دين و دانش
شادی کے وقت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر اور ہشام بن عروہ کی روایت
ڈاكٹر طفيل ہاشمي
سیرت اور تاریخ کی مستند ترین تالیفات کے مطابق (الکامل- تاریخ دمشق۔ سیر اعلام النبلاء ۔ تاریخ طبری۔ البدایۃ و النہایۃ ۔ تاریخ بغداد ۔ وفیات الاعیان اور دیگر) بعثت نبوی اور اس کے بعد کے واقعات کی زمانی ترتیب اس طرح ہے کہ بعثت نبوی۔ 610 میلادی -ہجرت مدینہ۔ 623 میلادی-وفات نبوی۔ 633 میلادی
مذکورہ روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے تین سال قبل یعنی 620 میلادی میں سیدہ عائشہ ؓ سے نکاح کیا جب کہ بعثت نبوی کو دس سال گزر چکے تھے اور سیدہ کی عمر چھ سال تھی یعنی سیدہ 614 میلادی میں پیدا ہوئیں۔ جب کہ بعثت نبوی پرچار سال گزر چکے تھے۔ اگر ہم تاریخی اعتبار سے اس روایت کا جائزہ لیں تو درج ذیل امور سامنے آتے ہیں۔
1۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکر اور سیدہ عائشہ کی عمروں کا تفاوت:
مذکورہ بالا تمام مصادر اس امر پر متفق ہیں کہ سیدہ اسماء سیدہ عائشہ سے دس سال بڑی تھیں اور سیدہ اسماء ہجرت مدینہ (623) کے وقت ستائیس سال کی تھیں یعنی بعثت نبوی کے وقت ان کی عمر 14 سال تھی۔ اگر وہ سیدہ عائشہ سے دس سال بڑی تھیں تو سیدہ عائشہ بعثت نبوی کے وقت چار سال کی تھیں اور رسول اللہ ؐ سے نکاح کے وقت چودہ سال کی اور رخصتی کے وقت کم از کم سترہ سال کی تھیں۔
2۔ سیدہ اسماء کی وفات کے حساب سے سیدہ عائشہ کی عمرتمام تاریخی مصادر اس امر پر متفق ہیں کہ سیدہ اسماء اپنے بیٹے عبداللہ بن زبیرؓ کے حجاج بن یوسف کے ہاتھوں ۷۳ ہجری میں شہید ہونے کے بعد فوت ہوئیں۔ اس وقت ان کی عمر سو سال تھی۔ یعنی ہجرت کے وقت وہ 27 سال کی تھیں اور سیدہ عائشہ سترہ سال کی۔
3۔ طبری نے تاریخ الامم و الملوک میں قطعیت سے بتایا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تمام اولاد بعثت نبوی سے پہلے دور جاہلیت میں پیدا ہوئی۔ جب کہ اگر مذکورہ روایت کو درست قرار دیا جائے تو سیدہ عائشہ کی پیدائش بعثت کے چارسال بعد کی بنتی ہے۔
4۔ سیدہ فاطمہ کی عمر سے مقارنہ:
حافظ ابن حجر نے الاصابہ میں بتایا ہے کہ سیدہ فاطمہ اس سال پیدا ہوئیں جس سال خانہ کعبہ کی تعمیر جدید کی گئی اور اس وقت رسول اللہ ؐ کی عمر 35 سال تھی اور سیدہ فاطمہ سیدہ عائشہ سے پانچ سال بڑی تھیں۔ اس حساب سے سیدہ عائشہ کی پیدائش بعثت نبوی کے سال قرار پاتی ہے۔ اگرچہ ابن حجر کی یہ روایت بھی کمزور ہے تاہم اس روایت کی بناء پر ابن حجر نے خود بخاری کی اس روایت کی تردید کر دی جو زیر بحث ہے۔
5۔ حافظ ابن کثیر نے البدایہ و النہایہ میں سابقین اولین کے تذکرے میں خواتین کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ سیدہ اسماء اور سیدہ عائشہ ان ابتدائی تین سالوں میں اسلام لائیں جن میں اسلام کی دعوت خفیہ طور پر دی جاتی رہی۔ ہر چند کہ سیدہ عائشہ ابھی کم عمر تھیں۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ عائشہ اس سال سے قبل اسلام قبول کر چکی تھیں ، جس سال بخاری کی روایت کے مطابق ان کی ولادت ہوئی یعنی بعثت نبوی کے چوتھے سال۔ اور اگر سیدہ عائشہ کی ولادت کو سیدہ اسماء کی عمر کے تفاوت سے دیکھا جائے تو اس وقت سیدہ عائشہ کی عمر 7-8 سال تھی۔
