بہت سے دوست احباب کتابوں کے متعلق استفسار کرتے ہیں کہ آپ کچھ کتب تجویز کریں کہ ہم کیا پڑھیں اور کیا نہ پڑھیں۔ ہر وہ ایسی چیز جس میں میری ذاتی پسند و ناپسند کا دخل ہو اسے شئر کرنے یا تجویز کرنے سے اجتناب کرتا ہو۔ کیونکہ ہماری ذاتی پسند و ناپسند کے پیچھے ہزار وجوہات اور سینکڑوں عوامل ہو سکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہماری پسند و ناپسند اگلے بندے کو بھی فٹ آئے۔ ہر شخص کا اپنا الگ طرز فکر اور طرز عمل ہے۔ ہم سب کا سوچنے اور خواہش کرنے کا انداز کبھی بھی یکساں نہیں ہوسکتا۔
بہرحال ایک چیز میں ضرور تجویز کرتا ہوں اور وہ ہے مطالعہ۔ دستیاب ہر اچھی بری کتاب و ادب کا ایک بار مطالعہ ضرور کریں اچھی کتاب بھی سبق دیتی ہے اور بری کتاب بھی سبق دیتی ہے۔ اچھی کتاب سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ اچھا ادب جو من کو بھائے اور زندگیوں کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو وہ کیسا ہوتا ہے۔ اور بری کتاب یہ سبق سکھاتی ہے کہ میرے جیسی کتاب سے دور ہی رہو۔
جب تک آپ خود اپنے رجحان کے مطابق پڑھنے کے قابل نہیں ہوتے تب تک آپ تجربہ کار قاری نہیں بن سکتے۔ لکھاری کی بجائے مستقل مزاج قاری بننا زیادہ دشوار ہے۔
مطالعہ اور سفر کرنے سے ہی دماغ زرخیز ہوتا ہے اور انسان دنیا کو اپنی آنکھ سے دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔
اچھی کتاب وہی ہوتی ہے جو دوران مطالعہ حرف حرف ذہن و دل میں جذب ہوتی جائے۔ خرد کے بند دریچوں کو وا کرکے شعور کو جلا بخشے۔ جسے پڑھتے ہوئے اگر کسی کام کے باعث درمیان میں چھوڑنا پڑے تو بے چینی و بے کلی یوں پورے وجود سے لپٹ کر اداس کر دے جیسے محبوب ترین شے سے جدائی پڑ جائے۔
آپ جب مستقل مزاجی سے بلا تعطل دس سے پندرہ کتابیں پڑھ لیتے ہیں تو اپنے دوستوں اور اپنے اردگرد والے لوگوں سے ممتاز ہوجاتے ہیں۔ آپ کے سوچنے ، بات چیت کرنے اور رہن سہن کا ڈھنگ بدل جاتا ہے۔گفتگو کے دوران آپ کے پاس الفاظ و دلائل کی بہتات ہونے لگتی ہے۔ آپ خود کو صاحب علم تصور کرنے لگ جاتے ہیں، ہر علمی بحث و تمحیص میں شامل ہونے کے لیے جی مچلنے لگتا ہے۔ اپنے علم پر ناز ہونے لگتا ہے۔
جیسے ہی آپ پچاس سے پچھتر کتابیں پڑھ لیتے ہیں تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ میرے پاس پہلے سے جو علم ہے وہ ردی کے بھاؤ بھی نہ بکے۔ آپ کو جب یہ احساس جکڑ لے کہ اس سے پہلے آپ جھک مار رہے تھے تو یہی چیز آپ کو مزید اور بہترین ادب کے مطالعہ کی جانب جھکائے رکھے گی۔ جوں جوں آپ پڑھتے جائیں گے آپ کو اپنے خالی پن کا احساس بڑھتا جائے گا۔ دنیا بھر کے علوم کے سامنے اپنا وجود اور اپنا علم بے وقعت و کم مایہ لگنے لگے گا۔ اپنے الفاظ کھوکھلے اور اپنے دلائل بودے محسوس ہوں گے۔ مطالعہ ہی واحد چیز ہے جو اپنی اندرونی جہالت کو آشکار کرنے میں مدد دیتا ہے۔جیسے ہی آپ دنیا بھر کے بہترین و منتخب ادب سے سو کتابوں کا بھرپور طریقے سے مطالعہ کرلیتے ہیں تو آپ کو فطرت اور مظاہر فطرت سے پیار ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ جمالیاتی حس میں جیسے تازہ روح آجاتی ہے۔صبح خیزی کی عادت اور پرندوں کی چہچہاہٹ سے من بہلنے لگتا ہے۔ آپ فطرت کو اپنے رگ و پے میں اتارتے لگتے ہیں تو جذب کی اس کیفیت کے تحت پہلے سے زیادہ خاموش ہوتے جاتے ہیں۔ لوگوں سے بحث و مباحث کی جگہ فقط ایک مسکراہٹ سے کام چلا لیتے ہیں۔ آپ کے پاس لفظوں کا دریا تو جمع ہوجائے گا مگر آپ کسی جاہل ترین شخص کی بات سن کر بھی وضاحت دینے کی بجائے مسکراہٹ اور خاموشی کو ترجیح دینے لگیں گے۔ جیسے ہی آپ پہلی سو کتابوں سے کئی سو کتابوں کے سفر پر نکلیں گے تو آپ محض کتاب کے دو چار ورق الٹ پلٹ کرنے سے ہی اس کے اندر لکھے اچھے برے ادب سے واقف ہونے لگیں گے۔اب یہاں پہنچ کر آپ کا من لکھنے کو مچلے گا، آپ کی خواہش ایک قلم، ایک کتاب اور ایک میز تک سمٹ کر رہ جائے گی۔ اگر آپ پہلے سے ہی کچھ نہ کچھ لکھ رہے تھے تو اپنے پہلے سے لکھے ہوئے پر شرمندگی محسوس کریں گے کہ کاش میں اس وقت یہ سب لکھنے کی بجائے پڑھتا رہتا تو کتنا اچھا ہوتا۔لکھنے کے لیے ساری عمر پڑی ہے اور پڑھنے کے لیے عمر خضر بھی کم ہے۔دوستو پڑھنے کے لیے وقت مختص کریں۔
فکر ونظر
کتب بینی
توقیر بھملہ