اس رات کی شروعات میں جب انہیں روزمرہ کی ادویات دی جا رہی تھیں تو اچانک انہوں نے معمول سے ہٹ کے ایک لمبی سانس لی۔ کمرے میں موجود میڈیکل شعبے سے متعلقہ ایک اضافی فرد فوراً چونکا۔اس نے ساتھ والوں کو مطلع کیا کہ وہ آخری سانسوں کی پہچان رکھتا ہے اسلئیے یہ وقت وقتِ رخصت ہے۔ سب ان کی چارپائی کے گرد جمع ہو گئے تو نیم جانوں میں زیست کی سانسیں رواں کرنے والے چوہدری لیاقت نے دوسری اور نسبتاً لمبی سانس لی اور پھر موت نے ان کی زندگی کی ریل کو ابد کی پٹڑی پہ ڈال دیا۔ آخری دو سانسوں کے پیچھے پھیلی ہوئی سات دہائیوں نے جھُک کے ان کو چہرے کو دیکھا اور سسکیاں لیتی ہوئی پیچھے ہٹ گئیں اور یوں پچھلے نو مہینوں کی زندہ رہنے کی جدوجہد کا قصہ بالأخر تمام ہو گیا۔ اگلے روز مقامی اخبار میں ایک کالمی خبر شائع ہوئی۔‘‘چوہدری لیاقت بھی چل بسے’’۔
وہ شخص جس نے لوگوں کو زندگی کا اخبار ہجے کر کے پڑھنا سکھایا اس کے جانے پہ چند سطروں کی اس الوداعی خبر نے دیر تک دل کو آزردہ کئیے رکھا۔ جب لوگ زندہ اور شہر پائندہ ہوں تو چوہدری لیاقت جیسے لوگ سماج کو ازبر ہوتے ہیں مگر تیزی سے قبرستان میں بدلتی ہوئی اس زندگی کے پاس اب جینوئین لوگوں کے لئیے کچھ کہنے کو رہا بھی نہیں ہے۔ زمینیں جب بانجھ ہو جائیں تو وہ انسانوں کے بجائے صرف جسم جنتی ہیں۔
میں جب ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا
چند مہینے پہلے ان کی جان لیوا بیماری کا سنا تو ان سے ملنے پروفیسر احسان الٰہی احسان کے گھر پہنچا۔خلاف توقع وہ صحت کی اچھی حالت میں تھے اور انہوں نے صوفے پہ بیٹھ کے بہت سی باتیں بھی کیں۔ساتھ جانے والے پروفیسر قاسم عباس کو ہدایت کر رکھی تھی کہ موقع ملتے ہی سر کے ساتھ میرا فوٹو بھی بنا لے کہ کہیں نہ کہیں دل میں یہ خوف بھی جاگزیں تھا کہ چوہدری صاحب کے ساتھ گزرنے والے یہ لمحات آخری بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان کو یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ ان کی وکھری سوچوں کا مرکز ان کا دماغ کینسر کا شکار ہو چکا ہے۔ وہ عمومی موڈ میں خوشگواری سے باتیں کرتے رہے۔ میں نے باتوں باتوں میں انہیں بتایاکہ میں نے لِٹ وِٹس کے نام سے بی ایس انگلش کی کلاس کا ایک میگزین نکالا ہے۔ انہیں پڑھنے کے لئیے اس میگزین کی ایک کاپی دی اور یہ وعدہ بھی لیا کہ وہ چند دن بعد ہونے والی میگزین کی تعارفی تقریب میں بھی بطور مہمان خصوصی شرکت کریں گے جس پہ انہوں نے آمادگی کا اظہار بھی کر دیا۔ میرے لئیے یہ حد سے زیادہ خوشی کی بات تھی کہ وہ یونیورسٹی آف چکوال کے سٹیج پہ متمکن ہو ں گے اور میری کئی سالوں کی یہ خواہش پوری ہو گی کہ کسی پبلک پلیٹ فارم پر ان کا ظہور و وجود ہو اور ان کی گزری ہوئی زندگی اور کئیے گئے کاموں کو تعریف و توصیف کے ہار پہنائے جائیں۔ میں نے کلاس کے بچوں کو بتایا کہ پروفیسر چوہدری لیاقت کے ہوتے ہوئے کسی اور مہمان خصوصی کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور یہ کہ انگلش ڈیپارٹمنٹ کے اس سابقہ لیجنڈ کے شایان شان استقبال کی تیاری کریں۔مگر پروگرام سے ایک دن قبل سائل احسان نے بتایا کہ ان کی طبیعت پھر خراب ہو گئی ہے اور وہ آنے سے قاصر ہیں۔اگر آ پاتے تو زندگی میں آخری بار کسی آخری لیکچر یا پرفارمنس کی طرح اپنے پرانے کالج اور درودیوار سے مخاطب ہو کے الوداع تو کہہ لیتے۔ اس دن میں نے جان لیا تھا کہ اب ان کو سٹیج پہ دیکھنے کی خواہش ہمیشہ کے لئیے دفن ہو گئی ہے۔
چوہدری لیاقت نے ساری عمر ایسا ملک ایسا شہر اور ایسے لوگ تصویر کئیے جو محض خوابوں میں پائے جا سکتے تھے۔ ایک آئیڈیالسٹ کسی اور مدار سے بچھڑا ہؤا ستارا ہوتا ہے جو اتفاقاً ہماری زمین پہ آ نکلتا ہے اور پھر باقی عمر اس اجنبی زمین پہ بدیسی روشنی لٹاتا رہتا ہے ۔ چکوال کی علمی تاریخ میں جن دو افراد نے کتب بینی زیست شناسی اور نظریہ سازی میں نوجوان نسل پہ گہرے اثرات چھوڑے ہیں چوہدری لیاقت ان میں سے ایک تھے۔ دوسرے فرد اشرف آصف صاحب ہیں۔دونوں نظریاتی اطراف سے وابستہ لوگ مانیں یا نہ مانیں استادی شاگردی کے رشتے میں بندھے یہی وہ دو کردار ہیں جنہوں نے مقامی سماج کو نظرئیے، علم اور مباحث کی جانب لگایا اور ۸۰ کی دہائی میں نوجوان سوچ کو بظاہر دو متحارب علمی افکار سے روشناس کرایا۔دونوں اپنے معاشرے کے مس فِٹ کردار دراصل سماج کے کھڑے پانی میں گرنے والے پتھر کی طرح ارتعاش پیدا کرتے رہے۔ چوہدری لیاقت کی مارکسی بغاوت اور اشرف آصف کی اسلامی نشا ۃثانیہ کی نظریاتی کشمکش سے مقامی سطح پر نئے بیانئیوں اور بحثوں نے فروغ پایا۔
چوہدری لیاقت کو ان کی زندگی میں شہر کی طرف سے تسلیم کئیے جانے کی خواہش برسوں سے میرے دل میں موجود رہی ہے گزشتہ سالوں درجنوں بار میں ان کے قریبی نظریاتی دوستوں سے گوش گزار رہا کہ ان کے اعزاز میں کوئی ایسی تقریب منعقدہونی چاہئیے جس سے انہیں احساس ہو کہ ان کا وجود اس شہر کے لئیے ہمیشہ سے غنیمت رہا ہے اور یہ کہ انہوں نے زندگی کے رستے پہ رائیگانی کے بجائے فکروفن بویا ہے مگر افسوس کہ یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہؤا۔ میں نے اپنے تئیں کچھ برس پیشتر سر اشرف آصف کی ریٹائرمنٹ کی تقریب میں انہیں کرسئی صدارت پہ براجمان ہونے پہ راضی کیا اور انہوں نے انتہائی شفقت سے نہ صرف یہ دعوت قبول کی بلکہ بعد میں شکریہ بھی ادا کیا۔ جماعت اسلامی کے سکہ بند عملی رہنما کی تقریب ستائش میں شہر کے سب سے بڑے مارکسسٹ کی صدارت نہ صرف ایک یادگار ترین واقعہ شمار ہؤا بلکہ چوہدری لیاقت صاحب کی اعلٰی ظرفی اور انسان دوستی کا عکاس بھی بنا۔ گالیوں، نفرتوں اور الزام تراشیوں کی اس عصری دنیا میں اب چوہدری لیاقت جیسے کہاں ملیں گے۔
