مذاہب عالم
قاديانيت -دُنیا کا سب سے کنفیوزڈ مذھب
رضوان خالد
مرزا قادیانی کو پہلی بار میں نے تب پڑھا جب میں دہریہ تو تھا ہی، خُدا کے تصور سے میری الرجی کا یہ عالم تھا کہ ایک بار دورانِ سفر میرے ایک مولوی کزن نے نماز پڑھنے کے لیے گاڑی روکنے پر اصرار کیا تو میں نے اُسے بیچ راستے گاڑی سے اُتارا اور اپنے راستے ہو لیا۔
واپس قادیانیت کی طرف آتے ہیں، میں نے مرزا قادیانی پر لکھنا اس لیے چھوڑ دیا تھا کہ ایک ٹیچر نے مجھے سمجھایا تھا کہ ایک داعی کو دوسرے مذاھب کے لیے نرم مزاج ہونا چاہیے، لیکن ایک عالم کی وڈیو شیئر ہو رہی ہے جس میں وہ کہتے پائے گئے کہ مرزا قادیانی نے نبوت کا جھوٹا دعوٰی تو کیا تھا لیکن اُسکا عقیدہ توحید بہت شاندار تھا۔ اُس عالم کی وڈیو دیکھ کر جہاں میرا خون کھول گیا وہیں یہ یقین بھی ہو گیا کہ ہمارے مذھبی طبقے کے اکثر افراد آج بھی خود مطالعے کی بجائے سُنی سُنائی پر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ سُنی سُنائی ہی آگے پھیلاتے رہتے ہیں۔
مجھے یقین ہے اُن عالم نے کبھی مرزا قادیانی کی لکھی کتابیں نہیں پڑھی ورنہ نادانستگی میں ایک گمراہ کُن خبر کبھی آگے نہ پہنچاتے۔ مرزا قادیانی نہ اچھا مناظر تھا نہ اُسکا عقیدہ توحید کسی بھی معقول انسان کے لیے قابلِ قبول ہو سکتا کے نہ اُسکے کردار کو دیکھ کر اُسے کوئی معقول اور شریف آدمی ہی کہا جا سکتا ہے۔
یہ بھی بتاتا چلوں کہ جب میں تھا ہی دہریہ تو قادیانیت پڑھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ دراصل دہریت کے اُس دور میں میرا لندن کا سٹوڈنٹ ویزا ختم ہو گیا، کیونکہ میری وہ ڈگری مکمل ہو چکی تھی جو پڑھنے میں لندن گیا تھا، واپس پاکستان میں جانا نہیں چاہتا تھا، سوچا کسی آسان سے کورس میں داخلہ لے کر ویزا بڑھوا لیتا ہوں اور تب میں نے آسان اور دلچسپ سمجھ کر تقابل ادیان کے پروگرام میں داخلہ لیا۔
میرے سُپروائزر نے میرے ذمے وہ مذاھب لگائے جو انڈیا میں پیدا ہوئے اور یُوں مجھے قادیانیت اور خصوصاً مرزا قادیانی کا لکھا ہوا ہر لفظ پڑھنے کی سزا ملی۔
تقابُلِ ادیان میں میری دلچسپی کا بُنیادی پہلُو مختلف مذاھب میں خالِق کا تصوُر رہا۔خالِق کا جو تصوُر سکھوں کی گُرو گرنتھ میں ملتا ہے اُس کا موازنہ آسانی سے صُوفی اسلام میں موجُود خالق کے تصور سے کیا جاسکتا ہے۔ یہ میں نے بعد میں اسلام سے واقف ہونے کے بعد ہی جانا، زمانہ جہالت میں تو میں اسلام اُسی کو سمجھتا تھا جو بچپن سے لڑکپن تک اپنے محلّے کی مسجد میں جمعہ کے خطبوں میں سُنا تھا۔ وہی سب سُن کر اسلام سے متنفر ہوا تھا۔ خیر ہم سکھوں کی مذھبی کتاب گروگرنتھ کی بات کر رہے تھے، گروگرنتھ میں تو مسلمان صوفیا کا کلام بھی مسلمان صوفیا کے نام سے ہی شامل کیا گیا ہے یعنی سکھوں کے گرو خصوصاً گرونانک کم از کم مرزا قادیانی کی طرح بد دیانت نہیں تھے کیونکہ مرزا قادیانی نے جو مذھب اپنی کتابوں میں پیش کیا وہ ہندوازم، عیسائیت فرقہ ورانہ اسلام اور اپنے دور کے نبوت کے ایرانی دعوے دار بہااللہ کی کتابوں سے لیا گیا ملغوبہ ہے۔
پہلے مُرکب اور ملغوبے میں فرق سمجھ لیجیے تاکہ آپ کو میرا تھیسز سمجھ آئے۔ آمیزے اور مرکب میں فرق یہ ہے کہ مرکب دیکھ یا چکھ کر آپکو پتہ نہیں چلتا کہ یہ کن اجزا سے مل کر بنا ہے کیونکہ مُرکب میں سب اجزا ایسے فطری انداز میں باہم جُڑتے ہیں کہ مکمل طور پر ایک نئی اور جامع پروڈکٹ سامنے آتی ہے،جیسے قرآن پچھلے تمام انبیاؑ کی تعلیمات کا مرکّب ہے، اللہ نے پچھلے انبیاؑ کی تعلیمات اس میں ایسے انکارپوریٹ کیں کہ یہ نہ بائبل ہے نہ انجیل نہ زبور لیکن اسمیں روح وہی ہے جو اُن میں تھی۔ جبکہ آمیزے کو دیکھ یا چکھ کر پتہ چل جاتا ہے کہ اس میں کون کون سے اجزا شامل ہیں، سکھوں کی گروگرنتھ تین مذاھب کی کئی اچھی اچھی باتوں کا آمیزہ ہے تبھی اس سے کراہت نہیں آتی، لیکن مرزا قادیانی نے جو پروڈیوس کیا وہ ایک ایسا مکروہ ملغوبہ ہے جیسے کوئی جانور سڑک پر کسی ٹرک کے نیچے آ جائے تو اُسکے کُچلے جسم سے ہم یہ تو دیکھ سکتے ہوں کہ جانور کے کون کون سے اعضا کُچلے گئے ہیں، پہچان بھی سکتے ہیں کہ یہ جانور کونسا ہے لیکن جسم ٹرک کے نیچے آ کر اِس بری طرح کُچلا جا چکا ہوتا ہے کہ ہم باقائدہ پوسٹ مارٹم کے بغیر جانور کی ٹانگیں سر دُم وغیرہ الگ الگ شناخت نہیں کر سکتے۔
جب آپ مرزا قادیانی کے تصورِ خُدا اور کائنات اور افراد سے انکے بیان کردہ خُدا کے تعلُق کی مثالیں دیکھتے ہیں تو سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے کیونکہ پوسٹ مارٹم کے بغیر پتہ ہی نہیں چلے گا کہ اس کے اجزا ہندوازم سے لیے گئے ہیں، عیسائیت سے یا ایرانی خدا بہااللہ سے۔
روحانی خزائن جِلد تین کتاب توضیح مرام صفحہ نوّے پر مرزا صاحب خُدا کو ایک تیندوے سے تشبیہہ دیتے ہُوئے بتاتے ہیں کہ اس تیندوے کی گویا بہت سی ٹانگیں اور تاریں کائنات کے گوشے گوشے میں پھیلی ہُوئی ہیں اور اس تیندوے کا ہر عُضو ایک عالم ہے۔
انسان سمیت انگنت کمپلیکس مخلُوقات اور اتنی وسیع و عریض کائنات کے خالق کو اتنا عظیم ہونا چاہیے کہ اُسے مثال سے نہ سمجھایا جا سکے اور قادیانیت کے بانی ہم سب کے خالِق کو اپنے دیہی ایکسپوئیر کے عین مطابق ایک بھُوت جیسا پورٹریٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
