تاريخ
تاریخ کا جبر-چارلس كي تاجپوشي
ابوالحسين آزاد-عامر عبداللہ
سلطنتِ روماکے ایک ادنی سے گورنر نے آج سے دو ہزار سال قبل جب یروشلم کے ایک محلے میں صلیب نصب کی اور مسیح کو قتل کرنے کی کوشش کی تو اس وقت یہ ایک اتنی معمولی سی خبر تھی کہ قیصر کی ناک سے مکھی بھی نہ اڑی۔ روم تو کجا یروشلم کی مضافاتی بستیوں کو بھی پتہ نہ چلا۔ بعد کے تین سو سالوں تک یورپ میں "مصلوب یہودی" کے استہزائیہ لقب کے سوا مسیح کی کوئی شناخت نہ تھی۔ اس کے ماننے والے تین صدیوں تک جان بچاتے اور جاے پناہ ڈھونڈتے پھرتے رہے۔
مسیحیوں کی دعوتی سرگرمیاں جاری رہیں یہاں تک کہ قسطنطینِ اعظم نے مسیحیت قبول کر لی۔یہ دن یورپ کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز تھا۔ جس میں آگے چل کرایک دن وہ بھی آیا جب رومی شہنشاہ تھیوڈوسیس اپنی کسی غلطی کی معافی مانگنے پوپ کے ہاں آیا تو پادری نے اسے اس وقت تک چرچ میں داخل نہ ہونے دیا جب تک اس نے مجمعِ عام کے سامنے معافی نہ مانگ لی۔ مؤرخ چیخ اٹھا: "غضب ہے کہ جولیس سیزرکے جانشین کی ایک پادری کے ہاتھوں یہ ذلت ہو اور تمام رومی فوجوں کا سردار "مصلوب یہودی" کے جانشین کے آگے سرنگوں ہو۔"(اے جے گرانٹ: تاریخ یورپ، ص 189)
اگلے سترہ سو برسوں تک قیصر کی ساری سلطنت اسی "مصلوب یہودی" کو خدا کا بیٹا بنا کر پوجتی رہی۔ وہی صلیب جس پر بقول بائبل مسیح ناصری کئی گھنٹوں تک "ایلی ایلی لما شبقتنی" کی دہائی دیتا رہا لیکن کوئی اس کی مدد کے لیے نہ بڑھا، وہی صلیب قیصر کی سلطنت کی مقدس ترین رمز بن گئی۔ مریم کا وہی بے یار و مددگار بیٹا جو کبھی کبھی اپنے حواریوں سےاپنی بے کسی کا شکوہ کرتے ہوئے کہتا تھا:"لومڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرندوں کے گھونسلے لیکن ابن آدم کے لیے سردھرنے کی جگہ نہیں۔" پسِ مرگ معبودوں کی صف میں جاکر کھڑا ہوگیا۔ آج دو ہزار سال بعد بھی قیصرکا جانشیں اسی مسیح کی سوانح عمری پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھا رہا ہے، فضا میں مریم کے بے آسرا بیٹے کی عظمت کے نغمے گونج رہے ہیں، قیصر کا تاج مریم کی شبیہ کے قدموں میں پڑا ہے اور شاہِ برطانیہ "مصلوب یہودی" کو آواز لگا کے کہہ رہا ہے:"اے بادشاہوں کے بادشاہ! اے آقاؤں کے آقا! اپنے ادنی سے خادم چارلس کی مدد فرما۔"
کیا تاریخ سے بڑا فسانۂ عجائب اور طلسم ہوشربا کوئی لکھ سکتا ہے۔کیا الف لیلہ کی داستانیں اس کہانی کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔ کیا مارک ٹوین نے غلط کہا تھا:".Truth is stranger than fiction"
چارلس كي تاجپوشي
عامر عبداللہ
برطانوی بادشاہ چارلس کی تاجپوشی ہر چینل پر دکھائی جارہی تھی۔ بچوں کو چھٹی کے دن بوریت سے بچانے کے لیے سوچا کچھ ان کی معلومات ہی میں اضافہ کیا جائے اس لیے جن رسوم کی تاریخ یاد تھی ساتھ میں انہیں بتاتا گیا۔ میرے لیے دلچسپی کی حامل وہ رسم تھی جس میں بادشاہ کے تمام شاہی کپڑے اتار کر محض ایک سادہ کرتے میں اسے قربان گاہ کے آگے پردے میں بٹھایا گیا اور پھر بڑے پادری نے ان کے سر اور سینے پر مقدس خوشبو دار تیل ملا۔ یہ رسم قدیم زمانے سے بادشاہت کا اعلان کرنے کے لیے بنی اسرائیل اور دوسری قوموں کے ہاں رائج تھی۔
ان کی تاریخ بتاتی ہے کہ داؤد علیہ السلام کی نبوت کا اعلان سیموئیل نبی نے ایسے ہی کیا تھا۔ جب داؤد علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان کے بیٹے ایبسولوم نے بغاوت کردی۔ اس نازک موقع پر سلیمان علیہ السلام کی بادشاہت کا اعلان کرنے کے لیے داؤد علیہ السلام نے پیش امام زیڈوک کو حکم دیا جنہوں نے سلیمان علیہ السلام کے سر اور سینے پر مقدس تیل ڈال کر پبلک میں اعلان کیا۔ سلیمان علیہ السلام نے مسجد اقصی کی تعمیر کی تو انہی زیڈوک کو اس کا پہلا پیش امام مقرر کیا۔ یہ زیڈوک حضرت ہارون علیہ السلام کی نسل میں سے تھے اور توحید کے باب میں یہ اور ان کی اولاد نمایاں تھی اور بعد کے پیغمبروں نے اس پورے خانوادے کی تعریف کی ہے۔ کل کی تقریب میں اس رسم کی انجام دہی کے دوران جو گیت گایا جارہا تھا اس کا عنوان ہی “زیڈوک دا پریسٹ” ہے جس میں سلیمان علیہ السلام کی تاجپوشی کا ذکر ہے۔
پس تحریر: پروفیسر Taimia Sabiha صاحبہ نے توجہ دلائی کہ عربی میں زیڈوک کو صدوق کہتے ہیں جس کے معنی سچے کے ہیں۔ شکریہ