فكر ونظر
نظريہ ارتقا ، ايك حقيقت
ادريس آزاد
نظریۂ ارتقا اب فقط ایک نظریہ نہیں رہا، حقیقت بن چکاہے۔ایک وقت تھا جب لوگ نہیں مانتے تھے کہ زمین گول ہے۔صدیوں سے بحث جاری تھی۔ زمین پر موجود انسانوں کی بڑی اکثریت زمین کے گول ہونے کی بات سُن کر ہنس دیا کرتی تھی۔لیکن پھر جب زمین کے گول ہونے کی حقیقت واضح ہوگئی تو سب نے مان لیا۔اور آج لوگ ان پر ہنستے ہیں جو زمین کو گول نہیں مانتے۔سب کچھ الٹ گیا۔صرف تین چار سوسال کے اندر۔نظریۂ ارتقا کے ساتھ بھی یہی ہورہاہے۔ میں تو اکثرکہاکرتاہوں کہ نظریۂ ارتقا کا تنازعہ مذہبی نہیں، جمالیاتی ہے۔ بھلا کس کو بُرا لگے گا اگر ہم کہیں کہ تمام انسان ایک پرندے کی اولاد ہیں۔ اور پرندہ بھی ایسا جس کا رنگ سبز ہےاورجو جنت کا پرندہ ہے۔ یاد رہے کہ خصوصی طورپر سبزرنگ کے اِس پرندے کا ذکر ہماری اپنی بعض روایات میں موجود ہے۔ مثلاًمسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ شہداکی رُوحیں سبز رنگ کے پرندوں کے دل میں ہیں۔اسی طرح ایک ضعیف روایت یہ بھی ہے کہ جب مٹی سے آدم کا بُت بنالیاگیا تو رُوح سے کہا گیا کہ تُو اس میں گھس جا۔ رُوح ہچکچائی تو اللہ تعالیٰ نے اسے واپس نکالنے کا وعدہ کرلیا۔ اوریہ رُوح ایک سبزرنگ کےپرندے میں تھی۔
چنانچہ اگر نظریۂ ارتقا یہ کہتا کہ تمام انسان پرندوں کی اولاد ہیں یا پرندوں سے نکلے ہیں تو کسی نے زیادہ غصہ نہیں کرنا تھا۔ نہ ہی لوگوں کا اتنا ردعمل آتا۔ یہ مسئلہ جمالیات کا ہے۔ اورنظریۂ ارتقا کو بیان کرنے والے اساتذہ کی حماقتوں سے خراب ہوا ہے۔ یعنی یہ کہنا کہ انسان بندروں کی اولاد ہیں، انسانی جمالیات کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔ خُدا نے ہماری نفسیات ہماری حسّوں کے مطابق بنائی ہے۔ مثلاً خوشبُو ، خوشبُو کیوں ہے؟ اور بدبُو بدبُو کیوں ہے؟ ایسا کیوں نہیں کہ بدبو ہمیں خوشبو جیسی لگے۔ جب کوئی جانور مرجاتاہے تو اس سے بدبو اُٹھنے لگتی ہے۔ انسان تو انسان باقی درندے بھی اسے نہیں چھُوتے، نہ ہی کھاتے ہیں۔ لیکن ہزاروں لاکھوں کیڑوں مکوڑوں کے لیے وہی بدبُو کسی خُوشبو جیسی ہے۔ بندرکی اولاد ہونا ایسا ہی نفسیاتی مسئلہ ہے جو ہماری مینٹل فیکلٹی کا حصہ بن چکاہے۔
صرف مسلمانوں کی بات کریں تو قرانِ کریم میں موجود قِرَدَةً خٰسِـٕیْنَ (دھتکارے ہوئے بندروں) کے الفاظ کی وجہ سےبندروں سے متعلق ہماری حسِّ جمالیات متاثر ہوئی۔یہاں یہ بھی یاد رہے کہ ماڈرن آرکیالوجی نئے نئے فوسلوں کی دریافت کے بعد آج کل یہ کہہ رہی ہے کہ دراصل بندرخود بھی چارپاؤں پر بعد میں چلنا شروع ہوئے۔ اور یہ کہ بندر اور انسان دونوں ہی ایک ایسے جانور کی اولاد ہیں جو دوپاؤں پر چلتا تھا۔ بندربعد میں الگ ہوئے، یا یوں کہہ لیجیے کہ ان دوپایوں میں سے کچھ کو بندر بنادیا گیا اور وہ چار پاؤں پر چلنے لگے۔