تاريخ
اقبال کو پیش کردہ وظائف کی حقیقت
ڈاکٹر اعجازالحق اعجاز
ہر آئے روز اقبال کے کچھ مخالف برائے مخالف ان پر وظیفہ خواری کا الزام لگاتے رہتے ہیں اور انھیں دولت دنیا کا طلب گار ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اقبال کوئی پیغمبر یا فرشتہ نہ تھے کہ انھیں معصوم عن الخطا ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جائے۔واضح رہے اقبال کی تمام تر عظمت ان کے فرشتہ ہونے میں نہیں بلکہ بشر ہونے ہی میں ہے۔ اقبال نے عمر کے آخری عمر میں جو وظائف قبول کیے ان کی اصل حقیقت کیا ہے ؟؟ کیا اقبال ایک جاہ طلب شخص تھے اور ان کی تلقین غزالی فقط دوسروں کے لیے تھی اور وہ خود بڑے ٹھاٹھ کی زندگی بسر کرتے تھے یعنی وہ دو قطبیت (bipolarity) کا شکار تھے ؟؟؟ پہلا سوال تو یہ ہے کہ اقبال ساری زندگی وظائف کے سہارے ہی زیست کرتے رہے ؟ اور دوسرا یہ کہ اقبال نے انگریز حکومت سے کوئی وظیفہ لیا؟۔ حقیقت یہ کہ اقبال نے تعلیم حاصل تو اپنے بڑے بھائی کے مالی تعاون کی وجہ سے۔ مگر حصول تعلئم کے بعد اپنے معاش کا خود بندوبست کیا۔ پہلے وہ اورینٹل کالج میں میکلوڈ عربک ریڈر مقرر ہوئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھاتے رہے۔ یورپ سے واپسی پر وکالت کرنے لگے۔ اس دوران انھوں نے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے، اپنی قومی خدمات کا کسی سے صلہ طلب نہیں کیا۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ قوم کی نابغہ روزگار شخصیات، شاعروں اور ادیبوں کو ویسے ہی فکر معاش سے آزاد کر دینا چاہیے تاکہ وہ پوری یک سوئی سے خدمات انجام دے سکیں۔ غالب کو پنشن کے حصول کے لیے کیا کیا پاپڑ نہ بیلنے پڑے۔ اقبال ایک خوددار انسان تھے۔ انھوں نے کبھی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے اور نہ کسی کو کبھی وظیفے کے لیے درخواست گزار ہوئے۔ ان کو بہت سے معاشی مسائل سے گزرنا پڑا مگر انھوں نے یہ مسائل خود ہی جھیلے، کسی سے ذکر تک نہ کیا۔ ان کے خاص دوستوں کو ان کی اس صورت حال کا علم تھا۔ زندگی کے آخری چار سال اقبال کا زیادہ تر وقت مختلف بیماریوں میں بسر ہوا۔ وکالت کا سلسلہ تقریباً مفقود ہو کر رہ گیا۔ کوئی اور ذریعہ معاش بھی نہ تھا۔ سر علی امام نے اقبال سے کہا کہ وہ انھیں مہا راجہ الور سے وظیفہ دلا دیتے ہیں۔ اقبال نے صاف انکا ر کر دیا کہ وہ بغیر کام کیے وظیفہ نہ لینا چاہتے تھے۔ سر علی امام نے اقبال کو راضی کر کے مہاراجہ الور سے ان کی ملاقات کا اہتمام کیا تا کہ ملازمت کے لیے بات ہو جائے۔ چناں چہ اقبال الور چلے گئے۔ وظیفے کے لیے نہیں بلکہ ملازمت کے لیے۔ اقبال کی ملاقات مہا راجہ سے ہوئی، مہا راجہ نے انھیں اپنے پرائیویٹ سیکرٹری کے لیے آفر کی۔ مگر اقبال اس ملازمت کے لیے راضی نہ ہوئے۔ اس کی ایک وجہ تو اقبال کے نزدیک یہ تھی کہ مہاراجہ کی باتوں سے انھیں یہ تاثر ملا کہ وہ اقبال پر کوئی احسان کر رہے ہیں۔ اقبال کی طبیعت مہا راجہ کی باتوں سے مکدر ہو گئی۔ دوسرے یہ کہ تنخواہ اقبال کی توقع سے کم تھی۔ اقبال کے بقول:ـ ’’اگرچہ جو رقم پیش کی گئی وہ میری ذاتی ضروریات سے زیادہ ہے تا ہم میرے ذمے اوروں کی ضروریات کو پورا کرنا بھی ہے۔ اس واسطے اِ دھر اُ دھر کی دوڑ دھوپ کرنے کی ضرورت لاحق ہوتی ہے۔ گھر بھر کا خرچ میرے ذمے ہے۔ بڑے بھائی جان جنھوں نے اپنی ملازمت کا اندوختہ میری تعلیم پر خرچ کر دیا اب پنشن پا گئے ہیں، ان کے اور ان کی اولاد کے اخراجات بھی میرے ذمے ہیں اور ہونے بھی چاہئیں۔‘‘
