تاريخ
پاکستان بننے کے بعد پہلی ایف آئی آر
محمد موسي جوكھيو
18 اگست 1947 کو پاکستان کا پہلا بدترین اور نا انصافی پر مبنی سچا واقعہ
پٹواری اور شاعر محمد خان ہمدم کا تعلق سندھ کے ایک ٹاؤن ماتلی ضلع بدین سے تھا۔ وہ ایک نیک، سچا مذہبی پنج وقت کا نمازی اور تہجد گزار انسان تھا، محکمہ ریوینیو کراچی میں پٹواری کی حیثیت سے تعینات تھا۔17 اگست 1947 کو پاکستان آزاد ہوچکا تھا۔ 18 اگست 1947کو ماہِ رمضان میں قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان اور ملک کی اعلیٰ قیادت کو کراچی میں نماز شکرانہ ادا کرنی تھی، اعلیٰ افسر شاہی کی طرف سے ریوینیو والوں کو مرکزی عیدگاہ کی صاف صفائی کا حکم ملا تا کہ مناسب طریقے سے نماز شکرانہ کا انتظام کیا جا سکے۔محمد خان ہمدم کی سربراہی میں عیدگاہ کی صفائی کا کام کیا گیا۔ اسی دوران محمد خان ہمدم کو یہ خیال آیا کہ وہ بھی پہلی صف میں محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے ساتھ نماز ادا کرے گا یہ اس کی دلی تمنا بن گئی۔جب نماز کا وقت قریب آیا تو ڈپٹی کمشنر اور تحصیل دار انتظامات کا آخری جائزہ لینے کے لیے مرکزی عیدگاہ پہنچے۔ اسٹاف کو حکم ہوا کہ پہلی اور دوسری صفیں خالی ہونی چاہییں، پہلی صف میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان اور سردار عبد الرب نشتر اور دوسری صف میں پاکستان کے بیوروکریٹس اور دیگر اعلیٰ افسران ہوں گے، باقی پچھلی صفوں میں خلق خدا نماز ادا کرے گی۔یہ اعلان سنتے ہی محمد خان ہمدم نے سوچا کہ اسلام میں ایسا کچھ نہیں کہ حکمران اور عوام کاندھے سے کاندھا ملا کر نماز نہ پڑھ سکیں، یہ کیا مذاق بنا رکھا ہے! اس غریب کی بات بھی درست تھی کہ واقعی اسلام میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔ اگر حکمران دیر سے آئے اور اگلی صف میں جگہ نہ ہو تو پیچھے بھی نماز پڑھ سکتا ہے، اس میں کوئی حرج بھی نہیں اور نہ ہی یہ کسی کتاب میں لکھا ہے مگر یہاں تو قصہ ہی اور تھا۔
بہرحال جیسے ہی نماز کا وقت قریب ہوا، تحصیل دار نے پھر سے اگلی صفوں کا جائزہ لیا، پہلی صف میں محمد خان ہمدم تنہا کھڑا تھا جبکہ دوسری صف خالی تھی، تحصیل دار نے محمد خان سے کہا یہاں سے نکلو اور پیچھے کسی صف میں جا کر کھڑے ہوجاؤ، یہاں اعلیٰ قیادت نماز ادا کرے گی۔ اس نے کہا کہ اسلام میں یہ فرق نہیں ہے، میں جناح صاحب کے ساتھ پہلی صف میں ہی نماز ادا کروں گا، کچھ ہی دیر میں اے سی صاحب آئے اور تحصیل دار کو حکم دیا کہ پہلی صف میں جو شخص کھڑا ہے اسے وہاں سے فوراً ہٹا دیا جائے، مگر ہمدم صاحب پر ایک ہی بھوت سوار تھا کہ دین اسلام میں ایسی کوئی تفریق نہیں ہے، میں سب سے پہلے پہنچا ہوں اس لیے پہلی صف میں قائد کے ساتھ نماز ادا کرنا میرا حق ہے، یہاں سے مجھے کوئی نہیں ہٹا سکتا!اس دوران میں کمشنر صاحب بھی آ گئے، انہیں بھی اس صورت حال سے آگاہ کیا گیا کہ یہ صاحب اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں کہ جناح صاحب کے ساتھ نماز پڑھوں گا۔