تاہم یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں نے نظریۂ ارتقا پر اتنا شدید ردِعمل کبھی بھی نہیں دیا جتنا عیسائیوں نے دیا ہے۔ مذاہب میں بدھ مت اور ہندُو مت البتہ وہ مذاہب ہیں جنہوں نے نظریۂ ارتقا کو کھلے دل سے قبول کیا۔ہندوؤں کے حوالے سے ایک اضافی اور غیرمتعلقہ بات کرتاچلوں کہ،ہندُو جن خُداؤں کی پوجا کرتے ہیں اُن میں کثرت کے ساتھ آسمانی ستارے ، سیّارے اور دیگر اجرام فلکی شامل ہیں، اس لیے ہندوؤں کو ستارہ پرست بھی کہاجاسکتاہے۔ اوراگرہندوؤں کو مسلم مفسرین یا کم ازکم مفکرین نے کبھی ستارہ پرستوں کی فہرست میں شامل کرلیا تو عین ممکن ہے کہ ہندوؤں کوبھی مسلمانوں کے نزدیک آسمانی مذاہب کا احترام مل جائے جیسا دیگر اہلِ کتاب کودیاگیاہے۔ اوراس بات کا امکان پہلے سے بھی موجود ہے کیونکہ قرانِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔’’ جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست، (یعنی کوئی شخص کسی قوم و مذہب کا ہو) جو خدا اور روز قیامت پر ایمان لائے گا، اور نیک عمل کرے گا، تو ایسے لوگوں کو ان (کے اعمال) کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا اور (قیامت کے دن) ان کو نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غم ناک ہوں گے۔(۶۲)بہرحال اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ چنانچہ زیادہ تر مذاہب کو نظریۂ ارتقا کے ساتھ اس شدت کی مخاصمت نہیں ہے، جس شدت کی مخاصمت عیسائیت کو تھی اور آج تک بھی ہے۔ اور یہ حقیقت بھی اب اظہرمن الشمس ہے کہ ایک بار جب کسی قوم کے لوگ نظریۂ ارتقا کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر ماننا شروع کردیتے ہیں تو اس قوم کے حالات میں سالوں میں نہیں، دنوں میں تبدیلی آناشروع ہوجاتی ہے۔اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ نظریۂ ارتقا کی پوری تاریخ ہی ہرفردِ قوم کے ليے انفرادی بقا کی جنگ ہے۔ اورچونکہ قومیں افراد سے بنتی ہیں اس لیے اگرہرفردِ قوم اپنے بقا کی جنگ لڑیگا تو وہ گویا مجموعی طورپر پوری قوم کي بقا کی جنگ ہوگی۔ اوریوں وہ اعتماد جو کسی عیسیٰ یا کسی مہدی کے انتظار میں بیٹھے رہنے والوں کے پاس کبھی ہوہی نہیں سکتا، وہی اعتماد پوری کی پوری قوم میں جنم لینے لگتاہے۔ عام سماجی اصطلاح میں اس اعتماد کا نام ہے، اپنے آپ پر بھروسہ رکھنا۔ کیونکہ بقول اقبال غلامی سے بے یقینی بدتر ہے۔جب ایک ایک خزانہ مری زمین میں ہے
توقرض غیر سے لینا کہاں کے دین میں ہے