چوہدری صاحب کائنات سے بھی چوہدرانہ قسم کا رویہ رکھتے تھے۔ انہوں نے کبھی بھی زندگی کو اپنی طرف گھور کے دیکھنے اجازت نہیں دی۔وہ الف انار کی طرح آسان نہیں تھے بلکہ م مشکل کی طرح ایک پیچیدہ شخصیت تھے۔ ان کے مزاج میں تلون اور تنوع کا ایک جمالیاتی آمیزہ تھا جسے سمجھنے کے لئیے ان سے محبت کی جوت جگانا ضروری تھا۔بے نیازانہ ادائیں اور دیسی مزاح ان کی شخصیت کا خاصہ تھا۔ انہوں نے اپنے علم و فضل کے ڈھول کبھی نہیں پیٹے اور ملامتیوں کی طرح اپنی گفتگؤوں میں خود اپنی نفی کرتے رہے۔ وہ مخاطب پہ ایک کتاب نہیں بلکہ عام انسان بن کے نازل ہوتے تھے۔ایسا فرد جس کا خمیر نام نہاد علمیت کے بجائے غوروفکر کے ریشوں سے بُنا ہؤا تھا۔
چوہدری لیاقت کا غیر مارکسی حلقہ ان کے نظریاتی دوستوں سے نسبتاً پوشیدہ ہی رہا۔ ہم جیسے ان کے ماننے والے ان کی مستقل بیٹھکوں کے مکین نہ تھے اور نہ ہی چوہدری لیاقت کی تحفہ شدہ کتابیں کے قاری یا ان کی شاموں کی کھنکتی ہوئی نمی کے حصہ دار تھے۔ مجھ تک چوہدری لیاقت اپنے انسان دوست دل کے ذریعے پہنچا اور پھر تا زندگی وہاں ایک ایسے احترام کے ساتھ متمکن رہا جو ان کے اپنے بنائے ہوئے بُتوں میں بھی شاید موجود نہ تھا۔ کتنے ان گھڑ ان کے ہاتھوں کے چاک سے کُوزے بنے مگر پھر انہی پہ ٹُوٹنے کی کوشش بھی کی۔ لیکن اس سکون آمیز شخص کو شاید ہی کسی کی ذات پہ بات کرتے ہوئے یا شکوہ کناں ہوتے میں نے دیکھا ہو۔ ان معنوں میں وہ سر تا پا صوفی تھے اور اس کے لئیے انہیں کوئی ڈرامہ کرنے کی ضرورت نہ پڑھتی تھی۔ وہ ڈیل کارنیگی کی کتابوں سے نکلا ہؤا کوئی صفحہ نہ تھے۔ خالص مٹی سے گندھے ہوئے تھے اور اپنے اس طرح کے ہونے پہ قطعیت کے ساتھ مطمئن تھے۔ کوئی ملمع اور جعل سازی ان کے سراپے اور باتوں میں موجود نہ تھی۔ چوہدری صاحب سے میری شناسائی اس وقت شروع ہوئی جب ان کا کمیونزم گوربچوف کے پرسٹرائیکا کے ہاتھوں سے ہوتا ہؤا سوویت یونین میں انہدام پذیر ہو چُکا تھا اور وہ زندگی کے سیاسی پہلوؤں سے زیادہ اس کی جمالیاتی تفہیم میں زیادہ دلچسپی لینے لگے تھے۔آپس میں روزانہ کی بنیاد پہ اٹھک بیٹھک شروع ہوئی تو پھر نظریات کے ڈھیر میں ہاتھ ڈالنے کے بجائے میں نے لیاقت صاحب کو ایک ایسے شخص کے طور پہ پھرولا جو زمیندار کلچر اور مقامیات میں گندھا ہؤا ایک خوبصورت انسان تھا۔ ۱۹۹۶ میں چکوال کالج میں لیکچرر تعنیات ہونے کے بعد میں لیاقت صاحب کی صحبت اور غیر اعلانیہ قربت دونوں سے فیضیاب ہؤا۔ کالج لائیبریری، گلبرگ ہوٹل، کالج کینٹین، اور دیگر مقامات پہ میں نہ صرف میں خود لیاقت صاحب کے پاس بیٹھتا تھا بلکہ اپنے بہت سارے طالبعلموں کو بھی ترغیب دیتا تھا کہ وہ روزانہ کی اس گپ شپ کا حصہ بنیں۔کالج کے دورانیہ میں گفتگو کے دوران چوہدری صاحب کی طرف سے اچھالے جانے والے نظریاتی سوال ایک ڈائنامائٹ ہوتے تھے۔ایسی