حیدر آباد دکن کے وزیر اعظم سر کشن پرشاد نے اقبال سے کہا کہ: ’’میں سمجھتا ہوں کہ آپ ایسے آدمی کو فکر معاش سے آزاد ہونا چاہیے۔ اگر آپ منظور کریں تو ایک معقول وظیفے کا اہتمام ہو سکتا ہے۔‘‘ علامہ کا جواب آب زر سے لکھے جانے کا مستحق ہے۔ انھوں نے فرمایا:ـ ’’آپ کی فیاضی کہ زمان و مکاں کی قیود سے آشنا نہیں مجھ کو ہر شے سے مستغنی کر سکتا ہے مگر یہ بات میری مروت اور دیانت سے دور ہے کہ اقبال آپ سے ایک پیش قرار تنخواہ پائے اور اس کے عوض میں کوئی ایسی خدمت نہ کرے جس کی اہمیت اس مشاہرے کے بقدر ہو۔‘‘
یہ جنوری1938 ء کی بات ہے جب اقبال بہت بیمار تھے۔ ان کی آنکھیں جواب دے چکی تھیں۔ سید نذیر نیازی ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ علامہ نے انھیں دیکھتے ہی کہا کہ کچھ اشعار ہوئے ہیں۔ انھیں بیاض میں نقل کر دیجیے۔ علامہ انھیں اشعار لکھوانے لگے ۔ آخری شعر یہ تھا:
غیرت فقر مگر کر نہ سکی ا س کو قبول
جب کہا اس نے یہ ہے میری خدائی کی زکات
نیازی صاحب نے پوچھا کہ ان اشعار کی شان نزول کیا ہے؟ تو علامہ نے جواب میں کہا کہ ’’سر اکبر حیدری صدر اعظم حیدر آباد دکن نے یوم اقبال کے موقع پر مجھے ایک ہزار روپے کا چیک بھیجا تھا جس کے سرنامے کے الفاظ یہ تھے: ’’یوم اقبال کے موقع پہ حضور نظام کے توشہ خانہ سے جو صدر اعظم کے ماتحت ہے۔‘‘ مگر میری غیرت نے گوارا نہ کیا کہ اسے قبول کروں اس لیے چیک واپس کر دیا، یہ اشعار اسی تاثر کا نتیجہ ہیں۔
اقبال کی عمر عزیز کے اسی آخری دور کی بات ہے کہ سر راس مسعود نے اقبال کو آگاہ کیے بغیر بھوپال کے نواب حمید اللہ خان سے ان کے وظیفے کی بات کی۔ نواب حمیداللہ جو اقبال سے بہت عقیدت رکھتے تھے ان سے درخواست کی کہ وہ یہ وظیفہ قبول کر لیں۔ علامہ نے وظیفہ لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر آپ خدمت کرنا ہی چاہتے ہیں تو اس کے بدلے میں ان سے کوئی کام لے لیں۔ چناں چہ ان کو قرآن پاک کی تفسیر کا کام سونپا گیا جس پر اقبال ماہوار پانچ سو روپے قبول کرنے پر راضی ہوئے۔ جب یہ وظیفہ آنے لگا تو سر راس مسعود نے سر آغا خاں سے بھی ایک اور وظیفے کی بات شروع کی تا کہ اقبال کی مزید معاونت ہو سکے تو اقبال نے انھیں سختی سے منع فرما دیا اور کہا کہ ’’میں کوئی امیرانہ زندگی کا عادی نہیں، بہترین مسلمانوں نے سادہ اور درویشانہ زندگی بسر کی ہے۔ ضرورت سے زیادہ کی ہوس کرنا روپے کا لالچ ہے جو کسی طرح بھی مسلمان کے لیے شایان شان نہیں۔‘‘ اسی طرح ریاست بہاولپور سے جو وظیفہ اقبال کے آخری ایام میں ان کو ملتا تھا تو نواب صاحب علامہ کے بہت اچھے دوست تھے۔ اقبال ان کی دین داری اور تعلیمی خدمات کو بہت پسند کرتے تھے اور یہ ایک دوست کی دوسرے دوست کو مدد تھی۔ پھر بھی اقبال اس کے جواب میں کوئی نہ کوئی علمی خدمت انجام دینا چاہتے تھے مگر ان کی زندگی نے ان سے وفا نہ کی۔
اقبال کا ساری زندگی یہ طریق رہا کہ وہ اتنا ہی کماتے جتنا ان کے محدود اخراجات کے لیے ناگزیر ہوتا۔ جب وکالت کرتے تھے تو ماہانہ ایک آدھ کیس سے زیادہ نہ لیتے یعنی اتنے جن میں ان کا مہینہ گزر جاتا۔ اس سے زیادہ کا ان میں لالچ نہ تھا۔ وہ فطری طور پر ایک مستغنی شخص واقع ہوئے تھے۔ آخری سالوں میں انھوں نے چند ایک کپڑے کے جوڑوں میں بسر کردی۔ ان کی ذاتی ضروریات بے حد محدود تھیں۔ ارتکاز دولت کی طرف ان کی طبیعت کبھی مائل نہ رہی۔