یہ جہدِ للبقا ہی ہے جو ایک بچے کو پیدائش کے پہلے دن رونے پر مجبورکرتا ہے۔اگربچہ نہ روئے تو ڈاکٹر اسے نارمل بچہ تسلیم کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔اوریہ بھی جہدِ للبقا ہے کہ ایک بچہ اپنی ماں کی گود میں ہنستا ہے تو ماں کو خوش کرنے کے لیے اور اداس ہوتاہے تو ماں کو اداس دیکھ کر۔وہ جانتاہے کہ اس کا رب اس کی ماں ہے۔یہ سروائیول کی جنگ ہے جو وہ لڑرہاہے۔ اگر اس کی ماں ناخوش ہوگی تو وہ جبلی طورپر اسے اپنے سروائیول یعنی بقا کے لیے خطرہ سمجھے گا۔وہ بھی ڈرجائےگا۔ وہ بھی رودےگا۔ اگراس کی ماں ہنس رہی ہے تو وہ بھی خوش ہوجائےگا۔سروائیول یا بقاکی جدوجہد ہماری گھُٹی میں ہے۔ایک بچہ جب بڑا ہونے لگتاہے تو ماں کے علاوہ بعض دیگر لوگ بھی اس کی شرائطِ بقا کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس کا باپ، اس کا داد، بہن بھائی، دیگر رشتہ دار،اورپھر اہلِ محلہ، اہل علاقہ، سکول کے اساتذہ اوربچےوغیرہ وغیرہ۔وہ اس پورے ماحول میں اگر موجودرہ پاتاہے تو صرف اور صرف اپنی حسِّ بقا کے بل بوتے پر۔اس کی کوئی حرکت کسی کو ناپسند آتی ہے تو وہ اپنی جبلت کے پرچے پر اُسے مارک کرلیتاہے۔ اس کی کوئی حرکت کسی کو پسند آتی ہے تو وہ اُس کو بھی مارک کرلیتاہے۔اس کے پاس تمام صلاحیتیں ہیں لیکن وہ صرف ان صلاحیتوں کو اجاگر کرنا چاہتاہےجو لوگوں نے پسند کی ہیں۔اگر اس کے ماحول میں سارے چورڈاکو ہیں اور وہ انہی چورڈاکوؤں کے درمیان رہتے ہوئے بڑا ہورہاہے تو اپنی صلاحیتوں کے چناؤ میں بھی وہ انہی چیزوں کو مارک کرےگاجو اس کے ماحول میں معتبر سمجھی جاتی ہیں۔ایک سال کا بچہ جس کسی تماشے کا مظاہرہ کرتاہے وہ جہدِ للبقا ہے۔وہ جو کچھ بھی کررہاہے، اپنے سروائیول کے لیے کررہاہے، کیونکہ وہ ایک فرد ہے، اور نظریۂ ارتقا افرادکےبقاکی جنگ کا نظریہ ہے۔
اخلاقیات کیا ہے؟ ہم کسی اجنبی کو دیکھ کر کیوں سنجیدہ ہوجاتے ہیں؟ اگروہ ہماری طرف مسکراہٹ اُچھالے تو ہم جواب میں اس کی طرف مسکراہٹ کیوں اچھالتے ہیں؟ مسکراہٹ کا کیا مطلب ہے؟ یہ کہاں سے برآمد ہوتی ہے؟ ہم کسی سے ہاتھ کیوں ملاتے ہیں؟ گلے کیوں ملتے ہیں؟ ہم ایک دوسرے کا خیال کیوں رکھتے ہیں؟ اسلام میں پڑوسی کا خیال رکھنے پر کیوں زوردیاگیاہے؟ذراغورکریں تو یہ سب جہدِ للبقاہے۔یہ ہمارے ہتھیار ہیں۔ جیسے درندوں کو پنجے اوردانت ملے۔چرندوں کو سینگ عطاہوئے۔ کسی کوڈنک مارنا آتاہے۔ کوئی کانٹے چُبھوسکتاہے۔ کوئی اپنے آپ کو کیموفلاج کرلیتاہے۔کسی کو تلوار تو کسی کو ڈھال، لیکن ہرکسی کو فطرت نے کچھ نہ کچھ عطا کیاہے۔اورہم انسانوں کو فطرت کی طرف سے جو ہتھیارعطاہواہے وہ اخلاقیات ہے۔ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمیں فطرت نے اتنا حسین ہتھیارعطاکیا۔لیکن ہم ہمیشہ اس کے استعمال پر جانوروں کےہتھیاروں کو ترجیح دیتےرہے۔ ہم نے تلواریں بنائیں، تیراورتبرتراش لیے۔بندوقیں، پستول،توپیں، ٹینک، جہازاوربم۔ہم نے فطرت کا عطاکردہ ہتھیار اختیار نہ کیا جو ہمیں ان خوفناک مرگ ہائے مفاجات سے بچاسکتاتھا۔ ہم نے اخلاقیات کو پسِ پشت ڈالے رکھا۔حالانکہ ہماری ایک مسکراہٹ بڑے سے بڑے خطرے کو ٹال سکتی تھی۔ ہمارے فطری ہتھیار قوت میں زیادہ بڑے تھے، لیکن ہم یہ بات سمجھ نہ پائے۔ ہم نے ارتقا کے دوران جو ہتھیار اُٹھالیے تھے، اُنہی کوخطرناک سے خطرناک بناتے چلے گئے۔ تکونی پتھروں سے بھالوں کے چھوٹے چھوٹے پھل بناتے بناتے ہم کہاں آپہنچےہیں؟مجھے تو ہمیشہ سے لگتاہے کہ رسول ِ اطہرصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی یہ جوصحیح حدیثِ مبارکہ ہے کہ،المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دیگر مسلمان محفوظ ہیں۔اس حدیثِ مبارکہ میں، صاف الفاظ میں بتایاگیاہے کہ ہاتھ اورزبان کو بطورہتھیار استعمال کیا جاسکتاہے۔ کیونکہ حدیث کے الفاظ ہیں، سَلِم‘‘، یعنی جس سے (دیگرمسلمان) محفوظ ہیں۔محفوظ تو کسی ہتھیار سے ہی ہوا جاسکتاہے۔اوراس لیے ہاتھ اورزبان ہتھیار ہیں۔اورہم پہلے سے جانتے ہیں کہ ہاتھ اورزبان انسانی اخلاقی عمل میں سب سے بڑھ کر شریک ہیں۔الغرض اخلاقیات بھی انسانوں کو فطرت کی طرف سے بعینہ اُسی طرح عطا ہوئی جیسےدیگرمخلوقات کو سروائیول کے لیے مختلف ہتھیاراورخول(shell) عطاکیے گئے۔آرکیالوجی کے پاس اس بات کے خاطرخواہ شواہد موجود ہیں کہ ماضی قدیم کا انسان جو غاروں میں رہتا تھا، اخلاقیات کی اوّلین شکلوں کا خالق ہے۔یادرہے کہ کم سے کم دس لاکھ سال پہلے انسان کے آگ جلانے کے شواہد موجود ہیں۔اور میری رائے میں اگر وہ اِس آگ پر اپنی غذا بھی پکانے لگ گئے تھے تو یہ بھی ایک اخلاقی عمل تھا۔کوئی بھی اخلاقی عمل ارتقا کے مراحل طے کیے بغیروارد نہیں ہوا۔لاکھوں سال پہلے ایک دوسرے سے چھین لینے کے عمل کو اوّلین عہد کے خراج کی اخلاقیات نے ختم کیا۔ پھر خراج نے صدیوں راج کیا اور بالاخرخراج کوخیرات اور تحائف کی اخلاقیات نے ختم کیا۔چھین لینے سے تحفہ دینے تک انسان نے لاکھوں سال گزاردیے۔الغرض اخلاقِ انسانی خدا کی طرف سے نازل ہونے والی اجتماعی وحی ہے۔اجتماعی وحی کیا ہوتی ہے؟ وہ وحی جو جنگلوں اورباغوں پرنازل ہوتی ہے۔ وہ وحی جو شہد کی مکھیوں پر نازل ہوتی ہے۔ یعنی فطرت کی جانب سے عطاکردہ کسی نوع کي بقا کا وہ اجتماعی شعورجوان کے اندرودیعت ہوتاہے۔جیسے کسی گاؤں میں دوہا ماہیا کہتاہوا ان پڑھ پنجابی شاعراوراسلام آباد میں فیصل مسجد تعمیر کرتاہوا تہذیب کا کوئی فرزند، دونوں مل کر ایک ہی وحی لکھ رہےہیں، جو ان پر الگ الگ نازل ہوئی۔جیسے کسی قوم کا ادب پورے معاشرے پرنازل ہونے والی اجتماعی وحی ہوتاہے۔یہ شہد کی مکھیوں پر نازل ہونے والی فطرت کی وہ ہدایت ہے، جو انہیں میٹھے پھولوں کاپتہ بتاتی ہے۔اوراخلاقیات تو کم و بیش تیس لاکھ سال سے نازل ہوتا ہوا، فطرت کا وہ تحفہ ہے،جو اس نے صرف انسان کے لیے چُناتھا۔میں اکثرکہاکرتاہوں، ’’آنسوخُدا کے خزانے کا آخری موتی ہے‘‘۔اوریہ سچ ہے کہ آنسواخلاقِ انسانی کی معراج ہے۔آنسوکاہتھیاروہ ہتھیار ہے جس کا کوئی مقابلہ بنایا ہی نہیں گیا۔مسکراہٹ سے آنسوؤں تک باہمی تعلق کی وہ کہانی بکھری ہوئی ہےجوشناسائی سے شروع ہوکر قربانیوں پر ختم ہوتی ہے۔وہ کہانی جوخدا کو سب سے زیادہ پسند ہے۔