پاكستانيات
تنظيموں اور تحريكوں كا بننا اور بگڑنا
رعايت اللہ فاروقي
عمر کے 52 ویں سال سے گزر رہا ہوں۔ ان باون سالوں میں سپاہ صحابہ، ایم کیو ایم، لشکر طیبہ، حرکت المجاہدین، حرکت الانصار، جیش محمد، لشکر جھنگوی، اور تحریک لبیک وغیرہ بنتے اور بکھرتے دیکھ چکا ۔ یہ ان تنظیموں کے نام ہیں جنہیں ہماری اسٹیبلیشمنٹ نے وقتی ضرورت کے لئے بنایا اور پھر توڑ دیا۔ ان سب کے کارکنوں کو پکا یقین تھا کہ ان کی قیادت خلوص کے ساتویں آسمان پر ہے۔ مگر یہ لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ ساتواں آسمان اسلام آباد کے سیونتھ ایوینیو کے قریب واقع ہے۔ تنظیمیں بنا کر انہیں قومی سطح پر چلانا اتنا ہی آسان ہوتا تو اس ملک میں سبزی کی دکانوں سے زیادہ تنظیمیں ہوتیں۔ کسی بھی تنظیم کے قومی سطح پر نہ ابھر سکنے کاسبب اس کی قیادت کی ناقص حکمت عملی یا نالائقی نہیں ہوتی بلکہ "فنڈز" کی کمی ہی واحد مسئلہ ہوتا ہے۔ ورنہ پاکستان تو ایسا ملک ہے کہ یہاں آلہ تناسل کی زیارت کرانے والے پیر کو بھی مرید مل جاتے ہیں۔ تنظیم نانے کے لئے آپ کو ہر چھوٹے بڑے شہر میں دفاتر چاہئے ہوتے ہیں۔ ان کا کرایہ، ماہانہ یوٹیلیٹی بلز، کھانے پینے کے اخراجات۔ چوبیس گھنٹے کام کرنے والے عہدیداروں کی تنخواہیں اور چھوٹے شہروں میں سو ڈیڑھ سو ایسے ورکرز کے "وظیفے" جو روز دفتر کے چکر بھی کاٹا کریں اور بوقت ضرورت ایکشن میں آنے کے لئے بھی تیار ہوں۔ جو چھوٹے شہروں میں سو ڈیڑھ سو درکار ہوتے ہیں وہ بڑے شہروں میں پانچ سو سے ایک ہزار چاہئے ہوتے ہیں۔ پانچ سے دس ہزار میں پارٹ ٹائم ہائیر یہ مخلوق کس حد تک کار گر ہوتی ہے اس کا اندازہ اس سے لگا لیجئے ان میں سے ہر بندہ بوقت ضرورت پانچ دس دوست لے ہی آتا ہے۔ یوں ہجوم تخلیق ہونے کا انتظام ہمہ وقت موجود ہوتا ہے۔ پھر مرکزی قائدین کے گھر، ان کی گاڑیاں، گن مین، گاڑیوں کا پٹرول، جہازوں کے سیر سپاٹے۔ بیرون ملک کی سیر و تفریح یہ سب ملا کر یہ سالانہ ارب ڈیڑھ ارب کا بل بنتا ہے۔ وسائل کے بعد انتظار ہوتا ہے ٹاسک کا۔ جوں ہی انہی ایکشن میں آنے کا حکم ملتا ہے۔ ادھر یہ ایکشن میں آتے ہیں ادھر نامی گرامی کالم نگاروں اور اینکرز میں سے نصف کو یہ حکم دیدیا جاتا ہے کہ آپ ان کی حمایت کریں۔ باقی نصف سے کہا جاتا ہے کہ آپ تنقید کریں۔ یوں قومی میڈیا پر یہ فسادی چھا جاتے ہیں۔ تب نجم سیٹھی جیسا بندہ بھی یہ کہتا نظر آتا ہے کہ "لشکر چوں چوں کا مربہ " ایک ابھرتی طاقت ہے۔ یوں ابھر آتی ہے ایک نئی تنظیم۔
پھر ہوتا یہ ہے کہ ان کی قیادت کو ایک دن یہ خوش فہمی لاحق ہوجاتی ہے کہ وہ تو ایک بہت بڑی عوامی طاقت ہیں۔ سو یہ احساس ہوتے ہی یہ من مانی شروع کر دیتے ہیں۔ اپنی اوقات بھولنے لگتے ہیں۔ شروع میں انہیں ڈھیل دی جاتی ہے کہ چلو ذرا دکھا لو اپنی خود مختاری۔ جب یہ خوب دکھا چکتے ہیں تو پھر وہ انہیں کتوں کی طرح شکار کرنا شروع کردیتے ہیں۔ تب یہ ساری اکڑ بھول جاتے ہیں۔ نہ انہیں مہاجر حقوق یاد رہتے ہیں، نہ ناموس رسالت، نہ ہی وہ باقی سارے ایجنڈے جن کے نام پر انہیں کھڑا کیا گیا تھا۔ 52 برس میں میرا مشاہدہ یہ ہے کہ لشکر طیبہ کے سوا اسٹیبلیشمنٹ کی بنائی ہر تنظیم سرکش ہوئی ہے اور بالآخر پولیس مقابلوں میں ماری گئی۔ ان میں سے سب سے تیزی سے یہ تحریک لبیک فنا کے گھاٹ اتری نظر آرہی ہے۔ فی الحال انہیں چھترول پر رکھا گیا ہے۔ مگر میری یہ بات نوٹ کرلیں کہ اگر یہ صدق دل سے توبہ تائب نہ ہوئے تو ان کے بھی پولیس مقابلے طے سمجھئے۔ پابندی کا اگلا مرحلہ پولیس مقابلہ ہی ہوتا ہے۔ پاکستان کے سر ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہے۔ سو ریاست بصد شوق انہیں ٹھوک کر ایف اے ٹی ایف سے کہے گی -"دیکھا ہم نے تازہ انتہاپسندی کو بھی کیسے ٹھوکا ؟ نکالو اب ہمیں گرے لسٹ سے"سو نوجوانوں سے تو بات کرنا ہی بیکار ہے۔ انہیں میری باتیں سمجھنے میں ابھی پندرہ بیس سال اور لگیں گے۔ جو میری عمر یا اس سے اوپر کے ہیں ان سے درخواست ہے کہ اپنے بچوں کو سنبھال کر رکھئے۔ یہ نہ ہو یہ ناموس رسالت کے نام پر اسٹیبلیشمنٹ کے ایجنڈوں پر قربان ہوجائیں اور پھر روزنامہ امت کا روپورٹر آپ سے پوچھے"شہید کا باپ بن کر کیسا فیل کر رہے ہیں ؟"اور صرف یہی نہیں بلکہ اگلے دن رفیق افغان کلر پیج پر یہ خوش خبری بھی سنا رہا ہو"شہید کی قبر سے خوشبو پھوٹ پڑی"
یہ "چ٭٭٭پے" پاکستان میں عام سی بات ہیں۔ اپنے بچوں کو ان کی بھینٹ نہ چڑھنے دیں۔ "