروج بخشا۔یوسفی صاحب کے دور میں ابن انشاء اور شفیق الرحمن جیسے نامورمزاح نگارموجود تھے، مگر جو مقبولیت ان کے حصے میں آئی وہ بڑی غیر معمولی تھی۔ ہمارے ہاں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہماری قوم مردہ پرست ہے۔مگر یوسفی صاحب کی حیات ہی میں ان کی مقبولیت اور قدر و قیمت نے اپنا عروج دیکھ لیا تھا۔
ادبی قدو قامت کے علاوہ یوسفی صاحب اپنی ذاتی زندگی میں بھی بڑی وضع دار شخصیت کے مالک تھے۔میں پہلی دفعہ اپنی ہمشیرہ کے ہمراہ ان سے ملنے گیا تو پہلی ملاقات ہونے کے باوجود اجنبیت کا کوئی احساس تک نہ ہوا۔اس ملاقات کو بہت برس ہوگئے ، مگر ابھی بھی یاد ہے کہ ان کی اہلیہ (جن کا انتقال کچھ عرصہ قبل ہوا) ہمارے لیے چائے کی پوری ٹرالی سجاکر
لائیں ۔ہم رخصت ہوئے تو الوداع کہنے کے لیے گھر سے باہر آکر اْس وقت ہاتھ تک ہلاتے رہے جب تک ہماری گاڑی موڑ مڑکر نگاہ سے اوجھل نہ ہوگئی۔ انھوں نے تحریر کے حوالے سے مجھے کئی مشورے بھی دیے جو آج تک میں نے گرہ میں باندھ رکھے ہیں۔
یوسفی صاحب رخصت ہوگئے۔ یہ المیہ نہیں ہے، اس لیے کہ ہر انسان کو رخصت ہونا ہے۔ فنا سے پاک صرف اسی الحیّ القیوم کی ہستی ہے جو زندگی کا خالق ہے۔میرے نزدیک اصل المیہ یہ ہے کہ جو اردو زبان یوسفی صاحب نے لکھی ہے، اس کو سمجھنے والی نسل بھی رخصت ہورہی ہے۔ سوچتاہوں کہ اگلی نسل میں کتنے لوگ ہوں گے جو یوسفی صاحب کو پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہوں گے۔لیکن یہ توقع ضرور ہے کہ جو شخص ان کی لکھی ہوئی نثر کا مطالعہ کرنے کاذوق پیدا کرلے گا، وہ جمال اور لطافت کی ایک نئی دنیا میں پہنچ جائے گا۔وہ احساس اور مسکراہٹ کے ایسے منفرد زاویے دریافت کرلے گا جن سے وہ پہلے کبھی واقف نہیں تھا۔ وہ عام انسانوں کو بنیاد بناکر لکھی گئی وہ خاص تحریریں پڑھے گا جن کو دنیا کی کسی بھی زبان کے شاہکاروں کے مقابلے میں بڑے فخر سے پیش کیا جاسکتا ہے۔اسی لیے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ حیات یوسفی تمام ہوئی،مگر عہدِ یوسفی جاری رہے گا۔
***
یاد رفتگاں
عہد یوسفی