سير ت صحابہ
سيدنا عمر رضي اللہ عنہ
ڈاكٹر طفيل ہاشمی
یہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہیں جنہوں نے اسلامی ریاست کی ذمہ داری کو اس بلند ترین معیار تک پہنچا دیا تھا کہ اس کے بعد بلندی کا کوئی درجہ نہیں تھا ، جو بھی آتا ایک درجہ نیچے ہونے کے باعث وجہ تنقید بنتا. میں سوچتا ہوں کہ کتنے بھولے ہیں وہ بزرگان دین جو شب و روز خلافت راشدہ کا نظام قائم کرنے کا دعوٰی کرتے نہیں تھکتے، حالانکہ :آں قدح بشکست و آں ساقی نماند
اس دھرتی پر کوئی دوسرا بوبکر و عمر عثمان و علی پیدا نہیں ہو سکتے. ختم نبوت کا اقتضاء یہ ہے کہ آپ کے خلفاء بھی خاتم الخلفاء ہوں-مورخین جو بھی وجہ بتائیں، امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمر نے اجلہ صحابہ کرام کو مدینہ میں اس لئے پابند کیا ہوا تھا تاکہ ارباب شوری وہیں موجود رہیں اور سارا نظام ریاست مشاورت پر چلے، اسی لیے جب ابن مسعود کو کوفہ بھیجا تو کہلا بھیجا کہ ایثار کر کے بھیج رہا ہوں ورنہ مجھے ان کی زیادہ ضرورت رہتی ہے-کبھی آپ نے سوچا؟؟خدا نخواستہ آپ کی گاڑی چوری ہوجائے، بچیوں کے لیے پیٹ کاٹ کر جمع کیا ہوا جہیز چوری ہو جائے-یا چوری، ڈاکے میں آپ کا بڑے سے بڑا مالی نقصان ہو جائے-ہم کہتے ہیں کہ اسلام کے مطابق سزا یہ ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹ دو اور بس اگر چوری کا مال محفوظ ہے تو واپس لے لو اور اگر اس نے گاڑی فورا کھلوا کر بیچ دی تو.. صبرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چور نے جو جرم سماج کے خلاف کیا ، قانون نے ہاتھ کاٹ کر مجرم کو اس کی سزا دے دی لیکن جو جرم فرد کے خلاف کیا، اس کی کیا سزا ہے؟ آپ کو کیا ملا؟کیا آپ کے نقصان کا کوئی مداوا نہیں؟آپ پیدل ہو گئے-آپ کی بچیوں کا مستقبل تاریک ہو گیا-کیا یہ عدل ہے؟؟اہل علم سے پوچھیں تو وہ جواب دیں گے-بما کسبا میں ما عام ہے، اس پر قیاس کے ذریعے اضافہ درست نہیں، یہی تمام تر سزا ہے اور بس-جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی تعبیر نص عدل فراہم نہیں کر سکتی-معلوم کیجے-سیدنا عمر نے اس کا کیا حل دیا تھا-
وصال نبوی تک مدینہ منورہ میں بڑی تعداد میں منافقین موجود تھے، جن کا ذکر سورہ توبہ میں آتا ہے جو آخری سورتوں میں سے ہے-لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور تک پہنچتے پہنچتے منافق رہنے کی ضرورت ختم ہو گئی تھی -کیوں کہ لوگ جس مقصد کے لیے نفاق اختیار کرتے تھےوہ مقصد یعنی دنیوی مفادات اسلام کے لئے بڑھ چڑھ کر خلوص اور محنت کے اظہار سے پورا ہو جاتا تھا. اسلام مستحکم ہو گیا تھا
اسی لئے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مولفۃ قلوب کو زکوۃ دینا بند کر دی تھی -متعہ پر اہل السنہ کی اکثریت یہ رائے رکھتی ہے کہ متعہ ایک بار فلاں وقت حرام ہوا دوبارہ فلاں وقت اور.... اور... اور.اہل تشیع اس کے جواز کے قائل ہیں -مجھے افسوس ہے کہ دونوں فریق فہم دین کے بنیادی منہج سے ہٹ کر روایات اور ان کی تطبیق و توجیہ میں الجھ گئے. امر واقعہ کیا ہے؟ایسی کوئی روایت نہیں ہے کہ رسول اللہ صلي اللہ علیہ و سلم نے کبھی کسی کو شدت جذبات کے علاج کے طور پر متعہ کرنے کا کہا ہو. ایسے کیسز میں آپ نے نکاح کرنے، پاک دامن رہنے یا مسلسل روزے رکھنے کا طریقہ بتایا. اگر متعہ کا کبھی بھی جواز ہوا ہوتا تو آپ سے ایسی کوئی روایت ہوتی کہ آپ نے فلاں شخص سے فرمایا کہ جاکر متعہ کر لو. متعہ جاہلیت کے نکاحوں میں سے ایک مقبول اور متداول نکاح تھا. آپ نے مختلف مواقع پر اس سے منع فرمایا، جس راوی نے جب سنا اسی وقت سے اس کی ممانعت کی روایت کی. جن راویوں نے ایک سے زائد بار سنا انہوں نے یہ سمجھا کہ پہلے فلاں وقت حرام ہوا تھا. اب حرمت کے اعلان کا مطلب یہ ہے کہ بیچ میں جائز ہو گیا تھا. یہ ساری تعبیرات فہم راوی ہیں جو دراصل رواۃ کی غلط فہمیاں ہیں. اسلام نیا نیا تھا جو لوگ معلومات کی کمی کے باعث متعہ کرتے رہے، انہیں گناہ تو شاید نہ ہوا ہو کہ ایک صحابی ایک آیت کی غلط تفسیر کر کے حضرت عمر کے دور تک شراب نوشی کرتے ہیں اور ایک خاتون جو بدکاری میں ملوث پائ گئ تھی پوچھنے پر کہنے لگی اس میں حرج ہی کیا ہے، میں تو یہ سب کچھ کرتی رہتی ہوں -سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اسے سزا نہیں ہونے دی بلکہ فرمایا اسے لے جاکر اسلام کی تعلیم دو. سو شیعہ سنی دونوں کو اسلام کی اصل تعلیم کی طرف رجوع کرنا چاہئیے..