روحانی خزائن جلد تیرہ صفہ ایک سو تین اور روحانی خزائن جلد پانچ صفحہ پانچ سو چونسٹھ پر مرزا صاحب خُود کو خُدا میں ڈھلنے اور خُدا کے خُود میں ڈھلنے کا تذکرہ کر کے ایک ایسے خُدا کا تصور پیش کرتے ہیں جیسا ہندؤوں میں اوتار کا تصور ہے یا کسی حد تک عیسائیت کے عقیدۂ تثلیث میں اسکی جھلک نظر آتی ہے۔
اور جب اپنی عظمت بیان کرنی ہو تو خُود کو خالق سے ملانے میں دیر نہیں کرتے۔
روحانی خزائن جِلد بیس صفحہ دوسو ترپّن میں مرزا صاحب اپنے لیے خُدا کا پیغام بتاتے ہُوئے کہتے ہیں کہ اللہ نے مجھے کہا کہ تُو میرے لیے میری توحید، میرے عرش اور میرے فرزند کی طرح ہے۔
گو کہ میں نے تقابل ِ ادیان کے ڈگری پروگرام میں داخلہ انگلینڈ کے ویزے کی مُدّت بڑھانے کے لیے لیا تھا لیکِن جیسے جیسے میں مختلف مذاھب خصوصاََ قادیانیت کی الِف لیلٰی پڑھتا گیا اس کورس میں میری دلچسپی بڑھتی گئی۔
جب آپ خُدا کو مانتے ہی نہ ہوں تو اُسکی طرف سے بھیجے جانے کا دعوٰی کرنے والے افراد اور کتابوں کے پیش کیے گئے نظریات کا پوسٹ مارٹم کرنا بہت دلچسپ کام ہے۔
انڈیا میں جنم لینے والے مذاہب کے بانیوں کے عمُومی رویّے یعنی سیرت کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو مرزا قادیانی صاحب یہاں بھی تمام انڈین مذاھب کے بانیوں سے قدرے مختلف نظر آتے ہیں۔
گرونانک صاحب کو ہی دیکھ لیجیے اُنکے دور کے مسلمان اور ہندو عُلما بھی اُنکے صبر اور اخلاق کے مداح نظر آئیں گے, لیکِن مرزا صاحب کے دور میں سرسید احمد خان کے علاوہ کوئی مسلمان عالم بھی ایسا نظر نہیں آتا جو مرزا صاحب کے غیض و غضب سے بچا ہو۔
ایک چھوٹی سی مثال لیجیے۔ لعنت ملامت اچھی چیز نہیں لیکِن عین مُمکِن ہے کہ کوئی مُعتبر شخصیت بھی حق و باطل کے کسی معرکے جیسے ماحول میں باطل اور ظالِم پر لعنت بھیج دے۔ لیکن صحت مند ذہن کے افراد سے کوئی جنگلی مُعاشرہ بھی یہ توقع نہیں کر سکتا کہ وہ اپنے دُشمن پر ایک ہی وقت میں سو بار لعنت بھیجے۔
مرزا غلُام احمد قادیانی اس معاملے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ وہ اپنی مخالفت کرنے والے مسلمان عُلماء کو لعنت ملامت کرنے پر آتے تو بچوں سے بھی آگے نکل جاتے۔
اپنی کتاب نُورالحق کے صفحہ ایک سو اٹھاون سے ایک سو اکسٹھ تک لعنت، لعنت، لعنت کا لفظ لکھتے ہی چلے گئے۔
کتاب کا عُنوان دیکھیے اور اندر چار صفحے ایک ہی ایسے لفظ کو ہزار بار لکھ کر کالے کیے جو ایک بار بھی لکھا جاتا تو وہی اثر ڈالتا جو ہزار بار لکھنے سے پڑا لیکن اگر یہی چار صفحے دُنیا کے کسی بھی معاشرے کے فرد کے سامنے رکھ کر صاحبِ تحریر کے بارے میں رائے مانگی جائے تو کوئی یہ رائے نہیں دے گا کہ صاحبِ تحریر کوئی سُلجھا ہُوا معقُول شہری ہو سکتا ہے