کمشنر نے سیکورٹی کے عملے کو حکم دیا کہ اس کا دماغ خراب ہے اسے مار کر ایسی جگہ پھینک آؤ کہ آج یہ یہاں دوبارہ نظر نہ آئے۔ حکم کی تعمیل ہوئی؛ سیکورٹی والے کتوں کی طرح اس پر چڑھ دوڑے۔ اسے لہو لہان کردیا اور پھر کتے پکڑنے والی گاڑی میں ڈال کر اسے منگھو پیر والے علاقے کے ویرانے میں پھینک آئے۔ہمدم صاحب وہاں بے ہوش پڑے تھے کہ ایک چرواہے کی نظر ان پر پڑی ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مار کر وہ انہیں ہوش میں لایا
مختصر حال احوال کے بعد ہمدم نے اس سے کہا کہ مجھ پر ایک مہربانی کرو، مجھے کسی طرح میرے گھر پہنچا دو۔ اس چرواہے نے اسے کسی گاڑی میں ڈال کر اس کے گھر پہنچا دیا۔اس کی بیوی نے یہ خون آلود کپڑے اور جسم پر تشدد دیکھا تو پوچھا کیا ہوا؟ تمہارے ساتھ ایسا کس نے کیا ہے؟ہمدم نے اپنی بیوی کو بتایا کہ مجھے پہلی صف میں قائد اعظم کے ساتھ پاکستان کی آزادی کی نماز شکرانہ ادا کرنے کی خواہش کی سزا ملی ہے، قصہ بہت بڑا ہے، اب تو میرا حشر اور برا ہونے والا ہے، باقی باتیں بعد میں ہوں گے تم پہلی فرصت میں یہاں سے واپس ماتلی چلی جاؤ، ابھی جاسوس سونگھتے سونگھتے یہاں پہنچنے والے ہوں گے مجھے نہیں چھوڑیں گے، مجھ پر کئی کیس بنیں گے، شاید میری پوری عمر ہی جیل میں گزارنی پڑے، تم فورًا نکل جاؤ۔اسی شب محمد خان ہمدم کے گھر پر پولیس نے چھاپہ مارا اور اس کے خلاف قائد اعظم اور لیاقت علی خان پر قاتلانہ حملے کی پاکستان کی پہلی ایف آئی آر کاٹی گئی جس میں ملک دشمنی اور جاسوسی کی دفعات بھی لگائی گئیں۔یہ خبر میڈیا میں بھی آئی اور اسے گرفتار کر کے سینٹرل جیل بھیج دیا گیا، چار سال تک کیس چلتا رہا اور اسے پھانسی کی سزا سنائی گئی۔اس کے دوستوں نے سزا کے خلاف اپیل دائر کی۔ اسی دوران ملک کی سلامتی کے خلاف کا ایک مقدمہ دائر ہوا جس میں نامور شاعر فیض احمد فیض کو گرفتار کر کے کراچی جیل لایا گیا، محمد خان کو جب معلوم ہوا کہ فیض احمد فیض بھی جیل میں ہیں تو کسی طرح ان سے رابطہ قائم کیا اور ملاقات کی اور اپنا تعارف کرایا کہ میں بھی شاعر ہوں اور سارا قصہ بتایا۔ فیض نے اسے تسلی دی کہ گھبراؤ نہیں سب ٹھیک ہوجائے گا۔ فیض احمد فیض نے ہمدم سے کہا یار مجھے سندھی نہیں آتی، تم مجھے سندھی سکھاؤ۔ محمد خان فیض کو سندھی پڑھاتا رہا۔ اس دوران فیض نے اس کو ایک اعلی پائے کا وکیل کر کے دیا جس نے ہمدم کو سارے الزامات سے بری کرادیا، ساتھ میں نوکری بھی بحال ہوئی اور بقایاجات کی بھی ادائیگی بھی ہوئی۔اس نے فیض احمد فیض کا شکریہ ادا کیا اور جیل سے رہا ہو کر گھر پہنچتے ہی (بصد افسوس!) اپنی الماری سے قرآن پاک اور جائے نماز نکال کر کسی بچے کو دی کہ جا کر اسے مسجد میں رکھ آؤ، اور اس نے پہلی صف میں نماز پڑھنے سے ہمیشہ کے لیے توبہ کر لی۔اس تجربے کے بعد محمد خان ہمدم بڑا کمیونسٹ بن گیا اور اپنی ملازمت کے فرائض بہت دیانت داری سے ادا کرنے بعد ریٹائر ہوا۔
بحوالہ کتاب "اهي ڏينهن اهي نينهن"مصنف محمد موسیٰ جوکھیو کی سندھی کتاب سے ترجمہ