حضرت عمر ؓ کی یہ رائے درست تھی کہ مہر کی زیادہ سے زیادہ مقدار مقرر کر دی جائے ۔اگر ایسا ہو جاتا تو ایک طرف "شرعی مہر" کے نام پر ہونے والے ظلم سے خواتین محفوظ رہتیں ۔دوسری طوف عرب ممالک میں غلاء مہور کے باعث وہ خواتین جن کے بالوں میں چاندی اتر آتی ھے نفسیاتی اذیت اور نکاح میسار سے بچ جاتیں اور تیسری طرف سستی خواتین کی تلاش میں عرب مسلمان بچے اپنی اصل سے دور نہ ہوجاتے ۔ایک خاتون کے غلط اجتہاد نے امت کو بہت سی برکات سے محروم کردیا ۔نہ معلوم سیدنا عمر ؓخاموش کیوں ھو گئے ۔
عقیدت میں لت پت قوم آپ کو شہادت عمر کے روز یہ بتائے گی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب میں فلاں فلاں احادیث ہیں میرے بعد کوئی نبی ہو سکتا.میرے رب نے میری خواہش کے مطابق وحی کی مدینہ بیٹھ کر ساریہ کو آواز دی اور دیگر درجنوں کرامات-جبکہ قرآن کی رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ کے بعد سب کچھ ثانوی ہے کیوں؟؟ یہ سب کچھ دین فروش اور مقتدر طبقے کے لئے بے ضرر ہے بلکہ وقار بخش لیکن یہ نہیں بتایا جائے گا کہ عمر نے کن کن گورنرزکو معزول کر کے ان کے زائد اثاثے بیت المال میں جمع کرا دئیے-انسانی تاریخ کے سب سے بڑے جرنیل کو معزول کر کے گھر بٹھا دیا
سرکاری قرض سے کی گئی تجارت کا منافع بیٹے سے واپس لے کر بیت المال میں جمع کروا دیا.سرکاری زمینیں فوجیوں میں تقسیم کرنے کی روایت ختم کر دی-طلقاء کے لیے حدود مقرر کر دیں اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بطور نائب امیر المومنین یا با اختیار وزیر اعظم امور ریاست تفویض کئے-سرکاری ملازمین کے لئے غیر ملکی /دینی بیویاں رکھنے پر پابندی عائد کر دی-بے ضرورت دینی مسائل بیان کرنے والوں کو کوڑے لگوائے-خود کو ہر نوع کی تنقید کے لیے پیش کیا اور تنقید قبول کرتے ہوئے اپنی پالیسی تبدیل کی-سب سے بڑے غیر ملکی دورے میں پروٹوکول کے طور پر ایک اونٹ اور ایک ملازم. مالک اور ملازم باری باری اس اونٹ پر بیٹھتے-پیدل منزل پر پہنچنے والے امیرالمومنین کے کرتے پر سترہ پیوند لگے تھے-سیاست دان آپ کو یہ نہیں بتائیں گے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایک مستقل اسلامی سیاسی نظام کی تشکیل کی جس کی اساس قرآن و سنت میں تھی لیکن اس کا زمینی نمونہ عمر کی سیاسی پالیسیوں میں تھا-اس میں مختلف پارلیمان تھے اور کوئی چھوٹا بڑا فیصلہ متعلقہ پارلیمان کی مشاورت کے بغیر نہیں کیا جاتا تھا.-اسلامی فقہاء اور اہل علم آپ کو یہ نہیں بتائیں گے کہ اسلامی شریعت کی نصوص کو مقاصد سے وابستہ کر کے بین الاقوامی فقہ اور اصول فقہ کی بنیاد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رکھی-الغرض
زفرق تا بقدم ہر کجا کہ می نگرم--کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جاست