لیکن اوّل تو ایک عام قادیانی اپنے نبی کی اُنانوے تصانیف پڑھے گا نہیں اور ایسا کوئی اقتساب پڑھ بھی لے تو چونکہ وہ پہلے ہی مرزا قادیانی کو نبی مان چُکا ہوگا لہٰذا وہ ایسی چیزوں سے کوئی نتیجہ نکالنے کی بجائے اپنے علماء سے برین واشنگ کا طالِب ہوگا۔ اُسے وہ ضرور مل جائے گا جو اُسے چاہیے لیکن حق تو نیوٹریلیٹی مانگتا ہے۔
اب میں سوچتا ہُوں کہ اگر میں لمبا عرصہ ایتھیسٹ نہ رہا ہوتا تو ایمان سے ہمیشہ ناآشنا ہی رہتا۔ مجھے خُوشی ہے میں نے اسلام کو بھی ابتدا میں ویسے ہی لادین رہ کر جانچا جیسے دوسرے مذاھب کو جانچا۔
خیر ابھی اُسی وقت کی بات کرتے ہیں جب میں نے اپنی ڈگری کے لیے بطور ایتھیسٹ قادیانیت، بدھ مت، سکھ مذھب اور ہندو دھرم کا لٹریچرریویُو شروع کیا۔
میرے سُپروائزر ڈاکٹر سُکھبیر نے مجھے سمجھایا کہ کسی بھی مذھب کے ماننے والوں کے ایمان اور اعمال سے اُس مذھب کی حقیقت کا علم نہیں ہو سکتا، مذاھِب پر کی گئی تنقید پر بھی دھیان دینے کی ضرورت نہیں. بلکہ خالی ذھن کے ساتھ مذاھب کے بانیوں کے اپنے الفاظ یا اُنکی جانِب سے خالِق کے الفاظ کے طور پر پیش کیے گئے الفاظ یعنی مذاھب کی الہامی کتابیں کہلانے والا ڈائریکٹ سورس ہی تقابُلِ ادیان میں ہمارا مطلُوبہ لٹریچر ہو گا. جب ایک بار یہ مکمل طور پر ریویُو کر لیا جائے تب اس میٹیریل کی کمزوریاں سب سے پہلے ان مذاھب کے الگ الگ فرقوں کے باہمی تفرقے کی نوعیت سے عیاں ہونگی۔
میں نے لٹریچر ریویُو سے پہلےمذاھب کو جانچنے کے بارہ پیرا میٹرز بنائے تھے۔ پہلا یہ کہ وہ فرد کے مقصد اور کائنات سے اُسکے تعلُق کی کیا وضاحت کرتا ہے۔
دوسرا پیرا میٹر اُس مذھب کے پیغمبر کو اُسی مذھب کے بتائے ہُوئے مقصد کے پیمانے پر تولنا ہے۔
دیگر پیرا میٹرز میں معیشیت ، معاشرت، انصاف، سیاست، دیگر انسانوں اور مخلُوقات سے مُتعلق اُس مذھب کے دیے گئے رہنُما اُصولوں کو انسانیت کے نالج اور مجموعی علم اور یُونیورسل اکارڈ آف موریلیٹی کی چھلنی سے گُزارنے کے ساتھ ساتھ اُس مذھب کے تصوّرِ خُدا اور انسان کا اِس تصور میں فِٹ ہونا دیکھنا اور ایسے سوالات شامل تھے جنہیں تقدیر، صبر، توکُل وغیرہ جیسے عُنوانات کے تحت رکھا جاتا ہے۔
میرے سُپروائزر نے ایک اور پیرا میٹر میری لِسٹ میں شامل کیا جس سے ملتا جُلتا لفظ آپکے ہاں تزکیۂ نفس ہے۔
ڈاکٹر سُکھبیر کا کہنا تھا کہ کسی مذھب کی اپنے ماننے والوں کے تزکیۂ نفس کی طاقت اُسکی سب سے بڑی سٹرینگتھ ہے۔