6۔ صحیح بخاری میں باب جوار ابی بکر فی عہد النبی میں روایت ہے کہ سیدہ عائشہ فرماتی ہیں، میں نے جب سے ہوش سنبھالا میں نے اپنے والدین کو اسلام پر پایا اور کوئی دن ایسا نہیں ہوتا تھا کہ رسول اللہ ؐ صبح، شام ہمارے گھر تشریف نہ لاتے ہوں ، پھر جب مسلمانوں کو تنگ کیا جانے لگا تو ابوبکر ہجرت کرتے ہوئے حبشہ روانہ ہو گئے۔
اگر بخاری کی وہ روایت درست ہے تو پھر اس روایت کا کیا مطلب ہے کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا۔ یعنی انہیں یاد ہے کہ ہجرت حبشہ سے قبل رسول اللہ ؐ روزانہ ان کے گھر تشریف لاتے تھے اور ہجرت حبشہ بعثت کے پانچویں سال ہوئی۔ جبکہ اول الذکر روایت کے مطابق اس وقت سیدہ عائشہ ایک سال کی ہوئی ہوں گی۔ یعنی شیر خوار بچی۔ جبکہ لم اعقل ابوی کا مطلب تو یہ ہے کہ انہیں یہ واقعات یاد تھے۔
7۔ مسند احمد میں مسند عائشہ میں ہے کہ جب سیدہ خدیجہ ؓ کا انتقال ہوا اور رسول اکرم ؐ بچیوں کی دیکھ بھال اور دعوت کی ذمہ داریوں کے باعث پریشان تھے تو خولہ بنت حکیم نے انہیں مشورہ دیا کہ آپ شادی کیوں نہیں کر لیتے۔ آپ نے پوچھا، کس سے ۔ انہوں نے کہا، کنواری اور بیوہ دونوں موجود ہیں۔ کنواری آپ کے دوست کی بیٹی ، عائشہ اور بیوہ سودہ بنت زمعہ۔
سوال یہ ہے کہ بچیوں کی دیکھ بھال کے لیے خولہ ایک ایسی بچی کی نشان دہی کر رہی تھیں جو آپ کی سب سے چھوٹی بیٹی سیدہ فاطمہ سے بھی کئی سال چھوٹی تھیں۔
8۔ مسند احمد میں۔ خولہ بنت حکیم سے ہی روایت ہے کہ جب انہوں نے ام رومان والدہ سیدہ عائشہ کو رسول اللہ ؐ کی طرف سے پیغام نکاح دیا تو انہوں نے کہا کہ ابوبکر مطعم بن عدی کو ان کے بیٹے کے لیے زبان دے چکے ہیں اور وہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کریں گے۔ پھر ابوبکر نے مطعم بن عدی سے بات کی تو انہوں نے انکار کر دیا۔
کیا ابوبکر اس وقت اپنی کم سن بیٹی کا رشتہ مطعم بن عدی کے بیٹے جبیر کو دینے کو تیار تھے جب یہ لوگ مسلمانوں کو ایذا دیتے تھے اور بعد میں بدر و احد میں مسلمانوں کے خلاف شریک جنگ رہے جبکہ ہشام بن عروہ کے مطابق ابو بکر نے اپنی کم سن بچی کا وعدہ اسلام دشمنوں سے کر دیا تھا۔ یقیناً یہ بعثت نبوی سے پہلے کا واقعہ ہو گا جب کہ سیدہ عائشہ اور جبیر دونوں کم عمر تھے۔
9۔ صحیح بخاری میں ہے کہ سیدہ عائشہ فرماتی ہیں جب سورۃ القمر کی آیت " بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَ السَّاعَةُ اَدْهٰى وَ اَمَرُّ " رسول اللہ ؐ پر مکہ میں نازل ہوئی تو میں لڑکی تھی، کھیلتی کودتی تھی۔ اس امر پر اتفاق ہے کہ سورۃ القمر بعثت نبوی کے چوتھے /پانچویں سال یعنی 614 میں نازل ہوئی۔ اگر ہشام بن عروہ کی روایت درست ہے تو اس وقت سیدہ عائشہ یا تو ابھی پیدا نہیں ہوئی تھیں یا شیر خوار بچی تھی۔ پھر کنت جاریۃ العب کا کیا مطلب ہے؟ اور اگر دیگر شواہد کی روشنی میں دیکھا جائے تو سیدہ اس وقت 8 سال کی تھیں۔