بارودی سرنگیں کہ آپ جواب میں تھوڑا پھسلے تو پھر آگے ان کے پھیلائے ہوئے الجھاؤ آپ کو چیرنے پھاڑنے کے منتظر ہوتے تھے۔ تاہم ایسے کسی سوال کو لیاقت صاحب کی آنکھ میں پھیلنے والی شرارت سے پہچانا جا سکتا تھا اور مخاطب جان لیتا تھا کہ یہ ہلکی پھلکی نظریاتی گولہ باری محض ایک دل لگی ہے۔ وہ بڑے آدمی تھے کبھی بھی ایک لمحے کے لئیے بھی محسوس نہ ہوتا تھا کہ وہ اپنا نظریہ یا نقطہ نظر آپ پہ لاد رہے ہیں ۔دنیا کے معاملات کو مارکسی اور اشخاص کے معاملات کو انسانی سطح پہ رکھتے تھے۔ میں ان کی اس عظمت کا حد درجہ قائل تھا اور دل میں ان کا بے پناہ قسم کا احترام رکھتا تھا۔
ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی زندگی کا رُخ تھوڑا بدل کر زیادہ آزادانہ ہو گیا تھا جس سے میں بہت متفکر بھی رہتا تھا۔ ان کی ریٹائرمنٹ اور اپنی مصروفیت کی وجہ سے میل ملاپ کی وہ باقاعدہ صورت بھی نہ رہی تھی۔جب بھی ملتے میری فکر مندی دیکھ کر میری تسلی کے لئیے اضافی چیزیں چھوڑ دینے کا وعدہ کر کے اٹھتے ۔ جب بھی گھر آتے گلوکو میٹر سے ان کی شوگر چیک کرنا بھی میرے معمول میں تھا کہ میں اس خوف میں مبتلا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی صحت اپنی مثالی حالت سے نکلتی جا رہی تھی۔ میں انہیں ہمیشہ کہتا تھا کہ آپ کو قبل از وقت ریٹائرمنٹ نہیں لینی چاہئیے تھے کیونکہ درمیان ملازمت ان کے روزوشب کا سلسلہ ایک طرح سے بندھا بندھایا ہؤا تھا اور زندگی میں ایک طرح کا انظباط بھی موجود تھا۔ کوئی کام ہوتا تو کبھی کبھی کالج بھی آ جاتے تھے لیکن زیرک آدمی تھے اور جانتے تھے کہ ملازمت والی پیشہ وارانہ بیٹھکیں کوئی دوستیاں نہیں بلکہ وقت گزاری ہوتی ہیں اور یہ کہ چلتے ہوئے نظام میں کسی کی غیر حاضری کوئی رخنہ نہیں ڈالتی اور نظام اپنے کل پُرزوں پہ چلتا رہتا ہے۔
اچھا ہؤا وہ مجید امجد کی طرح کسی مکان میں بیخبری کی موت نہیں مرے، ایک جیتے جاگتے گھر سے اگلی دنیا کو سدھارے ۔ ایک ایسے کمرے میں آخری سانسیں لیں جس کے اندر مہربان ہاتھ، مسکراتی خدمت اور دوستی کا نور ہر دم موجود رہتا تھا اور جس کی کھڑکی سے سورج کی دستک پرندوں کی چہک اور رات کا بُلاوا سبھی روزانہ در آتے رہے تھے۔ پروفیسر احسان الہی احسان کی پانچ دہائیوں کی بندھی ہوئی رفاقت نے انکے اردگرد اخلاص کاایک ہالہ بنائے رکھا جس میں ان کے بیٹے بہو اور پوتے پوتیوں کی موجودگی نے چوہدری لیاقت کے آخری دنوں کو بھرپور آکسیجن مہیا کئیے رکھی۔ اللہ کرے ایسا ماحول اور کتابیں انہیں وہاں بھی مہیا رہیں جہاں آجکل ان کا بسیرا ہے۔ الوداع چوہدری لیاقیاد رفتگاں
پروفیسر چوہدری لیاقت علی
دو سانسیں اور سات دہائیاں
تحریر: پروفیسر شاہد آزاد