کمپیریٹیو ریلیجَن کے پروگرام کے دوران پہلا سمسٹر انڈیا میں جنم لینے والے دو مذاھب کے لٹریچر ریویو کا تھا، قادیانیت انمیں سے ایک تھی۔ اس ضمن میں کسی قادیانی مُربی سے تو ملاقات ہو ہی جاتی تھی, انکے خلیفہ سے بھی مُتعدد ملاقاتیں ہُوئیں, انکے خلیفہ کے خصوصی مہمان کی حیثیت سے انکے جلسۂ سالانہ میں شرکت کا موقع بھی ملا، میرے دن کے چار حصے ہوتے تھے. جس میں سے ایک حصہ ساؤتھ ہال کے ایک گوردوارے میں گروگرنتھ سمجھتے اور دوسرا قادیانیوں کے بیتُ الفتح میں قادیانیت پر ریسرچ میں گُزرتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سکھوں کی گروگرنتھ نے مجھے اپنے عشق میں گرفتار کر لیا, لیکِن مرزا غلام احمد قادیانی کا لکھا ہر لفظ پڑھنے کے باوجُود میں یہ نہیں جان پایا کہ وہ بطور نبی اپنے علاوہ ایسا کیا لائے کہ نبُوّت سے انصاف ہو۔
مرزا غلام احمد قادیانی کی ہر تحریر بس خُود مرزا کی عظمت اور انکے دشمنوں کی مذمّت سے بھری ہے۔ مرزا قادیانی کا ان کتابوں میں بتایا ہُوا خُدا بھی ایک ایسی عجیبُ الخلقت شخصیّت نظر آتا ہے جو مرزا قادیانی کی عقل سے سوچتا, اسی کی آنکھوں سے دیکھتا اور اسی جیسی زبان میں اسی کے دشمنوں کو کوستا دکھائی دیتا ہے۔
سکھوں کی گُرو گرنتھ دُنیا بھر کے مذاھب سے اکٹھی کی گئی اعلیٰ ترین اخلاقیات کا مجمُوعہ تو ہے, لیکن اسے ایک خُوبصورت انسانی کوشش کے علاوہ کُچھ نہیں کہا جا سکتا. پھر بھی اسکی بُنیاد پر ایک قوم اور معاشرے کی بُنیاد مضبوط ضرور رکھی جاسکتی ہے. البتّہ یہ بھی ریاستی نظام دینے کا پُوٹینشل نہیں رکھتی ہاں انفرادی تزکیۂ نفس کا سامان اس میں بھرا پڑا ہے۔
لیکن قادیانیت کے مبیّنہ نبی کی تصنیفات دیہی علاقے کے ایک ایسے مغرور شخص کی آپ بیتی لگتی ہیں جسے کائنات اپنے خالق سمیت اپنے ہی گرد گھُومتی نظر آتی ہے۔
اب کئی مذاھب سٹڈی کرنے کے بعد میں یقین سے کہہ سکتا ہُوں کہ قادیانیت دُنیا کا سب سے کنفیوزڈ اور کمزور بُنیادوں والا مذھب ہے۔
اسلام، یہُودیت، عیسائیت، ہندواِزّم، بُدھ اِزّم اور دیگر تمام مذاھِب کوئی نہ کوئی واضع اِنفرادیت اور تھیوریٹکل بیانیہ ضرور رکھتے ہیں جو ان مذاھِب کے ماننے والوں کی معاشرت، معیشیت، سیاست اور عدالت سمیت نہ صرف زندگی کے ہر شعبے پر اثرات مُرتّب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ اِن میں سے ہر مذھب اپنے ماننے والوں کے سامنے ایک ایسا مُنفرِد ورلڈ وِیُو بھی رکھتا ہے جو انکے ماضی اور حال کا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ مُستقبل میں بھی بحیثیت قوم انہیں کسی مخصُوص پُوزیشن کا خواب دے سکے۔
لیکن قادیانیت کے ماضی اور حال سے تو کنفیوثین جھلکتی ہی ہے اِس کی معاشرت، معیشیت، سیاست اور عدالت سمیت زندگی کے ہر شُعبے حتّیٰ کہ بحیثیت قوم ورلڈ ویُو اور مُستقبل کا مدار بھی مرزا غُلام قادیانی کی فیملی کے افراد تک محدود ہے۔