10۔ یہ روایت جو ہشام اور عروہ دونوں سے خبر واحد ہے۔ ہشام نے اپنے طویل قیام مدینہ میں کبھی روایت نہیں کی، جب وہ عراق منتقل ہو گئے اور عمر بڑھنے کی وجہ سے ان کے حافظے میں خلل واقع ہو گیا تو انہوں نے بیان کی ۔ حافظ ابن حجر نے "ھدی الساری" اور التہذیب میں تصریح کی ہے کہ امام مالک ان کے عراق منتقل ہونے کے بعد کی روایات کو مستند نہیں سمجھتے تھے۔ جب کہ امام مالک نے ہشام کے قیام مدینہ کے دوران ان سے استفادہ کیا۔
الغرض رسول اللہ سے شادی کے وقت سیدہ عائشہ کی عمر سترہ /اٹھارہ سال تھی۔حیرت ہے کہ بخاری کی ان روایات کو نظرانداز کر کے ایک ایسی روایت کو مدار علم قرار دیا جا رہا ہے جس کے غیر مستند ہونے کے بکثرت شواہد موجود ہیں.
پس نوشت
سيدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی شادی کے وقت عمر کی روایت بالعموم بخاری کی ایک روایت کے مطابق یہ بات مشہور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نکاح کے وقت سیدہ کی عمر چھ سال تھی اور نو سال کی عمر میں رخصتی ہوئی......میری دانست میں یہ روایت ایک شخص ہشام بن عروہ کا وہم ہے جسے بخاری میں روایت ہونے کی وجہ سے قبول عام حاصل ہو گیا. اس روایت کے غلط ہونے کے متعدد شواہد موجود ہیں جو شاید کسی فرصت میں پیش کر دئیے جائیں-لیکن میرے خیال میں اس کے نادرست ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ
1_رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ،آپ کی بعثت کے بعد کی ساری انسانیت کے لیے نبی مرسل ہیں
انی رسول اللہ الیکم جمیعا-وما ارسلناک الا کافۃ للناس بشیرا و نذیرا
2_قران حکیم نے آپ کو انسانیت کے لئے اسوہ حسنہ، نمونہ، مثال اور رول ماڈل قرار دیا ہے
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ
3_کسی بھی نبی میں بالعموم اور نبی آخر الزمان میں بالخصوص کوئی ایسی عادت، صفت یا عملی مثال ہونا ممکن نہیں جسے کسی بھی دور میں انسانی سماج ناپسندیدہ سمجھتا ہوجبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں قرآن نے خود کہا ہے کہ فانک باعینناآپ ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں-آپ سے کوئی ناپسندیدہ عمل سرزد نہیں ہو سکتا.
4_ہم جانتے ہیں کہ بڑی عمر کے فرد کا چھوٹی بچی سے شادی کرنا اور میاں بیوی کے تعلقات قائم کرنا ہمیشہ سے، بالخصوص ہمارے دور میں شدید ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے. کیا اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے ایسا کام کروا کر جسے سماج میں ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہو، لوگوں کو یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ تم اس شخصیت سے محبت کرو اور اس کی اطاعت بھی کرو.
5_نکاح کے تعلق میں اللہ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ نسل انسانی معلوم نسب کی بنا پر آگے بڑھے جبکہ بندے کا مقصد، جنسی آسودگی، گھر کی آبادی اور اولاد کا حصول ہوتا ہے جبکہ ایک کم سن بچی سے شادی سے نہ اللہ کا مقصد پورا ہوتا ہے اور نہ بندے کے مقاصد.
پس یہ روایت کتاب اللہ کے معیار تحقیق کے مطابق بھی درست نہیں جبکہ اس کے غلط ہونے کے مزید بہت سے شواہد ہیں.