دين و دانش
نماز جمعہ كي ركعات
محمد فہد حارث
ایک دوست نے سوال کیا کہ جمعہ کے دن سنت اور نوافل کی تعداد سے متعلق سخت خلجان رہتا ہے کہ کتنی ہونی چاہیئے۔
دیکھئے جہاں تک خطبہ اور صلوٰۃ الجمعہ سے پہلے نوافل کی تعداد کی بات ہے تو اس کی کوئی حد معین نہیں۔
صحیح مسلم کتاب الجمعہ میں سیدنا ابو ہریرہؓ کی روایت موجود ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جو جمعہ کے دن غسل کرے، پھر جمعہ کے لئے آئے اور جتنی اس کے مقدر میں ہو صلوٰۃ ادا کرے پھر خاموشی سے اس وقت تک بیٹھا رہے جب تک امام خطبہ سے فارغ نہ ہوجائے، پھر امام کے ساتھ صلوٰۃ ادا کرے تو اس کے دونوں جمعوں کے درمیانی گناہ معاف کردئیے جائیں گے بلکہ مزید تین دن کے اور بھی۔
امام ابن تیمیہ اس سلسلے میں توضیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بہتر یہ ہے کہ جو شخص جمعہ کے لئے مسجد میں جلدی آجائے تو وہ امام کے نکلنے تک نفل نماز یا ذکر میں مشغول رہے۔نبی ﷺ نےجمعہ سے قبل نوافل کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا ثم یصلی ما کتب لہ یعنی پھر وہ حتی المقدور صلوٰۃ پڑھے۔ صحابہ کرامؓ کا بھی اسی پر عمل تھا کہ جب وہ جمعہ کے لئے تشریف لاتے تھے تو حسبِ توفیق نوافل ادا کرتے تھے۔ کوئی دس رکعات پڑھتا تو کوئی بارہ تو کوئی آٹھ تو کوئی اس سے کم پڑھتا۔ یہی وجہ ہے کہ جمہور علمائے کرام کا یہ مسلک ہے کہ جمعہ کا خطبہ شروع ہونے سے قبل کوئی مقرر سنتِ مؤکدہ نہیں ، البتہ نوافل ہیں جن کی تعداد مقرر نہیں، جو جتنے پڑھ لے درست ہے،حتیٰ کہ اگر کوئی نہ بھی پڑھے تو کوئی حرج نہیں۔ (مجموع الفتاویٰ ۲۴/۱۸۹)
امام شوکانی اور امام امیر صنعانی بھی اس متعلق ابن تیمیہ سے متفق ہیں کہ جمعہ سے قبل نوافل کی کوئی تعداد مقرر نہیں جو جتنے چاہے پڑھ لے اور چاہے تو نہ بھی پڑھے۔ تاہم یہ تینوں حضرات اور جمہور اس بات کے قائل ہیں کہ جمعہ کے دن تحیۃ المسجد لازم پڑھنے چاہیئں کہ نبی ﷺ نے اس کی خاص تاکید کی ہے۔
اگرچہ اختلاف اس بابت ہے کہ کیا وہ شخص تحیۃ المسجد ادا کریگا جو امام کے خطبہ کے دوران مسجد میں داخل ہو۔ شوافع و حنابلہ اس کے جواز کے قائل ہیں اور ان کا استدلال سیدنا جابرؓ کی اس روایت سے ہے جس کو امام بخاری اپنی صحیح کی کتاب الجمعہ میں لائے ہیں کہ جمعہ کے روز ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا۔ نبی ﷺ اس وقت خطبہ ارشاد فرمارہے تھے۔ آپﷺ نے اس شخص سے پوچھا صلیت یعنی تو نے صلوٰۃ ادا کی؟ اس نے کہا کہ لا یعنی نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا قم فصل رکعتین یعنی کھڑے ہوجاؤ اور دو رکعت ادا کرو۔اسی طرح سنن ابو داؤد کی روایت میں آتا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی جمعہ کے دن آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ دو رکعتیں ادا کرے اور رکعتوں کو مختصر کرلے۔
البتہ مالکیہ اور احناف دورانِ خطبہ تحیۃ المسجد پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتے اور ان روایات کو خاص حالات پر محمول کرتے ہیں۔ ان کا استدلال سورۃ الاعراف کی آیت : و اذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا یعنی جب قرآن پڑھا جائے تو اسے دھیان لگا کر خاموشی سے سنو۔ جہاں تک رہی بات کہ جمعہ کے بعد کتنے نوافل و سنتیں ہیں تو اس متعلق دو طرح کی روایتیں ملتی ہیں۔ صحیح مسلم کتاب الجمعہ میں سیدنا ابو ہریرہؓ کی روایت ہےکہ آپﷺ نے فرمایا کہ جب تم سے کوئی صلوٰۃ الجمعہ ادا کرے تو اس کے بعد چار رکعات ادا کرلے۔جامع ترمذی میں بھی اسی طور کی روایت ہے جس میں مذکور ہے کہ من منکم مصلیا بعد الجمعۃ فلیصل اربعا یعنی تم میں سے جو جمعہ کے بعد صلوٰۃ پڑھے وہ چار رکعت صلوٰۃ پڑھے۔ جبکہ بخاری و مسلم میں نبی ﷺ کا اپنا عمل موجود ہے کہ ان النبی ﷺ کام یصلی بعد الجمعۃ رکعتین یعنی آپﷺ جمعہ کے بعد دو رکعت ادا فرماتے تھے۔ اسی طرح سنن نسائی کی روایت میں سیدنا عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ان النبی ﷺ کان یصلی بعد الجمعۃ رکعتین فی بیتہ یعنی آپﷺ جمعہ کے بعد اپنے گھر جاکر دو رکعتیں ادا فرماتے تھے۔
اب اگر ان تمام روایات کو سامنے رکھا جائے تو یہی بہتر محسوس ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن اگر کوئی فرض صلوٰۃ کے بعد مسجد میں سنتیں ادا کرے تو وہ چار رکعت کا اہتمام کرے، تاہم اگر وہ گھر جاکر صلوٰۃ ادا کرے تو دو رکعتیں پڑھ لے۔ تاہم سنن ابو داؤد کی ایک روایت میں چھ رکعتوں کا ثبوت بھی ملتا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ صلوٰۃ الجمعہ ادا کرنے کے بعد آگے بڑھ کر دو رکعتیں پڑھتے تھے، پھر جگہ بدل کر چار رکعات ادا کرتے تھے۔ المختصر جمعہ کے فرائض کے بعد کوئی چاہے تو دو رکعت سنتیں بھی ادا کرسکتا ہے، کوئی چاہے تو چار رکعات بھی اور کوئی چاہے تو دو اور چار چھ رکعات بھی پڑھ سکتا ہے۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ جمعہ سے پہلے کے نوافل نوافل ہیں جن کو پڑھا بھی جاسکتا ہے اور چھوڑا بھی جاسکتا ہے۔ جبکہ جمعہ کے بعد کے نوافل جمہور کے نزدیک سنتِ مؤکدہ میں شامل ہیں۔