آپ اسلام، یہُودیت، عیسائیت، ہندواِزّم، بُدھ اِزّم یا سکھ ازم کے ماننے والے کسی بھی صاحبِ علم سے اُنکے مذھب کے ضروری اجزا کو ایک فقرے میں بیان کرنے کو کہیے, سبھی مذاھب کے لوگ یہ کر سکیں گے لیکن بڑے سے بڑا قادیانی عالم بھی اپنے ضروری مذھب کو ایک فقرے میں بیان نہیں کر پائے گا. کرنے کی کوشش کر بھی لے تو اسکی بیان کردہ وضاحت میں یہ نُکتہ واضع نہیں ہو پائے گا کہ انکے مُبیّنہ نبی مرزا غُلام قادیانی کی وہ کونسی تعلیم ہے جو اسلام میں نہ بھیجی جاسکی اور جِسکے رہ جانے کے باعث اللہ کو نئے نبی کے بھیجنے کی ضرورت پیش آئی۔
آپ کسی سِکھ سے پُوچھ لیجیے کہ بدھ ازم اور ہندوازم میں کیا کمی تھی جو گُرونانک کی ضرورت پیش آئی وہ گُرونانک کا جُداگانہ مُنفرد نظریہ فوراََ بیان کر دے گا جو واقعی بدھ ازم اور ہندوازم سے نوّے ڈگری مُختلف ہوگا۔
آپ کسی بُدھ سے پُوچھ لیجیے ہندوازم میں کیا کمی تھی جو گوتم بُدھ کی ضرورت پیش آئی وہ گوتم بُدھ کا جُداگانہ مُنفرد نظریہ فوراََ بیان کر دے گا اور آپ آسانی سے جان لیں گے کہ گوتم بُدھ کیا نیا لائے جسکی ہندوازم میں کمی تھی۔
آپ عیسائیوں سے پُوچھ لیجیے کہ یہُودیوں کے ہاں اتنے نبیؑ آچکے تھے پھر عیسیٰؑ کے آنے کی کیوں ضرورت تھی وہ تسلی بخش جواب دیں گے۔
آپ کسی ذہین مسلمان بچے سے پُوچھ لیجیے یہُودیت اور عیسائیت کے ہوتے ہُوئے ایک نئے نبی حضرت محمدﷺ کو بھیجے جانے کی کیا ضرورت تھی وہ ایک فقرے میں محمدﷺ کا لایا ہُوا دین بیان کر کے یہُودیت اور عیسائیت سے اسلام کا فرق بیان کر دے گا.
اور اس وضاحت سے یہ خُود ہی ثابت ہو جائے گا کہ یہُودیت اور عیسائیت کے ہوتے ہُوئے ایک نئے نبی حضرت محمدﷺ کو بھیجے جانے کی کیا ضرورت تھی۔
اب آپ کسی قادیانی سے پُوچھیے کہ بھیّا حضرت مُحمدﷺ سے دین کی تکمیل میں ایسا کیا رہ گیا تھا کہ ایک نئے نبی کی ضرورت پیش آئی اور آپکے مُبیّنہ نبی مرزا غُلام قادیانی آخر کیا لائے ہیں ایک کی بجائے سو فقروں میں وضاحت کریں۔
بڑے سے بڑا قادیانی عالم بھی سو فقروں میں اپنی دیگر مذاھب سے فرق بیان کیسے کرے جب اُنکا مُبیّنہ نبی مرزا غُلام قادیانی اُنانوے تصانیف لکھ کر اپنی بطور نبی آمد کی ٹھوس وجہ بیان نہیں کرپایا۔
لہٰذا جواب دینے کی بجائے قادیانی عالم آپ سے اُلٹا سوال کرے گا کہ یہ بتائیے آپکے خیال میں حضرت عیسیؑ فوت ہوچکے یا زندہ ہیں۔
آپ اس سوال کا جو بھی جواب دیں ایک ایسی الف لیلیٰ شروع ہو گی کہ ہندو رامائن کی کہانیاں آپ کو آسان اور مختصر لگنے لگیں گی.آخر میں آپ سر پیٹ لیں گے جب آپکو یہ پتا چلے گا کہ مرزا غُلام قادیانی کا تو عیسیؑ ہونے کا بھی دعوٰی نہیں ہے۔