قرآن میں بادشاہوں کی ایک بری خصلت یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ شہروں کو فتح کرتے ہیں تو نظام تلپٹ کر دیتے ہیں اور بلندیوں کو پست کر دیتے ہیں۔ احادیث میں اِس قسم کے الفاظ عام ملتے ہیں کہ خدا ایسے بادشاہ تم پہ مسلط کر دے گا جو تمھارے عزت والوں کو ذلیل کریں گے۔ ایسی احادیث کا ذکر فتحِ مکہ کے بیان میں خاص طور سے کیا جاتا ہے کہ جب آپ علیہ السلام نے فتح حاصل ہونے کے بعد مکہ میں قتلِ عام، عورتوں کو حلال کرنا، وغیرہ، جیسے وہ کام نہیں کرائے جو اُس دور میں فاتحین کا رواج تھا۔
یہ بات مشہور ہے کہ دنیا میں بادشاہوں کی تاریخیں اُن کے روزنامچوں کی مدد سے لکھوائی جاتی رہی ہیں۔ یہ بات جیسے مسلمان بادشاہوں کے لیے معروف ہے ویسے ہی باقی بادشاہوں کے لیے بھی درست ہے۔ اِن میں انیس بیس کا فرق اگر کہیں ہے بھی تو اُس سے سروکار نہ رکھنا میری اِس تحریر کے بنیادی مقصد کو گزند نہیں پہنچاتا۔ مسلمان اپنے پسند کے بادشاہوں اور خلیفوں کی حکومتوں کی تاریخ، عمومًا، اِسی طرح لکھتے سناتے ہیں جیسے کسی خوش اعمال بزرگ کی کھتاؤنی ہو۔ اپنے ناپسند اقتداراور کردار کے بارے میں البتہ اُن کا تنقیصی قلم خوب چلتا ہے۔ یہ ترتیب اسلام میں شروع ہی سے چلی آ رہی ہے اور کسی بھی بادشاہ کے خلاف عوامی غیظ و غضب کی کوئی عوامی لہر کم سے کم مسلمانوں میں اٹھتی نظر نہیں آتی۔ جنابِ عثمان کی مظلومانہ شہادت ہو یا جنابِ حسین کی عالمِ بے کسی کی شہادت، مدینہ میں عورتوں کا حلال کرنا اور مسجدِ نبوی میں گھوڑے باندھنا ہو یا مکہ میں ابنِ زبیر کی لاش کا لٹکتے رہنا، ایسے کسی موقع پر کوئی عوامی ردِ عمل تاریخ کے ریکارڈ پر نہیں ہے۔
مسلم عوام کا بادشاہوں کے خلاف بغاوت نہ کرنے کا یہ فعل علمائے اسلام کی کوششوں کا نتیجہ ہے جنھوں نے قیامت کے دن بدلہ ملنے کی ایسی ذہن سازی کر رکھی ہے کہ، از روئے تاریخ، چنگیز و ہلاکو کی فوج کی کوئی عام عورت دس مردوں کو یہ کہہ کر جاتی کہ تم یہیں بیٹھ کر میرا انتظار کرو، میں تلوار لے کر آتی ہوں تاکہ تمھیں پرلوک سدھار دوں، تو وہ مرد خدا سے جا ملنے تک اُس عورت کا وہیں پر انتظار کرتے رہتے۔
جوشِ خطابت میں بات ذرا دوسری طرف نکل گئی۔ مسلمانوں کو ''من لم یشکر الناس لم یشکر اللہ'' کے ذریعے اپنے اہلِ ثروت کو حاجت روا مان کر اُن کی خیر خواہی کرنے کی تعلیم شروع سے دی گئی ہے۔ نبی کریم علیہ السلام کا ارشاد منقول ہے کہ خیارکم فی الجاہلیہ خیارکم فی الاسلام۔ اِس واقعے کا تناظر پڑھ لیجیے تو یہ قریش کے مالدار دشمنِ اسلام ابوجہل کے بیٹے کے اسلام لانے کے موقع کا ہے۔ اِسی طرح مکہ کی فتح کے وقت شہر کے سب سے بڑے مالدار خاندان یعنی جنابِ ابوسفیان کے مال اور اُن کی سیاسی حیثیت کو بالکل بھی نہیں چھیڑا گیا بلکہ اُن کے گھر کو دار الامن قرار دے کر اُن کی سماجی حیثیت کا دفاع کرکے اُسے اسلام کی سربلندی و قدر میں اضافے کے لیے استعمال کیا گیا۔ حضرت عثمان کا ملکوں ملکوں پھیلا ہوا لمبا چوڑا کاروبار، حضرت ابوبکر کی ولایتی کپڑے کی تجارت اور ولایتی کپڑے کی مارکیٹ، اور سعد بن عبادہ و عبدالرحمٰن بن عوف کی لمبی چوڑی جاگیریں، وغیرہ، وہ چند چیزیں ہیں جن سے ہر کوئی واقف ہے۔ اِن میں سے کسی ایک بھی صحابی کو خدا نے یا رسولِ خدا نے، یا ازاں بعد خلافتِ مدینہ نے، کبھی کسی قسم کی sanctions کا ہدف نہیں بنایا۔ بلکہ ایک دن نمازِ فجر میں پہنچنے میں نبی کریم علیہ السلام کو تاخیر ہوگئی تو لوگوں نے جنابِ عبدالرحمٰن ابنِ عوف کو امام بناکر اُن کے پیچھے نماز شروع کر دی تھی اور نبی کریم نے اُن کے پیچھے ایک رکعت پڑھی۔ اُس دن جنابِ ابنِ عوف کو نماز کے لیے آگے کرنے کی وجہ سوائے اُن کے مالدار ترین انسان ہونے کچھ نہ تھی ورنہ اُن سے علم و تقویٰ میں بڑھے ہوئے کئی لوگ اُسی مجمع میں موجود تھے۔ الغرض ایسے واقعات کی لمبی فہرست ہے جن میں مالدار یا جاگیردار مسلمان کے مال اور اُن کی سیاسی حیثیت کو نہ صرف خراب ہونے سے بچایا گیا بلکہ اُس کی حفاظت بھی کی گئی۔ یہ اِس لیے تھا کہ یہ سب چیزیں اور شان و شوکت بالآخر اسلام اور اہلِ اسلام کی بہتری کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔ میں نے ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب کی آج کی پوسٹ ''کیا اسلام کا کوئی اپنا معاشی نظام ہے؟'' میں ایک جملہ پڑھا کہ ''حیرت کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی پوری تاریخ میں اِس اسلامی عوامی انقلاب کے لیے کوئی تحریک نہیں چلی بلکہ گستاخی معاف احبار و رہبان کی اکثریت اہلِ ثروت کے مفادات کے تحفظ کے لیے کوشاں رہی۔'' تو افسوس ہوا کہ وہ اسلام کی اِس بے نظیر بنیادی خوبی کو خرابی کے طور پر بیان کر رہے ہیں۔ یہ رویہ دراصل اُس معذرت خواہانہ (apologetic) رویے کی توسیع ہے جس کا اظہار ہمیں پڑھے لکھے اہلِ اسلام میں عام ملتا ہے جیسے جب بگ بینگ کا ذکر شروع ہوا تو بیشتر اہلِ اسلام اِسے قرآن سے ثابت کرنے لگے یا جب دنیا سے غلامی کو ختم کیا جانے لگا تو تقریبًا تمام ہی مسلمان اسلام کو تدریجًا غلامی ختم کرنے والا مذہب ثابت کرنے لگے یا جب عورتوں کے حقوق کا غلغلہ ہوا تو سب مسلمانوں کو اسلام میں عورتوں کو دی گئی آزادیاں یاد آنے لگیں یا جب عورتوں کی تعلیم کا شور اٹھا تو ڈھونڈ ڈھونڈ کر خواتین محدثینِ کرام پر کتابیں چھپنے لگیں۔ یاد رہنا چاہیے کہ اسلام اپنی ذات میں مکمل دین ہے نہ کہ ضرورتِ حادثہ کی پیداوار۔ ہمیں دنیا میں اٹھتی بیٹھی لہروں کو اسلام کی حقانیت کے لیے یا اسلام کی حقانیت کو دنیا کی اور خصوصًا سائنس کی ایجادات کے اِثبات کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
واضح رہنا چاہیے کہ اسلام کو مالدار سے کوئی تکلیف نہیں ہے اگر اُس کا مال خدا کے کنبے کی بہتری میں استعمال ہوتا ہو۔ ہاں، جن چیزوں سے اسلام نے روکا ہے اُن سے رکنا چاہیے مثلًا ذخیرہ اندوزی، استحصال، ملاوٹ، وغیرہ وغیرہ۔ اگر اِن اور ایسی خرابیوں سے مسلمان مالدار خود کو بچاتا ہے اور پیسے کو سرکولیشن میں رکھتا ہے جس سے سماج کے غریب لوگوں کو عزت و سہولت سے روزگار ملتا رہے، تو یہ اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔
اسلام نے آکر کسی چلتی ترتیب کو خراب قرار دے کر یکسر ختم نہیں کیا بلکہ سب چلتے نظاموں میں رفتہ رفتہ اصلاح (correction) ڈالی گئی جو آمدہ ضروریات کے مطابق تھی۔ نماز اور زکوٰۃ والی مثال اور حضرت عائشہ کی حدیث اِس بارے میں مشہور اور بیشتر لوگوں کو معلوم ہے۔ حکومت کا نظام بھی چل رہا تھا اور خلافتِ راشدہ کے دور میں ہر بار نیا خلیفہ نئے طریقے سے بنا کیونکہ مدینہ کے قبائلی سماج میں اب ایک خاندان کی وراثتی حکومت نہ تھی بلکہ ایک پھیلی ہوئی خاندانی حکومت تھی جس میں کئی سٹیک ہولڈر تھے۔ خدا کو قرآن میں نیا معاشی نظام دینے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ مدینہ میں چلتا ہوا معاشی نظام، ذرا سی اصلاح کے ساتھ، بالکل اسلام کے مطابق ہوگیا تھا یعنی اسلام لانے والے لوگ پہلے سے چلتے ہوئے معاشی نظام میں ایڈجسٹ ہوگئے تھے۔ چنانچہ اسلام جاگیرداری کی بھی حفاظت کرتا ہے اور سرمایہ داری کی بھی۔ اسلام میں زمینات کی ملکیت دینے اور اُن کی حفاظت کی کثیر نظیریں عام ملتی ہیں۔ ہاں، جہاں کہیں انسان کے استحصال کی کوئی صورت ملتی ہے، اسلام اُس کے تدارک کی کوئی صورت فوری طور پر پیش کرتا ہے۔ چنانچہ اسلام نہ تو مستقل سوشل ازم کی حمایت کرتا ہے اور نہ جاگیریں توڑنے کو پسند کرتا ہے۔
اسلام کے ماحول میں چلتے نظاموں کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت کا اندازہ صرف اِس بات سے لگا لیجیے کہ حضرت عمر جیسے ٹرینڈ سیٹر انسان کو دور دور پھیلی حکومت میں اپنا سکہ تک جاری کرنے کی ضرورت نہ پڑی۔ آج ہمیں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ جو اسلام حضرت عمر کے دور میں دنیا کے باقی معاشی نظام کے ساتھ چل کر کامیاب رہا، بہت ممکن ہے کہ اُس کے ناکام ہوجانے کی وجہ ہماری زود اسلامیت (over-religiousity) ہو۔
الغرض اسلامی معیشت، اسلامی حکومت، وغیرہ، ہماری اپنی بنائی ہوئی اصطلاحات اور خواہشیں ہیں جن کا قرآن و سنت یا خلافتِ راشدہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اہلِ اسلام نے جب بھی اپنی خواہش کے نظام کو اسلامی نظام کا ٹھپہ لگاکر چلایا تو ہر بار خوار ہوئے۔ ابھی چند سال پہلے ہم نے ریاستِ مدینہ بنائی تھی اور آج منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ غور سے دیکھیے کہ حضرت عمرؓ نے زکوٰۃ کی شرح میں اضافہ یہ کہہ کر کیا کہ مہنگائی بڑھ گئی ہے نہ کہ اِسے خدا کا حکم کہا، چنانچہ حضرت عمرنے سیاسی مفاد کے لیے مذہب کارڈ استعمال نہیں کیا۔ نبی کریم علیہ السلام نے چلتے ہوئے جس نظام میں جو اصلاح ضروری محسوس کی وہ کر دی۔ ایسی ہی اصلاحات عہدِ خلافتِ راشدہ میں ہوتی رہیں چونکہ یہ وقت کی ضرورت تھیں۔ سمجھنے کی بات ہے کہ ایسی اصلاحات ہمیشہ ہوتی رہیں گی کیونکہ ہر نئے ورلڈویو میں معاشی، سماجی اور سیاسی ضرورتیں تبدیل ہوتی رہتی
ہیں۔ جب تک اسلام کی مقتدرہ ایسی اصلاحات کرتی رہی وہ دنیا بھر میں کامیاب رہی۔ جونہی اسلام جمود کا شکار ہوا، زمانہ آگے نکل گیا۔ آج اسلام کے فرسودہ ہونے کی آوازیں ہر سمت سے اٹھ رہی ہیں اور یہ آوازیں اٹھانے والے خود مسلمان ہیں۔
اسلام عزت والوں کو ذلیل کرنے اور مال والوں کو تہی دست کرنے کے لیے نہیں آیا بلکہ اسلام عزتوں میں اضافے اور مالوں کی حفاظت کے لیے آیا ہے۔ خدا ناانصاف نہیں ہے اور نہ کسی کا مال لے کر اُس کی قدرت میں کوئی اضافہ ہوتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ خدا کے کنبے کی پرورش کے لیے اپنے اسباب کو استعمال کرے۔
فکر ونظر
کیا اسلام عزت والوں کو ذلیل کرنے آیا ہے
حافظ صفوان